مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 1308
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن ابي حسان الاعرج ، عن عبيدة ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يوم الاحزاب:" اللهم املا بيوتهم وقبورهم نارا، كما شغلونا عن صلاة الوسطى حتى آبت الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ الْأَعْرَجِ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ:" اللَّهُمَّ امْلَأْ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا، كَمَا شَغَلُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى حَتَّى آبَتْ الشَّمْسُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ان (مشرکین) کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 4533، م : 627
حدیث نمبر: 1309
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سلمة بن كهيل ، قال: سمعت حجية بن عدي ، قال: سمعت علي بن ابي طالب رضي الله عنه، وساله رجل عن البقرة؟ فقال: عن سبعة، وساله عن الاعرج؟ فقال: إذا بلغت المنسك، وسئل عن القرن؟ فقال: لا يضره، وقال علي: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم" ان نستشرف العين والاذن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ حُجَيَّةَ بْنَ عَدِيٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنِ الْبَقَرَةِ؟ فَقَالَ: عَنْ سَبْعَةٍ، وَسَأَلَهُ عَنِ الْأَعْرَجِ؟ فَقَالَ: إِذَا بَلَغَتْ الْمَنْسَكَ، وَسُئِلَ عَنِ الْقَرَنِ؟ فَقَالَ: لَا يَضُرُّهُ، وَقَالَ عَلِيٌّ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ".
ایک آدمی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے گائے کی قربانی کے حوالے سے سوال کیا، انہوں نے فرمایا کہ ایک گائے سات آدمیوں کی طرف سے کفایت کر جاتی ہے، اس نے پوچھا کہ اگر اس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں، اس نے کہا کہ اگر وہ لنگڑی ہو؟ فرمایا: اگر قربان گاہ تک خود چل کر جا سکے تو اسے ذبح کر لو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جانور کے آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 1310
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، وعفان ، المعنى، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا سماك ، عن حنش بن المعتمر ، ان عليا رضي الله عنه كان باليمن، فاحتفروا زبية للاسد، فجاء حتى وقع فيها رجل، وتعلق بآخر، وتعلق الآخر بآخر، وتعلق الآخر بآخر، حتى صاروا اربعة، فجرحهم الاسد فيها، فمنهم من مات فيها، ومنهم من اخرج فمات، قال: فتنازعوا في ذلك حتى اخذوا السلاح، قال: فاتاهم علي رضي الله عنه، فقال: ويلكم، تقتلون مائتي إنسان في شان اربعة اناسي؟ تعالوا اقض بينكم بقضاء، فإن رضيتم به، وإلا فارتفعوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فقضى للاول ربع ديته، وللثاني ثلث ديته، وللثالث نصف ديته، وللرابع الدية كاملة، قال: فرضي بعضهم، وكره بعضهم، وجعل الدية على قبائل الذين ازدحموا، قال: فارتفعوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، قال بهز: قال حماد: احسبه قال: كان متكئا فاحتبى، قال:" ساقضي بينكم بقضاء"، قال: فاخبر ان عليا رضي الله عنه قضى بكذا وكذا، قال: فامضى قضاءه، قال عفان:" ساقضي بينكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، وَعَفَّانُ ، الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا سِمَاكٌ ، عَنْ حَنَشِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ بِالْيَمَنِ، فَاحْتَفَرُوا زُبْيَةً لِلْأَسَدِ، فَجَاءَ حَتَّى وَقَعَ فِيهَا رَجُلٌ، وَتَعَلَّقَ بِآخَرَ، وَتَعَلَّقَ الْآخَرُ بِآخَرَ، وَتَعَلَّقَ الْآخَرُ بِآخَرَ، حَتَّى صَارُوا أَرْبَعَةً، فَجَرَحَهُمْ الْأَسَدُ فِيهَا، فَمِنْهُمْ مَنْ مَاتَ فِيهَا، وَمِنْهُمْ مَنْ أُخْرِجَ فَمَاتَ، قَالَ: فَتَنَازَعُوا فِي ذَلِكَ حَتَّى أَخَذُوا السِّلَاحَ، قَالَ: فَأَتَاهُمْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: وَيْلَكُمْ، تَقْتُلُونَ مِائَتَيْ إِنْسَانٍ فِي شَأْنِ أَرْبَعَةِ أَنَاسِيَّ؟ تَعَالَوْا أَقْضِ بَيْنَكُمْ بِقَضَاءٍ، فَإِنْ رَضِيتُمْ بِهِ، وَإِلَّا فَارْتَفِعُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَضَى لِلْأَوَّلِ رُبُعَ دِيَتِه، وَلِلثَّانِي ثُلُثَ دِيَتِه، وَلِلثَّالِثِ نِصْفَ دِيَتِه، وَلِلرَّابِعِ الدِّيَةَ كَامِلَةً، قَالَ: فَرَضِيَ بَعْضُهُمْ، وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ، وَجَعَلَ الدِّيَةَ عَلَى قَبَائِلِ الَّذِينَ ازْدَحَمُوا، قَالَ: فَارْتَفَعُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ بَهْزٌ: قَالَ حَمَّادٌ: أَحْسَبُهُ قَالَ: كَانَ مُتَّكِئًا فَاحْتَبَى، قَالَ:" سَأَقْضِي بَيْنَكُمْ بِقَضَاءٍ"، قَالَ: فَأُخْبِرَ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَضَى بِكَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَأَمْضَى قَضَاءَهُ، قَالَ عَفَّانُ:" سَأَقْضِي بَيْنَكُمْ".
