ويذكر عن النبي صلى الله عليه وسلم لي الواجد يحل عقوبته وعرضه، قال سفيان: عرضه يقول مطلتني وعقوبته الحبس.وَيُذْكَرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُّ الْوَاجِدِ يُحِلُّ عُقُوبَتَهُ وَعِرْضَهُ، قَالَ سُفْيَانُ: عِرْضُهُ يَقُولُ مَطَلْتَنِي وَعُقُوبَتُهُ الْحَبْسُ.
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ(قرض کے ادا کرنے پر) قدرت رکھنے کے باوجود ٹال مٹول کرنا، اس کی سزا اور اس کی عزت کو حلال کر دیتا ہے۔ سفیان نے کہا کہ عزت کو حلال کرنا یہ ہے کہ قرض خواہ کہے ”تم صرف ٹال مٹول کر رہے ہو“ اور اس کی سزا قید کرنا ہے۔
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة، عن سلمة، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل يتقاضاه، فاغلظ له فهم به اصحابه، فقال:" دعوه، فإن لصاحب الحق مقالا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ يَتَقَاضَاهُ، فَأَغْلَظَ لَهُ فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَقَالَ:" دَعُوهُ، فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سلمہ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص قرض مانگنے اور سخت تقاضا کرنے لگا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کی گوشمالی کرنی چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو، حقدار ایسی باتیں کہہ سکتا ہے۔
Narrated Abu Huraira: A man came to the Prophet and demanded his debts and used harsh words. The companions of the Prophet wanted to harm him, but the Prophet said, "Leave him, as the creditor (owner of the right) has the right to speak."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 586
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2401
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حقوق العباد کے معاملہ میں اسلام نے کس قدر ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے۔ مذکورہ قرض خواہ وقت مقررہ سے پہلے ہی تقاضا کرنے آگیا تھا۔ اس کے باوجود آنحضرت ﷺ نے نہ صرف اس کی سخت کلامی کو برداشت کیا بلکہ اس کی سخت کلامی کو روا رکھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2401
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2401
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام نے حقوق العباد کے سلسلے میں کس قدر ذمہ داری کا احساس دلایا ہے۔ (2) دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ قرض خواہ وقت مقررہ سے پہلے ہی اپنے حق کا تقاضا کرنے آ گیا تھا، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف اس کے درشت انداز اور سخت کلامی کو برداشت کیا بلکہ اس کے سخت رویے کو قانونی تحفظ دیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ ہی کی شان ہے کہ آپ ایسی باتیں سن کر کہتے ہیں کہ جس کا کوئی حق نکلتا ہے وہ کچھ کہنے کا حق دار بھی ہے، ہمارے جیسا ہوتا تو ایسے موقع پر اپنی آستین چڑھا لیتا اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2401
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 728
´مفلس قرار دینے اور تصرف روکنے کا بیان` سیدنا عمرو بن شرید رحمہ اللہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مالدار آدمی کا ادائیگی قرض میں ٹال مٹول کرنا، اس کی بے عزتی اور سزا دینے کو حلال کرنا ہے۔“ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور بخاری نے اسے تعلیق کے طور پر نقل کیا ہے اور ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 728»
تخریج: «أخرجه أبوداود، القضاء، باب في الدين هل يحبس به، حديث:3628، والنسائي، البيوع، حديث:4693، 4694، والبخاري، الاستقراض، قبل حديث:2401، وابن حبان (الموارد)، حديث:1164.»
تشریح: اس حدیث کی رو سے مال دار اور صاحب ثروت آدمی محض اپنی خساست طبع کی وجہ سے قرض کی ادائیگی میں حیلے بہانے‘ ٹال مٹول اور لیت و لعل کرے جبکہ وہ آسانی سے قرض ادا کرنے کی حالت میں ہو تو ایسے آدمی کو قرض خواہ زبانی کلامی بے عزت بھی کر سکتا ہے اور بذریعۂ عدالت اسے سزا دلوانے کا بھی مجاز ہے۔ جمہور علماء نے تو صرف دس درہم تک کی مالیت یا مقدار کے مساوی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنے والے شخص کو فاسق اور مردود الشھادۃ قرار دیا ہے۔ (سبل السلام)
راویٔ حدیث: «حضرت عمرو» ابوالولید عمرو بن شرید ”شین“ پر فتحہ اور ”را“ کے نیچے کسرہ) بن سوید۔ طائف کے قبیلۂثقیف سے تھے‘ اسی لیے ثقفی طائفی کہلائے۔ ثقہ تابعی ہیں اور تیسرے طبقے میں سے ہیں۔ «حضرت شرید رضی اللہ عنہ» شرید بن سوید ثقفی۔ ان کا نام مالک تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام شرید رکھا۔ آپ نے ان کا یہ نام اس وجہ سے رکھا کہ یہ اپنی قوم کا ایک فرد قتل کر کے مکہ میں آ گئے تھے اور پھر اسلام قبول کر لیا۔ (تلقیح لابن الجوزي) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق حضر موت سے تھا اور ان کا شمار قبیلۂثقیف میں سے تھا۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ انھیں اہل طائف میں شمار کیا جاتا تھا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 728