صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان
The Book of Representation
11. بَابُ إِذَا بَاعَ الْوَكِيلُ شَيْئًا فَاسِدًا فَبَيْعُهُ مَرْدُودٌ:
11. باب: اگر وکیل کوئی ایسی بیع کرے جو فاسد ہو تو وہ بیع واپس کی جائے گی۔
(11) Chapter. If a deputy sells something (in an illegal manner), the transaction is invalid.
حدیث نمبر: 2312
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق، حدثنا يحيى بن صالح، حدثنا معاوية هو ابن سلام، عن يحيى، قال: سمعت عقبة بن عبد الغافر، انه سمع ابا سعيد الخدري رضي الله عنه، قال:" جاء بلال إلى النبي صلى الله عليه وسلم بتمر برني، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: من اين هذا؟ قال بلال: كان عندنا تمر ردي فبعت منه صاعين بصاع لنطعم النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم عند ذلك: اوه اوه، عين الربا، عين الربا لا تفعل، ولكن إذا اردت ان تشتري فبع التمر ببيع آخر، ثم اشتره".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ هُوَ ابْنُ سَلَّامٍ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَبْدِ الْغَافِرِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" جَاءَ بِلَالٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ بَرْنِيٍّ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِنْ أَيْنَ هَذَا؟ قَالَ بِلَالٌ: كَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِيٌّ فَبِعْتُ مِنْهُ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ لِنُطْعِمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: أَوَّهْ أَوَّهْ، عَيْنُ الرِّبَا، عَيْنُ الرِّبَا لَا تَفْعَلْ، وَلَكِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ فَبِعِ التَّمْرَ بِبَيْعٍ آخَرَ، ثُمَّ اشْتَرِهِ".
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہ میں نے عقبہ بن عبدالغافر سے سنا اور انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں برنی کھجور (کھجور کی ایک عمدہ قسم) لے کر آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارے پاس خراب کھجور تھی، اس کے دو صاع اس کے ایک صاع کے بدلے میں دے کر ہم اسے لائے ہیں۔ تاکہ ہم یہ آپ کو کھلائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا توبہ توبہ یہ تو سود ہے بالکل سود۔ ایسا نہ کیا کر البتہ (اچھی کھجور) خریدنے کا ارادہ ہو تو (خراب) کھجور بیچ کر (اس کی قیمت سے) عمدہ خریدا کر۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Sa`id al-Khudri: Once Bilal brought Barni (i.e. a kind of dates) to the Prophet and the Prophet asked him, "From where have you brought these?" Bilal replied, "I had some inferior type of dates and exchanged two Sas of it for one Sa of Barni dates in order to give it to the Prophet; to eat." Thereupon the Prophet said, "Beware! Beware! This is definitely Riba (usury)! This is definitely Riba (Usury)! Don't do so, but if you want to buy (a superior kind of dates) sell the inferior dates for money and then buy the superior kind of dates with that money."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 506


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري2312سعد بن مالكعين الربا لا تفعل ولكن إذا أردت أن تشتري فبع التمر ببيع آخر ثم اشتره
   صحيح مسلم4083سعد بن مالكعين الربا لا تفعل ولكن إذا أردت أن تشتري التمر فبعه ببيع آخر ثم اشتر به

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2312 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2312  
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ایک ہی جنس میں کمی و بیشی سے لین دین سود میں داخل ہے۔
اس کی صورت یہ بتلائی گئی کے گھٹیا جنس کو الگ نقد بیچ کر اس کے روپوں سے وہی بڑھیا جنس خرید لی جائے۔
حضرت بلال ؓ کی یہ بیع فاسد تھی۔
آنحضرت ﷺ نے اسے واپس کر ا دیا۔
جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔
حضرت مولانا وحید الزماں نے مسلم شریف کی جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ باب الرباء میں حضرت ابوسعید ؓ ہی کی روایت سے منقول ہے۔
جس میں یہ الفاظ ہیں:
فقال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم هذہ الرباء فردوہ۔
الحدیث یعنی یہ سود ہے لہٰذا اس کو واپس لوٹا دو۔
اس پر علامہ نووی لکھتے ہیں:
هَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْمَقْبُوضَ بِبَيْعٍ فَاسِدٍ يَجِبُ رَدُّهُ عَلَى بَائِعِهِ وَإِذَا رَدَّهُ اسْتَرَدَّ الثَّمَنَ فَإِنْ قِيلَ فَلَمْ يَذْكُرْ فِي الْحَدِيثِ السَّابِقِ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِرَدِّهِ فَالْجَوَابُ أَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّهَا قَضِيَّةٌ وَاحِدَةٌ وَأَمَرَ فِيهَا بِرَدِّهِ فَبَعْضُ الرُّوَاةِ حَفِظَ ذَلِكَ وَبَعْضُهُمْ لَمْ يَحْفَظْهُ فَقَبِلْنَا زِيَادَةَ الثِّقَةِ وَلَوْ ثَبَتَ أَنَّهُمَا قَضِيَّتَانِ لَحُمِلَتِ الْأُولَى عَلَى أَنَّهُ أَيْضًا أَمَرَ بِهِ وَإِنْ لَمْ يَبْلُغْنَا ذَلِكَ وَلَوْ ثَبَتَ أَنَّهُ لَمْ يَأْمُرْ بِهِ مَعَ أَنَّهُمَا قَضِيَّتَانِ لَحَمَلْنَاهَا عَلَى أَنَّهُ جَهِلَ بَائِعَهُ وَلَا يُمْكِنُ مَعْرِفَتُهُ فَصَارَ مَالًا ضَائِعًا لِمَنْ عَلَيْهِ دَيْنٌ بِقِيمَتِهِ وَهُوَ التَّمْرُ الَّذِي قَبَضَهُ عِوَضًا فَحَصَلَ أَنَّهُ لَا إِشْكَالَ فِي الْحَدِيثِ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ۔
(نووي)
یعنی یہ امر اس پر دلیل ہے کہ ایسی قبضہ میں لی ہوئی بیع بھی فاسد ہوگی جس کا بائع پر لوٹا لینا واجب ہے اور جب وہ بیع رد ہو گئی تو اس کی قیمت خود رد ہو گئی۔
اگر کہا جائے کہ حدیث سابق میں یہ مذکور نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس کے رد کرنے کا حکم فرمایا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ظاہر یہی کہ قضیہ ایک ہی ہے اور اس میں آپ ﷺ نے واپسی کا حکم فرمایا۔
بعض راویوں نے اس کو یاد رکھا اور بعض نے یاد نہیں رکھا۔
پس ہم نے ثقہ راویوں کی زیادتی کو قبول کیا۔
اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ دو قضیے ہیں تو پہلے کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ آپ نے یہی حکم فرمایا تھا اگرچہ یہ ہم تک نہیں پہنچ سکا۔
