10. باب: کسی نے ایک شخص کو وکیل بنایا پھر وکیل نے (معاملہ میں) کوئی چیز (خود اپنی رائے سے) چھوڑ دی (اور بعد میں خبر ہونے پر) موکل نے اس کی اجازت دے دی تو جائز ہے اسی طرح اگر مقرر مدت تک کے لیے قرض دے دیا تو یہ بھی جائز ہے۔
(10) Chapter. If a person deputes somebody, and the deputy leaves something, and the owner agrees that, then it is allowed, and the deputy lends something of what is in his custody, for a specific time, it is permissible (if the owner agrees).
وقال عثمان بن الهيثم ابو عمرو: حدثنا عوف، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال:" وكلني رسول الله صلى الله عليه وسلم بحفظ زكاة رمضان، فاتاني آت فجعل يحثو من الطعام فاخذته، وقلت: والله لارفعنك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إني محتاج، وعلي عيال، ولي حاجة شديدة، قال: فخليت عنه فاصبحت، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا ابا هريرة، ما فعل اسيرك البارحة، قال: قلت: يا رسول الله، شكا حاجة شديدة وعيالا، فرحمته فخليت سبيله، قال: اما إنه قد كذبك وسيعود، فعرفت انه سيعود لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنه سيعود فرصدته، فجاء يحثو من الطعام فاخذته، فقلت: لارفعنك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: دعني فإني محتاج وعلي عيال لا اعود، فرحمته فخليت سبيله فاصبحت، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا ابا هريرة، ما فعل اسيرك؟ قلت: يا رسول الله، شكا حاجة شديدة وعيالا فرحمته فخليت سبيله، قال: اما إنه قد كذبك وسيعود فرصدته الثالثة، فجاء يحثو من الطعام فاخذته، فقلت: لارفعنك إلى رسول الله، وهذا آخر ثلاث مرات انك تزعم لا تعود ثم تعود، قال: دعني اعلمك كلمات ينفعك الله بها، قلت: ما هو؟ قال: إذا اويت إلى فراشك فاقرا آية الكرسي: الله لا إله إلا هو الحي القيوم سورة البقرة آية 255، حتى تختم الآية، فإنك لن يزال عليك من الله حافظ، ولا يقربنك شيطان حتى تصبح، فخليت سبيله فاصبحت، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما فعل اسيرك البارحة؟ قلت: يا رسول الله، زعم انه يعلمني كلمات ينفعني الله بها فخليت سبيله، قال: ما هي؟ قلت: قال لي: إذا اويت إلى فراشك، فاقرا آية الكرسي من اولها حتى تختم الآية: الله لا إله إلا هو الحي القيوم سورة البقرة آية 255، وقال لي: لن يزال عليك من الله حافظ، ولا يقربك شيطان حتى تصبح، وكانوا احرص شيء على الخير، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اما إنه قد صدقك وهو كذوب، تعلم من تخاطب منذ ثلاث ليال يا ابا هريرة، قال: لا، قال: ذاك شيطان".وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ الْهَيْثَمِ أَبُو عَمْرٍو: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" وَكَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ، فَأَتَانِي آتٍ فَجَعَلَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ، وَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنِّي مُحْتَاجٌ، وَعَلَيَّ عِيَالٌ، وَلِي حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ، قَالَ: فَخَلَّيْتُ عَنْهُ فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ الْبَارِحَةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً وَعِيَالًا، فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ وَسَيَعُودُ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَيَعُودُ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ سَيَعُودُ فَرَصَدْتُهُ، فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: دَعْنِي فَإِنِّي مُحْتَاجٌ وَعَلَيَّ عِيَالٌ لَا أَعُودُ، فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً وَعِيَالًا فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ وَسَيَعُودُ فَرَصَدْتُهُ الثَّالِثَةَ، فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ، وَهَذَا آخِرُ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ أَنَّكَ تَزْعُمُ لَا تَعُودُ ثُمَّ تَعُودُ، قَالَ: دَعْنِي أُعَلِّمْكَ كَلِمَاتٍ يَنْفَعُكَ اللَّهُ بِهَا، قُلْتُ: مَا هُوَ؟ قَالَ: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ: اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ سورة البقرة آية 255، حَتَّى تَخْتِمَ الْآيَةَ، فَإِنَّكَ لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ، وَلَا يَقْرَبَنَّكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ الْبَارِحَةَ؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ أَنَّهُ يُعَلِّمُنِي كَلِمَاتٍ يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهَا فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: مَا هِيَ؟ قُلْتُ: قَالَ لِي: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ، فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ مِنْ أَوَّلِهَا حَتَّى تَخْتِمَ الْآيَةَ: اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ سورة البقرة آية 255، وَقَالَ لِي: لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ، وَلَا يَقْرَبَكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ، وَكَانُوا أَحْرَصَ شَيْءٍ عَلَى الْخَيْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ، تَعْلَمُ مَنْ تُخَاطِبُ مُنْذُ ثَلَاثِ لَيَالٍ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَا، قَالَ: ذَاكَ شَيْطَانٌ".
