(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: اخبرنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: وذكر محمد بن مسلم الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، عن عبد الله بن زيد بن عبد ربه ، قال: لما اجمع رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يضرب بالناقوس يجمع للصلاة الناس، وهو له كاره لموافقته النصارى، طاف بي من الليل طائف وانا نائم، رجل عليه ثوبان اخضران، وفي يده ناقوس يحمله قال: فقلت له: يا عبد الله، اتبيع الناقوس؟ قال: وما تصنع به؟ قلت: ندعو به إلى الصلاة، قال: افلا ادلك على خير من ذلك؟ قال: فقلت: بلى، قال: تقول: الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، قال: ثم استاخرت غير بعيد. قال: ثم تقول: إذا اقمت الصلاة الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، قال: فلما اصبحت اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبرته بما رايت. قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن هذه لرؤيا حق إن شاء الله" ثم امر بالتاذين، فكان بلال مولى ابي بكر يؤذن بذلك، ويدعو رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الصلاة، قال: فجاءه فدعاه ذات غداة إلى الفجر فقيل له: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نائم، قال: فصرخ بلال باعلى صوته الصلاة خير من النوم، قال سعيد بن المسيب: فادخلت هذه الكلمة في التاذين إلى صلاة الفجر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الزُّهْرِيُّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ ، قَالَ: لَمَّا أَجْمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَضْرِبَ بِالنَّاقُوسِ يَجْمَعُ لِلصَّلَاةِ النَّاسَ، وَهُوَ لَهُ كَارِهٌ لِمُوَافَقَتِهِ النَّصَارَى، طَافَ بِي مِنَ اللَّيْلِ طَائِفٌ وَأَنَا نَائِمٌ، رَجُلٌ عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ، وَفِي يَدِهِ نَاقُوسٌ يَحْمِلُهُ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَتَبِيعُ النَّاقُوسَ؟ قَالَ: وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟ قُلْتُ: نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: بَلَى، قَالَ: تَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: ثُمَّ اسْتَأْخَرْتُ غَيْرَ بَعِيدٍ. قَالَ: ثُمَّ تَقُولُ: إِذَا أَقَمْتَ الصَّلَاةَ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: فَلَمَّا أَصْبَحْتُ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَيْتُ. قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ هَذِهِ لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ" ثُمَّ أَمَرَ بِالتَّأْذِينِ، فَكَانَ بِلَالٌ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ يُؤَذِّنُ بِذَلِكَ، وَيَدْعُو رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: فَجَاءَهُ فَدَعَاهُ ذَاتَ غَدَاةٍ إِلَى الْفَجْرِ فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَائِمٌ، قَالَ: فَصَرَخَ بِلَالٌ بِأَعْلَى صَوْتِهِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ: فَأُدْخِلَتْ هَذِهِ الْكَلِمَةُ فِي التَّأْذِينِ إِلَى صَلَاةِ الْفَجْرِ.
سیدنا عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز کے لئے جمع کرنے کے طریقہ کار میں ناقوس بجانے پر اتفاق رائے کر لیاگو کہ نصاری کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے کراہت بھی ظاہر تھی تو رات کو خواب میں میرے پاس ایک آدمی آیا اس نے دو سبز کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک ناقوس تھا جو اس نے اٹھا رکھا تھا، میں نے اس سے کہا اے بندہ خدا! یہ ناقوس بیچوگے؟ اس نے پوچھا کہ تم اس کا کیا کر و گے؟ میں نے کہ ہم اسے بجا کر لوگوں کو نماز کی دعوت دیا کر یں گے، اس نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر طریقہ نہ بتادوں؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ اس نے کہا تم یوں کہا کر و۔ اللہ اکبر اللہ اکبر، اللہ اکبر اللہ اکبر، اشہد ان لا الہ الا اللہ، اشہد ان لا الہ الا اللہ، اشہد ان محمد الرسول اللہ، اشہد ان محمد الرسول اللہ، حی علی الصلاۃ حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح حی علی الفلاح، اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ۔ پھر کچھ ہی دیر بعد اس نے کہا کہ جب نماز کھڑی ہو نے لگے تو تم یوں کہا کر و اور آگے وہی کلمات ایک ایک مرتبہ بتائے اور حی علی الفلاح کے بعد دو مرتبہ قد قامت الصلاۃ کا اضافہ کر دیا، جب صبح ہوئی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا خواب بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان شاء اللہ یہ خواب سچا ہو گا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کا حکم دیا تو سیدنا ابوبکر صدیق کے آزاد کر دہ غلام سیدنا بلال اذان دینے لگے اور نماز کی طرف بلانے لگے، ایک دن وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فجر کے لئے اذان دی، کسی نے انہیں بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے ہیں، تو انہوں نے بلند آواز سے پکار کر کہا الصلاۃ خیر من النوم، سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ اس وقت سے فجر کی اذان میں یہ کلمہ بھی شامل کر لیا گیا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن دون قوله: «ويدعو رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الصلاة....» فهي زياده منكرة، دلس فيه ابن إسحاق
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: حدثني ابي ، عن محمد بن إسحاق ، قال: حدثني محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي ، عن محمد بن عبد الله بن زيد بن عبد ربه ، قال: حدثني عبد الله بن زيد ، قال: لما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناقوس ليضرب به للناس في الجمع للصلاة طاف بي، وانا نائم رجل يحمل ناقوسا في يده، فقلت له: يا عبد الله، اتبيع الناقوس؟، قال: ما تصنع به؟، قال: فقلت: ندعو به إلى الصلاة، قال: افلا ادلك على ما هو خير من ذلك؟، قال: فقلت له: بلى. قال: تقول: الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، ثم استاخر غير بعيد، ثم قال: تقول: إذا اقيمت الصلاة الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله. فلما اصبحت، اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبرته بما رايت، فقال:" إنها لرؤيا حق إن شاء الله، فقم مع بلال، فالق عليه ما رايت، فليؤذن به، فإنه اندى صوتا منك" قال: فقمت مع بلال، فجعلت القيه عليه، ويؤذن به، قال: فسمع بذلك عمر بن الخطاب وهو في بيته فخرج يجر رداءه، يقول: والذي بعثك بالحق، لقد رايت مثل الذي اري، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فلله الحمد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ ، قَالَ: لَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاقُوسِ لِيُضْرَبَ بِهِ لِلنَّاسِ فِي الْجَمْعِ لِلصَّلَاةِ طَافَ بِي، وَأَنَا نَائِمٌ رَجُلٌ يَحْمِلُ نَاقُوسًا فِي يَدِهِ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَتَبِيعُ النَّاقُوسَ؟، قَالَ: مَا تَصْنَعُ بِهِ؟، قَالَ: فَقُلْتُ: نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ؟، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: بَلَى. قَالَ: تَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ قَالَ: تَقُولُ: إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. فَلَمَّا أَصْبَحْتُ، أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَيْتُ، فَقَالَ:" إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ، فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا رَأَيْتَ، فَلْيُؤَذِّنْ بِهِ، فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ" قَالَ: فَقُمْتُ مَعَ بِلَالٍ، فَجَعَلْتُ أُلْقِيهِ عَلَيْهِ، وَيُؤَذِّنُ بِهِ، قَالَ: فَسَمِعَ بِذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ، يَقُولُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ الَّذِي أُرِيَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَلِلَّهِ الْحَمْدُ".
سیدنا عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز کے لئے جمع کرنے کے طریقہ کار میں ناقوس بجانے پر اتفاق رائے کر لیاگو کہ نصاری کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے کراہت بھی ظاہر تھی تو رات کو خواب میں میرے پاس ایک آدمی آیا اس نے دو سبز کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک ناقوس تھا جو اس نے اٹھا رکھا تھا، میں نے اس سے کہا اے بندہ خدا! یہ ناقوس بیچو گے؟ اس نے پوچھا کہ تم اس کا کیا کر و گے؟ میں نے کہ ہم اسے بجا کر لوگوں کو نماز کی دعوت دیا کر یں گے، اس نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر طریقہ نہ بتادوں؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ اس نے کہا تم یوں کہا کر و۔ اللہ اکبر اللہ اکبر، اللہ اکبر اللہ اکبر، اشہد ان لا الہ الا اللہ، اشہد ان لا الہ الا اللہ، اشہد ان محمد الرسول اللہ، اشہد ان محمد الرسول اللہ، حی علی الصلاۃ حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح حی علی الفلاح، اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ۔ پھر کچھ ہی دیر بعد اس نے کہا کہ جب نماز کھڑی ہو نے لگے تو تم یوں کہا کر و اور آگے وہی کلمات ایک ایک مرتبہ بتائے اور حی علی الفلاح کے بعد دو مرتبہ قد قامت الصلاۃ کا اضافہ کر دیا، جب صبح ہوئی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا خواب بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان شاء اللہ یہ خواب سچا ہو گا، تم بلال کے ساتھ کھڑے ہو کر اسے یہ کلمات بتاتے جاؤ اور وہ اذان دیتا جائے، کیونکہ اس کی آواز تم سے زیادہ اونچی ہے، چنانچہ میں سیدنا بلال کے ساتھ کھڑا ہو گیا، میں انہیں یہ کلمات بتاتا جاتا اور وہ اذان دیتے جاتے تھے، سیدنا عمر نے اپنے گھر میں جب اذان کی آواز سنی تو چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہنے لگے کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فللہ الحمد۔
سیدنا عتبان سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز پڑھی، جس وقت آپ نے سلام پھیرا، ہم بھی سلام پھیر کر فارغ ہو گئے، یہ نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مسجد میں پڑھی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن الزهري ، فسئل سفيان عمن؟، قال: هو محمود إن شاء الله، ان عتبان بن مالك كان رجلا محجوب البصر، وانه ذكر للنبي صلى الله عليه وسلم التخلف عن الصلاة، قال:" هل تسمع النداء؟"، قال: نعم، قال: فلم يرخص له.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، فَسُئِلَ سُفْيَانُ عَمَّنْ؟، قَالَ: هُوَ مَحْمُودٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ كَانَ رَجُلًا مَحْجُوبَ الْبَصَرِ، وَأَنَّهُ ذَكَرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّخَلُّفَ عَنِ الصَّلَاةِ، قَالَ:" هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُ.
سیدنا عتبان بن مالک کی بینائی انتہائی کمزور تھی (تقریبا نابینا تھے) انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا تذکر ہ کیا کہ وہ جماعت کی نماز سے رہ جاتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں! تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عدم حاضری کی رخصت نہ دی۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف لشذوذه ، فقد خالف فيه ابن عيينة أصحاب الزهري
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا سفيان بن حسين ، عن الزهري ، عن محمود بن الربيع ، او الربيع بن محمود شك يزيد، عن عتبان بن مالك ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: إني رجل ضرير البصر، وبيني وبينك هذا الوادي والظلمة، وسالته ان ياتي فيصلي في بيتي، فاتخذ مصلاه مصلى، فوعدني ان يفعل، فجاء هو وابو بكر، وعمر، فتسامعت به الانصار، فاتوه، وتخلف رجل منهم، يقال له: مالك بن الدخشن، وكان يزن بالنفاق، فاحتبسوا على طعام، فتذاكروا بينهم، فقالوا: ما تخلف عنا وقد علم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم زارنا إلا لنفاقه، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي، فلما انصرف، قال:" ويحه، اما شهد ان لا إله إلا الله بها مخلصا، فإن الله عز وجل حرم النار على من شهد بها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ ، أَوْ الرَّبِيعِ بْنِ مَحْمُودٍ شَكَّ يَزِيدُ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنِّي رَجُلٌ ضَرِيرُ الْبَصَرِ، وَبَيْنِي وَبَيْنَكَ هَذَا الْوَادِي وَالظُّلْمَةُ، وَسَأَلْتُهُ أَنْ يَأْتِيَ فَيُصَلِّيَ فِي بَيْتِي، فَأَتَّخِذُ مُصَلَّاهُ مُصَلًّى، فَوَعَدَنِي أَنْ يَفْعَلَ، فَجَاءَ هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فَتَسَامَعَتْ بِهِ الْأَنْصَارُ، فَأَتَوْهُ، وَتَخَلَّفَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ، وَكَانَ يُزَنُّ بِالنِّفَاقِ، فَاحُتَبَسُوا عَلَى طَعَامٍ، فَتَذَاكَرُوا بَيْنَهُمْ، فَقَالُوا: مَا تَخَلَّفَ عَنَّا وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَارَنَا إِلَّا لِنِفَاقِهِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" وَيْحَهُ، أَمَا شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ بِهَا مُخْلِصًا، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ النَّارَ عَلَى مَنْ شَهِدَ بِهَا".
سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: کہ میری نظر کمزور ہے اور میرے اور آپ کے درمیان یہ وادی اور ظلمت بھی حائل ہے، آپ کسی وقت تشریف لا کر میرے گھر میں نماز پڑھ دیں تو میں اسے ہی اپنے لئے جائے نماز منتخب کر لوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا، چنانچہ ایک دن سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، انصار کے کانوں تک یہ بات پہنچی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے آنے لگے، لیکن ایک آدمی " جس کا نام مالک بن وخش تھا " آنے سے رہ گیا اور لوگ اس پر نفاق کا طعنہ اور الزام پہلے ہی سے لگاتے تھے۔ لوگ کھانے کے وقت تک رکے رہے اور آپس میں باتیں کرنے لگے، باتوں باتوں میں وہ کہنے لگے کہ اسے پتہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں لیکن وہ محض اپنے نفاق کی وجہ سے ہی پیچھے رہ گیا ہے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، نماز سے فارغ ہو کر فرمانے لگے افسوس! کیا وہ خلوص جل کے ساتھ " لا الہ اللہ " کی گواہی نہیں دیتا؟ جو شخص اس کلمے کی گواہی دیتا ہے، اللہ نے اس پر جہنم کی آگ حرام قرار دے دی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف بهذه السياقة، سفيان بن حسين ضعيف الحديث عن الزهري
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى ، عن معمر ، عن الزهري ، عن محمود بن الربيع ، عن عتبان بن مالك ، انه قال: يا رسول الله، إن السيول تحول بيني وبين مسجد قومي، فاحب ان تاتيني، فتصلي في مكان في بيتي اتخذه مسجدا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سنفعل"، قال: فلما اصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم غدا على ابي بكر، فاستتبعه، فلما دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" اين تريد؟" فاشرت له إلى ناحية من البيت، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصففنا خلفه، فصلى بنا ركعتين، وحبسناه على خزير صنعناه، فسمع اهل الدار يعني اهل القرية، فجعلوا يثوبون، فامتلا البيت، فقال رجل من القوم: اين مالك بن الدخشم، فقال رجل: ذاك من المنافقين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تقوله يقول: لا إله إلا الله يبتغي بها وجه الله"، قال: اما نحن فنرى وجهه وحديثه إلى المنافقين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تقوله، يقول: لا إله إلا الله يبتغي بذلك وجه الله"، فقال رجل من القوم: بلى، يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لئن وافى عبد يوم القيامة يقول: لا إله إلا الله يبتغي بذلك وجه الله إلا حرم على النار"، فقال محمود: فحدثت بذلك قوما فيهم ابو ايوب، قال: ما اظن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال هذا، قال: فقلت: لئن رجعت وعتبان حي لاسالنه، فقدمت وهو اعمى، وهو إمام قومه، فسالته، فحدثني كما حدثني اول مرة، وكان عتبان بدريا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ السُّيُولَ تَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ مَسْجِدِ قَوْمِي، فَأُحِبُّ أَنْ تَأْتِيَنِي، فَتُصَلِّيَ فِي مَكَانٍ فِي بَيْتِي أَتَّخِذُهُ مَسْجِدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَنَفْعَلُ"، قَالَ: فَلَمَّا أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَا عَلَى أَبِي بَكْرٍ، فَاسْتَتْبَعَهُ، فَلَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَيْنَ تُرِيدُ؟" فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ الْبَيْتِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصُفِفْنَا خَلْفَهُ، فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ، وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرٍ صَنَعْنَاهُ، فَسَمِعَ أَهْلُ الدَّارِ يَعْنِي أَهْلَ الْقَرْيَةِ، فَجَعَلُوا يَثُوبُونَ، فَامْتَلَأَ الْبَيْتُ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُمِ، فَقَالَ رَجُلٌ: ذَاكَ مِنَ الْمُنَافِقِينَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُولُهُ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ"، قَالَ: أَمَّا نَحْنُ فَنَرَى وَجْهَهُ وَحَدِيثَهُ إِلَى الْمُنَافِقِينَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُولُهُ، يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَئِنْ وَافَى عَبْدٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا حَرِّمَ عَلَى النَّار"، فَقَالَ مَحْمُودٌ: فَحَدَّثْتُ بِذَلِكَ قَوْمًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ، قَالَ: مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَذَا، قَالَ: فَقُلْتُ: لَئِنْ رَجَعْتُ وَعِتْبَانُ حَيٌّ لَأَسْأَلَنَّهُ، فَقَدِمْتُ وَهُوَ أَعْمَى، وَهُوَ إِمَامُ قَوْمِهِ، فَسَأَلْتُهُ، فَحَدَّثَنِي كَمَا حَدَّثَنِي أَوَّلَ مَرَّةٍ، وَكَانَ عِتْبَانُ بَدْرِيًّا.
سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! میری قوم کی مسجد اور میرے درمیان سیلاب حائل ہو جاتا ہے، آپ کسی وقت تشریف لا کر میرے گھر میں نماز پڑھ دیں تو میں اسے ہی اپنے لئے جائے نماز منتخب کر لوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا، چنانچہ ایک دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور گھر میں داخل ہو کر فرمایا: تم کس جگہ کو جائے نماز بنانا چاہتے ہو؟ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے، ہم نے ان کے پیچھے صف بندی کر لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر یم صلی اللہ علیہ کو کھانے پر روک لیا، انصار کے کانوں تک یہ بات پہنچی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے آنے لگے، سارا گھر بھر گیا، ایک آدمی کہنے لگا کہ مالک بن دخشم کہاں ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ وہ منافق ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے نہ کہو، وہ اللہ کی رضا کے لئے لا الہ الا اللہ پڑھتا ہے، اس نے کہا کہ ہم تو یہی دیکھتے ہیں کہ اس کی توجہ اور باتیں منافقین کی طرف مائل ہو تی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جملہ دہرایا، دوسرے آدمی نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کی رضا کے لئے لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہوا قیامت کے دن آئے گا، اللہ نے اس پر جہنم کی آگ کو حرام قرار دیا ہے، محمود کہتے ہیں کہ یہ حدیث جب میں نے ایک جماعت کے سامنے بیان کی جن میں ایوب بھی تھے، تو وہ کہنے لگے میں نہیں سمجھتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: ہو گا، میں نے کہا کہ جس وقت میں مدینہ منورہ پہنچا اور سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ زندہ ہوئے تو میں ان سے یہ سوال ضرور کر وں گا، چنانچہ میں وہاں پہنچا تو وہ نابینا ہو چکے تھے اور اپنی قوم کی امامت فرماتے تھے، میں نے ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا: تو انہوں مجھے یہ حدیث اس طرح سنا دی جیسے پہلے سنائی تھی اور یہ بدری صحابی تھے۔
حدثنا عبد الرزاق ، قال: اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن محمود بن الربيع ، عن عتبان بن مالك ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: إني قد انكرت بصري، فذكر معناه، إلا انه قال مالك بن الدخشن، وربما قال: الدخيشن، وقال:" حرم على النار"، ولم يقل كان بدريا.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنِّي قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ، وَرُبَّمَا قَالَ: الدُّخَيْشِنِ، وَقَالَ:" حُرِّمَ عَلَى النَّارِ"، وَلَمْ يَقُلْ كَانَ بَدْرِيًّا.
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، قال: حدثنا جرير يعني ابن حازم ، عن علي بن زيد بن جدعان ، قال: حدثني ابو بكر بن انس بن مالك ، قال: قدم ابي من الشام وافدا وانا معه، فلقينا محمود بن الربيع ، فحدث ابي حديثا، عن عتبان بن مالك ، قال ابي : اي بني، احفظ هذا الحديث، فإنه من كنوز الحديث، فلما قفلنا انصرفنا إلى المدينة، فسالنا عنه، فإذا هو حي، وإذا شيخ اعمى، قال: فسالناه عن الحديث، فقال: نعم، ذهب بصري على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، ذهب بصري، ولا استطيع الصلاة خلفك، فلو بوات في داري مسجدا فصليت فيه، فاتخذه مصلى، قال:" نعم، فإني غاد عليك غدا"، قال: فلما صلى من الغد التفت إليه، فقام حتى اتاه، فقال:" يا عتبان، اين تحب ان ابوئ لك؟" فوصف له مكانا، فبوا له، وصلى فيه، ثم حبس، او جلس وبلغ من حولنا من الانصار، فجاءوا حتى ملئت علينا الدار، فذكروا المنافقين وما يلقون من اذاهم وشرهم حتى صيروا امرهم إلى رجل منهم، يقال له: مالك بن الدخشم، وقالوا: من حاله ومن حاله، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ساكت، فلما اكثروا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اليس يشهد ان لا إله إلا الله؟" فلما كان في الثالثة، قالوا: إنه ليقوله، قال:" والذي بعثني بالحق لئن قالها صادقا من قلبه لا تاكله النار ابدا"، قال: فما فرحوا بشيء قط كفرحهم بما قال.