وعن علي بن ابي طالب رضي الله عنه قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم بمكة فخرجنا في بعض نواحيها فما استقبله جبل ولا شجر إلا وهو يقول: السلام عليك يا رسول الله. رواه الترمذي والدارمي وَعَنْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيهَا فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ يَقُولُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ والدارمي
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مکہ میں موجود تھا، ہم اس کی ایک جانب نکلے تو سامنے آنے والا ہر شجر و حجر کہہ رہا تھا: اللہ کے رسول! السلام علیکم! اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3626 وقال: حسن غريب) و الدارمي (1/ 12ح 21) ٭ وليد بن أبي ثور: ضعيف و عباد: مجھول.»
وعن انس ان النبي صلى الله عليه وسلم اتي بالبراق ليلة اسري به ملجما مسرجا فاستصعب عليه فقال له جبريل: ابمحمد تفعل هذا؟ قال: فما ركبك احد اكرم على الله منه قال: فارفض عرقا. رواه الترمذي وقال هذا حديث غريب وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرجاً فاستصعب عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ جِبْرِيل: أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ هَذَا؟ قَالَ: فَمَا رَكِبَكَ أَحَدٌ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْهُ قَالَ: فَارْفَضَّ عَرَقًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معراج کی رات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس براق لائی گئی جسے لگام ڈالی گئی تھی اور اس پر زین سجائی گئی تھی، اس نے آپ کے بیٹھنے میں رکاوٹ پیدا کی تو جبریل ؑ نے اسے فرمایا: کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ سلوک کرتی ہو؟ اللہ کے ہاں ان سے بڑھ کر معزز کسی شخصیت نے تجھ پر سواری نہیں کی ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(یہ سن کر) وہ (براق) پسینے سے شرابور ہو گئی۔ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3131) ٭ قتادة مدلس و عنعن.»
وعن بريدة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لما انتهينا إلى بيت المقدس قال جبريل باصبعه فخرق بها الحجر فشد به البراق» . رواه الترمذي وَعَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ جِبْرِيل بِأُصْبُعِهِ فَخَرَقَ بِهَا الْحَجَرَ فَشَدَّ بِهِ الْبُرَاقَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبریل نے اپنی انگلی سے اشارہ فرمایا تو اس کے ساتھ پتھر میں سوراخ کر دیا اور اس کے ساتھ براق کو باندھ دیا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3132 وقال: غريب)»
وعن يعلى بن مرة الثقفي قال ثلاثة اشياء رايتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم بينا نحن نسير معه إذ مررنا ببعير يسنى عليه فلما رآه البعير جرجر فوضع جرانه فوقف عليه النبي صلى الله عليه وسلم فقال اين صاحب هذا البعير فجاءه فقال بعنيه فقال بل نهبه لك يا رسول الله وإنه لاهل بيت ما لهم معيشة غيره قال اما إذ ذكرت هذا من امره فإنه شكا كثرة العمل وقلة العلف فاحسنوا إليه قال ثم سرنا فنزلنا منزلا فنام النبي صلى الله عليه وسلم فجاءت شجرة تشق الارض حتى غشيته ثم رجعت إلى مكانها فلما استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكرت له فقال هي شجرة استاذنت ربها عز وجل ان تسلم على رسول الله صلى الله عليه وسلم فاذن لها قال ثم سرنا فمررنا بماء فاتته امراة بابن لها به جنة فاخذ النبي صلى الله عليه وسلم بمنخره فقال اخرج إني محمد رسول الله قال ثم سرنا فلما رجعنا من سفرنا مررنا بذلك الماء فسالها عن الصبي فقالت والذي بعثك بالحق ما راينا منه ريبا بعدك. رواه في شرح السنة وَعَن يعلى بن مرَّةَ الثَّقفي قَالَ ثَلَاثَةُ أَشْيَاءَ رَأَيْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَا نَحْنُ نَسِيرُ مَعَه إِذ مَرَرْنَا بِبَعِير يُسْنَى عَلَيْهِ فَلَمَّا رَآهُ الْبَعِيرُ جَرْجَرَ فَوَضَعَ جِرَانَهُ فَوَقَفَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَيْنَ صَاحِبُ هَذَا الْبَعِيرِ فَجَاءَهُ فَقَالَ بِعْنِيهِ فَقَالَ بَلْ نَهَبُهُ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَإِنَّهُ لِأَهْلِ بَيْتٍ مَا لَهُمْ مَعِيشَةٌ غَيْرُهُ قَالَ أَمَا إِذْ ذَكَرْتَ هَذَا مِنْ أَمْرِهِ فَإِنَّهُ شَكَا كَثْرَةَ الْعَمَلِ وَقِلَّةَ العلفِ فَأحْسنُوا إِلَيْهِ قَالَ ثمَّ سرنا فنزلنا مَنْزِلًا فَنَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَتْ شَجَرَةٌ تَشُقُّ الْأَرْضَ حَتَّى غَشِيَتْهُ ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَى مَكَانِهَا فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذُكِرَتْ لَهُ فَقَالَ هِيَ شجرةٌ استأذَنَتْ ربّها عز وَجل أَنْ تُسَلِّمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنَ لَهَا قَالَ ثُمَّ سِرْنَا فَمَرَرْنَا بِمَاءٍ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ بِابْنٍ لَهَا بِهِ جِنَّةٌ فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بمنخره فَقَالَ اخْرُج إِنِّي مُحَمَّد رَسُول الله قَالَ ثمَّ سرنا فَلَمَّا رَجعْنَا من سفرنا مَرَرْنَا بِذَلِكَ الْمَاءِ فَسَأَلَهَا عَنِ الصَّبِيِّ فَقَالَتْ وَالَّذِي بَعثك بِالْحَقِّ مَا رأَينا مِنْهُ رَيباً بعْدك. رَوَاهُ فِي شرح السّنة
یعلی بن مرہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین معجزات دیکھے، ہم سفر کر رہے تھے کہ ہم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے اس پر پانی لایا جاتا تھا، جب اس اونٹ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو وہ بلبلا اٹھا اور اپنی گردن (زمین پر) رکھ دی، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں ٹھہر گئے اور فرمایا: ”اس اونٹ کا مالک کہاں ہے؟“ وہ آپ کی خدمت میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے مجھے فروخت کر دو۔ “ اس نے عرض کیا، نہیں، ہم اللہ کے رسول! آپ کو ویسے ہی ہبہ کر دیتے ہیں، لیکن عرض یہ ہے کہ یہ جس گھرانے کا ہے ان کی معیشت کا انحصار صرف اسی پر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سن لے جب تو نے اس کی یہ صورت بیان کی تو اس نے کثرت عمل اور قلت خوراک کی شکایت کی تھی تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ “ پھر ہم نے سفر شروع کیا حتیٰ کہ ہم نے ایک جگہ قیام کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو گئے، ایک درخت زمین پھاڑتا ہوا آیا حتیٰ کہ اس نے آپ کو ڈھانپ لیا، اور پھر واپس اپنی جگہ پر چلا گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ درخت ہے جس نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرے لہذا اسے اجازت دی گئی۔ “ راوی بیان کرتے ہیں: پھر ہم نے سفر شروع کیا تو ہم پانی کے قریب سے گزرے وہاں ایک عورت اپنے مجنون بیٹے کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس کی ناک سے پکڑ کر فرمایا: ”نکل جا، کیونکہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا رسول ہوں۔ “ پھر ہم نے سفر شروع کر دیا، جب ہم واپس آئے اور اسی پانی کے مقام سے گزرے تو آپ نے اس عورت سے اس بچے کے متعلق دریافت فرمایا تو اس نے عرض کیا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس کی طرف سے کوئی ناگوار چیز نہیں دیکھی۔ اسنادہ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (13/ 295. 296 ح 3718) [و أحمد (4/ 173 ح 17708) ٭ فيه عبد الله بن حفص: مجھول و عطاء بن السائب: اختلط، رواه عنه معمر وله شواھد ضعيفة عند الحاکم (617/2. 618) و أحمد (4/ 170) وغيرهما.»
