وعن سعد قال: رايتني وانا ثالث الإسلام وما اسلم احد إلا في اليوم الذي اسلمت فيه ولقد مكثت سبعة ايام وإني لثالث الإسلام. رواه البخاري وَعَنْ سَعْدٍ قَالَ: رَأَيْتُنِي وَأَنَا ثَالِثُ الْإِسْلَامِ وَمَا أَسْلَمَ أَحَدٌ إِلَّا فِي الْيَوْمِ الَّذِي أَسْلَمْتُ فِيهِ وَلَقَدْ مَكَثْتُ سَبْعَةَ أَيَّامٍ وَإِنِّي لثالث الْإِسْلَام. رَوَاهُ البُخَارِيّ
سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں جانتا ہوں کہ اسلام قبول کرنے والا میں تیسرا شخص ہوں، جس دن میں نے اسلام قبول کیا اسی روز دوسرے بھی اسلام میں داخل ہوئے، اور میں سات دن تک اسی حالت میں رہا کہ میں اسلام قبول کرنے والا تیسرا شخص ہوں۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3727)»
وعن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول لنسائه: «إن امركن مما يهمني من بعدي ولن يصبر عليكن إلا الصابرون الصديقون» قالت عائشة: يعني المتصدقين ثم قالت عائشة لابي سلمة بن عبد الرحمن سقى الله اباك من سلسبيل الجنة وكان ابن عوف قد تصدق على امهات المؤمنين بحديقة بيعت باربعين الفا. رواه الترمذي وَعَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ لِنِسَائِهِ: «إِنَّ أَمْرَكُنَّ مِمَّا يَهُمُّنِي مِنْ بَعْدِي وَلَنْ يَصْبِرَ عَلَيْكُنَّ إِلَّا الصَّابِرُونَ الصِّدِّيقُونَ» قَالَتْ عَائِشَةُ: يَعْنِي الْمُتَصَدِّقِينَ ثُمَّ قَالَتْ عَائِشَةُ لِأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَقَى اللَّهُ أَبَاكَ مِنْ سَلْسَبِيلِ الْجَنَّةِ وَكَانَ ابنُ عوفٍ قَدْ تَصَدَّقَ عَلَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ بِحَدِيقَةٍ بِيعَتْ بِأَرْبَعِينَ ألفا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ازواج مطہرات سے فرمایا کرتے تھے: ”میں اپنے بعد تمہارے بارے میں بہت فکر مند ہوں، صبر کرنے والے اور صدیقین ہی ان مشکل معاملات میں تمہارا ساتھ دیں گے۔ “ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یعنی صدقہ کرنے والے، پھر عائشہ رضی اللہ عنہ نے ابوسلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اللہ تمہارے والد کو جنت کے چشمے سلسبیل سے پلائے، اور ابن عوف رضی اللہ عنہ نے امہات المومنین کے لیے ایک باغ وقف کیا تھا جو چالیس ہزار میں فروخت کیا گیا تھا۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3749 وقال: حسن صحيح غريب)»
وعن ام سلمة قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لازواجه: «إن الذي يحثو عليكن بعدي هو الصادق البار اللهم اسق عبد الرحمن بن عوف من سلسبيل الجنة» . رواه احمد وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِأَزْوَاجِهِ: «إِنَّ الَّذِي يَحْثُو عَلَيْكُنَّ بَعْدِي هُوَ الصَّادِقُ الْبَارُّ اللَّهُمَّ اسْقِ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ مِنْ سلسبيلِ الجنةِ» . رَوَاهُ أَحْمد
ام سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی ازواج مطہرات سے فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص میرے بعد تم پر خرچ کرے گا تو وہ شخص سچا اور احسان کرنے والا ہے، اے اللہ! عبد الرحمن بن عوف کو جنت کے چشمے سلسبیل سے جام پلا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (6/ 299 ح 27094) [والحاکم (3/ 311)] ٭ محمد بن إسحاق مدلس و عنعن و محمد بن عبد الرحمٰں بن عبد الله بن الحصين و ثقه ابن حبان وحده.»
