صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
24. بَابُ الشَّجَاعَةِ فِي الْحَرْبِ وَالْجُبْنِ:
24. باب: جنگ کے موقع پر بہادری اور بزدلی کا بیان۔
(24) Chapter. Bravery and cowardice in the battle.
حدیث نمبر: 2821
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عمر بن محمد بن جبير بن مطعم، ان محمد بن جبير، قال: اخبرني جبير بن مطعم، انه بينما هو يسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه الناس مقفله من حنين، فعلقه الناس يسالونه حتى اضطروه إلى سمرة فخطفت رداءه، فوقف النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اعطوني ردائي لو كان لي عدد هذه العضاه نعما لقسمته بينكم، ثم لا تجدوني بخيلا، ولا كذوبا، ولا جبانا".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جُبَيْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، أَنَّهُ بَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ النَّاسُ مَقْفَلَهُ مِنْ حُنَيْنٍ، فَعَلِقَهُ النَّاسُ يَسْأَلُونَهُ حَتَّى اضْطَرُّوهُ إِلَى سَمُرَةٍ فَخَطِفَتْ رِدَاءَهُ، فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَعْطُونِي رِدَائِي لَوْ كَانَ لِي عَدَدُ هَذِهِ الْعِضَاهِ نَعَمًا لَقَسَمْتُهُ بَيْنَكُمْ، ثُمَّ لَا تَجِدُونِي بَخِيلًا، وَلَا كَذُوبًا، وَلَا جَبَانًا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں عمر بن جبیر بن مطعم نے خبر دی ‘ انہیں محمد بن جبیر نے خبر دی کہا کہ مجھے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، آپ کے ساتھ اور بہت سے صحابہ بھی تھے۔ وادی حنین سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ کچھ (بدو) لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے۔ بالآخر آپ کو مجبوراً ایک ببول کے درخت کے پاس جانا پڑا۔ وہاں آپ کی چادر مبارک ببول کے کانٹے میں الجھ گئی تو ان لوگوں نے اسے لے لیا (تاکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کچھ عنایت فرمائیں تو چادر واپس کریں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے ہو گئے اور فرمایا میری چادر مجھے دے دو ‘ اگر میرے پاس درخت کے کانٹوں جتنے بھی اونٹ بکریاں ہوتیں تو میں تم میں تقسیم کر دیتا ‘ مجھے تم بخیل نہیں پاؤ گے اور نہ جھوٹا اور نہ بزدل پاؤ گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Muhammad bin Jubair: Jubair bin Mut`im told me that while he was in the company of Allah's Apostle with the people returning from Hunain, some people (bedouins) caught hold of the Prophet and started begging of him so much so that he had to stand under a (kind of thorny tree (i.e. Samurah) and his cloak was snatched away. The Prophet stopped and said, "Give me my cloak. If I had as many camels as these thorny trees, I would have distributed them amongst you and you will not find me a miser or a liar or a coward."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 75


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري3148جبير بن مطعمأعطوني ردائي فلو كان عدد هذه العضاه نعما لقسمته بينكم ثم لا تجدوني بخيلا ولا كذوبا ولا جبانا
   صحيح البخاري2821جبير بن مطعمأعطوني ردائي لو كان لي عدد هذه العضاه نعما لقسمته بينكم ثم لا تجدوني بخيلا ولا كذوبا ولا جبانا

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2821 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2821  
حدیث حاشیہ:
یہ اس لیے فرمایا کہ بخیلی کے نتائج میں جھوٹ اور بزدلی اور سخاوت کے نتائج میں صداقت اور بہادری لازم ہیں‘ یہ جنگ حنین سے واپسی کا واقعہ ہے۔
مزید تفصیلات کتاب المغازی میں آئیں گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2821   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2821  
حدیث حاشیہ:

بخیل کذوب اور جبان مبالغے کے صیغے ہیں۔
جن سے جنس کی نفی کرنا مقصود ہے۔

اس حدیث میں آپ ﷺکے اخلاق کریمانہ کا بیان ہے۔
اصول اخلاق تین ہیں حلم کرم اور شجاعت۔
اس میں بڑی عمدگی کے ساتھ ان تینوں کو بیان کیا گیا ہے عدم کذب سے قوت عقلیہ کے کمال کی طرف اشارہ ہے جو حکمت و دانائی سے عبارت ہے عدم بخل سے کمال قوت شہویہ کی طرف اشارہ فرمایا جو سخاوت ہے اور عدم جبن سے کمال قوت غضبیہ کی طرف اشارہ کیا جو شجاعت ہے۔
یہ تینوں صفات اعلیٰ اخلاق کی بنیاد ہیں بہر حال رسول اللہ ﷺ بہت بہادر انتہائی سخی اور بہت مدبر و بردبار تھے واضح رہے کہ مذکورہ واقعہ جنگ حنین کا ہے اور حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک راوی کا نام ہے۔

مال طلب کرنے والے وہ نو مسلم تھے جو ابھی تک آپ کی صحبت سے فیض یاب نہیں ہوئے تھے ورنہ جنھیں آپ کی تربیت میں چند دن گزارنے کا موقع ملا وہ ادب و احترام کا پیکربن گئے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2821   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3148  
3148. حضرت جبیر بن معطم ؓسے روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے، آپ کے ساتھ چند صحابہ کرام ؓ اور بھی تھے جبکہ آپ حنین سے واپس آرہے تھے۔ راستے میں چند دیہاتی آپ سے چمٹ گئے، وہ آپ سے کچھ مانگتے تھے حتیٰ کہ آپ کو ایک کیکر کے درخت کے نیچے دھکیل کر لے گئے اور آپ کی چادر اس کے کانٹوں میں اُلجھ کر رہ گئی۔ اس وقت آپ ٹھہر گئے اور فرمایا:مجھے میری چادر تو دے دو۔ اور اگر میرے پاس اس درخت کے کانٹوں کی تعداد میں اونٹ ہوتے تو میں تم میں تقسیم کردیتا۔ تم مجھے بخیل، جھوٹا اور بزدل ہر گز نہیں پاؤ گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3148]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ امام کو اختیار ہے مال غنیمت جن لوگوں کو چاہے مصلحت کے مطابق تقسیم کرسکتا ہے۔
عینی نے کہا:
ومطابقة للترجمة تستأنس من قوله لقسمه بینکم
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3148   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3148  
3148. حضرت جبیر بن معطم ؓسے روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے، آپ کے ساتھ چند صحابہ کرام ؓ اور بھی تھے جبکہ آپ حنین سے واپس آرہے تھے۔ راستے میں چند دیہاتی آپ سے چمٹ گئے، وہ آپ سے کچھ مانگتے تھے حتیٰ کہ آپ کو ایک کیکر کے درخت کے نیچے دھکیل کر لے گئے اور آپ کی چادر اس کے کانٹوں میں اُلجھ کر رہ گئی۔ اس وقت آپ ٹھہر گئے اور فرمایا:مجھے میری چادر تو دے دو۔ اور اگر میرے پاس اس درخت کے کانٹوں کی تعداد میں اونٹ ہوتے تو میں تم میں تقسیم کردیتا۔ تم مجھے بخیل، جھوٹا اور بزدل ہر گز نہیں پاؤ گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3148]
حدیث حاشیہ:

اس وقت حالات کا تقاضا تھا کہ رسول اللہﷺ اپنی ذات شریفہ سے بخل کی نفی کرتے، پھر آپ نے فرمایا:
میں بخل کی نفی کرنے میں جھوٹا نہیں ہوں۔
نیز میں تم سے ڈر کریہ نفی نہیں کر رہا۔
ان بری صفات کی نفی سے بربادی سخاوت اور شجاعت کو ثابت کرنا مقصود ہے جو اصول اخلاق میں سے ہیں۔

امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے اور امام وقت کو اختیارہے کہ وہ مال غنیمت جن لوگوں کو چاہے مصلحت کی خاطر تقسیم کر سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3148   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.