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَدِمَ أَبِي مِنَ الشَّامِ وَافِدًا وَأَنَا مَعَهُ، فَلَقْينَا مَحْمُودَ بْنَ الرَّبِيعِ ، فَحَدَّثَ أَبِي حَدِيثًا، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ أَبِي : أَيْ بُنَيَّ، احْفَظْ هَذَا الْحَدِيثَ، فَإِنَّهُ مِنْ كُنُوزِ الْحَدِيثِ، فَلَمَّا قَفَلْنَا انْصَرَفْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَسَأَلْنَا عَنْهُ، فَإِذَا هُوَ حَيٌّ، وَإِذَا شَيْخٌ أَعْمَى، قَالَ: فَسَأَلْنَاهُ عَنِ الْحَدِيثِ، فَقَالَ: نَعَمْ، ذَهَبَ بَصَرِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَ بَصَرِي، وَلَا أَسْتَطِيعُ الصَّلَاةَ خَلْفَكَ، فَلَوْ بَوَّأْتَ فِي دَارِي مَسْجِدًا فَصَلَّيْتَ فِيهِ، فَأَتَّخِذُهُ مُصَلًّى، قَالَ:" نَعَمْ، فَإِنِّي غَادٍ عَلَيْكَ غَدًا"، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى مِنَ الْغَدِ الْتَفَتَ إِلَيْهِ، فَقَامَ حَتَّى أَتَاهُ، فَقَالَ:" يَا عِتْبَانُ، أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُبَوِّئَ لَكَ؟" فَوَصَفَ لَهُ مَكَانًا، فَبَوَّأَ لَهُ، وَصَلَّى فِيهِ، ثُمَّ حُبَسَ، أَوْ جَلَسَ وَبَلَغَ مَنَ حَوْلَنَا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَجَاءُوا حَتَّى مُلِئَتْ عَلَيْنَا الدَّارُ، فَذَكَرُوا الْمُنَافِقِينَ وَمَا يَلْقُونَ مِنْ أَذَاهِمْ وَشَرِّهِمْ حَتَّى صَيَّرُوا أَمْرَهُمْ إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ، يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُمِ، وَقَالُوا: مِنْ حَالِهِ وَمِنْ حَالِهِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاكِتٌ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَيْسَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟" فَلَمَّا كَانَ فِي الثَّالِثَةِ، قَالُوا: إِنَّهُ لَيَقُولُهُ، قَالَ:" وَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ لَئِنْ قَالَهَا صَادِقًا مِنْ قَلْبِهِ لَا تَأْكُلُهُ النَّارُ أَبَدًا"، قَالُ: فَمَا فَرِحُوا بِشَيْءٍ قَطُّ كَفَرَحِهِمْ بِمَا قَالَ.
ابوبکر بن انس کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب شام سے واپس آئے، میں ان کے ہمراہ تھا، تو ہماری ملاقات محمود بن ربیع سے ہو گئی انہوں نے میرے والد صاحب کو سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے حدیث سنائی والد صاحب نے فرمایا: بیٹے! اس حدیث کو یاد کر لو کہ یہ حدیث کا خزانہ ہے واپسی پر جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو ہم نے سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا کہ وہ اس وقت حیات تھے لیکن انتہائی بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے، انہوں نے فرمایا: ہاں!
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة لضعف على بن زيد
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، وحجين ، قالا: حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن البراء ، عن خاله ابي بردة ، انه قال: يا رسول الله، إنا عجلنا شاة لحم لنا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقبل الصلاة؟"، قلت: نعم، قال:" تلك شاة لحم"، قال: يا رسول الله، إن عندنا عناقا جذعة هي احب إلي من مسنة، قال:" تجزئ عنه، ولا تجزئ عن احد بعده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، وحُجَيْنٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَاءِ ، عَنْ خَالِهِ أَبِي بُرْدَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّه، إِنَّا عَجَّلْنَا شَاةَ لَحْمٍ لَنَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَقَبْلَ الصَّلَاةِ؟"، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عِنْدَنَا عَنَاقًا جَذَعَةً هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مُسِنَّةٍ، قَالَ:" تُجْزِئُ عَنْهُ، وَلَا تُجْزِئُ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَهُ".
سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے اپنی بکری کو بہت جلدی ذبح کر لیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا نماز عید سے بھی پہلے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا کہ یہ تو گوشت والی بکری ہوئی، عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس ایک چھ ماہ کا بچھ ہے جو پورے سال کے جانور سے زیادہ ہماری نگاہوں میں عمدہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری طرف سے کافی ہو جائے گا لیکن تمہارے بعد کسی کی طرف سے وہ کفایت نہیں کر سکے گا۔