وعن حذيفة قال: جاء اهل نجران إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: يا رسول الله ابعث إلينا رجلا امينا. فقال: «لابعثن إليكم رجلا امينا حق امين» فاستشرف لها الناس قال: فبعث ابا عبيدة بن الجراح. متفق عليه وَعَن حُذَيْفَة قَالَ: جَاءَ أَهْلُ نَجْرَانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ابْعَثْ إِلَيْنَا رَجُلًا أَمِينًا. فَقَالَ: «لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ» فَاسْتَشْرَفَ لَهَا الناسُ قَالَ: فَبعث أَبَا عبيدةَ بن الْجراح. مُتَّفق عَلَيْهِ
حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نجران والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کسی امین شخص کو ہماری طرف مبعوث فرمانا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہاری طرف ایسے امین شخص کو بھیجوں گا جو کہ حقیقی معنی میں امین ہو گا۔ “ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس (امارت) کے خواہش مند تھے، راوی بیان کرتے ہیں، آپ نے ابوعبیدہ بن جراح کو بھیجا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3745) و مسلم (55/ 2420)»
وعن علي قال: قيل لرسول الله: من نؤمر بعدك؟ قال: «إن تؤمروا ابا بكر تجدوه امينا زاهدا في الدنيا راغبا في الآخرة وإن تؤمروا عمر تجدوه قويا امينا لا يخاف في الله لومة لائم وإن تؤمروا عليا-ولا اراكم فاعلين-تجدوه هاديا مهديا ياخذ بكم الطريق المستقيم» . رواه احمد وَعَن عَليّ قَالَ: قيل لرَسُول اللَّهِ: مَنْ نُؤَمِّرُ بَعْدَكَ؟ قَالَ: «إِنْ تُؤَمِّرُوا أَبَا بَكْرٍ تَجِدُوهُ أَمِينًا زَاهِدًا فِي الدُّنْيَا رَاغِبًا فِي الْآخِرَةِ وَإِنْ تُؤَمِّرُوا عُمَرَ تَجِدُوهُ قَوِيًّا أَمِينًا لَا يَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ وَإِنْ تُؤَمِّرُوا عَلِيًّا-وَلَا أَرَاكُمْ فَاعِلِينَ-تَجِدُوهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا يَأْخُذُ بِكُمُ الطَّرِيقَ الْمُسْتَقِيمَ» . رَوَاهُ أَحْمد
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! ہم آپ کے بعد کسے خلیفہ مقرر فرمائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ابوبکر کو امیر بنا لو تو تم انہیں امین، دنیا سے بے رغبتی رکھنے والا اور آخرت سے رغبت رکھنے والا پاؤ گے۔ اور اگر تم عمر کو امیر مقرر کرو گے تو تم انہیں قوی امین پاؤ گے، وہ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف زدہ نہیں ہوتے۔ اور اگر تم علی کو امیر بناؤ گے، حالانکہ میں نہیں سمجھتا کہ تم انہیں بناؤ گے، تو تم انہیں ہادی اور ہدایت یافتہ پاؤ گے، وہ تمہیں صراط مستقیم پر چلائیں گے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (1/ 109 ح 859) ٭ فيه أبو إسحاق السبيعي مدلس و عنعن.»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «رحم الله ابا بكر زوجني ابنته وحملني إلى دار الهجرة وصحبني في الغار واعتق بلالا من ماله. رحم الله عمر يقول الحق وإن كان مرا تركه الحق وما له من صديق. رحم الله عثمان تستحييه الملائكة رحم الله عليا اللهم ادر الحق معه حيث دار» رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَحِمَ اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ زَوَّجَنِي ابْنَتَهُ وَحَمَلَنِي إِلَى دَارِ الْهِجْرَةِ وَصَحِبَنِي فِي الْغَارِ وَأَعْتَقَ بِلَالًا مِنْ مَالِهِ. رَحِمَ اللَّهُ عُمَرَ يَقُولُ الْحَقَّ وَإِنْ كَانَ مُرًّا تَرَكَهُ الْحَقُّ وَمَا لَهُ مِنْ صَدِيقٍ. رَحِمَ اللَّهُ عُثْمَانَ تَسْتَحْيِيهِ الْمَلَائِكَةُ رَحِمَ اللَّهُ عَلِيًّا اللَّهُمَّ أَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ابوبکر پر رحم فرمائے، انہوں نے اپنی بیٹی سے میری شادی کی، دار ہجرت کی طرف مجھے اٹھا کر (اپنے اونٹ پر سوار کر کے) لے گئے، غار میں میرے ساتھ رہے، اور اپنے مال سے بلال کو آزاد کرایا۔ اور عمر پر رحم فرمائے، وہ حق فرماتے ہیں خواہ وہ کڑوا ہو، حق گوئی نے انہیں تنہا چھوڑ دیا اس لیے ان کا کوئی دوست نہیں، اللہ عثمان پر رحم فرمائے، فرشتے بھی ان سے حیا کرتے ہیں، اللہ علی پر رحم فرمائے، اے اللہ! وہ جہاں بھی جائیں حق ان کے ساتھ ہی رہے۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3714) ٭ فيه مختار بن نافع: ضعيف.»
