صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
188. بَابُ مَنْ تَكَلَّمَ بِالْفَارِسِيَّةِ وَالرَّطَانَةِ:
188. باب: فارسی یا اور کسی بھی عجمی زبان میں بولنا۔
(188) Chapter. Speaking Persian and speaking (Arabic) with an unfamiliar accent.
حدیث نمبر: 3071
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا حبان بن موسى، اخبرنا عبد الله، عن خالد بن سعيد، عن ابيه، عن ام خالد بنت خالد بن سعيد، قالت: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم مع ابي وعلي قميص اصفر، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سنه سنه"، قال عبد الله: وهي بالحبشية حسنة، قالت: فذهبت العب بخاتم النبوة فزبرني ابي، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" دعها"، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابلي واخلفي، ثم ابلي واخلفي، ثم ابلي واخلفي"، قال عبد الله: فبقيت حتى ذكر.(مرفوع) حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَتْ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي وَعَلَيَّ قَمِيصٌ أَصْفَرُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَنَهْ سَنَهْ"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَهِيَ بِالْحَبَشِيَّةِ حَسَنَةٌ، قَالَتْ: فَذَهَبْتُ أَلْعَبُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ فَزَبَرَنِي أَبِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعْهَا"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبْلِي وَأَخْلِفِي، ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِفِي، ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِفِي"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَبَقِيَتْ حَتَّى ذَكَرَ.
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہیں خالد بن سعید نے ‘ انہیں ان کے والد نے اور ان سے ام خالد بنت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوئی ‘ میں اس وقت ایک زرد رنگ کی قمیص پہنے ہوئے تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا سنہ سنہ عبداللہ نے کہا یہ لفظ حبشی زبان میں عمدہ کے معنے میں بولا جاتا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں مہر نبوت کے ساتھ (جو آپ کے پشت پر تھی) کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا ‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مت ڈانٹو ‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام خالد کو (درازی عمر کی) دعا دی کہ اس قمیص کو خوب پہن اور پرانی کر ‘ پھر پہن اور پرانی کر ‘ اور پھر پہن اور پرانی کر ‘ عبداللہ نے کہا کہ چنانچہ یہ قمیص اتنے دنوں تک باقی رہی کہ زبانوں پر اس کا چرچا آ گیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Um Khalid: (the daughter of Khalid bin Sa`id) I went to Allah's Apostle with my father and I was Nearing a yellow shirt. Allah's Apostle said, "Sanah, Sanah!" (`Abdullah, the narrator, said that 'Sanah' meant 'good' in the Ethiopian language). I then started playing with the seal of Prophethood (in between the Prophet's shoulders) and my father rebuked me harshly for that. Allah's Apostle said. "Leave her," and then Allah's Apostle (invoked Allah to grant me a long life) by saying (thrice), "Wear this dress till it is worn out and then wear it till it is worn out, and then wear it till it is worn out." (The narrator adds, "It is said that she lived for a long period, wearing that (yellow) dress till its color became dark because of long wear.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 305


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري5993أمة بنت خالدسنه سنه قال عبد الله وهي بالحبشية حسنة قالت فذهبت ألعب بخاتم النبوة فزبرني أبي قال رسول الله دعها ثم قال رسول الله أبلي وأخلقي ثم أبلي وأخلقي ثم أبلي وأخلقي قال عبد الله فبقيت حتى ذكر يعني من بقائها
   صحيح البخاري5845أمة بنت خالدأبلي وأخلقي مرتين فجعل ينظر إلى علم الخميصة ويشير بيده إلي ويقول يا أم خالد هذا سنا والسنا بلسان الحبشية الحسن قال إسحاق حدثتني امرأة من أهلي أنها رأته على أم خالد
   صحيح البخاري3874أمة بنت خالدكساني رسول الله خميصة لها أعلام فجعل رسول الله يمسح الأعلام بيده ويقول سناه سناه
   صحيح البخاري3071أمة بنت خالدسنه سنه قال عبد الله وهي بالحبشية حسنة قالت فذهبت ألعب بخاتم النبوة فزبرني أبي قال رسول الله دعها ثم قال رسول الله أبلي وأخلفي ثم أبلي وأخلفي ثم أبلي وأخلفي قال عبد الله فبقيت حتى ذكر