اور عثمان بن ہیثم ابوعمرو نے بیان کیا کہ ہم سے عوف نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رمضان کی زکوٰۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ (رات میں) ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھربھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی! میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (اس کے اظہار معذرت پر) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا، اے ابوہریرہ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آ گیا۔ اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ اور وہ پھر آئے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آ کے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے رحم آ گیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آ گیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ میں پھر اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آ کر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہو گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤ گے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آ سکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر (اس کے پڑھنے سے) ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کر لینے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی یہ بات سن کر) فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا۔ لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا۔
Aur Uthman bin Haytham Abu ’Amr ne bayan kiya ke hum se ’Awf ne bayan kiya, un se Muhammed bin Sireen ne, aur un se Abu Hurairah Radhiallahu Anhu ne bayan kiya ke Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ne mujhe Ramadhan ki Zakat ki hifaazat par muqarrar farmaaya. (Raat mein) ek shakhs achaanak mere paas aaya aur ghalle mein se lap bhar bhar kar uthaane laga, main ne use pakad liya aur kaha ke qasam Allah ki! Main tujhe Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ki khidmat mein le chalunga. Us par us ne kaha ke Allah ki qasam! Main bahut mohtaaj hun. Mere baal-bachche hain aur main sakht zarooratmand hun. Abu Hurairah Radhiallahu Anhu ne kaha (us ke izhaar-e-ma’zirat par) main ne use chhod diya. Subah hue to Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ne mujh se poocha, aye Abu Hurairah! Pichhli raat tumhaare qaidi ne kya kiya tha? Main ne kaha ya Rasoolallah! Us ne sakht zaroorat aur baal-bachchon ka rona roya, is liye mujhe us par rahem aa gaya. Aur main ne use chhod diya. Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya ke woh tum se jhoot bol kar gaya hai. Aur woh phir aayega. Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ke is farmaan ki wajah se mujh ko yaqeen tha ke woh phir zaroor aayega. Is liye main us ki taak mein laga raha. Aur jab woh doosri raat aa ke phir ghalla uthaane laga to main ne use phir pakda aur kaha ke tujhe Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ki khidmat mein haazir karunga, lekin ab bhi us ki wahi iltijaa thi ke mujhe chhod de, main mohtaaj hun. Baal-bachchon ka boojh mere sar par hai. Ab main kabhi na aaunga. Mujhe rahem aa gaya aur main ne use phir chhod diya. Subah hue to Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya aye Abu Hurairah! Tumhaare qaidi ne kya kiya? Main ne kaha ya Rasoolallah! Us ne phir usi sakht zaroorat aur baal-bachchon ka rona roya. Jis par mujhe rahem aa gaya. Is liye main ne use chhod diya. Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne is martaba bhi yahi farmaaya ke woh tum se jhoot bol kar gaya hai aur woh phir aayega. Teesri martaba main phir us ke intezaar mein tha ke us ne phir teesri raat aa kar ghalla uthaana shuru kiya, to main ne use pakad liya, aur kaha ke tujhe Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ki khidmat mein pahunchaana ab zaroori ho gaya hai. Yeh teesra mauqa’ hai. Har martaba tum yaqeen dilaate rahe ke phir nahi aaoge. Lekin tum baaz nahi aaye. Us ne kaha ke is martaba mujhe chhod de to main tumhein aise chand kalmaat sikha dunga jis se Allah Ta’ala tumhein faida pahunchaayega. Main ne poocha woh kalmaat kya hain? Us ne kaha, jab tum apne bistar par letne lago to Aayat-ul-Kursi «اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ» poori padh liya karo. Ek nigraan farishta Allah Ta’ala ki taraf se barabar tumhaari hifaazat karta rahega. Aur subah tak shaitaan tumhaare paas kabhi nahi aa sakega. Is martaba bhi phir main ne use chhod diya. Subah hue to Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ne daryaaft farmaaya, pichhli raat tumhaare qaidi ne tum se kya mu’aamla kiya? Main ne arz kiya ya Rasoolallah! Us ne mujhe chand kalmaat sikhaaye aur yaqeen dilaaya ke Allah Ta’ala mujhe us se faida pahunchaayega. Is liye main ne use chhod diya. Aap ne daryaaft kiya ke woh kalmaat kiya hain? Main ne arz kiya ke us ne bataaya tha ke jab bistar par leto to Aayat-ul-Kursi padh lo, shuru «اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ» se aakhir tak. Us ne mujh se yeh bhi kaha ke Allah Ta’ala ki taraf se tum par (is ke padhne se) ek nigraan farishta muqarrar rahega. Aur subah tak shaitaan tumhaare qareeb bhi nahi aa sakega. Sahaba khair ko sab se aage badh kar lene waale the. Nabi-e-Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam ne (un ki yeh baat sun kar) farmaaya ke agarche woh jhoota tha. Lekin tum se yeh baat sach keh gaya hai. Aye Abu Hurairah! Tum ko yeh bhi ma’loom hai ke teen raaton se tumhaara mu’aamla kis se tha? Unhon ne kaha nahi. Nabi-e-Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya ke woh shaitaan tha.
