صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
36. بَابُ مَنْ سَمِعَ شَيْئًا فَرَاجَعَ حَتَّى يَعْرِفَهُ:
36. باب: اس بارے میں کہ ایک شخص کوئی بات سنے اور نہ سمجھے تو دوبارہ دریافت کر لے تاکہ وہ اسے (اچھی طرح) سمجھ لے، یہ جائز ہے۔
(36) Chapter. Whoever heard something (but did not understand it) and then asked again till he understood it completely.
حدیث نمبر: 103
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سعيد بن ابي مريم، قال: اخبرنا نافع بن عمر، قال: حدثني ابن ابي مليكة،" ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم كانت لا تسمع شيئا لا تعرفه إلا راجعت فيه حتى تعرفه، وان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: من حوسب عذب، قالت عائشة: فقلت اوليس يقول الله تعالى: فسوف يحاسب حسابا يسيرا سورة الانشقاق آية 8، قالت، فقال: إنما ذلك العرض، ولكن من نوقش الحساب يهلك".(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ،" أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَا تَسْمَعُ شَيْئًا لَا تَعْرِفُهُ إِلَّا رَاجَعَتْ فِيهِ حَتَّى تَعْرِفَهُ، وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ حُوسِبَ عُذِّبَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ أَوَلَيْسَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا سورة الانشقاق آية 8، قَالَتْ، فَقَالَ: إِنَّمَا ذَلِكِ الْعَرْضُ، وَلَكِنْ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ يَهْلِكْ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہیں نافع بن عمر نے خبر دی، انہیں ابن ابی ملیکہ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا جب کوئی ایسی باتیں سنتیں جس کو سمجھ نہ پاتیں تو دوبارہ اس کو معلوم کرتیں تاکہ سمجھ لیں۔ چنانچہ (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس سے حساب لیا گیا اسے عذاب کیا جائے گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (یہ سن کر) میں نے کہا کہ کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ صرف (اللہ کے دربار میں) پیشی کا ذکر ہے۔ لیکن جس کے حساب میں جانچ پڑتال کی گئی (سمجھو) وہ غارت ہو گیا۔


Hum se Sa’eed bin Abi Maryam ne bayan kiya, unhein Nafi’ bin Umar ne khabar di, unhein Ibn-e-Abi Mulaikah ne batlaaya ke Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ki biwi Aisha Radhiallahu Anha jab koi aisi baatein suntien jis ko samajh na paatien to dobarah us ko ma’loom kartien taake samajh len. Chunanche (ek martaba) Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya ke jis se hisaab liya gaya use ’azaab kiya jaayega. Aisha Radhiallahu Anha farmaati hain ke (yeh sun kar) main ne kaha ke kya Allah ne yeh nahi farmaaya ke an-qareeb us se aasaan hisaab liya jaayega? Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya ke yeh sirf (Allah ke darbaar mein) peshi ka zikr hai. Lekin jis ke hisaab main jaanch padtaal ki gayi (samjho) woh ghaarat ho gaya.

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn Abu Mulaika: Whenever `Aisha (the wife of the Prophet) heard anything which she did not understand, she used to ask again till she understood it completely. Aisha said: "Once the Prophet said, "Whoever will be called to account (about his deeds on the Day of Resurrection) will surely be punished." I said, "Doesn't Allah say: "He surely will receive an easy reckoning." (84.8) The Prophet replied, "This means only the presentation of the accounts but whoever will be argued about his account, will certainly be ruined."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 103


