وعن ثمامة بن حزن القشيري قال: شهدت الدار حين اشرف عليهم عثمان فقال: انشدكم بالله والإسلام هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم المدينة وليس بها ماء يستعذب غير بئر رومة؟ فقال: «من يشتري بئر رومة يجعل دلوه مع دلاء المسلمين بخير له منها في الجنة؟» فاشتريتها من صلب مالي وانتم اليوم تمنعونني ان اشرب منها حتى اشرب من ماء البحر؟ قالوا: اللهم نعم. فقال: انشدكم بالله والإسلام هل تعلمون ان المسجد ضاق باهله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من يشتري بقعة آل فلان فيزيدها في المسجد بخير منها في الجنة؟» . فاشتريتها من صلب مالي فانتم اليوم تمنعونني ان اصلي فيها ركعتين؟ فقالوا: اللهم نعم. قال: انشدكم بالله والإسلام هل تعلمون اني جهزت جيش العسرة من مالي؟ قالوا: اللهم نعم. قال: انشدكم بالله والإسلام هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان على ثبير مكة ومعه ابو بكر وعمر وانا فتحرك الجبل حتى تساقطت حجارته بالحضيض فركضه برجله قال: «اسكن ثبير فإنما عليك نبي وصديق وشهيدان» . قالوا: اللهم نعم. قال: الله اكبر شهدوا ورب الكعبة اني شهيد ثلاثا. رواه الترمذي والنسائي والدارقطني وَعَن ثُمامة بن حَزْنٍ الْقشيرِي قَالَ: شَهِدْتُ الدَّارَ حِينَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ فَقَالَ: أنْشدكُمْ بِاللَّه وَالْإِسْلَامَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرُ بِئْرِ رُومَةَ؟ فَقَالَ: «مَنْ يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ يَجْعَلُ دَلْوَهُ مَعَ دِلَاءِ الْمُسْلِمِينَ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ؟» فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي وَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُونَنِي أَنْ أَشْرَبَ مِنْهَا حَتَّى أَشْرَبَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نعم. فَقَالَ: أنْشدكُمْ بِاللَّه وَالْإِسْلَامَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ الْمَسْجِدَ ضَاقَ بِأَهْلِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يَشْتَرِي بُقْعَةَ آلِ فُلَانٍ فَيَزِيدُهَا فِي الْمَسْجِد بِخَير مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ؟» . فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُونَنِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيهَا رَكْعَتَيْنِ؟ فَقَالُوا: اللَّهُمَّ نعم. قَالَ: أنْشدكُمْ بِاللَّه وَالْإِسْلَامَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنِّي جَهَّزْتُ جَيْشَ الْعُسْرَةِ مِنْ مَالِي؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ. قَالَ: أَنْشُدُكُمُ بِاللَّه وَالْإِسْلَامَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلَى ثَبِيرِ مَكَّةَ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَا فَتَحَرَّكَ الْجَبَلُ حَتَّى تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُهُ بِالْحَضِيضِ فَرَكَضَهُ بِرِجْلِهِ قَالَ: «اسْكُنْ ثَبِيرُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيُّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ» . قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ. قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ شَهِدُوا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ أَنِّي شَهِيدٌ ثَلَاثًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيّ وَالدَّارَقُطْنِيّ
ثمامہ بن حزن قشیری ؒ بیان کرتے ہیں، میں اس وقت گھر کے پاس تھا، جب عثمان رضی اللہ عنہ نے (اپنے گھر سے) جھانک کر فرمایا: میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینے تشریف لائے تو رومہ کنویں کے علاوہ وہاں میٹھا پانی نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رومہ کنویں کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے گا تو اس کے لیے جنت میں اس سے بہتر ہو گا۔ “ میں نے اپنے خالص مال سے اسے خریدا، اور آج تم مجھے اس کا پانی پینے سے روک رہے ہو حتیٰ کہ میں سمندری پانی پی رہا ہوں، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ایسے ہی ہے، پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں: کیا تم جانتے ہو کہ مسجد اپنے نمازیوں کے لیے تنگ تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص آل فلاں سے زمین کا قطعہ خرید کر اس سے مسجد کی توسیع کر دے گا تو اس کے لیے جنت میں اس سے بہتر ہو گا۔ “ میں نے اپنے خالص مال سے اسے خریدا، اور آج تم مجھے اس میں دو رکعت نماز ادا کرنے سے روک رہے ہو، انہوں نے کہا: ہاں! ایسے ہی ہے، آپ نے فرمایا: میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تمہیں پوچھتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ جیش العسرہ کو میں نے اپنے مال سے تیار کیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں! عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں: کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کے پہاڑ پر تھے، اور اس وقت ابوبکر، عمر اور میں آپ کے ساتھ تھے، پہاڑ نے حرکت کی حتیٰ کہ زمین پر کچھ ٹکڑے گر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پاؤں سے اسے ٹھوکر مار کر فرمایا: ”پہاڑ ٹھہر جا، تجھ پر ایک نبی ہے، ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں؟“ انہوں نے کہا: ہاں! ایسے ہی ہے، آپ نے تین بار فرمایا: اللہ اکبر! رب کعبہ کی قسم! انہوں نے گواہی دے دی کہ میں شہید ہوں۔ حسن، رواہ الترمذی و النسائی و الدارقطنی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن دون قوله ’’ثبير‘‘، رواه الترمذي (3703 وقال: حسن) و النسائي (6/ 235. 236 ح 3638) و الدارقطني (4/ 196)»