ولم يذكر عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" انه حرق متاعه وهذا اصح".وَلَمْ يَذْكُرْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ حَرَّقَ مَتَاعَهُ وَهَذَا أَصَحُّ".
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے باب کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چرانے والے کا اسباب جلا دیا تھا اور یہ زیادہ صحیح ہے اس روایت سے جس میں جلانے کا ذکر ہے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن سالم بن ابي الجعد، عن عبد الله بن عمرو، قال: كان على ثقل النبي صلى الله عليه وسلم رجل، يقال له: كركرة فمات، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هو في النار فذهبوا ينظرون إليه فوجدوا عباءة قد غلها"، قال ابو عبد الله: قال ابن سلام كركرة: يعني بفتح الكاف وهو مضبوط كذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كَانَ عَلَى ثَقَلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، يُقَالُ لَهُ: كِرْكِرَةُ فَمَاتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُوَ فِي النَّارِ فَذَهَبُوا يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ فَوَجَدُوا عَبَاءَةً قَدْ غَلَّهَا"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: قَالَ ابْنُ سَلَامٍ كَرْكَرَةُ: يَعْنِي بِفَتْحِ الْكَافِ وَهُوَ مَضْبُوطٌ كَذَا.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو نے ‘ ان سے سالم بن ابی الجعد نے ‘ ان سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان و اسباب پر ایک صاحب مقرر تھے ‘ جن کا نام کرکرہ تھا۔ ان کا انتقال ہو گیا ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تو جہنم میں گیا۔ صحابہ انہیں دیکھنے گئے تو ایک عباء جسے خیانت کر کے انہوں نے چھپا لیا تھا ان کے یہاں ملی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ محمد بن سلام نے (ابن عیینہ سے نقل کیا اور) کہا یہ لفظ «كركرة» بفتح کاف ہے اور اسی طرح منقول ہے۔
Narrated `Abdullah bin `Amr: There was a man who looked after the family and the belongings of the Prophet and he was called Karkara. The man died and Allah's Apostle said, "He is in the '(Hell) Fire." The people then went to look at him and found in his place, a cloak he had stolen from the war booty.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 308
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3074
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ مال غنیمت میں سے ذرا سی چیز کی چوری بھی حرام ہے جس کی سزا یقیناً دوزخ ہو گی۔ اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ مومن گناہوں کی وجہ سے دوزخ نہیں جائے گا۔ قرآن پاک نے صاف اعلان کیا ہے۔ ﴿وَمَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾(آل عمران: 161) خیانت کرنے والا خیانت کی چیز کو اپنے سر پر اٹھائے قیامت کے دن حاضر ہو گا۔ یہ وہ جرم ہے کہ اگر کسی مجاہد سے بھی سرزد ہو تو اس کا عمل جہاد اس سے باطل ہو جاتا ہے جیسا کہ حدیث ہذا سے ظاہر ہوا۔ وفي الحدیث تحریم قلیل الغلول وکثیرة وقوله هو في النار أي یعذب علی معصیة أو المراد هو في النار إن لم یعف اللہ عنه۔ (فتح)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3074
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3074
حدیث حاشیہ: 1۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مال غنیمت میں سے چوری کرنے والے کا سامان واسباب جلادینا چاہیے جیسا کہ ابوداؤد ؒ کی ایک روایت میں ہے۔ (سنن أبي داود، الجھاد، حدیث: 2713) لیکن امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؒ نے اس سلسلے میں جو روایت رسول اللہ ﷺ سے نقل کی ہے اس میں سامان کو جلادینے کا ذکر نہیں ہے۔ اس بناپر صحیح تر یہی ہے کہ خیانت کرنے والے کا سامان جلانا جائز نہیں بلکہ اس روایت کے مطابق چوری کرنے والا خود آگ میں جلے گا۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال غنیمت میں معمولی سی چوری بھی حرام ہے جس کی سزا یقیناً جہنم ہے۔ یہ وہ جرم ہے کہ اگر کسی مجاہد سے بھی سرزد ہوتو اس کا عمل جہاد باطل ہوجاتاہے۔ بہرحال خیانت تھوڑی ہو یا زیادہ جرم میں سب برابر ہیں۔ قیامت کے دن بھرے مجمع میں اس طرح کے خیانت پیشہ لوگوں کو برسرعام ذلیل وخوار کیاجائے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3074
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2849
´مال غنیمت میں خیانت اور چوری کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان کی نگہبانی پر کرکرہ نامی ایک شخص تھا، اس کا انتقال ہو گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جہنم میں ہے“، لوگ اس کا سامان دیکھنے لگے تو اس میں ایک کملی یا عباء ملی جو اس نے مال غنیمت میں سے چرا لی تھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2849]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مال غنیمت میں خیانت بہت بڑا جرم ہے۔
(2) چرائی ہوئی چیز معمولی ہو تو بھی جرم کی شناعت میں فرق نہیں پڑتا۔
(3) اس حدیث سے ان لوگوں کا بھی رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ مومن جہنم میں نہیں جا سکتا۔ کتاب وسنت کے دلائل پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے گناہ کی وجہ سے ایک گناہ گار مومن شخص بھی جہنم کا مستحق ہو سکتا ہے، تاہم جہنم کا دائمی عذاب صرف کافروں اور مشرکوں کے لیے ہے۔ واللہ اعلم
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2849