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle deputed me to keep Sadaqat (al-Fitr) of Ramadan. A comer came and started taking handfuls of the foodstuff (of the Sadaqa) (stealthily). I took hold of him and said, "By Allah, I will take you to Allah's Apostle ." He said, "I am needy and have many dependents, and I am in great need." I released him, and in the morning Allah's Apostle asked me, "What did your prisoner do yesterday?" I said, "O Allah's Apostle! The person complained of being needy and of having many dependents, so, I pitied him and let him go." Allah's Apostle said, "Indeed, he told you a lie and he will be coming again." I believed that he would show up again as Allah's Apostle had told me that he would return. So, I waited for him watchfully. When he (showed up and) started stealing handfuls of foodstuff, I caught hold of him again and said, "I will definitely take you to Allah's Apostle. He said, "Leave me, for I am very needy and have many dependents. I promise I will not come back again." I pitied him and let him go. In the morning Allah's Apostle asked me, "What did your prisoner do." I replied, "O Allah's Apostle! He complained of his great need and of too many dependents, so I took pity on him and set him free." Allah's Apostle said, "Verily, he told you a lie and he will return." I waited for him attentively for the third time, and when he (came and) started stealing handfuls of the foodstuff, I caught hold of him and said, "I will surely take you to Allah's Apostle as it is the third time you promise not to return, yet you break your promise and come." He said, "(Forgive me and) I will teach you some words with which Allah will benefit you." I asked, "What are they?" He replied, "Whenever you go to bed, recite "Ayat-al-Kursi"-- 'Allahu la ilaha illa huwa-l-Haiy-ul Qaiyum' till you finish the whole verse. (If you do so), Allah will appoint a guard for you who will stay with you and no satan will come near you till morning. " So, I released him. In the morning, Allah's Apostle asked, "What did your prisoner do yesterday?" I replied, "He claimed that he would teach me some words by which Allah will benefit me, so I let him go." Allah's Apostle asked, "What are they?" I replied, "He said to me, 'Whenever you go to bed, recite Ayat-al-Kursi from the beginning to the end ---- Allahu la ilaha illa huwa-lHaiy-ul-Qaiyum----.' He further said to me, '(If you do so), Allah will appoint a guard for you who will stay with you, and no satan will come near you till morning.' (Abu Huraira or another sub-narrator) added that they (the companions) were very keen to do good deeds. The Prophet said, "He really spoke the truth, although he is an absolute liar. Do you know whom you were talking to, these three nights, O Abu Huraira?" Abu Huraira said, "No." He said, "It was Satan."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 505
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2311