وعن ابن عباس قال: إن امراة جاءت بابن لها إلى رسول الله رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يارسول الله إن ابني به جنون وانه لياخذه عند غدائنا وعشائنا (فيخبث علينا) فمسح رسول الله رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره ودعا فثع ثعة وخرج من جوفه مثل الجرو الاسود يسعى. رواه الدارمي وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ بابنٍ لَهَا إِلى رَسُول اللَّهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يارسول اللَّهِ إِنَّ ابْنِي بِهِ جُنُونٌ وَأَنَّهُ لَيَأْخُذُهُ عِنْدَ غَدَائِنَا وَعَشَائِنَا (فَيَخْبُثُ عَلَيْنَا) فَمَسَحَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ وَدَعَا فَثَعَّ ثَعَّةً وَخَرَجَ مِنْ جَوْفِهِ مِثْلُ الجرو الْأسود يسْعَى. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک عورت اپنا بیٹا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میرے بیٹے کو جنون ہے، اور اسے صبح و شام اس کا دورہ پڑتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور دعا فرمائی تو اس نے ایک زور دار قے کی تو اس کے پیٹ سے کالے کتے کا پلا دوڑتا ہوا نکل گیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الدارمي (1/ 11. 12 ح 19) ٭ فيه فرقد السبخي وھو ضعيف.»
وعن انس بن مالك قال جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس حزين وقد تخضب بالدم من فعل اهل مكة من قريش فقال جبريل يا رسول الله هل تحب ان اريك آية قال نعم فنظر إلى شجرة من ورائه فقال ادع بها فدعا بها فجاءت وقامت بين يديه فقال مرها فلترجع فامرها فرجعت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم حسبي حسبي. رواه الدارمي وَعَن أنس بن مَالك قَالَ جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالس حَزِين وَقد تخضب بِالدَّمِ من فعل أهل مَكَّة من قُرَيْش فَقَالَ جِبْرِيل يَا رَسُول الله هَل تحب أَن أريك آيَةً قَالَ نَعَمْ فَنَظَرَ إِلَى شَجَرَةٍ مِنْ وَرَائِهِ فَقَالَ ادْعُ بِهَا فَدَعَا بِهَا فَجَاءَتْ وَقَامَت بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ مُرْهَا فَلْتَرْجِعْ فَأَمَرَهَا فَرَجَعَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حسبي حسبي. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جبریل ؑ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تشریف لائے جبکہ آپ غمگین بیٹھے ہوئے تھے اور آپ مکہ والوں کے ناروا سلوک سے خون سے رنگین ہو چکے تھے، انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ ہم آپ کو ایک نشانی دکھائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔ “ جبریل ؑ نے آپ کے پیچھے سے ایک درخت دیکھا، اور فرمایا: اسے بلائیں، آپ نے اسے بلایا تو وہ آیا اور آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا، پھر آپ نے کہا: اسے واپس جانے کا حکم فرمائیں، انہوں نے اسے حکم فرمایا تو وہ واپس چلا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے کافی ہے، میرے لیے کافی ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الدارمي (1/ 12. 13 ح 23) [وابن ماجه (4028)] ٭ فيه الأعمش مدلس و عنعن.»
