وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن ابي حيان ، عن ابي زرعة ، عن ابي هريرة ، قال: " قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، فذكر الغلول فعظمه وعظم امره، ثم قال: لا الفين احدكم يجيء يوم القيامة على رقبته بعير له رغاء، يقول: يا رسول الله، اغثني، فاقول: لا املك لك شيئا، قد ابلغتك لا الفين احدكم يجيء يوم القيامة على رقبته فرس له حمحمة، فيقول: يا رسول الله، اغثني، فاقول: لا املك لك شيئا، قد ابلغتك لا الفين احدكم يجيء يوم القيامة على رقبته شاة لها ثغاء، يقول: يا رسول الله، اغثني، فاقول: لا املك لك شيئا، قد ابلغتك لا الفين احدكم يجيء يوم القيامة على رقبته نفس لها صياح، فيقول: يا رسول الله، اغثني، فاقول: لا املك لك شيئا، قد ابلغتك لا الفين احدكم يجيء يوم القيامة على رقبته رقاع تخفق، فيقول: يا رسول الله، اغثني، فاقول: لا املك لك شيئا، قد ابلغتك لا الفين احدكم يجيء يوم القيامة على رقبته صامت، فيقول: يا رسول الله، اغثني، فاقول: لا املك لك شيئا، قد ابلغتك ".وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَذَكَرَ الْغُلُولَ فَعَظَّمَهُ وَعَظَّمَ أَمْرَهُ، ثُمَّ قَالَ: لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ فَرَسٌ لَهُ حَمْحَمَةٌ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ شَاةٌ لَهَا ثُغَاءٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ نَفْسٌ لَهَا صِيَاحٌ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ رِقَاعٌ تَخْفِقُ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ صَامِتٌ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ ".
اسماعیل بن ابراہیم نے ابوحیان سے، انہوں نے ابو زرعہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں (خطبہ دینے کے لیے) کھڑے ہوئے۔ اور آپ نے مال غنیمت میں خیانت کا ذکر فرمایا: آپ نے ایسی خیانت اور اس کے معاملے کو انتہائی سنگین قرار دیا، پھر فرمایا: "میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس طرح آتا ہوا نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر اونٹ سوار ہو کر بلبلا رہا ہو اور وہ کہے: اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیے، اور میں جواب میں کہوں: میں تمہارے لئے کچھ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، میں نے تمہیں (دنیا ہی میں) حق پہنچا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو کر ہنہنا رہا ہو، وہ کہے: اللہ کے رسول! میری مدد کیجئے، اور میں کہوں کہ میں تمہارے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا، میں نے تمہیں حق پہنچا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر بکری سوار ہو کر ممیا رہی ہو، وہ کہے: اللہ کے رسول! میری مدد کیجئے، اور میں کہوں: میں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، میں نے تمہیں حق سے آگاہ کر دیا تھا، میں تم میں سے کسی شخص کو روزِ قیامت اس حالت میں نہ دیکھوں کہ اس کی گردن پر کسی شخص کی جان سوار ہو اور وہ (ظلم کی دہائی دیتے ہوئے) چیخیں مار رہی ہو، اور وہ شخص کہے: اللہ کے رسول! میری مدد کیجئے، اور میں کہوں: میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں نے تمہیں سب کچھ بتا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر کپڑا لدا ہوا پھڑپھڑا رہا ہو، اور وہ کہے: اللہ کے رسول! میری مدد کیجئے، میں کہوں: تمہارے لیے میرے بس میں کچھ نہیں، میں نے تم کو سب کچھ سے آگاہ کر دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گرن پر نہ بولنے والا مال (سونا چاندی) لدا ہوا ہو، وہ کہے: اللہ کے رسول! میری مدد کیجئے، میں کہوں: تمہارے لیے میرے پاس کسی چیز کا اختیار نہیں، میں نے تم کو (انجام) کی خبر پہنچا دی تھی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان خطاب کے لیے کھڑے ہوئے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت میں خیانت کی سنگینی کا ذکر کیا اور اس معاملہ کو انتہائی سنگین قرار دیا، پھر فرمایا: ”میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر اونٹ سوار ہو، جو بلبلا رہا ہو، وہ کہے، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! میری فریاد رسی کیجئے، تو میں جواب دوں گا، میرے اختیار میں تیرے لیے کچھ نہیں، میں تمہیں پیغام پہنچا چکا