اور اگر یہ ثابت ہو کہ آپ نے یہ حکم نہیں فرمایا باوجودیکہ یہ دو قضیے ہیں۔
تو ہم اس پر محمول کریں گے کہ اس کا بائع مجہول ہوگیا اور وہ بعد میں پہچانا نہ جاسکا۔
تو اس صورت میں وہ مال ضائع ہو گیا اس شخص کے لیے جس نے اس کی قیمت کا بوجھ اپنے سر پر رکھا اور یہ وہی کھجور ہیں جو اس نے قبضہ میں لی ہے۔
پس حاصل ہوا کہ حدیث میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
الحمد للہ آج 5 صفر1390ھ کو حرم نبوی مدینہ طیبہ میں بوقت فجر بہ سلسلہ نظر ثانی یہ نوٹ لکھا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2312   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2312  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2312 کا باب: «بَابُ إِذَا بَاعَ الْوَكِيلُ شَيْئًا فَاسِدًا فَبَيْعُهُ مَرْدُودٌ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں بظاہر تعارض نظر آتا ہے کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں بیع فاسد کو لوٹانے کا ذکر فرمایا ہے جبکہ حدیث میں لوٹانے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«و ليس فيه تصريح بالرد بل فيه أشعار به، ولعله أشار بذالك إلى ما ورد فى بعض طريقه . . . . ..» [فتح الباري، ج 5، ص: 421 - عمدة القاري، ج 13، ص 218]
یعنی اشکال کا جواب یہ ہے کہ بظاہر ترجمۃ الباب کے متعلق جو حدیث پیش فرمائی ہے اس میں واپس لوٹانے کا صراحتا کوئی ذکر نہیں ہے۔ شاید کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس طرق کی طرف اشارہ فرما رہے ہوں جس کا ذکر امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں فرمایا ہے جو کہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کے طریق سے نقل کیا گیا ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ «هذا الربا فردوه»، لہذا مذکورہ حدیث میں صراحتا رد کرنے کا ذکر موجود ہے۔
اگر بخاری شریف کی مذکورہ روایت پر بھی غور کیا جائے تو متن میں الفاظوں کی مناسبت ترجمۃ الباب سے قائم ہے۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة الحديث للترجمة تفهم من قوله: عين الربا لا تفعل لأن من المعلوم أن بيع الربا مما يجب رده.» [عمدة القاري، ج 12، ص: 218]
یعنی ترجمۃ الباب سے حدیث کی مطابقت ان الفاظ میں ہے: یہ عین سود ہے آپ ایسا نہ کرو، ان الفاظوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سود کی بیع اس کا پھیرنا واجب ہوتا ہے۔
ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: عین الربا، یعنی اگر کوئی شخص ایسی بیع کرے جو فاسد ہو تو وہ بیع لوٹا دی جائے گی اور (مزید یہ کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اوہ اس کے فسخ ہونے کی دلیل ہے۔ [التوضيح لشرح الجامع الصحيح، ج 15، ص: 202]
اور یہ لفظ اوہ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی اس بیع کے مردود ہونے پر دال ہے، کیونکہ بیع کرنے والے کے لیے یہ بہت زیادہ فکر اور حزن کی بات ہے۔
عبداللہ سالم البصری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«أووه، كلمة بمعنى التذكر والتحزن، ومنه ﴿إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ﴾ » [التوبة: 114]
«قال ابن التين: إنما تاوّه ليكون أبلغ فى الزجر.» [ضياء الساري، ج 17، ص:528]
ان شارحین کے اقتباسات پر یہ واضح ہوا کہ باب اور حدیث میں مناسبت کس طرح سے ہے۔ ترجمۃ الباب اسی پر دال ہے کہ بیع فاسد مردود ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت شریفہ کے مطابق صحیح حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ جس میں واضح طور پر بیع کے مردود ہونے کے الفاظ ہیں۔ لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
فائدہ:
حقیر کا چند سال قبل کراچی میں «عين الربا» کی حدیث پر مباہلہ ہوا تھا اور الحمدللہ، اللہ کی توفیق اور اسی کی مدد سے اللہ تبارک وتعالی نے اپنے ناچیز اور حقیر بندے کی حدیث کے دفاع کے لیے ثابت قدمی اور نصرت عطا فرمائی۔ پہلے حقیر کی معترض سے تحریری گفتگو ہوئی۔ معترض کے ڈیڑھ صفحہ کے اعتراض پر اللہ کی توفیق سے حقیر بندے نے (30) تیس صفحات پر ایک پر علمی نقد فرمایا جو کہ طالب علم اور شائقین کے لیے مفید ہے۔ ہم ذیل میں معترض کا سوال اور ساتھ اس کا جواب مکمل طور پر نقل کیے دیتے ہیں، تاکہ حدیث «عين الربا» کے بارے میں تمام اعتراضات کے جوابات طالب علم تک پہنچ جائیں۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
صحیح مسلم کی دو متعارض احادیث
➊ صحیح مسلم، حدیث نمبر 4083، جلد 4، ص: 215:
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: سیدنا بلال رضی اللہ عنہ برنی کھجور (کھجور کی عمدہ قسم ہے) لے کر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہاں سے لائے؟ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس خراب قسم کی کھجور تھی تو دو صاع اس کے دے کر میں نے ایک صاع اس کا آپ کے کھانے کے لیے خریدا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: افسوس! یہ تو عین سود ہے۔ ایسا مت کر، لیکن تو کھجور خریدنا چاہے تو اپنی کھجور بیچ ڈال پھر اس کی قیمت کے بدلے دوسری کھجور خرید لے۔
➋ صحیح مسلم، حدیث نمبر 4090، جلد 4، ص: 218:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ربا نہیں ہے نقد میں۔
➌ صحیح مسلم، حدیث نمبر 4089، جلد 4، ص: 217-218:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: مجھ سے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سود ادھار میں ہے۔
صحیح مسلم کی ان تینوں احادیث میں تعارض واضح ہے۔ کیونکہ حدیث 4083 میں کھجور کے نقد لین دین کو عین ربا قرار دیا گیا ہے جبکہ حدیث 4090 میں لکھا ہے ربا نہیں ہے نقد میں، اور اسی طرح حدیث 4089 میں لکھا ہے سود ادھار میں ہے، یعنی سود نقد میں نہیں ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر 4061، جلد 4، ص: 209-210]
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ منع کرتے تھے سونے کو سونے کے بدلے اور نمک کو نمک کے بدلے مگر برابر برابر نقد، پھر جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو ربا ہو گیا۔ یہ سن کر لوگوں نے جو لیا تھا پھیر دیا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی، وہ خطبہ پڑھنے لگے کھڑے ہو کر: کیا حال ہے لوگوں کا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ حدیثیں روایت کرتے ہیں جن کو ہم نے نہیں سنا اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے۔ پھر سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور قصہ بیان کیا، بعد اس کے کہا: ہم تو وہ حدیث ضرور ہی بیان کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی اگرچہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا معلوم ہو، یا یوں کہا: اگرچہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذلت ہو میں پرواہ نہیں کرتا۔
