ابوعثمان نہدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے منبر کے نیچے بیٹھا ہوا تھا اور وہ لوگوں کے سامنے خطبہ دے رہے تھے، انہوں نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے اپنی امت کے متعلق سب سے زیادہ خطرہ اس منافق سے ہے جو زبان دان ہو۔
(حديث قدسي) حدثنا روح ، حدثنا مالك . ح وحدثنا إسحاق ، اخبرني مالك . قال: ابو عبد الرحمن عبد الله بن احمد: وحدثنا مصعب الزبيري ، حدثني مالك ، عن زيد بن ابي انيسة ، ان عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب اخبره، عن مسلم بن يسار الجهني : ان عمر بن الخطاب سئل عن هذه الآية: وإذ اخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم سورة الاعراف آية 172 الآية، فقال عمر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عنها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله خلق آدم، ثم مسح ظهره بيمينه، واستخرج منه ذرية، فقال: خلقت هؤلاء للجنة، وبعمل اهل الجنة يعملون، ثم مسح ظهره، فاستخرج منه ذرية، فقال: خلقت هؤلاء للنار، وبعمل اهل النار يعملون"، فقال رجل: يا رسول الله، ففيم العمل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل إذا خلق العبد للجنة، استعمله بعمل اهل الجنة، حتى يموت على عمل من اعمال اهل الجنة، فيدخله به الجنة، وإذا خلق العبد للنار استعمله بعمل اهل النار، حتى يموت على عمل من اعمال اهل النار، فيدخله به النار".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ . ح وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ . قَالَ: أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد: وحَدَّثَنَا مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ ، أَنَّ عَبْدَ الْحَمِيدِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ أَخْبَرَهُ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ الْجُهَنِيِّ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سُئِل عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ سورة الأعراف آية 172 الْآيَةَ، فَقَالَ عُمَرُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَمِينِهِ، وَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلْجَنَّةِ، وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلنَّارِ، وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ، اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيُدْخِلَهُ بِهِ الْجَنَّةَ، وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ النَّارِ، فَيُدْخِلَهُ بِهِ النَّارَ".
مسلم بن یسار الجہنی کہتے ہیں کہ کسی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا: «واذ اخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذرياتهم» تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس نوعیت کا سوال کسی کو پوچھتے ہوئے سنا تھا، اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کی جب تخلیق فرمائی تو کچھ عرصے بعد ان کی پشت پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرا اور ان کی اولاد کو نکالا اور فرمایا کہ میں نے ان لوگوں کو جنت کے لئے اور اہل جنت کے اعمال کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ ہاتھ پھیر کر ان کی کچھ اور اولاد کو نکالا اور فرمایا: میں نے ان لوگوں کو جہنم کے لئے اور اہل جہنم کے اعمال کرنے کے لئے پیدا کیا ہے، ایک آدمی نے یہ سن کر عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر عمل کا کیا فائدہ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے جب کسی بندے کو جنت کے لئے پیدا کیا ہے تو اسے اہل جنت کے کاموں میں لگائے رکھے گا یہاں تک کہ وہ جنتیوں والے اعمال کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جائے اور اس کی برکت سے جنت میں داخل ہو جائے اور اگر کسی بندے کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے تو وہ اسے اہل جہنم کے کاموں میں لگائے رکھے گا، یہاں تک کہ جہنمیوں کے اعمال کرتا ہوا وہ دنیا سے رخصت ہو جائے گا اور ان کی نحوست سے جہنم میں داخل ہو جائے گا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، مسلم بن يسار لم يسمع من عمر، ثم إنه فى عداد المجهولين