   صحيح البخاري5823أمة بنت خالدأبلي وأخلقي وكان فيها علم أخضر أو أصفر فقال يا أم خالد هذا سناه وسناه بالحبشية حسن
   سنن أبي داود4024أمة بنت خالدأبلي وأخلقي مرتين وجعل ينظر إلى علم في الخميصة أحمر أو أصفر ويقول سناه سناه يا أم خالد وسناه في كلام الحبشة الحسن
   مسندالحميدي339أمة بنت خالدسناه سناه

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3071 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3071  
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے ہے نکلا کہ آپﷺ نے سنہ سنہ فرمایا جو حبشی زبان ہے امام خالد ؓ اتنے دنوں زندہ رہی کہ وہ کپڑا پہنتے پہنتے کالا ہو گیا۔
یہ رسول کریمﷺ کی دعا کی برکت تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3071   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5993  
´دوسرے کے بچے کو چھوڑ دینا کہ وہ کھیلے اور اس کو بوسہ دینا یا اس سے ہنسنا`
«. . . عَنْ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَتْ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي وَعَلَيَّ قَمِيصٌ أَصْفَرُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَنَهْ سَنَهْ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَهِيَ بِالْحَبَشِيَّةِ حَسَنَةٌ، قَالَتْ: فَذَهَبْتُ أَلْعَبُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ فَزَبَرَنِي أَبِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعْهَا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْلِي وَأَخْلِقِي ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِقِي ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِقِي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَبَقِيَتْ حَتَّى ذَكَرَ، يَعْنِي مِنْ بَقَائِهَا . . .»
. . . ام خالد بنت سعید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوئی۔ میں ایک زرد قمیص پہنے ہوئے تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سنہ سنہ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ یہ حبشی زبان میں اچھا کے معنی میں ہے۔ ام خالد نے بیان کیا کہ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کھیلنے دو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک زمانہ تک زندہ رہو گی اللہ تعالیٰ تمہاری عمر خوب طویل کرے، تمہاری زندگی دراز ہو۔ عبداللہ نے بیان کیا چنانچہ انہوں نے بہت ہی طویل عمر پائی اور ان کی طول عمر کے چرچے ہونے لگے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: 5993]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5993 کا باب: «بَابُ مَنْ تَرَكَ صَبِيَّةَ غَيْرِهِ حَتَّى تَلْعَبَ بِهِ أَوْ قَبَّلَهَا أَوْ مَازَحَهَا:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب کو امام بخاری رحمہ اللہ نے بچے کے کھیلنے اور اس کا بوسہ لینے اور ہنسنے پر قائم فرمایا، مگر تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا اس میں باب کے ایک جزء کے ساتھ مناسبت قائم نہیں ہوتی، امام بخاری رحمہ اللہ نے بوسہ دینے پر باب میں ذکر فرمایا ہے، مگر حدیث میں سرے سے ہی بوسہ کا ذکر موجود نہیں ہے، چنانچہ علامہ ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ليس فى الخبر المذكور فى الباب للتقبيل ذكر، والذي يظهر لي أن ذكر المزح بعد التقبيل من العام بعد الخاص، و أن الممازحة بالقول و الفعل مع الصغيرة إنما يقصد به التأنيس و التقبيل من جملة ذالك.» (1)
اسی حدیث منقول میں تقبیل کا ذکر نہیں ہے تو محتمل یہ ہے کہ جب اس بچی کو اپنے جسم مبارک کے چھونے سے روکا نہیں تو یہ تقبیل کی طرح ہوا، مجھے جو ظاہر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ تقبیل کے بعد ذکر مزاح عام بعد الخاص کی قبیل سے ہے کہ صغیرہ کے ساتھ قول و فعل کے ذریعہ ممازحت سے غرض اس کی تانیس ہوتی ہے، تقبیل (بوسہ لینا) ان جملہ امور میں سے ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بچی کے چھونے کو بوسہ لینے پر قیاس فرمایا ہو، چنانچہ علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«جعل تمكين النبى صلى الله عليه وسلم لها من ذالك يتنزّل منزلة ابتدائه بتناولها لتعلب، و قاس قبلة الصغيرة على المماسة.» (2)
بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
غالب یہ ہے کہ بچی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم سے کھیلا، اسی سے مزح اور کھیلنا ثابت ہوا، اور اسی طرح بچی کو بوسہ دینا بھی، جیسا کہ حدیث سے بھی ظاہر ہے۔ (3)