کاتب وحی خلیفۃ المسلمین سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس خطبہ سے واضح ہو گیا کہ سود نقد میں نہیں ہے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے نقد سودے کو سود نہیں سمجھا بلکہ انہوں نے اس میں سود سمجھنے والوں کے موقف کے خلاف واضح طور پر ممبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور اپنی تعجب اور حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ کیا حال ہے لوگوں کا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں روایت کرتے ہیں جن کو ہم نے نہیں سنا اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میرے مؤقف کے حق میں فیصلہ کن ثابت ہوئی ہے اور میں نے اسی بات پر مباہلہ کا چیلنج دیا تھا کہ سود نقد میں نہیں ہے اور مسلم شریف کی دو حدیثوں میں واضح تضاد موجود ہے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ واضح خطبہ کی موجودگی میں متضاد حدیث کی تاویل کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
حدیث پر کامل عبور رکھنے والے محققین علمائے کرام ربا کے متعلق مسلم شریف کی دو متضاد حدیثوں (کھجور والی اور نقد والی حدیث) پر مزید تحقیق کریں۔ اس بات کو ضرور یاد رکھیں کہ قرآن شریف کی آیتوں (سورہ بقرہ آیت نمبر 278، 279، 280) میں صرف اور صرف ادھار والے سود کا ذکر ہے، جبکہ پورے قرآن میں نقد میں سود کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ قرآن کی روشنی میں بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ صحیح ثابت ہوتے ہیں۔
صحیح مسلم میں بظاہر دو متعارض احادیث میں تطبیق
بعض لوگ سرسری طور پر احادیث کے مطالعہ کے بعد جب انہیں حدیث کے صحیح معنی آشکارا نہیں ہوتے تو وہ جھٹ سے اسے قرآن مجید کے خلاف یا دو صحیح احادیثوں کو متصادم قرار دے کر باطل ہونے کا فتوی دیتے ہیں جو کہ جہالت اور انکار حدیث کی سازش میں ہاتھ بٹانے کے مترادف ہے، صحیح مسلم کے بارے میں خود امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ليس كل شيئ عندي وضعته هٰهنا إنما وضعت ههنا ما أجمعو إليه.» [صحيح مسلم، باب أتشهد فى الصلاة]
میں صحیح مسلم میں ہر وہ حدیث نہیں لکھتا جو میرے نزدیک صحیح ہے، مسلم میں تو صرف وہ احادیث لکھی ہے جس پر اجماع ہو چکا ہے۔
غور فرمائیں صحیح مسلم کی تمام تر صحیح احادیث پر امت کا اجماع ہے اور صحابہ سے لے کر آج تک بڑے بڑے احادیث کے فن میں ماہر گزرے اور وہ صحیح مسلم کی احادیث پر عمل کرتے رہے اور اسے حق سمجھتے رہے، لیکن آج سینکڑوں سال بعد ایک شخص کو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ حدیث صحیح نہیں اور وہ اس کا خوب اعلان کرتا پھرتا ہے، غور کیجئے آج سے قبل جو بھی ان احادیث کو صحیح مانتے تھے کیا وہ سب گمراہ تھے؟ یا ان کو وہ بات سمجھ میں نہ آئی، آج ایسے شخص کو سمجھ میں آئی جو عربی متن پڑھنے کے بھی قابل نہیں۔
قارئین کرام! یہ سب کچھ ذہنوں کی افتراعات ہیں، بخاری و مسلم میں جو مرفوع اور متصل احادیث ہیں ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہونے میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں، اب ہم یہاں مسلم کی وہ روایات نقل کئے دیتے ہیں جنہیں ایک دوسرے کے ساتھ متصادم ٹھہرا کر رد کر دیا گیا۔
امام مسلم رحمہ اللہ کتاب المساقات میں حدیث ذکر فرماتے ہیں:
«عن أسامة بن زيد رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا ربا فيما كان يدا بيد.» [صحيح مسلم، ج 4، ص: 219 كتاب البيوع]
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ربا (سود) نہیں ہے نقد از نقد میں۔
مذکورہ حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ نقد از نقد میں سود نہیں ہوتا، لیکن اس کے خلاف دوسری حدیث جو کہ صحیح مسلم، کتاب البیوع المساقات والمزارعات میں نقل فرمائی گئی ہے:
«عن أبى سعيد رضي الله عنه يقول: جاء بلال رضي الله عنه بتمر برني فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: من اين هذا؟ . . . . .» [صحيح مسلم، ج 4، ص: 215]
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ برنی (میں ایک عمدہ قسم کی) کھجور لے کر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ کہاں سے لائے؟ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس خراب قسم کی کھجور تھی تو دو صاع اس کو دے کر میں نے ایک صاع اس کا آپ کے کھانے کیلئے خریدا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: افسوس! یہ تو عین سود ہے، ایسا مت کر، لیکن جب تو کھجور خریدنا چاہے تو اپنی کھجور بیچ ڈال پھر اس کی قیمت کے بدلے دوسری کھجور خرید لے۔
پہلی حدیث سے بظاہر معلوم ہوا کہ نقد از نقد سود نہیں۔ لیکن دوسری حدیث جو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ یہ ثابت کر رہی ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے نقد ہی سودا کیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عین سود قرار دیا، لہذا ان دونوں احادیث میں سے کس حدیث کو سچا مانا جائے گا؟ کون سی حدیث کو عمل کے قابل سمجھا جائے گا؟
جواب: اگر سرسری طور پر قرآن مجید کا بھی مطالعہ کیا جائے تو وہاں بھی اس طرح کے اعتراضات کے انبار لگ جائیں گے اسی لئے قرآن مجید نے اعلان فرمایا کہ:
« ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ » اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے۔ [النحل: 43]
لہذا اپنی اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے بہتر یہی ہے کہ اہل فن کی تصریحات اور ان کے علم سے فوائد حاصل کئے جائیں۔
قارئین کرام! مذکورہ بالا دونوں حدیثوں میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہے، بلکہ دونوں صحیح اور اپنی جگہ درست ہیں کیونکہ ان دونوں احادیث کا تعلق اپنے موقع اور محل کے ساتھ ہے۔ وہ حدیث جس میں مذکور ہے کہ نقد از نقد سود نہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ جنس مختلف ہوں، اگر جنس میں تبدیلی ہو گی تو سود کی شکل بن سکتی ہے، جیسا کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ ایک اور حدیث موجود ہے جو ان دونوں احادیث کا مقام اور محل کو اپنی جگہ صحیح ثابت کرتی ہے۔ اور وہ حدیث ان دونوں کے تعارض کو دور کرتی ہے:
«عن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم التمر بالتمر، الحنطة بالحنطة، و الشعير بالشعير، والملح بالملح، مثلا بمثل، يدا بيد، فمن ذاد أو استذاد فقد أربى، إلا ما اختلف ألوانه.» [صحيح مسلم، كتاب المساقات، رقم الحديث: 1588]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیچو کھجور کو کھجور کے بدلے اور گیہوں کو گیہوں کے بدلے اور جو کو جو کے بدلے برابر برابر نقد از نقد، پھر جو کوئی زیادہ دے یا زیادہ لے تو سود ہو گیا مگر جب قسم بدل جائے (تو زیادہ اور کمی درست ہے)۔
غور فرمائیں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مخالف ہرگز نہیں کیونکہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دو صاع گھٹیا کھجور دے کر ایک صاع اچھی کھجور خریدی، لہذا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث نے یہ واضح کر دیا کہ نقد از نقد میں قسم کی تبدیلی نہیں ہے تو زیادہ دے کر کم چیز خریدنا عین سود ہے، اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے بھی زیادہ کھجور دے کر کم کھجور خریدا، اسی تبدیلی کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عین سود قرار دیا، اگر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ جنس کی تبدیلی کے ساتھ سودا کرتے، مثلا گیہوں کے بدلے نمک یا جو کے بدلے گیہوں خریدتے تو سود نہ ہوتا، یہی مراد ہے ان دونوں احادیث کی، لہذا ان میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہے۔ اب ان دونوں احادیث میں بخوبی تطبیق قائم ہو گئی اور کسی قسم کا کوئی تعارض باقی نہ رہا، اس کے باوجود اگر کوئی تعارض پیش کرے اور وہ یہ کہے کہ مجھ پر الہام ہوا ہے تو یہ الہامی بشر نہ ہو گا بلکہ یہ الہامی گرگٹ تو ضرور ہو سکتا ہے، کیونکہ حدیث صحیحہ دین کا اثاثہ ہے اس کے خلاف الہام نہیں بلکہ وسوسات ہوا کرتے ہیں جو شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں۔ مزید سنیے:
صحیح مسلم کی ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«. . . . . فإذا اختلف هذه الأصناف فبيعوا كيف شئتم إذا كان يدا بيد.» جب قسم بدل جائے (مثلا گیہوں جو کے بدلے) تو جس طرح چاہے بیچو (کم و بیش) پر نقد ہونا ضروری ہے۔
اب اس حدیث نے نقد از نقد سود نہیں ہے کو واضح کر دیا کہ جنس میں تبدیلی ہو اور نقد سودا ہو تو سود نہیں ہے، اگر قسم ایک ہے اور کمی بیشی ہے تو عین سود ہے۔
تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ جس حدیث میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ نقد از نقد سود نہیں اس سے مراد جب جنس مختلف ہوں، اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں نقد از نقد ہی سودا ہوا تھا تو وہ سود اس لئے قرار دیا گیا کہ وہ جنس ایک ہی تھی، کیونکہ سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما کی حدیث نے خلاصہ کر دیا اگر جنس ایک ہی ہو تو اس کی کمی بیشی ربا (سود) ہوا کرتی ہے۔
اب ہم اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کریں گے۔
یہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ ایک قرآن مجید کی آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے اور ایک حدیث دوسری حدیث کی تفسیر کرتی ہے، اس بنیادی قاعدہ سے ایک پہلی جماعت کا طالب علم بھی واقف ہے، بظاہر کسی حدیث کو دیکھ کر اگر دوسری حدیث سے متعارض معلوم ہوتی ہے تو وہ ضروری نہیں کہ واقعتا ہی وہ تعارض ہو کیونکہ اس قسم کا ظاہری تعارض تو قرآن مجید میں بھی موجود ہے کہ دو آیات بظاہر ایک دوسرے کے خلاف دکھائی دیتی ہیں، مگر تیسری آیت ان دونوں کے تعارض کو رفع کرتی ہے۔ مثلا اللہ تعالی فرماتا ہے:
« ﴿فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ o خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ﴾ » [هود: 106-107]
لیکن جو بد بخت ہوئے وہ دوزخ میں ہوں گے، وہاں چیخیں گے چلائیں گے، وہ وہیں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین برقرار ہیں۔
مذکورہ آیت میں اللہ تعالی نے آسمان اور زمین کے برقراری تک کافروں کو دوزخ میں رہنے کا اعلان فرمایا، مگر دوسری آیت ان جہنمیوں کے بارے میں کچھ اور اعلان کرتی نظر آرہی ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
« ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ » [البقرة: 39]
اور جو انکار کر کے ہماری آیات کو جھٹلائیں وہ جہنمی ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
سورہ البقرہ کی آیت اس مسئلہ پر دلالت کرتی ہے کہ جہنمی لوگ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے، وہ کافر جہنم سے کبھی بھی نہ نکل پائیں گے، مگر سورہ ہود کی آیت ان جہنمی لوگوں کو ہمیشہ کا عذاب نہیں بلکہ آسمان و زمین کے قائم رہنے تک عذاب کی وعید سنا رہی ہے، بظاہر ان دونوں آیات میں تعارض موجود ہے، اور اگر کوئی مستشرق بھی اس معترض کی طرح یہ رٹ لگائے اور یہ رٹہ لگاتا جائے کہ میں چیلنج کرتا ہوں تمام علماء کو کہ وہ ان دونوں آیات کے تعرض کو دور کریں، جب علماء جواب دیں تو وہ کہے کہ میں نہ مانوں میرے نزدیک تو تعارض ہے . . . . .، تو بتایئے اب کس طرح اس مستشرق کو سمجھایا جائے؟ حالانکہ دونوں آیات میں جو بظاہر تعارض ہے اس تعارض کو تیسری آیت رفع کرتی ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
« ﴿يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ﴾ » [ابراهيم: 48]
جس دن زمین اس زمین کے سوا اور ہی بدل دی جائے اور آسمان بھی، اور سب کے سب اللہ واحد غلبے والے کے روبرو ہوں گے۔
سورہ ابرا ہیم کی آیت مبارکہ نے ان دونوں آیات کے تعارض کو رفع کر دیا کہ قیامت کے وقت ان آسمانوں اور زمینوں کو تبدیل کر دیا جائے گا، یعنی سورہ ہود میں جس آسمان اور زمین کا ذکر کیا گیا ہے وہ دنیاوی نہیں بلکہ وہ آسمان اور زمین ہونگے جن کو دائمی اللہ تعالی بر قرار رکھے گا، اسی بات کو قرآن مجید کے شارح سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا (جن کی حدیث میں معترض کو تعارض جا بجا نظر آتاہے) جن کو قرآن کی تبیان تفسیر اور اس کے خلاصہ کے منصب پر اللہ تعالی نے خود فائز فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ جب آسمان و زمین بدل دیئے جائیں گے تو لوگ اس دن کہاں ہوں گے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صراط پر یعنی پل صراط پر۔ [صحيح مسلم، صفة القيامة]
