عن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مضطجعا في بيته كاشفا عن فخذيه-او ساقيه-فاستاذن ابو بكر فاذن له وهو على تلك الحال فتحدث ثم استاذن عمر فاذن له وهو كذلك فتحدث ثم استاذن عثمان فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم وسوى ثيابه فلما خرج قالت عائشة: دخل ابو بكر فلم تهتش له ولم تباله ثم دخل عمر فلم تهتش له ولم تباله ثم دخل عثمان فجلست وسويت ثيابك فقال: «الا استحي من رجل تستحي منه الملائكة؟» وفي رواية قال: «إن عثمان رجل حيي وإني خشيت إن اذنت له على تلك الحالة ان لا يبلغ إلي في حاجته» . رواه مسلم عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعًا فِي بَيْتِهِ كَاشِفًا عَنْ فَخِذَيْهِ-أَوْ سَاقَيْهِ-فَاسْتَأْذَنَ أَبُو بَكْرٍ فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ كَذَلِكَ فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَوَّى ثِيَابَهُ فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَلَمْ تُبَالِهِ ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَلَمْ تُبَالِهِ ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَان فَجَلَست وسوَّيت ثِيَابك فَقَالَ: «أَلا أستحي من رجل تَسْتَحي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ؟» وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ: «إِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَيِيٌّ وَإِنِّي خَشِيتُ إِنْ أَذِنْتُ لَهُ عَلَى تِلْكَ الْحَالَةِ أَنْ لَا يَبْلُغَ إِلَيَّ فِي حَاجته» . رَوَاهُ مُسلم
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور اس وقت آپ کی رانوں یا پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا ہوا تھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو انہیں اجازت دے دی گئی اور آپ اسی حالت میں رہے، انہوں نے بات چیت کی، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور آپ اسی حالت میں رہے، انہوں نے بات چیت کی، پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے، اپنے کپڑے درست کیے، جب وہ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر) چلے گئے تو عائشہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ نے ان کی خاطر کوئی حرکت نہ کی اور نہ ان کی کوئی پرواہ کی، پھر عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ نے ان کی خاطر کوئی حرکت کی نہ ان کی کوئی پرواہ کی، پھر عثمان رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کیے، (کیا معاملہ ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں؟“ ایک دوسری روایت میں ہے: آپ نے فرمایا: ”عثمان حیا دار شخص ہے، مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے انہیں اسی حالت میں اندر آنے کی اجازت دے دی تو ہو سکتا ہے کہ (شرم کے مارے) وہ اپنے کسی کام کے بارے میں اپنی بات مجھے نہ پہنچا سکیں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (26/ 2401) والرواية الثانية، رواها مسلم (27/ 2402)»
قال الشيخ زبير على زئي: رواه مسلم (26/ 2401) والرواية الثانية
عن طلحة بن عبيد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لكل نبي رفيق ورفيقي-يعني في الجنة-عثمان» رواه الترمذي عَن طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لِكُلِّ نَبِيٍّ رَفِيقٌ وَرَفِيقِي-يَعْنِي فِي الْجنَّة-عُثْمَان» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کا ایک رفیق (خاص) ہوتا ہے اور میرے رفیق یعنی جنت میں، عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3698 وقال: غريب، ليس إسناده بالقوي‘‘ إلخ) وانظر الحديث الآتي (6062) ٭ فيه شيخ من بني زھرة: لم أعرفه، و شيخه حارث بن عبد الرحمٰن بن أبي ذباب لم يدرک طلحة رضي الله عنه (انظر تحفة الأشراف 212/4)»
وراه ابن ماجه عن ابي هريرة وقال الترمذي: هذا حديث غريب وليس إسناده بالقوي وهو منقطع وَرَاه ابْنُ مَاجَهْ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ وَهُوَ مُنْقَطع
اور ابن ماجہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے، اور اس کی سند قوی نہیں، اور وہ منقطع ہے۔ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه ابن ماجه (109) وسنده ضعيف جدًا، فيه عثمان بن خالد: متروک الحديث. وانظر الحديث السابق (6061)»