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا مالك بن انس ، عن ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله بن عمر ، عن ابيه : ان رجلا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل المسجد يوم الجمعة، وعمر بن الخطاب قائم يخطب، فقال عمر: اية ساعة هذه؟ فقال: يا امير المؤمنين، انقلبت من السوق فسمعت النداء، فما زدت على ان توضات، فاقبلت، فقال عمر : الوضوء ايضا! وقد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يامرنا بالغسل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَائِمٌ يَخْطُبُ، فَقَالَ عُمَرُ: أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ؟ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، انْقَلَبْتُ مِنَ السُّوقِ فَسَمِعْتُ النِّدَاءَ، فَمَا زِدْتُ عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ، فَأَقْبَلْتُ، فَقَالَ عُمَرُ : الْوُضُوءُ أَيْضًا! وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا بِالْغُسْلِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سا وقت ہے آنے کا؟ انہوں نے جواباً کہا کہ امیرالمومنین! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آ گیا ہوں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اوپر سے وضو بھی؟ جبکہ آپ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے لئے غسل کرنے کا حکم دیتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا ابن جريج ، اخبرني سليمان بن عتيق ، عن عبد الله بن بابيه ، عن بعض بني يعلى ، عن يعلى بن امية ، قال: طفت مع عمر بن الخطاب ، فاستلم الركن، قال يعلى: فكنت مما يلي البيت، فلما بلغت الركن الغربي الذي يلي الاسود، جررت بيده ليستلم، فقال:" ما شانك؟ فقلت: الا تستلم؟ قال: الم تطف مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقلت: بلى، فقال: افرايته يستلم هذين الركنين الغربيين؟ قال: فقلت لا، قال: افليس لك فيه اسوة حسنة؟ قال: قلت: بلى، قال: فانفذ عنك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عَتِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ ، عَنْ بَعْضِ بَنِي يَعْلَى ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، قَالَ: طُفْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ، قَالَ يَعْلَى: فَكُنْتُ مِمَّا يَلِي الْبَيْتَ، فَلَمَّا بَلَغْتُ الرُّكْنَ الْغَرْبِيَّ الَّذِي يَلِي الْأَسْوَدَ، جَرَرْتُ بِيَدِهِ لِيَسْتَلِمَ، فَقَالَ:" مَا شَأْنُكَ؟ فَقُلْتُ: أَلَا تَسْتَلِمُ؟ قَالَ: أَلَمْ تَطُفْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ: أَفَرَأَيْتَهُ يَسْتَلِمُ هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ الْغَرْبِيَّيْنِ؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَا، قَالَ: أَفَلَيْسَ لَكَ فِيهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَانْفُذْ عَنْكَ".
سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف کیا، انہوں نے حجر اسود کا استلام کیا، جب میں رکن یمانی پر پہنچا تو میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا تاکہ وہ استلام کر لیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا کیا آپ استلام نہیں کریں گے؟ انہوں نے فرمایا: کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی طواف نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں! فرمایا: تو کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ میں نے کہا نہیں! انہوں نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لئے اسوہ حسنہ موجود نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا: پھر اسے چھوڑ دو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وجهالة بعض بني يعلى لا تضر، فقد روي عبدالله بن بابيه هذا الحديث عن يعلى بن أمية دون واسطة
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر ، وابو عامر ، قالا: حدثنا مالك ، عن الزهري ، عن مالك بن اوس بن الحدثان ، قال: جئت بدنانير لي، فاردت ان اصرفها، فلقيني طلحة بن عبيد الله، فاصطرفها واخذها، فقال: حتى يجيء سلم خازني، قال ابو عامر: من الغابة، وقال فيها كلها: هاء وهاء، قال: فسالت عمر بن الخطاب عن ذلك، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" الذهب بالورق ربا، إلا هاء وهاء، والبر بالبر ربا، إلا هاء وهاء، والشعير بالشعير ربا، إلا هاء وهاء، والتمر بالتمر ربا، إلا هاء وهاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، وَأَبُو عَامِرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ: جِئْتُ بِدَنَانِيرَ لِي، فَأَرَدْتُ أَنْ أَصْرِفَهَا، فَلَقِيَنِي طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، فَاصْطَرَفَهَا وَأَخَذَهَا، فَقَالَ: حَتَّى يَجِيءَ سَلْمٌ خَازِنِي، قَالَ أَبُو عَامِرٍ: مِنَ الْغَابَةِ، وَقَالَ فِيهَا كُلِّهَا: هَاءَ وَهَاءَ، قَالَ: فَسَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ".