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ليس فى حديث الباب للتقبيل ذكر فيحتمل أن يكون لما لم ينهها عن مس جسده صار كالتقبيل.» (4)
ترجمۃ الباب کے تحت جس حدیث کا ذکر ہے اس میں بوسے کا ذکر نہیں ہے، احتمال اس بات کا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے مبارک جسم کو ہاتھ لگانے سے منع نہیں فرمایا تو بس یہ بوسے کی طرح ہوا۔
یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دراصل اس باب کے تحت صرف قیاس فرمایا ہے تقبیل کے لیے، لیکن بعد والے باب میں مکمل دلیل سے وضاحت فرما دی ہے جو کہ اس باب کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کے بعد یہ باب قائم فرمایا: «باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته»، لہذا باب «من ترك صبية . . . . .» میں بوسے پر قیاس فرمایا اور بعد کے باب میں اس پر دلیل پیش کر دی۔ لہذا اس قسم کی عادات امام بخاری رحمہ اللہ کی معروف ہیں۔ اس حقیر نے امام بخاری رحمہ اللہ کی اس عادت کو انواع التراجم میں بھی شامل کیا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 174   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4024  
´نیا کپڑا پہننے والے کو دعا دینے کا بیان۔`
ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ کپڑے آئے جن میں ایک چھوٹی سی دھاری دار چادر تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ کس کو اس کا زیادہ حقدار سمجھتے ہو؟ تو لوگ خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام خالد کو میرے پاس لاؤ چنانچہ وہ لائی گئیں، آپ نے انہیں اسے پہنا دیا پھر دوبار فرمایا: پہن پہن کر اسے پرانا اور بوسیدہ کرو آپ چادر کی دھاریوں کو جو سرخ یا زرد رنگ کی تھیں دیکھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: اے ام خالد! «سناه سناه» اچھا ہے اچھا ہے ۱؎۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4024]
فوائد ومسائل:
نیا کپڑا پہننے والے کو مذکورہ دعا دینا مسنون اور مستحب ہے، اس میں ضمنًا کپڑا پہننے والے کے لئے صحت وعافیت اور لمبی زندگی کی دعا ہے کہ وہ اس سے خوب استفادہ کرے حتی کہ وہ جائے۔
روایت میں مذکور صیغے مونث کے لئے ہیں۔
مذکر کے لئے یوں بھی کہے جا سکتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4024   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5823  
5823. سیدہ ام خالد بنت خالد‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ کےپاس کچھ کپڑے لائے گئے ان میں ایک چھوٹی سی دھاری دار اونی چادر بھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم یہ چادر کس کو پہنائیں؟ صحابہ کرام خاموش رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ام خالد ؓ کو میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ انہیں اٹھا کر لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے وہ چادر اپنے ہاتھ میں لی اور انہیں پہنا کریہ دعا دی: اللہ کرے تم اسے خوب پہنو اور پرانا کرو۔ اس چادر میں سبز یا زرد نقش ونگار تھے آپ ﷺ نے فرمایا: اے ام خالد! یہ نقش ونگار سناہ ہیں۔ حبشی زبان میں لفظ سناہ خوبصورت کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5823]
حدیث حاشیہ:
ام خالد حبش ہی میں پیدا ہوئی تھیں وہ حبشی زبان جاننے لگی تھیں، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خوش ہو کر حبشی زبان ہی میں اس کپڑے کی تعریف فرمائی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5823   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5845  
5845. سیدہ ام خالد بنت خالد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ کپڑے لائے گئے جن میں ایک سیاہ شال بھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے خیال کے مطابق یہ شال کسے دی جائے؟ صحابہ کرام خاموش رہے تو آپ نے فرمایا: ام خالد کو میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ مجھے نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا پھر آپ نے مجھے وہ شال اپنے ہاتھ سے پہنائی اور دعا فرمائی: اسے پرانا اور بوسیدہ کرو۔ یعنی دیر تک جیتی رہو۔ آپ نے دو مرتبہ دعا فرمائی۔ پھر آپ اس شال کے نقش ونگار دیکھنے لگے اور اپنے ہاتھ سے میری طرف اشارہ کرکے فرمایا: اے ام خالد! سناہ سناہ یہ حبشی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ کیا ہی خوبصورت کے ہیں(راوئ حدیث) اسحاق نے کہا: میرے اہل خانہ میں سے ایک عورت نے مجھ سے بیان کیا کہ اس نے ام خالد‬ ؓ پ‬ر وہ شال دیکھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5845]
حدیث حاشیہ:
نیا کپڑا پہننے والے کو یہ دعا دینا مسنون ہے کہ خدا تم کو یہ کپڑا مبارک کرے تم یہ کپڑا خوب پرانا کر کے پھاڑو یعنی تمہاری عمر درازہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5845   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5993  
5993. حضرت ام خالد بنت سعید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ میں نے زرد رنگ کی قمیض پہن رکھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے سنہ سنہ کے الفاظ کہے (راوئ حدیث) عبداللہ نے کہا کہ یہ حبشی زبان میں خوب کے معنی میں ہےام خالد بیان کرتی ہیں کہ میں مہر نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد گرامی نے مجھے ڈانٹ پلائی لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے کھلینے دو۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تو ایک زمانے تک زندہ رہے، اللہ تعالٰی تیری عمر لمبی کرے تمہاری زندگی دراز ہو۔ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ انہوں نے بہت طویل عمر پائی حتٰی کہ لوگوں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5993]
حدیث حاشیہ:
حضرت ام خالد، خالد بن سعید بن عاص اموی کی ماں ہیں۔
حبش میں پیدا ہوئی پھر مدینہ لائی گئی بعد بلوغت حضرت زبیر بن عوام سے ان کی پہلی شادی ہوئی (رضي اللہ عنھا)
۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5993   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3874  
3874. حضرت ام خالد بنت خالد‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب میں سرزمین حبشہ سے واپس آئی تو اس وقت میں چھوٹی بچی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اوڑھنے کے لیے ایک چادر عنایت فرمائی جس میں نقوش تھے۔ رسول اللہ ﷺ اپنا دست مبارک ان نقوش پر پھیرتے ہوئے فرما رہے تھے: یہ چادر اچھی ہے۔ یہ چادر خوبصورت ہے۔ امام حمیدی ؒ نے کہا ہے کہ سناه کے معنی اچھا اور خوبصورت کے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3874]
حدیث حاشیہ:

حضرت ام خالد ؓ، سیدنا خالد بن سعید کی بیٹی اور خالد بن زبیر بن عوام ؓ کی والدہ ہیں۔
اس لیے وہ ام خالد ؓ بھی ہیں۔
اور بنت خالد بھی۔

لفظ سناہ حبشی زبان کا لفظ ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ہجرت حبشہ کی مناسب سے اس ملک کی زبان کالفظ استعمال فرمایا جس کے معنی خوبصورت اور اچھا کے ہیں۔

ان کے والد گرامی حضرت خالد بن سعید بن عاص ؓ نے حبشے کی طرف دوسری ہجرت میں شمولیت کی۔
ام خالد کی پیدائش حبشے میں ہوئی تو اس کا نام (أمة)
رکھا گیا۔
انھوں نے ہی اس کی کنیت ام خالد رکھی تھی۔
ان کی والدہ کا نام امینہ بنت خلف ہے۔
(فتح الباري: 239/7)

ایک روایت میں ہے کہ ام خالد نے کہا:
میں نے اس وقت زرد رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے سنه سنه کے الفاظ استعمال فرمائے۔
(صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 3071)
ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چادر اور قمیص دونوں کے متعلق یہ الفاظ استعمال فرمائے ہوں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3874   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5823  
5823. سیدہ ام خالد بنت خالد‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ کےپاس کچھ کپڑے لائے گئے ان میں ایک چھوٹی سی دھاری دار اونی چادر بھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم یہ چادر کس کو پہنائیں؟ صحابہ کرام خاموش رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ام خالد ؓ کو میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ انہیں اٹھا کر لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے وہ چادر اپنے ہاتھ میں لی اور انہیں پہنا کریہ دعا دی: اللہ کرے تم اسے خوب پہنو اور پرانا کرو۔ اس چادر میں سبز یا زرد نقش ونگار تھے آپ ﷺ نے فرمایا: اے ام خالد! یہ نقش ونگار سناہ ہیں۔ حبشی زبان میں لفظ سناہ خوبصورت کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5823]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا حبشہ میں پیدا ہوئی تھیں اور حبشی زبان جانتی تھیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر حبشی زبان میں ہی اس کپڑے کی تعریف فرمائی۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس چادر کے سرخ یا زرد نقش و نگار دیکھنے لگے اور فرماتے جاتے:
سناہ سناہ، یعنی بہت خوبصورت ہے، بہت خوبصورت ہے۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4024) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں جب کوئی نیا کپڑا پہنتا تو اسے یوں دعا دی جاتی:
اللہ کرے تم اسے خوب پرانا کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے بعد تمہیں اور بھی عنایت فرمائے۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4020) (3)
اس حدیث میں کالے رنگ کے کمبل کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا کو پہنایا تھا، عنوان سے یہی مطابقت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5823   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5845  
5845. سیدہ ام خالد بنت خالد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ کپڑے لائے گئے جن میں ایک سیاہ شال بھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے خیال کے مطابق یہ شال کسے دی جائے؟ صحابہ کرام خاموش رہے تو آپ نے فرمایا: ام خالد کو میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ مجھے نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا پھر آپ نے مجھے وہ شال اپنے ہاتھ سے پہنائی اور دعا فرمائی: اسے پرانا اور بوسیدہ کرو۔ یعنی دیر تک جیتی رہو۔ آپ نے دو مرتبہ دعا فرمائی۔ پھر آپ اس شال کے نقش ونگار دیکھنے لگے اور اپنے ہاتھ سے میری طرف اشارہ کرکے فرمایا: اے ام خالد! سناہ سناہ یہ حبشی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ کیا ہی خوبصورت کے ہیں(راوئ حدیث) اسحاق نے کہا: میرے اہل خانہ میں سے ایک عورت نے مجھ سے بیان کیا کہ اس نے ام خالد‬ ؓ پ‬ر وہ شال دیکھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5845]
حدیث حاشیہ:
(1)
نیا کپڑا پہننے والے کو یہ دعا دینا مسنون ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے یہ لباس بابرکت بنائے۔
تم یہ کپڑا پرانا کر کے اتارو، یعنی تمہاری عمر لمبی ہو۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا نے لمبی عمر پائی تھی۔
ایک حدیث میں ہے کہ صحابۂ کرام میں جب کوئی نیا لباس پہنتا تو اسے یوں دعا دی جاتی:
(تبلي و يخلف الله تعالی)
اللہ کرے تم اسے خوب پرانا کرو اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے بعد اور بھی عنایت کرے۔
اس کے علاوہ بھی دعائیں منقول ہیں۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4020)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5845   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5993  
5993. حضرت ام خالد بنت سعید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ میں نے زرد رنگ کی قمیض پہن رکھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے سنہ سنہ کے الفاظ کہے (راوئ حدیث) عبداللہ نے کہا کہ یہ حبشی زبان میں خوب کے معنی میں ہےام خالد بیان کرتی ہیں کہ میں مہر نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد گرامی نے مجھے ڈانٹ پلائی لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے کھلینے دو۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تو ایک زمانے تک زندہ رہے، اللہ تعالٰی تیری عمر لمبی کرے تمہاری زندگی دراز ہو۔ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ انہوں نے بہت طویل عمر پائی حتٰی کہ لوگوں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5993]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ام خالد رضی اللہ عنہما حضرت خالد بن سعید بن عاص اموی کی والدہ ماجدہ ہیں۔
وہ حبشہ میں پیدا ہوئیں اور ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے ہاتھ سے ایک قمیص پہنائی تھی اور فرمایا:
اسے خوب پرانی کرو۔
وہ قمیص دیر تک ان کے پاس رہی۔
ایک روایت میں ہے کہ وہ قمیص عرصۂ دراز ان کے پاس رہی حتی کہ وہ سیا ہو گئیں، یعنی ام خالد رضی اللہ عنہما بہت مدت تک زندہ رہیں حتی کہ ان کی رنگت سیاہ ہو گئی۔
(2)
جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو ان کی عمر بہت چھوٹی تھی حتی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت سے کھیلنے لگیں اور آپ نے بطور مزاح سنه سنه کہا۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کسی بچی سے مزاح کرسکتا ہے اگرچہ وہ محرمہ نہ ہو۔
اگر مزاح کرتے وقت نیت میں فتور ہو تو اس سے بچنا چاہیے۔
(3)
امام بخاری رحمہ اللہ نے مبنی برحقیقت مزاح پر بوسے کو قیاس کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چھوٹی بچی سے قولی اور عملی مزاح سے مراد بچی کو اپنے ساتھ مانوس کرنا ہوتا ہے۔
اور بوسہ لینا بھی اسی قسم سے ہے۔
(فتح الباري: 10/522)
امام بخاری رحمہ اللہ کا عنوان میں تقبیل کے بعد مزاح کا ذکر کرنا، خاص کے بعد عام ذکر کرنے کی طرح ہے۔
والله أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5993   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.