صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
35. بَابُ هَلْ يُجْعَلُ لِلنِّسَاءِ يَوْمٌ عَلَى حِدَةٍ فِي الْعِلْمِ:
35. باب: اس بیان میں کہ کیا عورتوں کی تعلیم کے لیے کوئی خاص دن مقرر کیا جا سکتا ہے؟
(35) Chapter. Should a day be fixed for women in order to teach them religion (apart from men)?
حدیث نمبر: 101
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثني ابن الاصبهاني، قال: سمعت ابا صالح ذكوان يحدث، عن ابي سعيد الخدري، قالت النساء للنبي صلى الله عليه وسلم: غلبنا عليك الرجال، فاجعل لنا يوما من نفسك، فوعدهن يوما لقيهن فيه فوعظهن وامرهن، فكان فيما قال لهن" ما منكن امراة تقدم ثلاثة من ولدها إلا كان لها حجابا من النار، فقالت: امراة واثنتين، فقال: واثنتين".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ الْأَصْبَهَانِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ ذَكْوَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَتِ النِّسَاءُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: غَلَبَنَا عَلَيْكَ الرِّجَالُ، فَاجْعَلْ لَنَا يَوْمًا مِنْ نَفْسِكَ، فَوَعَدَهُنَّ يَوْمًا لَقِيَهُنَّ فِيهِ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ، فَكَانَ فِيمَا قَالَ لَهُنَّ" مَا مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ تُقَدِّمُ ثَلَاثَةً مِنْ وَلَدِهَا إِلَّا كَانَ لَهَا حِجَابًا مِنَ النَّارِ، فَقَالَتْ: امْرَأَةٌ وَاثْنَتَيْنِ، فَقَالَ: وَاثْنَتَيْنِ".
ہم سے آدم نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے ابن الاصبہانی نے، انہوں نے ابوصالح ذکوان سے سنا، وہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فائدہ اٹھانے میں) مرد ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں، اس لیے آپ اپنی طرف سے ہمارے (وعظ کے) لیے (بھی) کوئی دن خاص فرما دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرما لیا۔ اس دن عورتوں سے آپ نے ملاقات کی اور انہیں وعظ فرمایا اور (مناسب) احکام سنائے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا اس میں یہ بات بھی تھی کہ جو کوئی عورت تم میں سے (اپنے) تین (لڑکے) آگے بھیج دے گی تو وہ اس کے لیے دوزخ سے پناہ بن جائیں گے۔ اس پر ایک عورت نے کہا، اگر دو (بچے بھیج دے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اور دو (کا بھی یہ حکم ہے)۔


Hum se Adam ne bayan kiya, un se Sho’bah ne, un se Ibn-ul-Asbahaani ne, unhon ne Abu Saleh Zakwan se suna, woh Abu Sa’eed Khudri Radhiallahu Anhu se riwayat karte hain ke aurton ne Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam se kaha ke (Aap Sallallahu Alaihi Wasallam se faida uthaane mein) mard hum se aage badh gaye hain, is liye Aap apni taraf se hamaare (waaz ke) liye (bhi) koi din khaas farmaa den. To Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne un se ek din ka wa’da farmaa liya. Us din aurton se Aap ne mulaqaat ki aur unhein waaz farmaaya aur (munasib) ahkaam sunaaye jo kuch Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne un se farmaaya tha us main yeh baat bhi thi ke jo koi aurat tum main se (apne) teen (ladke) aage bhej degi to woh us ke liye dozakh se panaah ban jaayenge. Us par ek aurat ne kaha, agar do (bachche bhej de) Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya haan! Aur do (ka bhi yeh hukm hai).

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: Some women requested the Prophet to fix a day for them as the men were taking all his time. On that he promised them one day for religious lessons and commandments. Once during such a lesson the Prophet said, "A woman whose three children die will be shielded by them from the Hell fire." On that a woman asked, "If only two die?" He replied, "Even two (will shield her from the Hell-fire).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 101


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري1249أيما امرأة مات لها ثلاثة من الولد كانوا حجابا من النار قالت امرأة واثنان قال واثنان
   صحيح البخاري101ما منكن امرأة تقدم ثلاثة من ولدها إلا كان لها حجابا من النار قالت امرأة واثنتين فقال واثنتين
   صحيح مسلم6699ما منكن من امرأة تقدم بين يديها من ولدها ثلاثة إلا كانوا لها حجابا من النار