سیدنا مالک بن اوس بن الحدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سونے کے بدلے چاندی حاصل کرنے کے لئے اپنے کچھ دینار لے کر آیا، راستے میں سیدنا طلحۃ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو گئی، انہوں نے مجھ سے سونے کے بدلے چاندی کا معاملہ طے کر لیا اور میرے دینار پکڑ لئے اور کہنے لگے کہ ذرا رکیے ہمارا خازن غابہ سے آتا ہی ہو گا، میں نے سیدنا رضی اللہ عنہ سے اس کا حکم پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سونے کی چاندی کے بدلے خریدوفروخت سود ہے الاّ یہ کہ معاملہ نقد ہو، اسی طرح کھجور کے بدلے کھجور کی بیع سود ہے الاّ یہ کہ معاملہ نقد ہو۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا بكر بن عيسى ، حدثنا ابو عوانة ، عن المغيرة ، عن الشعبي ، عن عدي بن حاتم ، قال: اتيت عمر بن الخطاب في اناس من قومي، فجعل يفرض للرجل من طيئ في الفين ويعرض عني، قال: فاستقبلته، فاعرض عني، ثم اتيته من حيال وجهه، فاعرض عني، قال: فقلت: يا امير المؤمنين، اتعرفني؟ قال: فضحك حتى استلقى لقفاه، ثم قال:" نعم والله إني لاعرفك، آمنت إذ كفروا، واقبلت إذ ادبروا، ووفيت إذ غدروا، وإن اول صدقة بيضت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم ووجوه اصحابه صدقة طيئ، جئت بها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم"، ثم اخذ يعتذر، ثم قال: إنما فرضت لقوم اجحفت بهم الفاقة، وهم سادة عشائرهم، لما ينوبهم من الحقوق.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فِي أُنَاسٍ مِنْ قَوْمِي، فَجَعَلَ يَفْرِضُ لِلرَّجُلِ مِنْ طَيِّئٍ فِي أَلْفَيْنِ وَيُعْرِضُ عَنِّي، قَالَ: فَاسْتَقْبَلْتُهُ، فَأَعْرَضَ عَنِّي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ مِنْ حِيَالِ وَجْهِهِ، فَأَعْرَضَ عَنِّي، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَتَعْرِفُنِي؟ قَالَ: فَضَحِكَ حَتَّى اسْتَلْقَى لِقَفَاهُ، ثُمَّ قَالَ:" نَعَمْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُكَ، آمَنْتَ إِذْ كَفَرُوا، وَأَقْبَلْتَ إِذْ أَدْبَرُوا، وَوَفَيْتَ إِذْ غَدَرُوا، وَإِنَّ أَوَّلَ صَدَقَةٍ بَيَّضَتْ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُجُوهَ أَصْحَابِهِ صَدَقَةُ طَيِّئٍ، جِئْتَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، ثُمَّ أَخَذَ يَعْتَذِرُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا فَرَضْتُ لِقَوْمٍ أَجْحَفَتْ بِهِمْ الْفَاقَةُ، وَهُمْ سَادَةُ عَشَائِرِهِمْ، لِمَا يَنُوبُهُمْ مِنَ الْحُقُوقِ.
سیدنا عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے بنو طئی کے ایک آدمی کو دو ہزار دئیے لیکن مجھ سے اعراض کیا، میں ان کے سامنے آیا تب بھی انہوں نے اعراض کیا، میں ان کے چہرے کے رخ کی جانب سے آیا لیکن انہوں نے پھر بھی اعراض کیا، یہ دیکھ کر میں نے کہا امیرالمومنین! آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہنسنے لگے، پھر چت لیٹ گئے اور فرمایا: ہاں! اللہ کی قسم! میں آپ کو جانتا ہوں، جب یہ کافر تھے آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا، جب انہوں نے پیٹھ پھیر رکھی تھی آپ متوجہ ہو گئے تھے، جب انہوں نے عہد شکنی کی تھی تب آپ نے وعدہ وفا کیا تھا اور سب سے پہلا وہ مال صدقہ جسے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے چہرے کھل اٹھے تھے بنو طئی کی طرف سے آنے والا وہ مال تھا جو آپ ہی لے کر آئے تھے۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان سے معذرت کرتے ہوئے فرمانے لگے میں نے ان لوگوں کو مال دیا ہے جنہیں فقر و فاقہ اور تنگدستی نے کمزور کر رکھا ہے اور یہ لوگ اپنے اپنے قبیلے کے سردار ہیں، کیونکہ ان پر حقوق کی نیاب کی ذمہ داری ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اب طواف کے دوران جبکہ اللہ نے اسلام کو شان و شوکت عطاء فرما دی اور کفر و اہل کفر کو ذلیل کرکے نکال دیا رمل اور کندھے خالی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی لیکن اس کے باوجود ہم اسے ترک نہیں کریں گے کیونکہ ہم اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن، خ: 1605