عن سعد بن ابي وقاص قال: لما نزلت هذه الآية [ندع ابناءنا وابناءكم] دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا وفاطمة وحسنا وحسينا فقال: «اللهم هؤلاء اهل بيتي» رواه مسلم عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: لَمَّا نزلت هَذِه الْآيَة [ندْعُ أبناءنا وأبناءكم] دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أهل بَيْتِي» رَوَاهُ مُسلم
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب یہ آیت (نَدْعُ اَبْنَاءَ نَا وَ اَبْنَاءَ کُمْ) نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: ”اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (32/ 2404)»
وعن عائشة قالت: خرج النبي صلى الله عليه وسلم غداة وعليه مرط مرحل من شعر اسود فجاء الحسن بن علي فادخله ثم جاء الحسين فدخل معه ثم جاءت فاطمة فادخلها ثم جاء علي فادخله ثم قال: [إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس اهل البيت ويطهركم تطهيرا] رواه مسلم وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلَيٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ: [إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أهل الْبَيْت وَيُطَهِّركُمْ تَطْهِيرا] رَوَاهُ مُسلم
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، صبح کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلے اس وقت آپ پر کالے بالوں سے بنی ہوئی نقش دار چادر تھی، اس دوران حسن بن علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ نے انہیں اپنے ساتھ اس (چادر) میں داخل فرما لیا، پھر حسین رضی اللہ عنہ آئے تو آپ نے انہیں بھی داخل فرما لیا، پھر فاطمہ رضی اللہ عنہ آئیں تو آپ نے انہیں بھی داخل فرما لیا، پھر علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ نے انہیں بھی داخل فرما لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”اللہ صرف یہی چاہتا ہے، اے اہل بیت! کہ وہ تم سے گناہ کی گندگی دور فرما دے اور تمہیں مکمل طور پر پاک صاف کر دے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (61/ 2424)»
وعن البراء قال: لما توفي إبراهيم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن له مرضعا في الجنة» رواه البخاري وَعَن الْبَراء قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ إِبْرَاهِيمُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجنَّة» رَوَاهُ البُخَارِيّ
براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لخت جگر ابراہیم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے لیے جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (1382)»
وعن عائشة: قالت: كنا-ازواج النبي صلى الله عليه وسلم-عنده. فاقبلت فاطمة ما تخفى مشيتها من مشية رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رآها قال: «مرحبا بابنتي» ثم اجلسها ثم سارها فبكت بكاء شديدا فلما راى حزنها سارها الثانية فإذا هي تضحك فلما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم سالتها عما سارك؟ قالت: ما كنت لافشي على رسول الله صلى الله عليه وسلم سره فلما توفي قلت: عزمت عليك بما لي عليك من الحق لما اخبرتني. قالت: اما الآن فنعم اما حين سار بي في الامر الاول فإنه اخبرني: «إن جبريل كان يعارضه بالقرآن كل سنة مرة وإنه قد عارضني به العام مرتين ولا ارى الاجل إلا قد اقترب فاتقي الله واصبري فإني نعم السلف انا لك» فلما راى جزعي سارني الثانية قال: «يا فاطمة الا ترضين ان تكوني سيدة نساء اهل الجنة او نساء المؤمنين؟» وفي رواية: فسارني فاخبرني انه يقبض في وجعه فبكيت ثم سارني فاخبرني اني اول اهل بيته اتبعه فضحكت. متفق عليه وَعَنْ عَائِشَةَ: قَالَتْ: كُنَّا-أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-عِنْدَهُ. فَأَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ مَا تَخْفَى مِشْيَتُهَا مِنْ مِشْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَآهَا قَالَ: «مَرْحَبًا بِابْنَتِي» ثُمَّ أَجْلَسَهَا ثُمَّ سَارَّهَا فَبَكَتْ بُكَاءً شَدِيدًا فَلَمَّا رَأَى حُزْنَهَا سَارَّهَا الثَّانِيَةَ فَإِذَا هِيَ تَضْحَكُ فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهَا عَمَّا سَارَّكِ؟ قَالَتْ: مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرَّهُ فَلَمَّا تُوُفِّيَ قُلْتُ: عَزَمْتُ عَلَيْكِ بِمَا لي عَلَيْك مِنَ الْحَقِّ لِمَا أَخْبَرْتِنِي. قَالَتْ: أَمَّا الْآنَ فَنَعَمْ أَمَّا حِينَ سَارَّ بِي فِي الْأَمْرِ الأوَّل فإِنه أَخْبرنِي: «إِنَّ جِبْرِيل كَانَ يُعَارضهُ بِالْقُرْآنِ كل سنة مرّة وَإنَّهُ قد عَارَضَنِي بِهِ الْعَامَ مَرَّتَيْنِ وَلَا أَرَى الْأَجَلَ إِلَّا قَدِ اقْتَرَبَ فَاتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي فَإِنِّي نعم السّلف أَنا لَك» فَلَمَّا رَأَى جَزَعِي سَارَّنِيَ الثَّانِيَةَ قَالَ: «يَا فَاطِمَةُ أَلَا تَرْضِينَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَوْ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ؟» وَفِي رِوَايَةٍ: فَسَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُقْبَضُ فِي وَجَعِهِ فَبَكَيْتُ ثُمَّ سَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي أَنِّي أَوَّلُ أَهْلِ بَيْتِهِ أتبعه فَضَحكت. مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر تھیں، فاطمہ رضی اللہ عنہ آئیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ گئیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیکھا تو فرمایا: ”پیاری بیٹی! خوش آمدید۔ “ پھر آپ نے انہیں بٹھا لیا، پھر ان سے سرگوشی فرمائی تو وہ بہت زیادہ رونے لگیں، جب آپ نے ان کا غم دیکھا تو آپ نے دوسری مرتبہ ان سے سرگوشی فرمائی وہ ہنس دیں، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے تو میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہارے ساتھ کیا سرگوشی فرمائی؟ انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راز کو افشاں نہیں کروں گی، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا گئے تو میں نے کہا: میرا آپ پر جو حق ہے اس حوالے سے میں آپ کو قسم دے کر پوچھتی ہوں کیا آپ مجھے نہیں بتائیں گی؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! اب ٹھیک ہے، جہاں تک اس پہلی سرگوشی کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا کہ ”جبریل ؑ ہر سال مجھ سے ایک مرتبہ قرآن کا دور کیا کرتے تھے جبکہ اس سال انہوں نے دو مرتبہ دور کیا ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ وقت پورا ہو چکا ہے، تم اللہ سے ڈرتی رہنا اور صبر کرنا، اور میں تمہارے لیے بہترین کارواں ہوں۔ “ لیکن جب آپ نے میری گھبراہٹ دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری مرتبہ سرگوشی کی اور فرمایا: ”فاطمہ! کیا تم اس پر خوش نہیں کہ تم اہل جنت کی خواتین یا مومنوں کی خواتین کی سردار ہوں گی؟“ ایک دوسری روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے سرگوشی کی تو مجھے بتایا کہ اسی تکلیف میں ان کی روح قبض کی جائے گی تو اس پر میں رو پڑی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے سرگوشی کی تو مجھے بتایا کہ آپ کے اہل بیت میں سے سب سے پہلے میں آپ کے پیچھے آؤں گی، تو اس پر میں ہنس پڑی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6285. 2686 و الرواية الثانية: 3626) و مسلم (98/ 2450 و الرواية الثانية: 2450/97)»