ہوں، میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے کہ اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو جو ہنہنا رہا ہو اور وہ کہے گا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! میری مدد فرمائیے، تو میں کہوں گا، میرے بس میں تیرے لیے کچھ نہیں ہے، میں تمہیں پیغام پہنچا چکا ہوں، میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں، وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر کوئی انسان ہو، وہ چلا رہا ہو، وہ کہے گا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری مدد فرمائیے، میں کہوں گا، میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، میں تمہیں مسئلہ بتا چکا ہوں۔ میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں، وہ قیامت کے دن آئے، اس کی گردن پر کپڑے لدے ہوں اور وہ بھی حرکت کر رہے ہوں، وہ کہے گا، یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ! میری مدد کیجئے، میں کہوں گا، میں تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، میں تمہیں پیغام دے چکا ہوں، میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں، کہ اس کی گردن پر سونا چاندی لدا ہو، وہ کہے گا، یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ! میری مدد فرمائیں، میں کہوں گا، میں تمہیں آگاہ کر چکا ہوں۔“
لا ألفين أحدكم يوم القيامة على رقبته شاة لها ثغاء على رقبته فرس له حمحمة يقول يا رسول الله أغثني فأقول لا أملك لك شيئا قد أبلغتك وعلى رقبته بعير له رغاء يقول يا رسول الله أغثني فأقول لا أملك لك شيئا قد أبلغتك وعلى رقبته صامت فيقول يا رسول الله أغثني فأقول
لا ألفين أحدكم يجيء يوم القيامة على رقبته بعير له رغاء يقول يا رسول الله أغثني فأقول لا أملك لك شيئا قد أبلغتك لا ألفين أحدكم يجيء يوم القيامة على رقبته فرس له حمحمة فيقول يا رسول الله أغثني فأقول لا أملك لك شيئا قد أبلغتك لا ألفين أحدكم يجيء يوم القيامة
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4734
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) لَا أُلْفِيَنَّ: میں کسی کوہرگزنہ پاؤں۔ یا لَا أُلْقِيَنَّ میری ہرگز ملاقات نہ ہو۔ (2) رُغَاءٌ: اونٹ کی آواز، جس کو بلبلانا کہتے ہیں۔ (3) حَمْحَمَةٌ: چارہ دیکھ کر گھوڑے کی آواز، جس کو ہنہنانے سے تعبیر کرتے ہیں۔ (4) ثُغَاءٌ: بکری کی آواز، جسےمنمنانے یا ممیانے کا نام دیا جاتا ہے۔ (5) رِقَاعٌ: رقعة کی جمع ہے، کپڑے کے ٹکڑے، یہاں مراد کپڑے ہیں، جو تخفق ہل رہےہوں گے۔ (6) صَامِتٌ: سونا چاندی، ناطق حیوانات کےمقابلہ میں آتا ہے۔ (7) صِيَاحٌ: چیخنا، چلانا۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام امور کی نشان دہی فرما دی ہے، جس کی انسان نے پابندی کرنی ہے، اس لیے اگر وہ کسی شرعی حکم کی مخالفت کرے گا، تو اسے اس کی سزا ملے گی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آغاز میں ایسے کسی انسان کی سفارش نہیں فرمائیں گے، جس نے مالی خیانت کی ہو گی یا کسی کا ناجائز خون بہایا ہو گا اور مال غنیمت میں کسی قسم کی خیانت انتہائی سنگین ہے اور اس کے گناہ کبیرہ ہونے پر ائمہ کا اتفاق ہے، حتیٰ کہ بعض ائمہ کے نزدیک اس کا تمام مال جلا دیا جائے گا، لیکن جمہور ائمہ، امام مالک، امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کا مال جلایا نہیں جائے گا، امام اپنی صوابدید کے مطابق اس کو سزا دے گا، اس لیے اگر کسی نے کسی کا مال کسی ناجائز طریقہ سے لیا ہے، تو اسے توبہ کرکے پشیمانی اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے، اس کے مالک یا اس کے ورثاء کو واپس کردینا چاہیے، یہ ممکن نہ ہو، تو اس کی طرف سے صدقہ کر دینا چاہیے، اگر حکومت کا مال کھایا ہے، تو کسی قومی فنڈ میں سے جمع کرا دے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4734
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3073