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، وعفان ، قالا: حدثنا داود بن ابي الفرات ، حدثنا عبد الله بن بريدة ، قال عفان: عن ابن بريدة، عن ابي الاسود الديلي ، قال: اتيت المدينة، وقد وقع بها مرض، قال عبد الصمد: فهم يموتون موتا ذريعا، فجلست إلى عمر بن الخطاب، فمرت به جنازة، فاثني على صاحبها خير، فقال عمر : وجبت، ثم مر باخرى، فاثني على صاحبها خير، فقال: وجبت، ثم مر باخرى فاثني عليها شر، فقال عمر: وجبت، فقال ابو الاسود: فقلت له: يا امير المؤمنين، ما وجبت؟ فقال: قلت كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايما مسلم شهد له اربعة بخير، إلا ادخله الله الجنة، قال: قلنا: وثلاثة؟ قال: وثلاثة، قلنا: واثنان؟ قال: واثنان"، قال: ولم نساله عن الواحد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، قَالَ عَفَّانُ: عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ، قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ: فَهُمْ يَمُوتُونَ مَوْتًا ذَرِيعًا، فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَمَرَّتْ بِهِ جَنَازَةٌ، فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ، فَقَالَ عُمَرُ : وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى، فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ، فَقَالَ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ عَلَيْهَا شَرٌّ، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ، فَقَالَ أَبُو الْأَسْوَدِ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا وَجَبَتْ؟ فَقَالَ: قُلْتُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ، إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ، قَالَ: قُلْنَا: وَثَلَاثَةٌ؟ قَالَ: وَثَلَاثَةٌ، قُلْنَا: وَاثْنَانِ؟ قَالَ: وَاثْنَانِ"، قَالَ: وَلَمْ نَسْأَلْهُ عَنِ الْوَاحِدِ.
ابوالاسود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ وہاں کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے جس سے لوگ بکثرت مر رہے ہیں، میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے ایک جنازہ کا گزر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واجب ہو گئی، پھر دوسرا جنازہ گزرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا: واجب ہو گئی، تیسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا: واجب ہو گئی، میں نے بالآخر پوچھ ہی لیا کہ امیر المؤمنین! کیا چیز واجب ہو گئی؟ انہوں نے فرمایا: میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لئے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں تو اس کے لئے جنت واجب ہو گئی، ہم نے عرض کیا: اگر تین آدمی ہوں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا:، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے، پھر ہم نے خود ہی ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حرب يعني ابن شداد ، حدثنا يحيى ، حدثنا ابو سلمة ، حدثنا ابو هريرة ، قال: بينما عمر بن الخطاب يخطب، إذ جاء رجل فجلس، فقال عمر: لم تحتبسون عن الجمعة؟ فقال الرجل: يا امير المؤمنين، ما هو إلا ان سمعت النداء فتوضات، ثم اقبلت، فقال عمر : وايضا! الم تسمعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إذا راح احدكم إلى الجمعة، فليغتسل"؟.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَرْبٌ يَعْنِي ابْنَ شَدَّادٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ: بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَجَلَسَ، فَقَالَ عُمَرُ: لِمَ تَحْتَبِسُونَ عَنِ الْجُمُعَةِ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ النِّدَاءَ فَتَوَضَّأْتُ، ثُمَّ أَقْبَلْتُ، فَقَالَ عُمَرُ : وَأَيْضًا! أَلَمْ تَسْمَعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا رَاحَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْجُمُعَةِ، فَلْيَغْتَسِلْ"؟.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آ کر بیٹھ گئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: نماز سے کیوں رکے رہے، انہوں نے جواباً کہا کہ امیر المؤمنین! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آ گیا ہوں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اچھا کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لئے جائے تو اسے غسل کر لینا چاہیے۔