قارئین کرام! آپ نے پڑھا اور سمجھا کہ بظاہر دونوں آیات میں تعارض تھا مگر تیسری آیت نے ان دونوں آیات میں مناسبت اور تطبیق مہیا فرما دی۔
بعین اسی طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نقد از نقد میں سود نہیں ہے، اور دوسری حدیث کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دو صاع برنی کھجور دے کر جو گھٹیا تھیں ایک صاع اچھی کھجور خرید لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عین سود ہے، حالانکہ یہ سودا بھی نقد ہو رہا
ہے۔ بظاہر ان دونوں احادیث میں تعارض موجود ہے جس طرح قرآن مجید میں بظاہر تعارض تھا، مگر تیسری حدیث نے اس تعارض کو دور فرما دیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بیچو کھجور کو کھجور کے بدلے اور گیہوں کو گیہوں کے بدلے اور جو کو جو کے بدلے برابر برابر نقد از نقد، پھر جو کوئی زیادہ لے تو سود ہو گیا مگر جب قسم بدل جائے (مثلا کھجور گیہوں کے بدلے، جو نمک کے بدلے وغیرہ، تو زیادہ اور کم درست ہے)۔
اس تیسری حدیث نے واضح کیا کہ جب جنس ایک ہو یعنی کھجور کھجور کے بدلے، جو جو کے بدلے، اور اس میں کمی بیشی ہوگی تو وہ سود ہو گا، اور اگر جنس تبدیل ہو گی تو کمی بیشی جائز ہے نقد پر، لہذا واضح ہوا کہ جس حدیث میں یہ فرمایا گیا کہ نقد میں سود نہیں اس سے مراد وہ تجارت ہے جو جنس کی تبدیلی کے ساتھ ہو گی، اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ والی حدیث اس پر دال ہے کہ اگر جنس مختلف نہ ہوں تو کمی بیشی نقد میں بھی سود ہو گی۔
اس نکتہ کو بھی یاد رکھا جائے جس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ سود ادھار میں ہے اس حدیث کا ایک اور حصہ بھی ہے جس میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس حدیث کا تعلق اجناس کی تبدیلی کے ساتھ مشروط ہے، اور اس کا تعلق ہرگز ایک جنس والی حدیث سے نہیں ہے۔ (جیسے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ والی حدیث) کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا ہے: گیہوں کو جو اور سونے کو چاندی کے بدلے بیچنا کیسا ہے؟ (یعنی مختلف اجناس ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا ربا إلا فى النسية» سود ادھار میں ہے۔ دیکھیے امام سرخسی کی [المبسوط، ج 12]، اب اس حدیث سے بایں طور پر واضح ہو گیا کہ سود ادھار میں ہے کا تعلق جنس کی تبدیلی کے ساتھ مشروط ہے۔ اب اسے زبردستی سیدنا بلال رضی اللہ عنہ والی حدیث سے متصادم ٹھہرا کر اسے رد کر دینا یہ صرف نفس کی اتباع اور اپنے مذموم عقائد کی آبیاری ہی ہے۔
یہ ہے جواب ان احادیث کا جنہیں معترض سمجھنے سے قاصر رہے یا وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے، اللہ بہتر جانتا ہے دلوں کے حالات کو، ہم تو یہی کہیں گے:
«إن كنت تدري فتلك مصيبة»
«وإن كنت لا تدري فالمصيبة أعظم»
دو معروف صحابی سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم بھی ابتداء میں اس بات کے قائل تھے کہ نقد سودے میں سود نہیں ہوا کرتا۔ مگر جب ان تک حدیث پہنچی تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع فرما لیا، امام مسلم رحمہ اللہ ذکر فرماتے ہیں:
«عن أبى نضرة قال: سئلت ابن عمر و ابن عباس عن الصرف، فلم يربا به بأسا، فإني لقاعد عند أبى سعيد الخدري رضى الله عنه، فسألته عن الصرف، فقال: ما ذاد فهو ربا، فانكرت ذالك لقولهما، فقال: ألا أحدثك إلا ما سعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، جاء صاحب نخلة بصاع من تمر طيب وكان تمر النبى صلى الله عليه وسلم هذا اللون، فقال له النبى صلى الله عليه وسلم: إني لك هذا؟ قال: انطلقت بصاعين . . . . .» [رواه مسلم، كتاب المساقات، رقم الحديث: 4087]
ابونضرہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے پوچھا صرف کے بارے میں (یعنی سونے چاندی کی بیع کو سونے چاندی کے بدلے، یعنی ایک ہی جنس ہو) انہوں نے اس بیع میں کوئی قباحت نہیں دیکھی (اگرچہ کمی بیشی ہو بشرطیکہ نقد از نقد ہو)، پھر میں بیٹھا تھا سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کے پاس، ان سے میں نے پوچھا صرف کو، انہوں نے فرمایا کہ جو زیادہ ہو وہ ربا ہے۔ میں نے اس کا انکار کیا بوجہ سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم کے کہنے پر، سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تجھ سے نہیں بیان کرونگا مگر جو سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کھجور والا ایک صاع عمدہ کھجور لے کر گیا (یہ اسی حدیث سے ملتا جلتا مفہوم ہے جس کا معترض نے انکار کیا ہے جو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مسلم شریف میں نقل کیا گیا ہے)، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھجور اس قسم کی تھی، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کھجور کہاں سے لایا؟ وہ بولا: میں دو صاع کھجور لے کر گیا اور اس کے بدلے ایک صاع اس کھجور کو خریدا، کیونکہ اس کا نرخ بازار میں ایسا ہی ہے اور اس کا نرخ ایسا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خرابی ہو تیری، سود دیا تو نے، جب تو ایسا کرنا چاہے تو اپنی کھجور کسی اور شے کے بدلے بیچ ڈال پھر اس شے کے بدلے جو کھجور تو چاہے خرید لے۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: تو کھجور جب کھجور کے بدلے دی جائے تو اس میں سود ہو، تو چاندی جب چاندی کے بدلے دی جائے (کمی زیادتی کے ساتھ) تو اس میں سود ضرور ہو گا (اگرچہ نقد از نقد ہو)۔ ابونصرہ نے فرمایا کہ پھر میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو اس کے بعد انہوں نے بھی منع کیا (کہ اگر جنس ایک ہی ہے اور اس میں کمی زیادتی ہے چاہے وہ نقد پر ہو تو وہ جائز نہیں) اور میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس نہیں گیا۔ لیکن مجھ سے ابوالصہباء نے حدیث بیان کی، انہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا مکے میں تو آپ نے بھی اس بیع کو مکروہ جانا (یعنی سیدنا ابن
عمر رضی اللہ عنہما کی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی اپنے موقف کو حدیث ملتے ہی تبدیل کر دیا)
۔
بلکہ امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک الحاکم میں یہاں تک حدیث کا اضافہ کیا ہے کہ:
«إنه رجع عن ذالك لما ذكر له ابوسعيد حديث الذى فى الباب واستغفر الله وكان ينهى عنه أشد.»
