قال ابن عمر في القرض إلى اجل: لا باس به، وإن اعطي افضل من دراهمه ما لم يشترط، وقال عطاء، وعمرو بن دينار: هو إلى اجله في القرض.قَالَ ابْنُ عُمَرَ فِي الْقَرْضِ إِلَى أَجَلٍ: لَا بَأْسَ بِهِ، وَإِنْ أُعْطِيَ أَفْضَلَ مِنْ دَرَاهِمِهِ مَا لَمْ يَشْتَرِطْ، وَقَالَ عَطَاءٌ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: هُوَ إِلَى أَجَلِهِ فِي الْقَرْضِ.
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کسی مدت معین تک کے لیے قرض میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ اس کے درہموں سے زیادہ کھرے درہم اسے ملیں۔ لیکن اس صورت میں جب کہ اس کی شرط نہ لگائی ہو۔ عطاء اور عمرو بن دینار نے کہا کہ قرض میں، قرض لینے والا اپنی مقررہ مدت کا پابند ہو گا۔
وقال الليث: حدثني جعفر بن ربيعة، عن عبد الرحمن بن هرمز، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه ذكر رجلا من بني إسرائيل سال بعض بني إسرائيل ان يسلفه فدفعها إليه إلى اجل مسمى، فذكر الحديث".وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ".
لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اسرائیلی شخص کا تذکرہ فرمایا جس نے دوسرے اسرائیلی شخص سے قرض مانگا تھا اور اس نے ایک مقررہ مدت کے لیے اسے قرض دے دیا۔ (جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے)۔
Narrated Abu Hurairah (ra): Allah's Messenger (saws) mentioned an Israeli man who asked another Israeli to lend him money, and the latter gave it to him for a fixed period. (Abu Hurairah mentioned the rest of narration) [See chapter: Kafala in loans and debts. Hadith 2291]
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 588
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2404
حدیث حاشیہ: حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کا ذکر ہے۔ باب سے یہی مناسبت ہے۔ قرآن پاک کی آیت ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى﴾(الأحزاب: 69) میں اسی واقعہ کی طرف اشارہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2404
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2404
حدیث حاشیہ: (1) اس عنوان میں دو مسئلے بیان ہوئے ہیں: ٭ قرض میں مقررہ مدت تک تاخیر کرنا کیسا ہے؟ بعض حضرات کا موقف ہے کہ قرض خواہ جب چاہے اس کا مطالبہ کر سکتا ہے، خواہ مدت مقرر ہی کیوں نہ ہو، لیکن صحیح موقف یہ ہے کہ جب مدت مقررہ تک کے لیے قرض دیا ہے تو اس کا وقت سے پہلے مطالبہ کرنا صحیح نہیں۔ ٭ خریدوفروخت میں قیمت کے لیے مدت مقرر کرنا، اس میں سب کا اتفاق ہے کہ اس میں وقت سے پہلے قیمت کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں۔ ٭ خریدوفروخت میں قیمت کے لیے مدت مقرر کرنا، اس میں سب کا اتفاق ہے کہ اس میں وقت سے پہلے قیمت کا مطالبہ کرنا جائز نہیں۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ قرض میں مدت مقرر کی جا سکتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مدح اور تعریف کے طور پر اس واقعے کا ذکر فرمایا ہے۔ اگر اس میں کوئی غلط بات ہوتی تو آپ اس کی تردید کر دیتے۔ پہلی امتوں کی شریعت ہمارے لیے حجت ہے بشرطیکہ ہماری شریعت کے خلاف نہ ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2404