صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
35. بَابُ هَلْ يُجْعَلُ لِلنِّسَاءِ يَوْمٌ عَلَى حِدَةٍ فِي الْعِلْمِ:
35. باب: اس بیان میں کہ کیا عورتوں کی تعلیم کے لیے کوئی خاص دن مقرر کیا جا سکتا ہے؟
(35) Chapter. Should a day be fixed for women in order to teach them religion (apart from men)?
حدیث نمبر: 102
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثنا غندر، قال: حدثنا شعبة، عن عبد الرحمن بن الاصبهاني، عن ذكوان، عن ابي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا، وعن عبد الرحمن بن الاصبهاني، قال: سمعت ابا حازم، عن ابي هريرة، قال: ثلاثة لم يبلغوا الحنث.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا، وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: ثَلَاثَةً لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے عبدالرحمٰن بن الاصبہانی کے واسطے سے بیان کیا، وہ ذکوان سے، وہ ابوسعید سے اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں۔ اور (دوسری سند میں) عبدالرحمٰن الاصبہانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوحازم سے سنا، وہ ابوہریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ ایسے تین (بچے) جو ابھی بلوغت کو نہ پہنچے ہوں۔


Mujh se Muhammed bin Bashshaar ne bayan kiya, un se Ghundar ne, un se Sho’bah ne Abdur Rahman bin Al-Asbahaani ke waaste se bayan kiya, woh Zakwaan se, woh Abu Sa’eed se aur Abu Sa’eed Khudri Radhiallahu Anhu Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam se yahi Hadees riwayat karte hain. Aur (doosri sanad mein) Abdur Rahman Al-Asbahaani kehte hain ke main ne Abu Hazim se suna, woh Abu Hurairah se naql karte hain ke unhon ne farmaaya ke aise teen (bachche) jo abhi bulughat ko na pahunche hon.

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: as above (the sub narrators are different). Abu Huraira qualified the three children referred to in the above mentioned Hadith as not having reached the age of committing sins (i.e. age of puberty) .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 102


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 102 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 102  
تشریح:
امام بخاری رحمہ اللہ یہ حدیث پہلی حدیث کی تائید اور ایک راوی ابن الاصبہانی کے نام کی وضاحت کے لیے لائے ہیں۔ بالغ ہونے سے پہلے بچے کی موت کا کافی رنج ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے بچے کی موت ماں کی بخشش کا ذریعہ قرار دی گئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 102   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:102  
حدیث حاشیہ:

دنیوی زندگی میں مردوں کے مسائل بے شمار ہیں اور انھیں اپنے مردانہ فرائض سے سبکدوشی کے لیے علم کی زیادہ ضرورت ہے لیکن بہت سے امور عورتوں سے متعلق ہیں اور ان کے خاص مسائل بھی کم نہیں ہیں مثلاً:
طہارت و نظافت، حقوق خاوند، تربیت اولاد وغیرہ اگرچہ عورتوں کو مردوں کی مجالس میں پردے کے ساتھ شمولیت کی اجازت ہے لیکن اس قسم کی حاضری میں تکلف ہوتا ہے اور عورتیں اپنے مخصوص مسائل دریافت کرنے میں حجاب محسوس کرتی ہیں اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ زنانہ تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام کو عورتوں کی تعلیم کا مستقل طور پر انتظام کرنا چاہیے جس میں مردوں کا داخلہ ممنوع ہو جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو مردوں کی مجلس میں آنے کا حکم دے سکتے تھے اس میں وقت کی بھی بچت تھی لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان کے شوق اور مطالبے پر انھیں مستقل طور پر خاص وقت عنایت فرمایا۔

انسان کے لیے دو وقت بڑی آزمائش کے ہوتے ہیں۔

شدت سرور۔

شدت غم۔
جب انسان پر غیر معمولی خوشی کا غلبہ ہوتاہے تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو شریعت کی پابندی سے بےنیاز خیال کرتا ہے اسی طرح غمزدہ انسان بھی شدت غم میں شکوہ و شکایت اور آہ وبکا کو اپنا وظیفہ بنا لیتا ہے بعض دفعہ تو شان ربوبیت کے متعلق نازیبا الفاظ تک کہہ جاتا ہے خاص طور پر عورت کے لیے بچے کی وفات کا صدمہ تو بہت سنگین اور جانکاہ ثابت ہوتا ہے۔
بعض اوقات وہ اس غم سے نڈھال ہو کر کپڑے پھاڑتی اور رخسار پیٹتی ہے حتی کہ اول فول بکنا شروع کردیتی ہے۔
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا۔

والدہ جب چھوٹے بچے سے طبعی محبت کے باوجود اس کی وفات پر صرف اللہ کے فیصلے پر راضی ہو کر صبر کرتی ہے وہ بھی جب دل سے مصیبت کا تصادم ہو۔
یعنی صدمے کی پہلی چوٹ ہو تو گویا خود اس بچے کو اللہ کے حضور پیش کرتی ہے۔
اگرچہ بڑے بچے کی وفات کا صدمہ بھی ہوتا ہے لیکن اس پر حجاب نار کی فضیلت نہیں ہے کیونکہ بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو اس سے طبعی محبت کے ساتھ عقلی محبت بھی ہو جاتی ہے نیز اس سے کچھ اغراض بھی وابستہ ہو جاتی ہیں مثلاً:
یہ بڑھاپے کا سہارا یا کم ازکم بقائے نسل کا ذریعہ ثابت ہوگا، پھر ماں بچے کے لیے مشقتیں بہت اٹھاتی ہے حمل و ولادت کی مشقت کا ذکر قرآن کریم نے بھی کیا ہے۔
(الأحقاف 15: 46)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کا حوالہ دوفوائد کے پیش نظر دیا ہے۔

پہلی روایت کی سند میں ایک راوی ابن اصبہانی تھا اس روایت میں اس کے نام عبدالرحمٰن کی صراحت کردی۔

پہلی روایت میں مطلق بچوں کا ذکر تھا اس روایت میں ان کے نابالغ ہونے کا ذکر فرمایا جو مدار حکم ہے اگرچہ بڑے کی وفات پر صبر کرنا بھی باعث ثواب ہے لیکن حجاب نار صرف نابالغ بچے ہوں گے۔
اس کا حجاب نار ہونا اس لیے ہے کہ والدین کی محبت ان سے بےغرض ہوتی ہے اور ان کی وفات پر صبر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث کتاب الجنائز میں ذکر کیےجائیں گئے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 102   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.