وعن ابن عمر قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فاقبل اعرابي فلما دنا منه قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم تشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له وان محمدا عبده ورسوله قال ومن يشهد على ما تقول؟ قال: «هذه السلمة» فدعاها رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بشاطئ الوادي فاقبلت تخد الارض حتى قامت بين يديه فاستشهدها ثلاثا فشهدت ثلاثا انه كما قال ثم رجعت إلى منبتها. رواه الدارمي وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَقْبَلَ أَعْرَابِي فَلَمَّا دنا مِنْهُ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولَهُ قَالَ وَمَنْ يَشْهَدُ عَلَى مَا تَقُولُ؟ قَالَ: «هَذِهِ السَّلَمَةُ» فَدَعَاهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِشَاطِئِ الْوَادِي فَأَقْبَلَتْ تَخُدُّ الْأَرْضَ حَتَّى قَامَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ فَاسْتَشْهِدْهَا ثَلَاثًا فَشَهِدَتْ ثَلَاثًا أَنَّهُ كَمَا قَالَ ثُمَّ رجعتْ إِلى منبتِها. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، ایک اعرابی آیا، جب وہ قریب آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ “ اس نے کہا، آپ جو فرما رہے ہیں اس پر کون گواہی دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ خار دار درخت۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بلایا اور وہ وادی کے کنارے پر تھا، وہ زمین پھاڑتا ہوا آیا حتیٰ کہ وہ آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ آپ نے اس سے تین مرتبہ گواہی طلب کی تو اس نے تین مرتبہ گواہی دی کہ آپ کی شان وہی ہے جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے، پھر وہ اپنی اگنے کی جگہ پر چلا گیا۔ اسنادہ حسن، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الدارمي (1/ 10 ح 16)»
وعن ابن عباس قال جاء اعرابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: بما اعرف انك نبي؟ قال: «إن دعوت هذا العذق من هذه النخلة يشهد اني رسول الله» فدعاه رسول الله صلى الله عليه وسلم فجعل ينزل من النخلة حتى سقط إلى النبي صلى الله عليه وسلم ثم قال: «ارجع» فعاد فاسلم الاعرابي. رواه الترمذي وصححه وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بِمَا أَعْرِفُ أَنَّكَ نَبِيٌّ؟ قَالَ: «إِنْ دَعَوْتَ هَذَا الْعِذْقَ مِنْ هَذِهِ النَّخْلَةِ يَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ» فَدَعَاهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَنْزِلُ مِنَ النَّخْلَةِ حَتَّى سَقَطَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: «ارْجِعْ» فَعَادَ فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَصَححهُ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور اس نے عرض کیا، مجھے کس طرح پتہ چلے کہ آپ نبی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں کھجور کے اس درخت سے اس خوشے کو بلاؤں اور وہ گواہی دے کہ میں اللہ کا رسول ہوں (تو پھر ٹھیک ہے)۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بلایا تو وہ کھجور کے درخت سے اتر کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”واپس چلے جاؤ۔ “ وہ واپس چلا گیا، اور اعرابی نے اسلام قبول کر لیا۔ ترمذی، اور انہوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (3628) ٭ شريک مدلس و عنعن و له شواھد ضعيفة.»
وعن ابي هريرة قال جاء ذئب إلى راعي غنم فاخذ منها شاة فطلبه الراعي حتى انتزعها منه قال فصعد الذئب على تل فاقعى واستذفر فقال عمدت إلى رزق رزقنيه الله عز وجل اخذته ثم انتزعته مني فقال الرجل تالله إن رايت كاليوم ذئبا يتكلم فقال الذئب اعجب من هذا رجل في النخلات بين الحرتين يخبركم بما مضى وبما هو كائن بعدكم وكان الرجل يهوديا فجاء الرجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاسلم وخبره فصدقه النبي صلى الله عليه وسلم ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم إنها امارة من امارات بين يدي الساعة قد اوشك الرجل ان يخرج فلا يرجع حتى تحدثه نعلاه وسوطه