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري103عائشة بنت عبد اللهمن حوسب عذب قالت عائشة فقلت أوليس يقول الله فسوف يحاسب حسابا يسيرا
   جامع الترمذي2426عائشة بنت عبد اللهمن نوقش الحساب هلك قلت يا رسول الله إن الله يقول فأما من أوتي كتابه بيمينه فسوف يحاسب حسابا يسيرا
   سنن أبي داود3093عائشة بنت عبد اللهأما علمت يا عائشة أن المؤمن تصيبه النكبة أو الشوكة فيكافأ بأسوإ عمله ومن حوسب عذب قالت أليس الله يقول فسوف يحاسب حسابا يسيرا قال ذاكم العرض يا عائشة من نوقش الحساب عذب
   صحيح مسلم7225عائشة بنت عبد اللهمن حوسب يوم القيامة عذب فقلت أليس قد قال الله فسوف يحاسب حسابا يسيرا
   صحيح مسلم7229عائشة بنت عبد اللهليس أحد يحاسب إلا هلك قلت يا رسول الله أليس الله يقول حسابا يسيرا
   جامع الترمذي3337عائشة بنت عبد اللهمن نوقش الحساب هلك قلت يا رسول الله إن الله يقول فأما من أوتي كتابه بيمينه
   صحيح البخاري6536عائشة بنت عبد اللهمن نوقش الحساب عذب قالت قلت أليس يقول الله فسوف يحاسب حسابا يسيرا
   صحيح البخاري6537عائشة بنت عبد اللهليس أحد يحاسب يوم القيامة إلا هلك فقلت يا رسول الله أليس قد قال الله فأما من أوتي كتابه بيمينه فسوف يحاسب حسابا يسيرا

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 103 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 103  
تشریح:
یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے شوق علم اور سمجھ داری کا ذکر ہے کہ جس مسئلہ میں انہیں الجھن ہوتی، اس کے بارے میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے تکلف دوبارہ دریافت کر لیا کرتی تھیں۔ اللہ کے یہاں پیشی تو سب کی ہو گی، مگر حساب فہمی جس کی شروع ہو گئی وہ ضرور گرفت میں آ جائے گا۔ حدیث سے ظاہر ہوا کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو شاگرد استاد سے دوبارہ سہ بارہ پوچھ لے، مگر کٹ حجتی کے لیے بار بار غلط سوالات کرنے سے ممانعت آئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 103   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:103  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تعلیم دین کی افادیت ایک اور پہلو سے اجاگر فرماتے ہیں کہ اگر شاگرد اپنے استاد کی بات اچھی طرح نہ سمجھ سکا ہو تو اسے چاہیے کہ اپنی تسلی کے لیے دوبارہ پوچھ لے، مقاصد کے پیش نظر ایسا کرنا قابل تحسین ہے۔
اس میں استاد کے متعلق سوء ادبی کا پہلو نہیں نکلتا اور نہ اس سے کوئی ناگواری ہونی چاہیے نیز اس میں شاگرد کی تحقیر بھی نہیں اس لیے دوبارہ پوچھنے سے حیا کرنا مناسب نہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عادت تھی کہ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو اسے دوبارہ پوچھ لیا کرتی تھیں اور جب تک سمجھ نہیں لیتی تھیں پوچھتی رہتیں۔
اس سے دوبارہ سوال کرنے کا مقصد بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اس قسم کا استفسار صرف اطمینان حاصل کرنے کے لیے ہے۔
تعنت کے طور پر (بال کی کھال اتارنے کے لیے)
سوال کرنے کی اجازت کسی صورت میں نہیں ہے۔