حنش کنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یمن میں ایک قوم نے شیر کو شکار کرنے کے لئے ایک گڑھا کھود کر اسے ڈھانپ رکھا تھا، شیر اس میں گر پڑا، اچانک ایک آدمی بھی اس گڑھے میں گر پڑا، اس کے پیچھے دوسرا، تیسرا حتی کہ چار آدمی گر پڑے (اس گڑھے میں موجود شیر نے ان سب کو زخمی کر دیا، یہ دیکھ کر ایک آدمی نے جلدی سے نیزہ پکڑا اور شیر کو دے مارا، چنانچہ شیر ہلاک ہو گیا اور وہ چاروں آدمی بھی اپنے اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دنیا سے چل بسے)۔ مقتولین کے اولیاء اسلحہ نکال کر جنگ کے لئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے، اتنی دیر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ آ پہنچے اور کہنے لگے: کیا تم چار آدمیوں کے بدلے دو سو آدمیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟ میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں، اگر تم اس پر راضی ہو گئے تو سمجھو کہ فیصلہ ہو گیا، فیصلہ یہ ہے کہ جو شخص پہلے گر کر گڑھے میں شیر کے ہاتھوں زخمی ہوا، اس کے ورثاء کو چوتھائی دیت دے دو، اور چوتھے کو مکمل دیت دے دو، دوسرے کو ایک تہائی اور تیسرے کو نصف دیت دے دو، ان لوگوں نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا (کیونکہ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آیا)۔ چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں، اتنی دیر میں ایک آدمی کہنے لگا: یا رسول اللہ! سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان یہ فیصلہ فرمایا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو نافذ کر دیا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف حنش بن المعتمر
حدیث نمبر: 1311
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني حجاج بن الشاعر ، حدثنا شبابة ، حدثني نعيم بن حكيم ، حدثني ابو مريم ، ورجل من جلساء علي رضي الله عنه، عن علي ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال يوم غدير خم:" من كنت مولاه فعلي مولاه"، قال: فزاد الناس بعد:" وال من والاه، وعاد من عاداه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ ، حَدَّثَنِي نُعَيْمُ بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو مَرْيَمَ ، وَرَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ عَلِيٍّ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ:" مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ"، قَالَ: فَزَادَ النَّاسُ بَعْدُ:" وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے موقع پر یہ فرمایا تھا کہ جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں۔ بعد میں لوگوں نے اس پر یہ اضافہ کر لیا کہ اے اللہ! جس کا یہ دوست ہو تو اس کا دوست بن جا، اور جس کا یہ دشمن ہو تو اس کا دشمن بن جا۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف نعيم بن حكيم ولجهالة أبى مريم
حدیث نمبر: 1312
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا بهز بن اسد ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا سلمة بن كهيل ، عن حجية بن عدي ، ان عليا رضي الله عنه سئل عن البقرة؟ فقال: عن سبعة، وسئل عن المكسورة القرن؟ فقال: لا باس، وسئل عن العرج؟ فقال: ما بلغت المنسك، ثم قال: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم" ان نستشرف العينين والاذنين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أخبرنا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، عَنْ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سُئِلَ عَنِ الْبَقَرَةِ؟ فَقَالَ: عَنْ سَبْعَةٍ، وَسُئِلَ عَنِ الْمَكْسُورَةِ الْقَرْنِ؟ فَقَالَ: لَا بَأْسَ، وَسُئِلَ عَنِ الْعَرَجِ؟ فَقَالَ: مَا بَلَغَتْ الْمَنْسَكَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَيْنِ وَالْأُذُنَيْنِ".