ما احدث اهله بعده. رواه في شرح السنة وَعَن أبي هريرةَ قَالَ جَاءَ ذِئْبٌ إِلَى رَاعِي غَنَمٍ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً فَطَلَبَهُ الرَّاعِي حَتَّى انْتَزَعَهَا مِنْهُ قَالَ فَصَعِدَ الذئبُ على تل فأقعى واستذفر فَقَالَ عَمَدت إِلَى رزق رزقنيه الله عز وَجل أخذتُه ثمَّ انتزعتَه مِنِّي فَقَالَ الرَّجُلُ تَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ ذئبا يَتَكَلَّمُ فَقَالَ الذِّئْبُ أَعْجَبُ مِنْ هَذَا رَجُلٌ فِي النَّخَلَاتِ بَيْنَ الْحَرَّتَيْنِ يُخْبِرُكُمْ بِمَا مَضَى وَبِمَا هُوَ كَائِن بعدكم وَكَانَ الرجل يَهُودِيّا فجَاء الرجل إِلَى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَأسلم وَخَبره فَصَدَّقَهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهَا أَمارَة من أَمَارَاتٌ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ قَدْ أَوْشَكَ الرَّجُلُ أَن يخرج فَلَا يرجع حَتَّى تحدثه نعلاه وَسَوْطه مَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ. رَوَاهُ فِي شَرْحِ السُّنَّةِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک بھیڑیا بکریوں کے ریوڑ کے چرواہے کے پاس آیا اور اس نے وہاں سے ایک بکری اٹھا لی، چرواہے نے اس کا پیچھا کیا حتیٰ کہ اس کو اس سے چھڑا لیا، راوی بیان کرتے ہیں، بھیڑیا ایک ٹیلے پر چڑھ گیا، اور وہاں سرین کے بل بیٹھ گیا اور دم دونوں پاؤں کے درمیان داخل کر لی، پھر اس نے کہا: میں نے روزی کا قصد کیا جو اللہ نے مجھے عطا کی تھی اور میں نے اسے حاصل کر لیا تھا، مگر تو نے اسے مجھ سے چھڑا لیا۔ اس آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے آج کے دن کی طرح کوئی بھیڑیا بولتے ہوئے نہیں دیکھا، بھیڑیے نے کہا: اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ آدمی (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو دو پہاڑوں کے درمیان واقع نخلستان (مدینہ) میں رہتا ہے، وہ تمہیں ماضی اور حال کے واقعات کے متعلق بتاتا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں، وہ شخص یہودی تھا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو اس نے اس واقعہ کے متعلق آپ کو بتایا اور اسلام قبول کر لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تصدیق فرمائی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ قیامت سے پہلے کی نشانیاں ہیں، قریب ہے کہ آدمی (گھر سے) نکلے، پھر وہ واپس آئے تو اس کے جوتے اور اس کا کوڑا اسے ان حالات کے متعلق بتائیں جو اس کے بعد اس کے اہل خانہ کے ساتھ پیش آئے ہوں۔ “ صحیح، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه البغوي في شرح السنة (15/ 87 ح 4282) [و أحمد (2/ 306 ح 8049 وسنده حسن)] ٭ وله شاھد عند أحمد (3/ 83. 84) و صححه الحاکم (4/ 467. 468) ووافقه الذهبي و أصله في سنن الترمذي (2181وھو حديث صحيح)»
وعن ابي العلاء عن سمرة بن جندب قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم نتداول من قصعة من غدوة حتى الليل يقوم عشرة ويقعد عشرة قلنا: فمما كانت تمد؟ قال: من اي شيء تعجب؟ ما كانت تمد إلا من ههنا واشار بيده إلى السماء. رواه الترمذي والدارمي وَعَنْ أَبِي الْعَلَاءِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَتَدَاوَلُ مِنْ قَصْعَةٍ مِنْ غُدْوَةٍ حَتَّى اللَّيْلِ يَقُومُ عَشَرَةٌ وَيَقْعُدُ عَشَرَةٌ قُلْنَا: فَمِمَّا كَانَتْ تُمَدُّ؟ قَالَ: مِنْ أَيْ شَيْءٍ تَعْجَبُ؟ مَا كَانَت تمَدّ إِلا من هَهنا وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى السَّمَاءِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ
ابوالعلاء، سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک برتن سے دن بھر باری باری تناول کرتے رہے، وہ اس طرح کہ دس کھا جاتے اور دس آ جاتے۔ ہم نے کہا: کہاں سے بڑھایا جا رہا تھا؟ انہوں (سمرہ رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: تم کس چیز سے تعجب کرتے ہو؟ اس میں اضافہ تو اس طرف سے ہو رہا تھا، اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (3625 وقال: حسن صحيح) و الدارمي (1/ 30 ح 57)»