صدیقہ کائنات کے سوال اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ حساب کی دو اقسام ہیں ہیں:
ایک حساب مناقشہ جس کا دوسرا نام حساب عرفی ہے۔
اس کی صورت یہ ہوگی کہ بندے کی کوتاہیوں کو پیش کرنے کے بعد اسے یہ بھی کہا جائے گا کہ تونے ایسا کیوں کیا؟ یہ باز پرسں خود اتنا بڑا عذاب اور اس قدر سخت مرحلہ ہوگا کہ رب کائنات کے مناقشے کے بعد انسان کے دل و دماغ کی تمام قوتیں معطل ہو جائیں گی، یہی اس کی تباہی و بربادی اور حشر سامانی ہوگی، اس کے لیے عذاب نار ضروری نہیں ہے۔
حساب کی دوسری قسم حساب یسیر ہے جس کا دوسرا نام حساب لغوی ہے۔
اس میں بندے کے گناہوں کو صرف پیش کیا جائے گا۔
اور ساتھ ہی اسے معافی کا پروانہ دے دیا جائے گا۔
جس کی وجہ سے بندہ اپنے اہل خانہ کی طرف خوش و خرم لوٹے گا۔
(الإنشقاق: 84: 9)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کا عموم صدیقہ کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال کا باعث ہوا۔
اسی طرح کا ایک اشکال حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی پیش آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اہل بدر اور اہل حدیبیہ میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دریافت فرمایا کہ قرآن کریم سے تو معلوم ہوتا ہے کہ جہنم سے ہر ایک کو واسطہ پڑے گا؟ پھر قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی تم میں سے کوئی نہیں جس کا اس (جہنم)
پر سے گزر نہ ہو۔
(مریم19: 71)
اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا اگلا حصہ پڑھ کر سنا دیا:
پھر ہم ان لوگوں کو نجات دیں گے جو ڈرگئے اور ظالموں کو گھٹنوں کے بل اس میں گرا رہنے دیں گے۔
(مسند احمد: 6/ 258،362)
اس سے معلوم ہوا کہ رشد و ہدایت کے لیے عربی دانی یا صاحب قرآن سے بالا قرآن فہمی کافی نہیں بلکہ یہ انداز سراسر ضلالت پر مبنی ہے۔
(فتح الباري: 260/1)
مزید برآں یہ کہ اگر دینی مسئلے میں کسی کو اشکال ہو تو سوال کے ذریعے سے اس کاحل تلاش کرنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 103   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3093  
´عورتوں کی عیادت (بیمار پرسی) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں قرآن مجید کی سب سے سخت آیت کو جانتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کون سی آیت ہے اے عائشہ!، انہوں نے کہا: اللہ کا یہ فرمان «من يعمل سوءا يجز به» جو شخص کوئی بھی برائی کرے گا اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا (سورۃ النساء: ۱۲۳)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ تمہیں معلوم نہیں جب کسی مومن کو کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اس کے برے عمل کا بدلہ ہو جاتی ہے، البتہ جس سے محاسبہ ہو اس کو عذاب ہو گا۔‏‏‏‏ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3093]
فوائد ومسائل:

اس حدیث کے علاوہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔
کہ دنیا کی بیماریاں اور تمام طرح کے دکھ اور تکالیف حتیٰ کہ نزع روح کی اذیت عذاب قبر اور میدان حشر کے المناک احوال سبھی کچھ مومنین کےلئے گناہوں کا کفارہ اور بلندی درجات کا باعث ہوں گے۔
اور اہل ایمان کا ایک طبقہ ان تکالیف کے باعث پاک صاف ہوکر جنت میں داخل کیا جائے گا۔