3073. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے خطاب کرتے ہوئے خیانت کا ذکر فرمایا: ”قیامت کے دن میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری ممیارہی ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا ہنہنا رہا ہو۔ اوروہ چلا رہا ہو۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میری مدد فرمائیے۔ میں اسے جواب دوں کہ تیرے لیے میں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ میں نے تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ اس کی گردن پر اونٹ بلبلا رہا ہو اور وہ کہے: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میری مدد فرمائیں، اور میں جواب دوں کہ میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں نے تو اللہ کا حکم تمھیں پہنچا دیا تھا۔ یا اس کی گردن پر سونے چاندی کے ٹکڑے لادے ہوئے ہوں اور وہ مجھ سے کہے۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میری مدد فرمائیے اور میں اسے کہہ دوں کہ میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں نے تو اللہ کا پیغام پہنچادیا تھا۔ یا اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3073]
حدیث حاشیہ: فتح اسلام کے بعد میدان جنگ میں جو بھی اموال ملیں وہ سب مال غنیمت کہلاتا ہے۔ اسے باضابطہ امیر اسلام کے ہاں جمع کرنا ہو گا۔ بعد میں شرعی تقسیم کے تحت وہ مال دیا جائے گا۔ اس میں خیانت کرنے والا عنداللہ بہت بڑا مجرم ہے جیسا کہ حدیث ہذا میں بیان ہوا ہے۔ بکری‘ گھوڑا‘ اونٹ یہ سب چیزیں تمثیل کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ روایت میں اموال غنیمت میں سے ایک چادر کے چرانے والے کو بھی دوزخی کہا گیا ہے۔ چنانچہ وہ حدیث آگے مذکور ہے۔ قال المھلب ھذا الحدیث وعید لمن أنفذہ اللہ علیه من أهل المعاصي ویحتمل أن یکون الحمل المذکور لا بد منه عقوبة له بذالك لیفتضح علی رؤوس الأشهاد و أما بعد ذلك فإلی اللہ الأمر في تعذیبه أو العفو عنه وقال غیره هذا الحدیث یفسر قوله عز و جل ﴿یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾ أي یأت به حاملا له علی رقبته (فتح) یعنی اس حدیث میں وعید ہے اہل معاصی کے لئے۔ احتمال ہے کہ یہ اٹھانا بطور عذاب اس کے لئے ضروری ہو‘ تاکہ وہ سب کے سامنے ذلیل ہو‘ بعد میں اللہ کو اختیار ہے چاہے اسے عذاب کرے‘ چاہے معاف کرے۔ یہ حدیث آیت کریمہ ﴿یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾(آل عمران: 161) کی تفسیر بھی ہے کہ وہ عاصی اس خیانت کو قیامت کے دن اپنی گردن پر اٹھا کر لائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3073
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3073
3073. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے خطاب کرتے ہوئے خیانت کا ذکر فرمایا: ”قیامت کے دن میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری ممیارہی ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا ہنہنا رہا ہو۔ اوروہ چلا رہا ہو۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میری مدد فرمائیے۔ میں اسے جواب دوں کہ تیرے لیے میں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ میں نے تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ اس کی گردن پر اونٹ بلبلا رہا ہو اور وہ کہے: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میری مدد فرمائیں، اور میں جواب دوں کہ میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں نے تو اللہ کا حکم تمھیں پہنچا دیا تھا۔ یا اس کی گردن پر سونے چاندی کے ٹکڑے لادے ہوئے ہوں اور وہ مجھ سے کہے۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میری مدد فرمائیے اور میں اسے کہہ دوں کہ میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں نے تو اللہ کا پیغام پہنچادیا تھا۔ یا اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3073]
حدیث حاشیہ: 1۔ فتح کے بعد میدان جنگ میں جو بھی مال وغیرہ ملے اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ اسے باضابطہ طور پر امیر لشکر کے پاس جمع کرانا چاہیے۔ اس کے بعد شرعی تقسیم کے تحت وہ مجاہدین کو دیا جائے گا۔ اس مال غنیمت میں خیانت کا مرتکب اللہ کے ہاں بہت بڑا مجرم ہوگا۔ حدیث میں مذکورہ اشیاء بطورتمثیل بیان ہوئی ہیں۔ مال غنیمت سے تو ایک چادر چرانے والے کو بھی جہنمی کہا گیاہے۔ 2۔ اس حدیث سے آیت کریمہ کی بھی تفسیر ہوتی ہے۔ کہ دنیا میں جو بھی خیانت کی ہوگی قامت کے دن ساری مخلوق کے سامنے اسے اپنے کندھوں پر اٹھا کرلائے گا اور رسول اللہ ﷺ ڈانٹتے ہوئے اسے فرمائیں گے: ”میں تیرے متعلق کسی قسم کااختیار نہیں رکھتا۔ میں نے تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیاتھا۔ اب تیرےلیے کوئی عذرقابل قبول نہیں۔ “
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3073