حدثنا علي بن إسحاق، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا محمد بن عجلان، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بمثله.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ.
گزشتہ حدیث مذکورہ سندہی سے دوبارہ یہاں نقل کی گئی ہے۔
سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں رات کی نماز اور وتر اپنے اونٹ پر سوار ہو کر پڑھ لیتے تھے اور اس کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ اس کا رخ کسی بھی سمت میں ہو اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ذکر کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا نوح بن ميمون ، اخبرنا عبد الله يعني ابن عمر العمري ، عن نافع ، قال: كان ابن عمر :" يرمي جمرة العقبة على دابته يوم النحر، وكان لا ياتي سائرها بعد ذلك إلا ماشيا، ذاهبا وراجعا، وزعم ان النبي صلى الله عليه وسلم كان لا ياتيها إلا ماشيا، ذاهبا وراجعا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ مَيْمُونٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ الْعُمَرِيَّ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ :" يَرْمِي جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ عَلَى دَابَّتِهِ يَوْمَ النَّحْرِ، وَكَانَ لَا يَأْتِي سَائِرَهَا بَعْدَ ذَلِكَ إِلَّا مَاشِيًا، ذَاهِبًا وَرَاجِعًا، وَزَعَمَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَأْتِيهَا إِلَّا مَاشِيًا، ذَاهِبًا وَرَاجِعًا.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما دس ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کی رمی سوار ہو کر اور باقی ایام میں پیدل کیا کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله بن عمر العمري .
(حديث مرفوع) حدثنا نوح بن ميمون ، اخبرنا عبد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر , ان النبي صلى الله عليه وسلم وابا بكر , وعمر , وعثمان رضي الله عنهم:" نزلوا المحصب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ مَيْمُونٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ , وَعُمَرَ , وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ:" نَزَلُوا الْمُحَصَّبَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء ثلاثہ محصب نامی جگہ میں پڑاؤ کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1310، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله بن عمر العمري، وهو متابع .
(حديث مرفوع) حدثنا نوح ، اخبرنا عبد الله ، عن سعيد المقبري ، قال: رايت ابن عمر يناجي رجلا، فدخل رجل بينهما، فضرب صدره، وقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا تناجى اثنان، فلا يدخل بينهما الثالث إلا بإذنهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا نُوحٌ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يُنَاجِي رَجُلًا، فَدَخَلَ رَجُلٌ بَيْنَهُمَا، فَضَرَبَ صَدْرَهُ، وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا تَنَاجَى اثْنَانِ، فَلَا يَدْخُلْ بَيْنَهُمَا الثَّالِثُ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا".
سعید مقبری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کسی شخص کے ساتھ کوئی بات کر رہے تھے ایک آدمی ان کے بیچ میں جا کر بیٹھ گیا انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے سینے پر مار کر فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہے جب دو آدمی آپس میں خفیہ بات کر رہے ہوں تو ان کی اجازت کے بغیر ان کے پاس جا کر مت بیٹھو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله العمري .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دیکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسواک فرما رہے ہیں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مسواک حاضرین میں سب سے بڑی عمر کے آدمی کو دے دی اور فرمایا: کہ مجھے جبرائیل (علیہ السلام) نے حکم دیا ہے کہ میں یہ مسواک کسی بڑے آدمی کو دوں۔
(حديث مرفوع) قرات على عبد الرحمن : مالك ، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر خرج إلى مكة معتمرا في الفتنة، فقال: إن صددت عن البيت، صنعنا كما صنعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاهل بعمرة، من اجل ان النبي صلى الله عليه وسلم ," اهل بعمرة عام الحديبية".(حديث مرفوع) قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ خَرَجَ إِلَى مَكَّةَ مُعْتَمِرًا فِي الْفِتْنَةِ، فَقَالَ: إِنْ صُدِدْتُ عَنِ الْبَيْتِ، صَنَعْنَا كَمَا صَنَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، مِنْ أَجْلِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ," أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ".
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فتنہ کے ایام میں عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے اور فرمایا: اگر میرے سامنے بھی کوئی رکاوٹ پیش آگئی تو میں وہی کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا پھر انہوں نے عمرہ کی نیت کر لی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدیبیہ کے سال عمرے کا احرام باندھا تھا۔