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 101 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 101  
تشریح:
یعنی دو معصوم بچوں کی موت ماں کے لیے بخشش کا سبب بن جائے گی۔ پہلی مرتبہ تین بچے فرمایا، پھر دو اور ایک اور حدیث میں ایک بچے کے انتقال پر بھی یہ بشارت آئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ایک مقررہ دن میں یہ وعظ فرمایا۔ اسی لیے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ باب اور حدیث میں مطابقت پیدا ہوئی۔ دو بچوں کے بارے میں سوال کرنے والی عورت کا نام ام سلیم تھا۔ کچے بچے کے لیے بھی یہی بشارت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 101   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:101  
حدیث حاشیہ:

دنیوی زندگی میں مردوں کے مسائل بے شمار ہیں اور انھیں اپنے مردانہ فرائض سے سبکدوشی کے لیے علم کی زیادہ ضرورت ہے لیکن بہت سے امور عورتوں سے متعلق ہیں اور ان کے خاص مسائل بھی کم نہیں ہیں مثلاً:
طہارت و نظافت، حقوق خاوند، تربیت اولاد وغیرہ اگرچہ عورتوں کو مردوں کی مجالس میں پردے کے ساتھ شمولیت کی اجازت ہے لیکن اس قسم کی حاضری میں تکلف ہوتا ہے اور عورتیں اپنے مخصوص مسائل دریافت کرنے میں حجاب محسوس کرتی ہیں اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ زنانہ تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام کو عورتوں کی تعلیم کا مستقل طور پر انتظام کرنا چاہیے جس میں مردوں کا داخلہ ممنوع ہو جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو مردوں کی مجلس میں آنے کا حکم دے سکتے تھے اس میں وقت کی بھی بچت تھی لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان کے شوق اور مطالبے پر انھیں مستقل طور پر خاص وقت عنایت فرمایا۔

انسان کے لیے دو وقت بڑی آزمائش کے ہوتے ہیں۔

شدت سرور۔

شدت غم۔
جب انسان پر غیر معمولی خوشی کا غلبہ ہوتاہے تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو شریعت کی پابندی سے بےنیاز خیال کرتا ہے اسی طرح غمزدہ انسان بھی شدت غم میں شکوہ و شکایت اور آہ وبکا کو اپنا وظیفہ بنا لیتا ہے بعض دفعہ تو شان ربوبیت کے متعلق نازیبا الفاظ تک کہہ جاتا ہے خاص طور پر عورت کے لیے بچے کی وفات کا صدمہ تو بہت سنگین اور جانکاہ ثابت ہوتا ہے۔
بعض اوقات وہ اس غم سے نڈھال ہو کر کپڑے پھاڑتی اور رخسار پیٹتی ہے حتی کہ اول فول بکنا شروع کردیتی ہے۔
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا۔

والدہ جب چھوٹے بچے سے طبعی محبت کے باوجود اس کی وفات پر صرف اللہ کے فیصلے پر راضی ہو کر صبر کرتی ہے وہ بھی جب دل سے مصیبت کا تصادم ہو۔
یعنی صدمے کی پہلی چوٹ ہو تو گویا خود اس بچے کو اللہ کے حضور پیش کرتی ہے۔
اگرچہ بڑے بچے کی وفات کا صدمہ بھی ہوتا ہے لیکن اس پر حجاب نار کی فضیلت نہیں ہے کیونکہ بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو اس سے طبعی محبت کے ساتھ عقلی محبت بھی ہو جاتی ہے نیز اس سے کچھ اغراض بھی وابستہ ہو جاتی ہیں مثلاً:
یہ بڑھاپے کا سہارا یا کم ازکم بقائے نسل کا ذریعہ ثابت ہوگا، پھر ماں بچے کے لیے مشقتیں بہت اٹھاتی ہے حمل و ولادت کی مشقت کا ذکر قرآن کریم نے بھی کیا ہے۔
(الأحقاف 15: 46)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کا حوالہ دوفوائد کے پیش نظر دیا ہے۔

پہلی روایت کی سند میں ایک راوی ابن اصبہانی تھا اس روایت میں اس کے نام عبدالرحمٰن کی صراحت کردی۔

پہلی روایت میں مطلق بچوں کا ذکر تھا اس روایت میں ان کے نابالغ ہونے کا ذکر فرمایا جو مدار حکم ہے اگرچہ بڑے کی وفات پر صبر کرنا بھی باعث ثواب ہے لیکن حجاب نار صرف نابالغ بچے ہوں گے۔
اس کا حجاب نار ہونا اس لیے ہے کہ والدین کی محبت ان سے بےغرض ہوتی ہے اور ان کی وفات پر صبر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث کتاب الجنائز میں ذکر کیےجائیں گئے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 101   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.