حدیث حاشیہ: ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے صدقہ کی کھجور میں ہاتھ کا نشان دیکھا تھا۔ جیسے اس میں سے کوئی اٹھا کر لے گیا ہو۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اس کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا کیا تو اس کو پکڑنا چاہتا ہے؟ تو یوں کہہ سبحان من سخرك لمحمد ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے یہی کہا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ میرے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ میں نے اس کو پکڑ لیا۔ (وحیدی) معاذ بن جبل ؓ کی روایت میں اتنا زیادہ ہے اور اٰمن الرسول سے اخیر سورۃ تک۔ اس میں یوں ہے کہ صدقہ کی کھجور آنحضرت ﷺ نے میری حفاظت میں دی تھی۔ میں جو دیکھوں تو روز بروز وہ کم ہو رہی ہے۔ میں نے آنحضرت ﷺ سے اس کا شکوہ کیا، آپ نے فرمایا، یہ شیطان کا کام ہے۔ پھر میں اس کو تاکتا رہا۔ وہ ہاتھی کی صورت میں نمودار ہوا۔ جب دروازے کے قریب پہنچا تو دراڑوں میں سے صورت بدل کر اند رچلا آیا اور کھجوروں کے پاس آکر اس کے لقمے لگانے لگا۔ میں نے اپنے کپڑے مضبوط باندھے اور اس کی کمر پکڑی، میں نے کہا اللہ کے دشمن تو نے صدقہ کی کھجور اڑادی۔ دوسرے لوگ تجھ سے زیادہ اس کے حقدار تھے۔ میں تو تجھ کو پکڑ کر آنحضرت ﷺ کے پاس لے جاؤں گا۔ وہاں تیری خوب فضیحت ہوگی۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ میں نے پوچھا تو میرے گھر میں کھجور کھانے کے لیے کیوں گھسا۔ کہنے لگا میں بوڑھا، محتاج، عیالدار ہوں اور نصیبین سے آرہا ہوں۔ اگر مجھے کہیں اور کچھ مل جاتا تو میں تیرے پاس نہ آتا۔ اور ہم تمہارے ہی شہر میں رہا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ تمہارے پیغمبر صاحب ہوئے۔ جب ان پر یہ دو آیتیں اتریں تو ہم بھاگ گئے۔ اگر تو مجھ کو چھوڑ دے تو میں وہ آتیں تجھ کو سکھلا دوں گا۔ میں نے کہا اچھا۔ پھر اس نے آیت الکرسی اور اٰمن الرسول سے سورۃ بقرۃ کے اخیر تک بتلائی (فتح) نسائی کی روایت میں ابی بن کعب ؓ سے یوں روایت ہے۔ میرے پاس کھجور کا ایک تھیلا تھا۔ اس میں سے روز کھجور کم ہو رہی تھی۔ ایک دن میں نے دیکھا، ایک جوان خوبصورت لڑکا وہاں موجود ہے۔ میں نے پوچھا تو آدمی ہے یا جن ہے۔ وہ کہنے لگا میں جن ہوں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ہم تم سے کیسے بچیں؟ اس نے کہا آیت الکرسی پڑھ کر۔ پھر آنحضرت ﷺ سے اس کا ذکر آیا۔ آپ نے فرمایا: اس خبیث نے سچ کہا۔ معلوم ہوا جس کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اس میں شیطان شریک ہو جاتے ہیں۔ اور شیطان کا دیکھنا ممکن ہے جب وہ اپنی خلقی صورت بدل لے۔ (وحیدی) حافظ صاحب فرماتے ہیں: وَفِي الْحَدِيثِ مِنَ الْفَوَائِدِ غَيْرِ مَا تَقَدَّمَ أَنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ يَعْلَمُ مَا يَنْتَفِعُ بِهِ الْمُؤْمِنُ وَأَنَّ الْحِكْمَةَ قَدْ يَتَلَقَّاهَا الْفَاجِرُ فَلَا يَنْتَفِعُ بِهَا وَتُؤْخَذُ عَنْهُ فَيَنْتَفِعُ بِهَا وَأَنَّ الشَّخْصَ قَدْ يَعْلَمُ الشَّيْءَ وَلَا يَعْمَلُ بِهِ وَأَنَّ الْكَافِرَ قَدْ يَصْدُقُ بِبَعْضِ مَا يَصْدُقُ بِهِ الْمُؤْمِنُ وَلَا يَكُونُ بِذَلِكَ مُؤْمِنًا وَبِأَنَّ الْكَذَّابَ قَدْ يَصْدُقُ وَبِأَنَّ الشَّيْطَانَ مِنْ شَأْنِهِ أَنْ يَكْذِبَ وَأَنَّهُ قَدْ يَتَصَوَّرُ بِبَعْضِ الصُّوَرِ فَتُمْكِنُ رُؤْيَتُهُ وَأَنَّ قَوْلَهُ تَعَالَى إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا ترونهم مَخْصُوصٌ بِمَا إِذَا كَانَ عَلَى صُورَتِهِ الَّتِي خُلِقَ عَلَيْهَا وَأَنَّ مَنْ أُقِيمَ فِي حِفْظِ شَيْءٍ سُمِّيَ وَكِيلًا وَأَنَّ الْجِنَّ يَأْكُلُونَ مِنْ طَعَامِ الْإِنْسِ وَأَنَّهُمْ يَظْهَرُونَ لِلْإِنْسِ لَكِنْ بِالشَّرْطِ الْمَذْكُورِ وَأَنَّهُمْ يَتَكَلَّمُونَ بِكَلَامِ الْإِنْسِ وَأَنَّهُمْ يَسْرِقُونَ وَيَخْدَعُونَ وَفِيهِ فَضْلُ آيَةِ الْكُرْسِيِّ وَفَضْلُ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَأَنَّ الْجِنَّ يُصِيبُونَ مِنَ الطَّعَامِ الَّذِي لَا يُذْكَرُ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ الخ (فتح الباري) یعنی اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں۔ جن میں سے ایک یہ کہ شیطان ایسی باتیں بھی جانتا ہے جن سے مومن فائدہ اٹھا سکتا ہے اور کبھی حکمت کی باتیں فاجر کے منہ سے بھی نکل جاتی ہے۔ وہ خود تو ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا مگر دوسرے اس سے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ اور نفع حاصل کرسکتے۔ اور بعض آدمی کچھ اچھی بات جانتے ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ اور بعض کافر ایسی قابل تصدیق بات کہہ دیتے ہیں جیسی اہل ایمان مگر وہ کافر اس سے مومن نہیں ہوجاتے۔ اور بعض دفعہ جھوٹوں کی بھی تصدیق کی جاسکتی ہے اور شیطان کی شان ہی یہ ہے کہ اسے جھوٹا کہا جائے اور یہ کہ جسے کسی چیز کی حفاظت پر مقرر کیا جائے اسے وکیل کہا جاتا ہے۔ اور یہ کہ جنات انسانی غدائیں کھاتے ہیں۔ اور وہ انسانوں کے سامنے ظاہر بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ جو مذکور ہوئی اور یہ بھی کہ وہ انسانی زبانوں میں کلام بھی کرسکتے ہیں۔ اور وہ چوری بھی کرسکتے ہیں۔ اور وہ دھوکہ بازی بھی کرسکتے ہیں اور اس میں آیت الکرسی اور آخر سورۃ بقرہ کی بھی فضلیت ہے اور یہ بھی کہ شیطان اس غذا کو حاصل کرلیتے ہیں۔ جس پر اللہ کا نام نہیں لیا جاتا۔ آج 20ذی الحجہ1389ھ میں بوقت مغرب مقام ابراہیم کے پاس یہ نوٹ لکھا گیا۔ نیز آج 5 صفر1389ھ کو مدینہ طیبہ حرم نبوی میں بوقت فجر اس پر نظر ثانی کی گئی۔ ربنا تقبل منا و اغفرلنا إن نسینا أو أخطأنا۔ آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2311
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2311
حدیث حاشیہ: (1) اس سے ملتا جلتا واقعہ پانچ چھ جلیل القدر صحابۂ کرام ؓ کے ساتھ بھی پیش آیا،چنانچہ روایات میں حضرت ابی بن کعب، حضرت ابو ایوب انصاری، حضرت ابو اسید انصاری اور حضرت زید بن ثابت ؓ کا ذکر ملتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ شیطان نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے کہا: میں نصیبین سے آرہا ہوں، اگر مجھے کہیں سے کچھ مل جاتا تو میں تمہارے پاس نہ آتا، حقیقت یہ ہے کہ ہم تمھارے ہی شہر میں رہا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کے رسول حضرت محمد ﷺ تشریف لائے۔ جب ان پر دو آیات نازل ہوئیں تو ہم یہاں سے بھاگ گئے ہیں۔ اگر تو مجھے چھوڑ دے تو وہ آیات تجھے بتادوں گا۔ پھر اس نے آیت الکرسی اور سورۂ بقرہ کی آخری آیات اٰمن الرسول سے آخر سورت تک کی نشاندہی کی۔ (فتح الباري: 615/4)(2) یہ حدیث امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے عین مطابق ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے حضرت ابو ہریرہ ؓ فطرانے کی حفاظت کےلیے بطور وکیل تعینات تھے۔ جب شیطان نے غلے سے کچھ لیا تو حضرت ابو ہریرہ ؓ خاموش رہے اور اسے کچھ نہ کہا، پھر جب رسول اللہ ﷺ کے حضور معاملہ پیش ہوا تو آپ نے اس کا نوٹس نہ لیا تو گویا آپ کی طرف سے یہ اجازت تھی اور قرض کی صورت بایں طور ہے کہ وہ غلہ فطرانے کا تھا۔ جب چور نے اسے لیا اور اپنی محتاجی کا عذر پیش کیا تو اسے چھوڑ دیا گیا تو گویا یہ غلہ اسے تقسیم ہونے کے وقت تک قرض دیا گیا کیونکہ صحابۂ کرام ؓ فطرانہ تقسیم سے تین دن پہلے جمع کرتے تھے۔ پھر اسے تقسیم کرتے تھے اس حدیث سے حافظ ابن حجر ؒ نے متعدد فوائد اخذ کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 0(فتح الباري: 616/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2311