ایک آدمی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے گائے کی قربانی کے حوالے سے سوال کیا، انہوں نے فرمایا کہ ایک گائے سات آدمیوں کی طرف سے کفایت کر جاتی ہے، اس نے پوچھا کہ اگر اس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں، اس نے کہا کہ اگر وہ لنگڑی ہو؟ فرمایا: اگر قربان گاہ تک خود چل کر جا سکے تو اسے ذبح کر لو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جانور کے آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 1313
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني العباس بن الوليد النرسي ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا سعيد الجريري ، عن ابي الورد ، عن ابن اعبد ، قال: قال لي علي بن ابي طالب رضي الله عنه: يا ابن اعبد، هل تدري ما حق الطعام؟ قال: قلت: وما حقه يا ابن ابي طالب؟ قال: تقول: بسم الله، اللهم بارك لنا فيما رزقتنا، قال: وتدري ما شكره إذا فرغت؟ قال: قلت: وما شكره؟ قال: تقول: الحمد لله الذي اطعمنا وسقانا، ثم قال: الا اخبرك عني وعن فاطمة رضي الله عنها؟ كانت ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكانت من اكرم اهله عليه، وكانت زوجتي، فجرت بالرحى حتى اثر الرحى بيدها، واستقت بالقربة حتى اثرت القربة بنحرها، وقمت البيت حتى اغبرت ثيابها، واوقدت تحت القدر حتى دنست ثيابها، فاصابها من ذلك ضر، فقدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم بسبي، او خدم، قال: فقلت لها: انطلقي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاساليه خادما يقيك حر ما انت فيه، فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوجدت عنده خدما، او خداما، فرجعت ولم تساله...، فذكر الحديث، فقال:" الا ادلك على ما هو خير لك من خادم؟ إذا اويت إلى فراشك سبحي ثلاثا وثلاثين، واحمدي ثلاثا وثلاثين، وكبري اربعا وثلاثين"، قال: فاخرجت راسها، فقالت: رضيت عن الله ورسوله، مرتين، فذكر مثل حديث ابن علية، عن الجريري، او نحوه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ النَّرْسِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي الْوَرْدِ ، عَنِ ابْنِ أَعْبُدَ ، قَالَ: قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا ابْنَ أَعْبُدَ، هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الطَّعَامِ؟ قَالَ: قُلْتُ: وَمَا حَقُّهُ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ؟ قَالَ: تَقُولُ: بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيمَا رَزَقْتَنَا، قَالَ: وَتَدْرِي مَا شُكْرُهُ إِذَا فَرَغْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: وَمَا شُكْرُهُ؟ قَالَ: تَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ عَنِّي وَعَنْ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا؟ كَانَتْ ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ مِنْ أَكْرَمِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، وَكَانَتْ زَوْجَتِي، فَجَرَتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَ الرَّحَى بِيَدِهَا، وَأَسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَتْ الْقِرْبَةُ بِنَحْرِهَا، وَقَمَّتْ الْبَيْتَ حَتَّى اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا، وَأَوْقَدَتْ تَحْتَ الْقِدْرِ حَتَّى دَنِسَتْ ثِيَابُهَا، فَأَصَابَهَا مِنْ ذَلِكَ ضُرٌ، فَقُدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْيٍ، أَوْ خَدَمٍ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهَا: انْطَلِقِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْأَلِيهِ خَادِمًا يَقِيكِ حَرَّ مَا أَنْتِ فِيهِ، فَانْطَلَقَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدَتْ عِنْدَهُ خَدَمًا، أَوْ خُدَّامًا، فَرَجَعَتْ وَلَمْ تَسْأَلْهُ...، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ:" أَلَا أَدُلُّكِ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ خَادِمٍ؟ إِذَا أَوَيْتِ إِلَى فِرَاشِكِ سَبِّحِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبِّرِي أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ"، قَالَ: فَأَخْرَجَتْ رَأْسَهَا، فَقَالَتْ: رَضِيتُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، مَرَّتَيْنِ، فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ عُلَيَّةَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، أَوْ نَحْوَهُ".
