سیدنا یوسف بن عبداللہ سے مروی ہے کہ میرا نام یوسف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا اور آپ نے مجھے گود میں بٹھا کر میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شهر بن حوشب ، ومحمد بن يوسف مجهول
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، قال: حدثنا سفيان ، عن عاصم يعني ابن عبيد الله ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال في حجة الوداع:" ارقاءكم ارقاءكم ارقاءكم، اطعموهم مما تاكلون، واكسوهم مما تلبسون، فإن جاءوا بذنب لا تريدون ان تغفروه، فبيعوا عباد الله، ولا تعذبوهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَاصِمٍ يَعْنِي ابْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ:" أَرِقَّاءَكُمْ أَرِقَّاءَكُمْ أَرِقَّاءَكُمْ، أَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ، وَاكْسُوهُمْ مِمَّا تَلْبَسُونَ، فَإِنْ جَاءُوا بِذَنْبٍ لَا تُرِيدُونَ أَنْ تَغْفِرُوهُ، فَبِيعُوا عِبَادَ اللَّهِ، وَلَا تُعَذِّبُوهُمْ".
سیدنا عبدالرحمن بن یزید اپنے والد سے نقل کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں خطاب کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا: اپنے غلاموں کا خیال رکھو جو تم کھاتے ہو وہی انہیں کھلاؤ جو تم پہنتے ہوانہیں بھی وہی پہناؤ اگر ان سے کوئی ایسی غلطی ہو جائے جسے تم معاف نہ کر سکو تو اللہ کے بندو انہیں بیچ دو لیکن انہیں سزا نہ دو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عاصم بن عبيد الله، وله أصل من حديث أبى ذر، أخرجه البخاري: 30، ومسلم: 1661
سیدنا عبداللہ بن ابی ربیعہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ حنین کے لئے جارہے تھے تو ان سے تیس چالیس ہزار درہم بطور قرض لئے تھے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ سے واپس آئے تو انہیں وہ قرض لوٹادیا اور فرمایا کہ اللہ تمہارے مال اور اہل خانہ میں تمہارے لئے برکتیں نازل فرمائے قرض کا بدلہ یہی ہے کہ اسے ادا کر دیا جائے اور شکر یہ بھی ادا کیا جائے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، واسم أحد رواته إبراهيم بن إسماعيل منقلب، وهذا خطأ قديم، والصواب: إسماعيل بن إبراهيم
بنواسد کے ایک صحابی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے پاس ایک اوقیہ چاندی یا اس کے کچھ برابر موجود ہو پھر بھی کسی سے سوال کر ے تو اس نے لحاف کے ساتھ لپٹ کر سوال کیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، قال: حدثنا الاعمش ، عن ابي صالح ، عن بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" افضل الكلام سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله اكبر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَفْضَلُ الْكَلَامِ سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ".
ایک صحابی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے افضل کلام سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ہے۔
محمد بن ابراہیم کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے والے ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حجار جو مدینہ منورہ کا ایک دیہات ہے میں ہاتھ پھیلا کر دعا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث ، عن محمد بن عبد الله بن عتيك احد بني سلمة، عن ابيه عبد الله بن عتيك ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من خرج من بيته مجاهدا في سبيل الله عز وجل"، ثم قال باصابعه هؤلاء الثلاث الوسطى والسبابة والإبهام، فجمعهن، وقال:" واين المجاهدون؟ فخر عن دابته فمات، فقد وقع اجره على الله تعالى، او لدغته دابة فمات، فقد وقع اجره على الله، او مات حتف انفه، فقد وقع اجره على الله عز وجل" والله إنها لكلمة ما سمعتها من احد من العرب قبل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمات فقد وقع اجره على الله تعالى، ومن مات قعصا، فقد استوجب المآب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَتِيكٍ أَحَدِ بَنِي سَلِمَةَ، عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَتِيكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ مُجَاهِدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ"، ثُمَّ قَالَ بِأَصَابِعِهِ هَؤُلَاءِ الثَّلَاثِ الْوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ وَالْإِبْهَامِ، فَجَمَعَهُنَّ، وَقَالَ:" وَأَيْنَ الْمُجَاهِدُونَ؟ فَخَرَّ عَنْ دَابَّتِهِ فَمَاتَ، فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى، أَوْ لَدَغَتْهُ دَابَّةٌ فَمَاتَ، فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، أَوْ مَاتَ حَتْفَ أَنْفِهِ، فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" وَاللَّهِ إِنَّهَا لَكَلِمَةٌ مَا سَمِعْتُهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ قَبْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَاتَ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى، وَمَنْ مَاتَ قَعْصًا، فَقَدْ اسْتَوْجَبَ الْمَآبَ.
سیدنا عبداللہ بن عتیک سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے گھر سے اللہ کے راستہ میں جہاد کی نیت سے نکلے اور وہ اپنی سواری سے گر کر فوت ہو جائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ثابت ہو گیا یا اسے کسی چیز نے ڈس لیا اور وہ فوت ہو گیا تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ثابت ہو گیا یا اپنی طبعی موت سے فوت ہو گیا تو اس کا اجر بھی اللہ کے ذمہ ہے واللہ یہ ایسا کلمہ ہے جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اہل عرب میں سے کسی سے نہیں سنا کہ وہ مرگیا تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ثابت ہو گیا اور جو شخص گردن توڑی بیماری میں مارا گیا تو وہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، محمد بن إسحاق مدلس، وقد عنعن، ومحمد بن عبدالله مجهول
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، عن ابي بشر ، عن علي بن بلال ، عن ناس من الانصار، قالوا: كنا" نصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم المغرب، ثم ننصرف، فنترامى حتى ناتي ديارنا، فما يخفى علينا مواقع سهامنا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ بِلَالٍ ، عَنْ نَاسٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالُوا: كُنَّا" نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ نَنْصَرِفُ، فَنَتَرَامَى حَتَّى نَأْتِيَ دِيَارَنَا، فَمَا يَخْفَى عَلَيْنَا مَوَاقِعُ سِهَامِنَا".
کچھ انصاری صحابہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتے نماز پڑھ کر ہم تیر اندازی کرتے ہوئے اپنے گھروں کو واپس لوٹتے تھے اس وقت بھی ہم سے تیر گرنے کی جگہ اوجھل نہ ہو تی تھی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، على بن بلال روى المراسيل والمقاطيع، ثم هو مجهول
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، قال: حدثنا ابو عوانة ، قال: حدثنا ابو بشر ، عن علي بن بلال الليثي ، قال: صليت مع نفر من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحدثوني انهم:" كانوا يصلون المغرب مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم ينطلقون يترامون لا يخفى عليهم مواقع سهامهم حتى ياتون ديارهم في اقصى المدينة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ بِلَالٍ اللَّيْثِيِّ ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَدَّثُونِي أَنَّهُمْ:" كَانُوا يُصَلُّونَ الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَنْطَلِقُونَ يَتَرَامَوْنَ لَا يَخْفَى عَلَيْهِمْ مَوَاقِعُ سِهَامِهِمْ حَتَّى يَأْتُونَ دِيَارَهُمْ فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ".
کچھ انصاری صحابہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتے نماز پڑھ کر ہم تیر اندازی کرتے ہوئے اپنے گھروں کو واپس لوٹتے تھے اس وقت بھی ہم سے تیر گرنے کی جگہ اوجھل نہ ہو تی تھی۔ یہاں تک کہ مدینہ منورہ کے آخری کونے میں واقع اپنے گھر پہنچ جاتے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال على بن بلال