وعن عبد الرحمن بن خباب قال: شهدت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يحث على جيش العسرة فقام عثمان فقال: يا رسول الله علي مائتا بعير باحلاسها واقتابها في سبيل الله ثم حض على الجيش فقام عثمان فقال: علي مائتا بعير باحلاسها واقتابها في سبيل الله ثم حض فقام عثمان فقال: علي ثلاثمائة بعير باحلاسها واقتابها في سبيل الله فانا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل عن المنبر وهو يقول: «ما على عثمان ما عمل بعد هذه ما على عثمان ما عمل بعد هذه» . رواه الترمذي وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَبَّابٍ قَالَ: شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحُثُّ عَلَى جَيْشِ الْعُسْرَةِ فَقَامَ عُثْمَانُ فَقَالَ: يَا رَسُول الله عَلَيَّ مِائَتَا بَعِيرٍ بِأَحْلَاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ حَضَّ عَلَى الْجَيْشِ فَقَامَ عُثْمَانُ فَقَالَ: عَلَيَّ مِائَتَا بَعِيرٍ بِأَحْلَاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ حَضَّ فَقَامَ عُثْمَانُ فَقَالَ: عَلَيَّ ثَلَاثُمِائَةِ بَعِيرٍ بِأَحْلَاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَأَنَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ عَنِ الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَقُولُ: «مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عبد الرحمن بن خباب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ غزوۂ تبوک کے لیے آمادہ کر رہے تھے، عثمان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سو اونٹ مع سازو سامان اللہ کی راہ میں میرے ذمے ہیں، پھر آپ نے لشکر کے لیے آمادہ کیا تو عثمان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا، اللہ کی راہ میں دو سو اونٹ مع سازو سامان میرے ذمے ہیں، پھر آپ نے ترغیب دلائی تو عثمان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تو عرض کیا، اللہ کی راہ میں تین سو اونٹ میرے ذمے ہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اترتے فرما رہے تھے: ”عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد جو بھی عمل کیا اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں، عثمان رضی اللہ عنہ اس کے بعد جو بھی عمل کرے اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (3700 وقال: غريب) ٭ فرقد أبو طلحة مجھول و حديث الترمذي (3701) يغني عنه.»
وعن عبد الرحمن بن سمرة قال: جاء عثمان إلى النبي صلى الله عليه وسلم بالف دينار في كمه حين جهز جيش العسرة فنثرها في حجره فرايت النبي صلى الله عليه وسلم يقلبها في حجره ويقول: «ما ضر عثمان ما عمل بعد اليوم» مرتين. رواه احمد وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: جَاءَ عُثْمَانُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَلْفِ دِينَارٍ فِي كُمِّهِ حِينَ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَنَثَرَهَا فِي حِجْرِهِ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَلِّبُهَا فِي حِجْرِهِ وَيَقُولُ: «مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ» مرَّتَيْنِ. رَوَاهُ أَحْمد
عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جیش العسرہ تیار فرمایا تو عثمان نے اپنی جیب میں ایک ہزار دینار لا کر آپ کی خدمت میں پیش کیے اور آپ کی گود میں ڈھیر کر دیے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنی گود میں انہیں پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”عثمان نے جو بھی عمل کیا آج کے بعد وہ اس کے لیے نقصان دہ نہیں۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مرتبہ ایسے فرمایا۔ اسنادہ حسن، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (5/ 63 ح 20906) [و الترمذي (3701 و قال: حسن غريب) و صححه الحاکم (3/ 102) ووافقه الذهبي]»
وعن انس قال: لما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم ببيعة الرضوان كان عثمان رضي الله عنه رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى مكة فبايع الناس فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن عثمان في حاجة الله وحاجة رسوله» فضرب بإحدى يديه على الاخرى فكانت يد رسول الله صلى الله عليه وسلم لعثمان خيرا من ايديهم لانفسهم. رواه الترمذي وَعَن أنسٍ قَالَ: لَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَيْعَةِ الرِّضْوَانِ كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَسُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَكَّةَ فَبَايَعَ النَّاسُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِن عُثْمَانَ فِي حَاجَةِ اللَّهِ وَحَاجَةِ رَسُولِهِ» فَضَرَبَ بِإِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى فَكَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُثْمَانَ خَيْرًا من أَيْديهم لأَنْفُسِهِمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیعت رضوان کے لیے حکم فرمایا تو عثمان رضی اللہ عنہ مکہ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قاصد بن کر گئے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بیعت کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ عثمان اللہ اور اس کے رسول کے کام گئے ہوئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مارا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ، عثمان رضی اللہ عنہ کی خاطر ان کے اپنی ذات کی خاطر ہاتھوں سے بہتر تھا۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (3702 وقال: حسن صحيح غريب) ٭ الحکم بن عبد الملک ضعيف و حديث أبي داود (2726) يغني عنه.»