تھوڑے لوگ ہوں گے۔
جن سے اللہ تعالیٰ میدان حشر میں ہم کلام ہوگا۔
پھر یا تو انہیں خصوصی مغفرت سے بہرہ ور فرمائے گا۔
یا معاندین قسم کے لوگوں کو سخت ترین عذاب سے دو چار کرے گا۔
جب کہ باقی لوگوں کا حساب اور وزن وغیرہ عمومی انداز میں ہوگا۔
اور یہ کوئی آسان مرحلہ نہ ہوگا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3093   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3337  
´سورۃ «إذا السماء انشقت» سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس سے حساب کی جانچ پڑتال کر لی گئی وہ ہلاک (برباد) ہو گیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تو فرماتا ہے «فأما من أوتي كتابه بيمينه» سے «يسيرا» جس کو کتاب دائیں ہاتھ میں ملی اس کا حساب آسانی سے ہو گا (الانشقاق: ۷-۸)، تک آپ نے فرمایا: وہ حساب و کتاب نہیں ہے، وہ تو صرف نیکیوں کو پیش کر دینا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3337]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جس کو کتاب دائیں ہاتھ میں ملی اس کا حساب آسانی سے ہو گا (الانشقاق: 7-8)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3337   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7229  
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات سے تین دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا:"تم میں سے ہر شخص کو اسی حالت میں موت آئے کہ وہ اللہ کے متعلق حسن ظن رکھتا ہو۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7229]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
زندگی میں انسان پر رجا اور امید کی بجائے خوف وخشیت کا غلبہ ہونا چاہیے تاکہ وہ گناہوں اور بد اعمالیوں سے پرہیز کر سکے اور زیادہ سے زیادہ اچھے عمل کر سکے،
لیکن جب موت کا وقت آئے اور انسان سمجھے کہ اب میرا بچنا مشکل ہے تو پھر اپنے اعمال کی بجائے،
اللہ کی رحمت ومغفرت کا امید وار ہو اور خوف وخشیت پر امید ورجا کا غلبہ ہو،
کیونکہ انسان اللہ کی رحمت کا محتاج ہے اور اس کی رحمت کے سبب ہی عمل قبول ہوں گے(اور گناہوں سے بخشش ملے گی،
)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7229   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6536  
6536. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس کا حساب کے وقت مناقشہ ہوا تو اس کوضرور عذاب ہوگا۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ہتی ہیں کہ میں نے کہا: کیا اللہ تعالٰی یہ نہیں فرماتا: عنقریب ان سے ہلکا حساب لیاجائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس سے مراد تو صرف پیشی ہے۔ مجھ سے عمرو بن علی نے بیان کیا ان سے یحییٰ نے، ان سے عثمان بن اسود نے انہوں نے کہا: میں نے ابن ابی ملکیہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے سنا انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ سے ایسا ہی سنا۔ اس روایت کی متابعت ابن جریج محمد بن سلیم، ایوب اور صالح بن رستم نے کی، انہوں نے ابن ابی ملکیہ سے، انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6536]
حدیث حاشیہ:
عثمان بن اسود کے ساتھ اس حدیث کو ابن جریج اور محمد بن سلیم اور ایوب سختیانی بن رستم نے بھی ابن ابی ملیکہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
ابن جریج اور محمد بن سلیم کی روایتوں کو ابو عوانہ نے اپنی صحیح میں اور ایوب سختیانی کی روایت کو امام بخاری نے تفسیر میں اور صالح کی روایت کو اسحاق بن راہویہ نے اپنی مسند میں وصل کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6536   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6537  
6537. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس شخص سے بھی قیامت کے دن حساب لیا گیا تو وہ ہلاک ہوا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالٰی نے خود نہیں فرمایا: جس شخص کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس سے مراد تو اعمال کا پیش کیا جانا ہے قیامت کے دن جس کا باریک بینی سے محاسبہ ہوا تو اسے یقیناً عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6537]
حدیث حاشیہ:
(1)
حساب کتاب کے وقت جس انسان پر جرح و قدح کی گئی کہ تو نے یہ کام کیوں کیا اور یہ کام کیوں چھوڑا تو ایسے انسان کی تباہی یقینی ہے، البتہ حساب يسير خوش بختی کی علامت ہے جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے بعض نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا کرتے سنا:
اے اللہ! میرا حساب آسان فرما۔
میں نے عرض کی:
اللہ کے رسول! آسان حساب کا مطلب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:
اے عائشہ! آسان حساب یہ ہے کہ بندے کے نامۂ اعمال پر سرسری نظر ڈالی جائے اور اس سے درگزر کی جائے۔
عائشہ! جس کے حساب میں باریک بینی سے کام لیا گیا اور اس دن جرح و قدح کی گئی تو وہ ہلاک ہو جائے گا۔
(مسند أحمد: 48/6) (2)
حدیث نجوی میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے، چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم میں سے کوئی شخص اپنے رب کے قریب ہو گا اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال کر فرمائے گا:
تو نے فلاں، فلاں عمل کیا تھا؟ بندہ ہاں میں جواب دے کر ان کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
میں نے دنیا میں تجھ پر پردہ ڈالا تھا اور آج بھی تجھے معاف کرتا ہوں۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7514)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6537   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.