وعن عمرو بن الشريد عن ابيه رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «لي الواجد يحل عرضه وعقوبته» . رواه ابو داود والنسائي وعلقه البخاري وصححه ابن حبان.وعن عمرو بن الشريد عن أبيه رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «لي الواجد يحل عرضه وعقوبته» . رواه أبو داود والنسائي وعلقه البخاري وصححه ابن حبان.
سیدنا عمرو بن شرید رحمہ اللہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مالدار آدمی کا ادائیگی قرض میں ٹال مٹول کرنا، اس کی بے عزتی اور سزا دینے کو حلال کرنا ہے۔“ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور بخاری نے اسے تعلیق کے طور پر نقل کیا ہے اور ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔
हज़रत अमरो बिन शरीद रहम अल्लाह ने अपने पिता से रिवायत की है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “मालदार आदमी का उधार का भुगतान करने में टाल मटोल करना, उस का अपमान और सज़ा देने को हलाल करना है ।” इसे अबू दाऊद और निसाई ने रिवायत किया है और बुख़ारी ने इसे ताअलीक़ के तौर पर लिखा है और इब्न हब्बान ने इस को सहीह ठहराया है ।
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، القضاء، باب في الدين هل يحبس به، حديث:3628، والنسائي، البيوع، حديث:4693، 4694، والبخاري، الاستقراض، قبل حديث:2401، وابن حبان (الموارد)، حديث:1164.»
Narrated 'Amr bin ash-Sharid on the authority of his father:
Allah's Messenger (ﷺ) said: "Delay in payment on the part of one who possesses the means, makes it lawful to dishonor and punish him." [Abu Dawud and an-Nasa'i reported it. al-Bukhari reported it as Mu'allaq (broken chain from the side of the Hadith collector), and Ibn Hibban graded it Sahih (authentic)].
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 728
تخریج: «أخرجه أبوداود، القضاء، باب في الدين هل يحبس به، حديث:3628، والنسائي، البيوع، حديث:4693، 4694، والبخاري، الاستقراض، قبل حديث:2401، وابن حبان (الموارد)، حديث:1164.»
تشریح: اس حدیث کی رو سے مال دار اور صاحب ثروت آدمی محض اپنی خساست طبع کی وجہ سے قرض کی ادائیگی میں حیلے بہانے‘ ٹال مٹول اور لیت و لعل کرے جبکہ وہ آسانی سے قرض ادا کرنے کی حالت میں ہو تو ایسے آدمی کو قرض خواہ زبانی کلامی بے عزت بھی کر سکتا ہے اور بذریعۂ عدالت اسے سزا دلوانے کا بھی مجاز ہے۔ جمہور علماء نے تو صرف دس درہم تک کی مالیت یا مقدار کے مساوی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنے والے شخص کو فاسق اور مردود الشھادۃ قرار دیا ہے۔ (سبل السلام)
راویٔ حدیث: «حضرت عمرو» ابوالولید عمرو بن شرید ”شین“ پر فتحہ اور ”را“ کے نیچے کسرہ) بن سوید۔ طائف کے قبیلۂثقیف سے تھے‘ اسی لیے ثقفی طائفی کہلائے۔ ثقہ تابعی ہیں اور تیسرے طبقے میں سے ہیں۔ «حضرت شرید رضی اللہ عنہ» شرید بن سوید ثقفی۔ ان کا نام مالک تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام شرید رکھا۔ آپ نے ان کا یہ نام اس وجہ سے رکھا کہ یہ اپنی قوم کا ایک فرد قتل کر کے مکہ میں آ گئے تھے اور پھر اسلام قبول کر لیا۔ (تلقیح لابن الجوزي) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق حضر موت سے تھا اور ان کا شمار قبیلۂثقیف میں سے تھا۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ انھیں اہل طائف میں شمار کیا جاتا تھا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 728
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2401
2401. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ نبی ﷺ کے پاس ایک شخص اپنے حق کا مطالبہ کرنے کے لیے حاضر ہوا۔ اس نے حق طلبی میں آپ کے ساتھ کچھ سخت انداز اختیار کیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس کی گوشمالی کرنے (اسے سزا دینے) کا ارادہ کیا۔ آپ نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو، بے شک صاحب حق کو(کڑوی کسیلی) باتیں کرنے کا حق ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2401]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حقوق العباد کے معاملہ میں اسلام نے کس قدر ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے۔ مذکورہ قرض خواہ وقت مقررہ سے پہلے ہی تقاضا کرنے آگیا تھا۔ اس کے باوجود آنحضرت ﷺ نے نہ صرف اس کی سخت کلامی کو برداشت کیا بلکہ اس کی سخت کلامی کو روا رکھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2401
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2401
2401. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ نبی ﷺ کے پاس ایک شخص اپنے حق کا مطالبہ کرنے کے لیے حاضر ہوا۔ اس نے حق طلبی میں آپ کے ساتھ کچھ سخت انداز اختیار کیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس کی گوشمالی کرنے (اسے سزا دینے) کا ارادہ کیا۔ آپ نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو، بے شک صاحب حق کو(کڑوی کسیلی) باتیں کرنے کا حق ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2401]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام نے حقوق العباد کے سلسلے میں کس قدر ذمہ داری کا احساس دلایا ہے۔ (2) دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ قرض خواہ وقت مقررہ سے پہلے ہی اپنے حق کا تقاضا کرنے آ گیا تھا، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف اس کے درشت انداز اور سخت کلامی کو برداشت کیا بلکہ اس کے سخت رویے کو قانونی تحفظ دیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ ہی کی شان ہے کہ آپ ایسی باتیں سن کر کہتے ہیں کہ جس کا کوئی حق نکلتا ہے وہ کچھ کہنے کا حق دار بھی ہے، ہمارے جیسا ہوتا تو ایسے موقع پر اپنی آستین چڑھا لیتا اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2401