ابن اعبد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: ابن اعبد! تمہیں معلوم ہے کہ کھانے کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا: آپ ہی بتائیے کہ اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا: کھانے کا حق یہ ہے کہ اس کے آغاز میں یوں کہو: «بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْمَا رَزَقْتَنَا» اللہ کے نام سے شروع کر رہا ہوں، اے اللہ! تو نے ہمیں جو عطاء فرما رکھا ہے اس میں برکت پیدا فرما۔ پھر مجھ سے فرمایا کہ کھانے سے فراغت کے بعد اس کا شکر کیا ہے، تمہیں معلوم ہے؟ میں نے عرض کیا: آپ ہی بتایئے کہ اس کا شکر کیا ہے؟ فرمایا: تم یوں کہو: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا» اس اللہ کا شکر جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا۔ پھر فرمایا کہ کیا میں تمہیں اپنی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ایک بات نہ بتاؤں؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی بھی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں میں تمام بچوں سے زیادہ قابل عزت بھی تھیں، اور میری رفیقہ حیات بھی تھیں، انہوں نے اتنی چکی چلائی کہ ان کے ہاتھوں میں اس کے نشان پڑ گئے، اور اتنے مشکیزے ڈھوئے کہ ان کی گردن پر اس کے نشان پڑ گئے، گھر کو اتنا سنوارا کہ اپنے کپڑے غبار آلود ہو گئے، ہانڈی کے نیچے اتنی آگ جلائی کہ کپڑے بیکار ہو گئے جس سے انہیں جسمانی طور پر شدید اذیت ہوئی۔ اتفاقا انہی دنوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی یا خادم آئے ہوئے تھے، میں نے ان سے کہا کہ جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خادم کی درخواست کرو تاکہ اس گرمی سے تو بچ جاؤ، چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، انہوں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یا کئی خادم موجود ہیں، لیکن وہ اپنی درخواست پیش نہ کر سکیں اور واپس آگئیں۔ اس کے بعد راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ذکر کیا کہ کیا میں تمہیں خادم سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ جب تم اپنے بستر پر لیٹو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ اس پر انہوں نے چادر سے اپنا سر نکال کر کہا کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے راضی ہوں، پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن أعبد، وأسمه علي
حدیث نمبر: 1314
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا همام ، عن قتادة ، عن ابي حسان ، عن عبيدة ، قال: كنا نرى ان صلاة الوسطى صلاة الصبح، قال: فحدثنا علي رضي الله عنه، انهم يوم الاحزاب اقتتلوا، وحبسونا عن صلاة العصر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اللهم املا قبورهم نارا، او املا بطونهم نارا، كما حبسونا عن صلاة الوسطى"، قال: فعرفنا يومئذ ان صلاة الوسطى صلاة العصر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، قَالَ: كُنَّا نَرَى أَنَّ صَلَاةَ الْوُسْطَى صَلَاةُ الصُّبْحِ، قَالَ: فَحَدَّثَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُمْ يَوْمَ الْأَحْزَابِ اقْتَتَلُوا، وَحَبَسُونَا عَنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ امْلَأْ قُبُورَهُمْ نَارًا، أَوْ امْلَأْ بُطُونَهُمْ نَارًا، كَمَا حَبَسُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى"، قَالَ: فَعَرَفْنَا يَوْمَئِذٍ أَنَّ صَلَاةَ الْوُسْطَى صَلَاةُ الْعَصْرِ.
عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم صلوۃ وسطی فجر کی نماز کو سمجھتے تھے، پھر ایک دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ انہوں نے غزوہ احزاب کے موقع پر جنگ شروع کی تو مشرکین نے ہمیں نماز عصر پڑھنے سے روک دیا، اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ اس دن ہمیں پتہ چلا کہ صلوۃ وسطی سے مراد نماز عصر ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 4533، م : 627
حدیث نمبر: 1315
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا شعبة ، اخبرني عبد الملك بن ميسرة ، عن زيد بن وهب ، عن علي رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث إليه حلة سيراء، فلبسها، وخرج على القوم، فعرف الغضب في وجهه، فامره" ان يشققها بين نسائه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَيْهِ حُلَّةً سِيَرَاءَ، فَلَبِسَهَا، وَخَرَجَ عَلَى الْقَوْمِ، فَعَرَفَ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، فَأَمَرَهُ" أَنْ يُشَقِّقَهَا بَيْنَ نِسَائِهِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ریشمی جوڑا میرے پاس بھیج دیا، میں نے اسے زیب تن کر لیا، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر ناراضگی کے اثرات دیکھے تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 2614 ، م : 2071
حدیث نمبر: 1316
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا شعبة ، عن عبد الملك بن ميسرة ، قال: سمعت النزال بن سبرة ، قال: رايت عليا رضي الله عنه صلى الظهر، ثم قعد لحوائج الناس، فلما حضرت العصر،" اتي بتور من ماء، فاخذ منه كفا، فمسح وجهه وذراعيه وراسه ورجليه، ثم اخذ فضله فشرب قائما، وقال: إن ناسا يكرهون هذا، وقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعله، وهذا وضوء من لم يحدث".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ قَعَدَ لِحَوَائِجِ النَّاسِ، فَلَمَّا حَضَرَتْ الْعَصْرُ،" أُتِيَ بِتَوْرٍ مِنْ مَاءٍ، فَأَخَذَ مِنْهُ كَفًّا، فَمَسَحَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ وَرَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ، ثُمَّ أَخَذَ فَضْلَهُ فَشَرِبَ قَائِمًا، وَقَالَ: إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُونَ هَذَا، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ، وَهَذَا وُضُوءُ مَنْ لَمْ يُحْدِثْ".
نزال بن سبرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے سامنے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھی، پھر مسجد کے صحن میں بیٹھ گئے تاکہ لوگوں کے مسائل حل کریں، جب نماز عصر کا وقت آیا تو ان کے پاس پانی کا ایک برتن لایا گیا، انہوں نے چلو بھر کر پانی لیا اور اپنے ہاتھوں، بازؤوں، چہرے، سر اور پاؤں پر پانی کا گیلا ہاتھ پھیرا، پھر کھڑے کھڑے وہ پانی پی لیا اور فرمایا کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو ناپسند سمجھتے ہیں، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا ہے جیسے میں نے کیا ہے، اور جو آدمی بےوضو نہ ہو بلکہ پہلے سے اس کا وضو موجود ہو، یہ اس شخص کا وضو ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 5616
حدیث نمبر: 1317
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن سلمة بن كهيل ، عن الشعبي ، ان عليا رضي الله عنه، قال لشراحة: لعلك استكرهت، لعل زوجك اتاك، لعلك؟ قالت: لا، فلما وضعت، جلدها، ثم رجمها، فقيل له: لم جلدتها، ثم رجمتها؟ قال:" جلدتها بكتاب الله، ورجمتها بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لِشَرَاحَةَ: لَعَلَّكِ اسْتُكْرِهْتِ، لَعَلَّ زَوْجَكِ أَتَاكِ، لَعَلَّكِ؟ قَالَتْ: لَا، فَلَمَّا وَضَعَتْ، جَلَدَهَا، ثُمَّ رَجَمَهَا، فَقِيلَ لَهُ: لِمَ جَلَدْتَهَا، ثُمَّ رَجَمْتَهَا؟ قَالَ:" جَلَدْتُهَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَرَجَمْتُهَا بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ شراحہ ہمدانیہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہو سکتا ہے تجھے زبردستی اس کام پر مجبور کیا گیا ہو؟ شاید وہ تمہارا شوہر ہی ہو؟ لیکن وہ ہر بات کے جواب میں نہیں کہتی رہی، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضع حمل کے بعد اسے کوڑے مارے، اور پھر اس پر حد رجم جاری فرمائی، کسی نے پوچھا کہ آپ نے اسے دونوں سزائیں کیوں دیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے کتاب اللہ کی روشنی میں اسے کوڑے مارے ہیں اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اسے رجم کیا ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح وفي خ : 6812، وهو مختصر بقصة الرجم دون الجلد

Previous    128    129    130    131    132    133    134    135    136    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.