جب سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تک) پہنچی تو آپ نے اللہ سے استغفار کیا اور (اپنے سابقہ موقف سے)
سختی سے روکتے۔
امام حازمی نے مزید نقل فرمایا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ارشاد فرمایا:
«كان ذالك برائيي وهذا ابوسعيد الخدري يحدثني عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فتركت رأيي إلى حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم» [نيل الأوطار، ج 5، ص: 250]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ (نقد از نقد سودے پر سود نہیں ہوتا جب ایک جنس ہو) یہ میری رائے تھی اور سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے ہمیں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرمائی ہے اور میں اپنی رائے کو ترک کرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے لیے۔
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے زیاد رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام تھے۔ آپ نے فرمایا:
«فرجع عن الصرف قبل أن يموت بسبعين يوما» [مصنف عبدالرزاق، رقم: 14548]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیع صرف سے اپنے انتقال سے ستر (70) روز قبل رجوع فرمایا۔
امام طبرانی رحمہ اللہ نے معجم الکبیر میں فرمایا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیع صرف کے معاملے میں اللہ تعالی سے بخشش طلب کرتے اور فرماتے: «استغفر الله و أتوب إليه من الصرف» ۔
ڈاکٹر واہبۃ الذہیلی حفظ اللہ نے فرمایا کہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کہ سود ادھار میں ہے اور وہ حدیث جو ایک جنس کے ساتھ ہو اور کمی بیشی ہو سود ہے۔ ان دونوں احادیث پر سود کے حکم پر تابعین کا اجماع ہے۔ [الفقة الإسلامية، ج 5، ص: 373]
اس حدیث سے واضح طور پر صحابہ کا اپنے موقف سے رجوع کرنا ثابت ہو گیا الحمدللہ کیونکہ صحابہ کا موقف صحیح حدیث ہوا کرتا ہے، یہ لوگ حدیث کے مقابلے میں قیاس، یا ایک صحابی حدیث کے مقابلے میں کسی دوسرے صحابی یا شخص کی بات کو قبول نہیں کرتے تھے بلکہ حدیث ملنے پر تمام قیاسات کو ترک کر کے حدیث کو قبول فرماتے اور اس کے مطابق عمل کرتے۔
قارئین کرام! غور فرمایئے جس حدیث پر معترض نے چیلنج کیا اس موقف سے صحابہ کرام نے رجوع کر لیا تھا اور سیدنا بلال، سیدنا عبادہ بن صامت، سیدنا ابوسعید الخدری اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی احادیث کو قبول فرمایا۔
بہت خوبصورت بات کہی امام نووی رحمہ اللہ نے، آپ فرماتے ہیں:
«معنى ما ذكره أولا من ابن عمر رضي الله عنهما و ابن عباس رضي الله عنهما: أنهما كانا يعتقد أنه لا ربا فيما كان يدًا بيد، و أنه يجوز بيع درهم بدرهمين، و دينار بدينارين . . . . . وكان معتمدهما حديث أسامة بن زيد إنما الربا فى النسيئة ثم رجع ابن عمر و ابن عباس عن ذالك حين بلغهما حديث أبى سعيد، كما ذكره مسلم من رجوعهما صريحًا وهذه الأحاديث التى ذكرها مسلم تدل على أن ابن عمر و ابن عباس لم يكن بلغهما حديث النهي عن التفاضل فى غير النسيئة فلما بلغهما رجعا إليه.» [الديباج، ج 4، ص: 136]
پہلے سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم کا یہ مذہب تھا کہ جب نقد از نقد بیع ہو تو کمی بیشی ربا نہیں ہوتا، اگرچہ ایک ہی جنس ہو، اور جائز رکھتے تھے ایک ہی درہم کی بیع کو دو درہم کے بدلے، اور ایک دینار کی بیع کو دو دینار کے بدلے، اور ایک صاع کھجور کو دو صاع کھجور کے بدلے، اور اسی طرح گیہوں اور تمام ربوی اجناس میں وہ کم و بیش بیچنا جائز رکھتے تھے۔ بشرطیکہ دست بدست ہو اور جو ادھار ہو وہ ربا ہو گا، پھر ان دونوں صحابہ نے رجوع کر لیا کیونکہ ممانعت والی حدیث ان تک نہیں پہنچی تھی، جب پہنچ گئی تو دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے اپنے موقف سے رجوع فرما لیا۔
ان احادیث اور اقتباسات سے یہ بات مترشح ہوئی ہے کہ سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس یہ دونوں کبار صحابہ رضی اللہ عنہما نے اپنے موقف کو تبدیل کیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما قرآن مجید کے بہت بڑے عالم تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن کے علم کی دعا دی تھی اور یہ دعا قبول ہوئی جس کی پاداش میں آپ صحابہ میں بہت بڑے مفسر قرآن مشہور ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود جب حدیث آئی توآپ رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کیا جیسا کہ معترض نے اعتراض کیا کہ پورے قرآن میں نقد میں سود کا کوئی ذکر نہیں ہے، بلکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما جو مفسر قرآن اور عالم قرآن تھے آپ نے فورا حدیث کی طرف رجوع کیا اور اپنے موقف کو تبدیل فرمایا۔ کیونکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ قرآن کی صحیح منشاء اور تعبیر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی ضم ہے۔
نوٹ: ہم آگے معترض کو قرآن مجید کی آیت کے بارے میں بھی جواب دیں گے۔ ان شاء اللہ
یہ اس بات کی مبین دلیل ہے کہ صحیح احادیث کی طرف رجوع کرنا ایمانداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیونکہ اگر معترض اپنے موقف کو تبدیل نہ کرے گا تو وہ یہ ثابت کر رہا ہے کہ سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن عمر، سیدنا عبادہ بن صامت، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا بلال، سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہم یہ سب غلط موقف پر تھے جو کہ سراسر زیادتی ہے، کیونکہ صحابہ کرام نے واضح فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: جب صحابی گواہی دے رہا ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے تو وہ واضح کر رہا ہے کہ وہ حدیث رسول ہی ہے۔ اور آپ بخوبی جانتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حدیث پر اپنی جانوں کو نچھاور فرمایا کرتے تھے۔ اور خصوصا جب وہ حدیث بیان کرتے تو وہی الفاظ یا مفہوم بیان کرتے جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
اب ہم آتے ہیں معترض کی اس دلیل کی طرف جو کہ انہوں نے
➊ سیدنا ابوہریرہ
➋ سیدنا ابوسعید
➌ سیدنا ابن عباس
➍ سیدنا ابن عمر
➎ سیدنا عبادہ بن صامت
➏ سیدنا عمر رضی اللہ عنہم
کی احادیث کے رد میں پیش کی ہے۔
معترض اپنے موقف کہ سود نقد میں نہیں ہے کو ثابت کرنے کیلئے ایک حدیث کو پیش کرتے ہیں (یہاں اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ معترض نے جو حدیث اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے پیش کی ہے وہ بھی مسلم کی ہے اور جو رد کر رہا ہے وہ بھی صحیح مسلم کی ہی ہے، بس بات اتنی سی ہے کہ جو حدیث ان کے ذہن میں آگئی وہ صحیح اور جو ان کے ذہن اور مؤقف کے خلاف ہو گی وہ متعارض ہو گی، یعنی پرکھنے کا توازن اور معیار ان کی ناقص عقل ٹھہری . . . حالانکہ حدیث کو پرکھنے کا فن اسماء الرجال بھی ہے، اس فن کے مطابق بھی دونوں احادیث سند کے اعتبار سے بےغبار اور قوی الاسناد ہیں۔ معترض لکھتا ہے:
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ منع کرتے تھے سونے کو سونے کے بدلے اور نمک کو نمک کے بدلے مگر برابر برابر نقد، پھر جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو ربا ہو گیا، یہ سن کر لوگوں نے جو لیا تھا پھیر دیا۔ سیدنا معادیہ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی، وہ خطبہ پڑھنے لگے کھڑے ہو کر: کیا حال ہے لوگوں کا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ حدیثیں روایت کرتے ہیں جن کو ہم نے نہیں سنا اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے۔ پھر سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور قصہ بیان کیا، بعد اس کے کہا: ہم تو وہ حدیث ضرور ہی بیان کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی اگرچہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا معلوم ہو یا یوں کہا: اگرچہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذلت ہو میں پرواہ نہیں کرتا۔
اس حدیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم، کتاب المساقات میں ذکر فرمایا ہے، معترض اس حدیث سے اپنا موقف ثابت کرنا چاہ رہا ہے کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے جو حدیث بیان کی (کہ نقد میں بھی سود ہو سکتا ہے)، اس کے خلاف انہوں نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول نقل فرمایا اور ان کے قول کو حدیث سمجھ کر فیصلہ کن قرار دیا اور جو صحابی صراحتا کہہ رہے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا معترض اس کو قبول کرنے سے رک رہے ہیں کیونکہ یہ حدیث جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے سنی رد ہو گئی، اس لئے کہ معترض کے موقف کے خلاف ہے اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جو بات کہہ رہے ہیں وہ حدیث نہیں بیان کر رہے مگر ان کا قول ہے، اور وہ مقبول ٹھہرا کیوں کہ وہ معترض کے موقف کی تائید میں ہے۔ اگر ہم حدیث کے الفاظ پر غور کریں تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«ما بال رجال يتحدثون عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أحاديث قد كنا نشهده و نصحبه فلم نسمعها منه.»
یعنی کیا حال ہے لوگوں کا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث بیان کرتے ہیں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی لیکن ہم نے یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان کہ ہم نے یہ حدیث نہیں سنی، تو معلوم ہوا کہ یہ حدیث جس کا ذکر سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کر رہے ہیں یہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے علم میں نہ تھی، چنانچہ یہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ ہر حدیث کا علم ہر صحابی کو نہ ہو اور نہ ہی ہر حدیث کا ادراک ہر صحابی کو ہو سکا۔ ایک مشہور حدیث کہ دیت میں تمام انگلیاں برابر ہیں۔ یہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کی اپنی امارت کے وقت پہنچی، اس سے قبل ان کو اس حدیث کا علم نہ تھا۔ [ديكهيے فتوی امام ابن تيميہ رحمہ الله، ج 2، ص 436]
حتی کہ کبار صحابہ، خلفاء راشدین، عشرہ مبشرہ، اصحاب بدر، اصحاب احد رضی اللہ عنہم تک بھی تمام احادیث کا پہنچنا ثابت نہیں۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر بڑی تفصیلی بحث کی ہے۔ مزید دلائل کے لیے اعلام الموقعین، ج 4، صفحہ 19 کا مطالعہ مفید رہے گا۔ لہذا اسی طریقے سے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تک بھی یہ حدیث نہیں پہنچی تھی، اس لیے وہ اس کا انکار کر رہے تھے۔
چیلنج:
میرا تمام معترضین کو چیلنج ہے کہ وہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس قول کو حدیث ہونا ثابت کر دیں، کیونکہ معترض یہی ثابت کر رہا ہے کہ یہ حدیث ہے، جیسا کہ اس نے اپنے خط یا اقتباسات میں تحریر کیا ہے (یاد رکھا جائے جن صحابہ نے یہ روایت کیا ہے کہ ربا نہیں ہے نقد میں اس حدیث کا تعلق اجناس کی تبدیلی کے ساتھ مشروط ہے، اور سیدنا عبادہ بن صامت اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کی گفتگو کا تعلق ایک ہی جنس پر سودے کے ساتھ ہے، ایک ہی جنس میں اگر کمی بیشی ہو گی یہ سود ہو گا، اور اس کو سود نہ قرار دینے پر کوئی حدیث نہیں، اسی لئے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ دلیل مہیا نہ کر سکے اور ہمارا چیلنج بھی اسی مسئلے کے ساتھ خاص ہے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے وہ حدیث ثابت کریں کہ ایک جنس میں اگر بیع ہو نقد از نقد تو کمی بیشی ہرگز سود نہیں ہوتی)۔ ہم یہ بات بہت رسوخ سے کہہ رہے ہیں کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کوئی حدیث نقل نہیں کی بلکہ وہ ان کی ایک رائے تھی جو کہ حدیث نا معلوم ہونے کی واضح دلیل ہے، کئی ایسے صحابہ کرام موجود ہیں جنہیں کئی مسائل کا علم یا احادیث کا علم نہ ہو سکا اور بعد میں ان تک احادیث کو پہنچایا گیا اور انہوں نے رجوع کیا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جو اس بات کا اعتقاد رکھے کہ ہر صحیح حدیث ہر ائمہ یا معین امام تک پہنچی تو وہ فحش اور قبیح غلطی کر رہا ہے۔ [رفع الاعلام، ص: 238]
میرے خیال سے معترض اس بات سے بھی ناواقف ہوں گے کیونکہ یہ علم حدیث سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے، میرا ایمان یہ ہے کہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کسی امتی، حتی کہ بڑی سے بڑی ہستی کی بھی بات نہیں مانی جائے گی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی اتباع لازمی ہوگی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کا نفاذ ہو گا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
« ﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ » [النساء: 65]
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ ایمان دار نہیں ہو سکتے جب تک تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلہ آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔
آیت مذکورہ نے یہ واضح کیا کہ فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی چلے گا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے رو گردانی کرتا ہے وہ اپنے ایمان کی خیر منائے۔
ہمیں تمام اقوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے اقوال کو ترجیح دینی ہو گی، اب ہم یہ واضح کریں گے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ عدم حدیث کی وجہ سے آپ نے لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا کیونکہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ حدیث بیان کر رہے تھے اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے موقف کی حدیث ہوتی تو وہ اپنے موقف کی تائید کے لئے حدیث کا سہارا لازمی لیتے یا حدیث پیش کرتے۔ مذکورہ مسئلے میں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کا قول واضح ہے کہ وہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرما رہے تھے اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حدیث نہیں بلکہ اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔
جی وہ اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے اور یہ تمام مسلمان جانتے ہیں کہ حدیث کے مقابلے میں کسی کی بھی رائے قبول نہ ہو گی بلکہ رائے کو چھوڑ دیا جائے گا اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کیا جائے گا، یہی رسالت کا حق ہے۔
قبیصہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سیدنا عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ نے جو (بیعت عقبہ میں) انصار کے نمائندے تھے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی معیت میں روم کے علاقے میں جہاد کیا۔ (وہاں) انہوں نے دیکھا کہ لوگ سونے کی ڈلیوں کے بدلے دیناروں کا اور چاندی کی ڈلیوں کے بدلے درہموں کا لین دین کر رہے ہیں۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو! تم سود کھا رہے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: سونے کو سونے کے بدلے نہ بیچو مگر برابر برابر، نہ اس میں زیادتی ہو اور نہ ادھار۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابوالولید! میرے خیال میں سود وہی ہے جو ادھار ہو۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں آپ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سناتا ہوں اور آپ مجھے اپنی رائے بتاتے ہیں، اگر اللہ تعالی مجھے (اس جہاد سے سلامت) واپس لے گیا تو میں اس علاقے میں نہیں رہوں گا جہاں مجھ پر آپ رضی اللہ عنہ کی حکومت ہو۔ جب وہ جہاد سے واپس ہوئے (تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شام جانے کے بجائے) مدینہ جا پہنچے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابوالولید! آپ یہاں کیوں تشریف لائے؟ سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ نے واقعہ بیان کیا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہنے کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ بھی بیان فرما دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابوالولید! اپنے علاقے میں واپس چلے جایئے، اللہ برا کرے اس علاقے کا جس میں آپ اور آپ جیسے افراد نہ ہوں، اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھ کر بھیجا: سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ پر آپ کی کوئی حکومت نہیں اور سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کہا ہے (یعنی جو حدیث نقل کی ہے) لوگوں سے اسی کے مطابق عمل کراؤ، کیونکہ (شریعت) کا حکم یہی ہے۔
نوٹ: خط کشیدہ الفاظ قابل غور ہیں۔
مذکورہ حدیث نے واضح کر دیا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ صرف رائے تھی، اگر وہ اپنی رائے سے بات نہ کرتے تو فرماتے کہ میرے پاس بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا، مگر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ سننا کہ یہ آپ کی رائے ہے اور پھر اس کے بعد آپ کا خاموش ہونا مبین دلیل ہے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے موقف کی کوئی دلیل نہ تھی . . . اور حدیث کے آخری الفاظ جس میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگوں کو اسی کے مطابق عمل کراؤ جو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی ہے اور یہی (شریعت) کا حکم ہے، لہذا اب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے موقف کے اتباع کرنے والے ہو گئے کیونکہ سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس واضح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس دلیل نہ تھی وہ صرف اپنی رائے کا اظہار فرمارہے تھے۔(1)
(1) سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کبار صحابہ اور کاتبین وحی میں شمار تھے، ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ تمام صحابہ کی توقیر اور عزت کریں اور صحابہ کے لئے کسی قسم کی خلش دل میں پیدا نہ کریں کیونکہ یہ وہ پاکیزہ جماعت تھی جن سے اللہ تعالی راضی ہو چکا ہے، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حدیث کا رد کرنے والے نہ تھے، یہ واقعہ سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کا اس لئے پیش آیا کہ اس وقت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس حدیث موجود نہ تھی، اگر آپ کے پاس حدیث موجود ہوتی تو آپ کبھی بھی اپنی رائے کو مقدم نہ کرتے بلکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مقدم رکھتے، لہذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت اونچے اور عظیم ہیں، ان کیلئے رائی کے دانے کے برابر بھی دل میں خرابی پیدا کرنا ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے مترادف ہے۔ (محمد حسین میمن)
اب فیصلہ قارئین آپ کیجئے کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں یا معترضین کی طرح قیاس و آراء پر؟ کیوں کہ دین قرآن و صحیح حدیث کا نام ہے، آراؤں اور قیاسوں کا نام نہیں ہے۔
الحمدللہ ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ معترضین نے دھڑلے سے جس موقف پر مباہلہ کا اعلان کیا ہے وہ موقف ہی رائے پر قائم ہے۔
معترض سو مرتبہ ہمارے پیش کردہ دلائل کو پڑھیں اور سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرح حدیث قبول کرنے والا بنیں، خواہ مخواہ ہی حدیث کے خلاف قیاس اور اٹکل کے گھوڑے نہ دوڑائیں، ان کو اس فعل پر شہرت ضرور ملے گی مگر اللہ کی ولایت نہیں، کیونکہ اللہ تعالی کی ولایت صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو قبول کرنے میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہی ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
اے نبی! فرما دیں کہ تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ بھی تم سے محبت کرے گا۔ [آل عمران: 31]
قارئین کرام! کئی صحابہ ایسے ہیں جن تک احادیث نہیں پہنچیں، بظاہر ان کا فتوی حدیث کے مطابق نہ ہوتا مگر جوں ہی حدیث کے علم کا انہیں ادراک ہوتا وہ فورا بغیر کسی چوں چرا کے اپنے موقف سے رجوع کرتے۔ ایک قاعدہ یہاں ذکر کرتا چلوں کہ اگر کوئی صحابی یہ کہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فلاں حدیث نہیں سنی اور اسی مسئلہ میں دوسرے صحابی یہ کہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنی ہے تو بات اس صحابی کی مانی جائے گی جو یہ کہتا ہے کہ میں نے سنی ہے، کیونکہ جس صحابی نے انکار کیا تو وہ ایک عذر ہے کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا۔ لہذا سیدنا امیر معاویہ رضی
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 336   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2312  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں اگرچہ واپس کرنے کی صراحت نہیں ہے، تاہم امام بخاری ؒ نے اپنی عادت کے مطابق اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے امام مسلم ؒ نے بیان کیا ہے:
انھیں واپس کرو کیونکہ یہ سودی معاملہ ہے۔
(صحیح مسلم، المساقاةوالمزارعة، حدیث: 4084(1594)
دراصل اس قسم کا واقعہ دو مرتبہ پیش آیا:
ایک واقعہ تحریم ربا سے پہلے کا ہے، وہاں آپ نے اس بیع کو مسترد کرنے کا حکم نہیں دیا اور دوسرا تحریم ربا کے بعد کا ہے، اس میں رسول اللہ ﷺ نے اس بیع کو مسترد کرنے کا حکم دیا۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر وکیل نے کوئی بیع فاسد کر ڈالی ہے تو یہ نافذ نہیں ہوگی بلکہ اسے مسترد کرتے ہوئے سودا واپس کرنا ہوگا۔
(فتح الباري: 417/4) (3)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سود حرام ہے اور اسے کسی صورت میں لینا جائز نہیں اگرچہ وہ کسی وجہ سے ہمارے اکاؤنٹ میں جمع ہی کیوں نہ ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2312   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.