وقال: المغيرة بن شعبة، اخبرنا نبينا صلى الله عليه وسلم، عن رسالة ربنا من قتل منا صار إلى الجنة، وقال عمر: للنبي صلى الله عليه وسلم" اليس قتلانا في الجنة، وقتلاهم في النار، قال: بلى.وَقَالَ: الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، أَخْبَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ رِسَالَةِ رَبِّنَا مَنْ قُتِلَ مِنَّا صَارَ إِلَى الْجَنَّةِ، وَقَالَ عُمَرُ: لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ، وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ، قَالَ: بَلَى.
اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا یہ پیغام دیا ہے کہ ہم میں سے جو بھی (اللہ کے راستے میں) قتل کیا جائے ‘ وہ سیدھا جنت میں جائے گا اور عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا ہمارے مقتول جنتی اور ان کے (کفار کے) مقتول دوزخی نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کیوں نہیں۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا موسیٰ بن عقبہ سے ‘ ان سے عمر بن عبیداللہ کے مولیٰ سالم ابوالنضر نے سالم عمر بن عبیداللہ کے کاتب بھی تھے بیان کیا کہ عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے عمر بن عبیداللہ کو لکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یقین جانو جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔ اس روایت کی متابعت اویسی نے ابن ابی الزناد کے واسطہ سے کی ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا۔
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2818
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2818 کا باب: «بَابُ الْجَنَّةُ تَحْتَ بَارِقَةِ السُّيُوفِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں جو الفاظ نقل فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ تلواروں کی شعاعوں کے نیچے جنت ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس جگہ ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے۔ «باب الجنة السيوف البارقة» چنانچہ «بارقة» کی اضافت «سيوف» کی طرف «إضافة الصفة إلى الموصوف» کے تعلق سے ہے اور یہ «السيوف البارقة» کے معنی میں ہے۔ [شرح الكرماني، ج 12، ص: 177] ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ «بريق» سے ماخوذ ہے اور بریق کے معنی، بجلی کی کڑک کے ہیں۔ [شرح ابن بطل، ج 5، ص: 21] علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ حدیث اور باب کی مناسبت پر فرماتے ہیں: «لم يترجم على الحديث بلفظه فإما أن يكون لفظ الترجمة فى حديث آخر لم يوافق شرطه فنبه عليه فى الترجمة . . . . .»[المتواري على أبواب البخاري، ص: 158] امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں ترجمۃ الباب حدیث کے الفاظ سے اخذ نہیں کئے، اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ تلوار کی جب چمک اور شعاعیں ہوں گی اسی طرح اس کے حساب سے اس کا سایہ بھی ہو گا۔ اسی طرح باب اور حدیث میں مطابقت قائم ہو جائے گی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وقد أورده بلفظ ”تحت ظلال السيوف“ وكأنه أشار بالترجمة إلى حديث عمار بن ياسر رضي الله عنه فأخرج الطبراني بإسناد صحيح عن عمار بن ياسر انه قال يوم الصفين ”الجنة تحت الالبارقة“.»[فتح الباري، ج 6، ص: 41] ”امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ ترجمہ اس روایت سے ماخوذ ہے جس کو طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین کے دن فرمایا: «الجنة تحت البارقة» ”کہ جنت چمک کے نیچے ہے (تلواروں کی)۔“ لہذا جو ترجمہ الباب قائم فرمایا ہے وہ حدیث آپ کی شرط پر نہ تھی اور حدیث وہ نقل کی جو آپ کی شرط کے مطابق تھی کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے، لہذا جب تلواروں کے سائے ثابت ہو گئے تو اس کی شعاعیں بھی ثابت ہوئیں، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2818
حدیث حاشیہ: 1۔ لڑائی کے وقت فریقین کی تلواریں جمع ہو کر سایہ ڈالنے لگتی ہیں۔ جب دو دشمن تلواریں لے کر میدان میں اترتے ہیں تو ہر ایک دشمن پر دوسرے کی تلواروں کا سایہ پڑتا ہے اور وہ مدافعت کی کوشش کرتا ہے اور ایسا لڑائی کے گرم ہونے پر ہوتا ہے۔ 2۔ جہاد ہی وہ عمل ہے جو اسلام کی سر بلندی کا واحد ذریعہ ہے مگرشریعت نے اس کے لیے کچھ اصو ل وضوابط مقرر کیے ہیں۔ جس کی تفصیل آئندہ بیان ہوگی۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے غزوہ خندق کے دن یہ حدیث بیان فرمائی تھی۔ (فتح الباري: 43/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2818