وعن ثمامة بن حزن القشيري قال: شهدت الدار حين اشرف عليهم عثمان فقال: انشدكم بالله والإسلام هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم المدينة وليس بها ماء يستعذب غير بئر رومة؟ فقال: «من يشتري بئر رومة يجعل دلوه مع دلاء المسلمين بخير له منها في الجنة؟» فاشتريتها من صلب مالي وانتم اليوم تمنعونني ان اشرب منها حتى اشرب من ماء البحر؟ قالوا: اللهم نعم. فقال: انشدكم بالله والإسلام هل تعلمون ان المسجد ضاق باهله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من يشتري بقعة آل فلان فيزيدها في المسجد بخير منها في الجنة؟» . فاشتريتها من صلب مالي فانتم اليوم تمنعونني ان اصلي فيها ركعتين؟ فقالوا: اللهم نعم. قال: انشدكم بالله والإسلام هل تعلمون اني جهزت جيش العسرة من مالي؟ قالوا: اللهم نعم. قال: انشدكم بالله والإسلام هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان على ثبير مكة ومعه ابو بكر وعمر وانا فتحرك الجبل حتى تساقطت حجارته بالحضيض فركضه برجله قال: «اسكن ثبير فإنما عليك نبي وصديق وشهيدان» . قالوا: اللهم نعم. قال: الله اكبر شهدوا ورب الكعبة اني شهيد ثلاثا. رواه الترمذي والنسائي والدارقطني وَعَن ثُمامة بن حَزْنٍ الْقشيرِي قَالَ: شَهِدْتُ الدَّارَ حِينَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ فَقَالَ: أنْشدكُمْ بِاللَّه وَالْإِسْلَامَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرُ بِئْرِ رُومَةَ؟ فَقَالَ: «مَنْ يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ يَجْعَلُ دَلْوَهُ مَعَ دِلَاءِ الْمُسْلِمِينَ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ؟» فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي وَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُونَنِي أَنْ أَشْرَبَ مِنْهَا حَتَّى أَشْرَبَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نعم. فَقَالَ: أنْشدكُمْ بِاللَّه وَالْإِسْلَامَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ الْمَسْجِدَ ضَاقَ بِأَهْلِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يَشْتَرِي بُقْعَةَ آلِ فُلَانٍ فَيَزِيدُهَا فِي الْمَسْجِد بِخَير مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ؟» . فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُونَنِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيهَا رَكْعَتَيْنِ؟ فَقَالُوا: اللَّهُمَّ نعم. قَالَ: أنْشدكُمْ بِاللَّه وَالْإِسْلَامَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنِّي جَهَّزْتُ جَيْشَ الْعُسْرَةِ مِنْ مَالِي؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ. قَالَ: أَنْشُدُكُمُ بِاللَّه وَالْإِسْلَامَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلَى ثَبِيرِ مَكَّةَ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَا فَتَحَرَّكَ الْجَبَلُ حَتَّى تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُهُ بِالْحَضِيضِ فَرَكَضَهُ بِرِجْلِهِ قَالَ: «اسْكُنْ ثَبِيرُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيُّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ» . قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ. قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ شَهِدُوا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ أَنِّي شَهِيدٌ ثَلَاثًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيّ وَالدَّارَقُطْنِيّ
ثمامہ بن حزن قشیری ؒ بیان کرتے ہیں، میں اس وقت گھر کے پاس تھا، جب عثمان رضی اللہ عنہ نے (اپنے گھر سے) جھانک کر فرمایا: میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینے تشریف لائے تو رومہ کنویں کے علاوہ وہاں میٹھا پانی نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رومہ کنویں کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے گا تو اس کے لیے جنت میں اس سے بہتر ہو گا۔ “ میں نے اپنے خالص مال سے اسے خریدا، اور آج تم مجھے اس کا پانی پینے سے روک رہے ہو حتیٰ کہ میں سمندری پانی پی رہا ہوں، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ایسے ہی ہے، پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں: کیا تم جانتے ہو کہ مسجد اپنے نمازیوں کے لیے تنگ تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص آل فلاں سے زمین کا قطعہ خرید کر اس سے مسجد کی توسیع کر دے گا تو اس کے لیے جنت میں اس سے بہتر ہو گا۔ “ میں نے اپنے خالص مال سے اسے خریدا، اور آج تم مجھے اس میں دو رکعت نماز ادا کرنے سے روک رہے ہو، انہوں نے کہا: ہاں! ایسے ہی ہے، آپ نے فرمایا: میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تمہیں پوچھتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ جیش العسرہ کو میں نے اپنے مال سے تیار کیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں! عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں: کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کے پہاڑ پر تھے، اور اس وقت ابوبکر، عمر اور میں آپ کے ساتھ تھے، پہاڑ نے حرکت کی حتیٰ کہ زمین پر کچھ ٹکڑے گر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پاؤں سے اسے ٹھوکر مار کر فرمایا: ”پہاڑ ٹھہر جا، تجھ پر ایک نبی ہے، ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں؟“ انہوں نے کہا: ہاں! ایسے ہی ہے، آپ نے تین بار فرمایا: اللہ اکبر! رب کعبہ کی قسم! انہوں نے گواہی دے دی کہ میں شہید ہوں۔ حسن، رواہ الترمذی و النسائی و الدارقطنی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن دون قوله ’’ثبير‘‘، رواه الترمذي (3703 وقال: حسن) و النسائي (6/ 235. 236 ح 3638) و الدارقطني (4/ 196)»
وعن مرة بن كعب قال: سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم وذكر الفتن فقر بها فمر رجل مقنع في ثوب فقال: «هذا يومئذ على هدى» فقمت إليه فإذا هو عثمان بن عفان. قال: فاقبلت عليه بوجهه. فقلت: هذا؟ قال: «نعم» . رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح وَعَن مرّة بن كَعْب قَالَ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذكر الْفِتَن فقر بهَا فَمَرَّ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ فِي ثَوْبٍ فَقَالَ: «هَذَا يَوْمئِذٍ على هدى» فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ. قَالَ: فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهِ بِوَجْهِهِ. فَقُلْتُ: هَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيث حسن صَحِيح
مرہ بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا، آپ نے فتنوں کا ذکر کیا اور ان کے قریب ہونے کا ارشاد فرمایا، اتنے میں ایک آدمی گزرا، اس نے ایک کپڑا لپیٹ رکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ شخص اس (فتنے کے) دن ہدایت پر ہو گا۔ “ میں ان کی طرف گیا، دیکھا کہ وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں، میں نے ان کا چہرہ آپ کی طرف پھیر کر عرض کیا: یہ وہ (آدمی) ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔ “ ترمذی، ابن ماجہ، اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ حسن، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (3704) و ابن ماجه (11)»
وعن عائشة ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يا عثمان إنه لعل الله يقمصك قميصا فإن ارادوك على خلعه فلا تخلعه لهم» . رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي في الحديث قصة طويلة وَعَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَا عُثْمَانُ إِنَّهُ لَعَلَّ اللَّهَ يُقَمِّصُكَ قَمِيصًا فَإِنْ أَرَادُوكَ عَلَى خَلْعِهِ فَلَا تَخْلَعْهُ لَهُمْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ فِي الحَدِيث قصَّة طَوِيلَة
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عثمان! امید ہے کہ اللہ تمہیں قمیص پہنائے گا، اگر وہ تم سے اسے اتروانا چاہیں تو تم ان کی خاطر اسے نہ اتارنا۔ “ ترمذی، ابن ماجہ، اور امام ترمذی نے فرمایا: حدیث میں طویل قصہ ہے۔ صحیح، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (3705 وقال: حسن غريب) و ابن ماجه (112)»
وعن ابن عمر قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم فتنة فقال: «يقتل هذا فيها مظلوما» لعثمان. رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب إسنادا وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِتْنَةً فَقَالَ: «يُقْتَلُ هَذَا فِيهَا مَظْلُومًا» لِعُثْمَانَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِسْنَادًا
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک فتنے کا ذکر کیا تو فرمایا: ”یہ یعنی عثمان اس میں مظلوم شہید کر دیے جائیں گے۔ “ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث حسن ہے اس کی سند غریب ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (3708) ٭ سنان بن ھارون البرجمي ضعيف ضعفه الجمھور.»