وعن يعلى بن مرة الثقفي قال ثلاثة اشياء رايتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم بينا نحن نسير معه إذ مررنا ببعير يسنى عليه فلما رآه البعير جرجر فوضع جرانه فوقف عليه النبي صلى الله عليه وسلم فقال اين صاحب هذا البعير فجاءه فقال بعنيه فقال بل نهبه لك يا رسول الله وإنه لاهل بيت ما لهم معيشة غيره قال اما إذ ذكرت هذا من امره فإنه شكا كثرة العمل وقلة العلف فاحسنوا إليه قال ثم سرنا فنزلنا منزلا فنام النبي صلى الله عليه وسلم فجاءت شجرة تشق الارض حتى غشيته ثم رجعت إلى مكانها فلما استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكرت له فقال هي شجرة استاذنت ربها عز وجل ان تسلم على رسول الله صلى الله عليه وسلم فاذن لها قال ثم سرنا فمررنا بماء فاتته امراة بابن لها به جنة فاخذ النبي صلى الله عليه وسلم بمنخره فقال اخرج إني محمد رسول الله قال ثم سرنا فلما رجعنا من سفرنا مررنا بذلك الماء فسالها عن الصبي فقالت والذي بعثك بالحق ما راينا منه ريبا بعدك. رواه في شرح السنة وَعَن يعلى بن مرَّةَ الثَّقفي قَالَ ثَلَاثَةُ أَشْيَاءَ رَأَيْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَا نَحْنُ نَسِيرُ مَعَه إِذ مَرَرْنَا بِبَعِير يُسْنَى عَلَيْهِ فَلَمَّا رَآهُ الْبَعِيرُ جَرْجَرَ فَوَضَعَ جِرَانَهُ فَوَقَفَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَيْنَ صَاحِبُ هَذَا الْبَعِيرِ فَجَاءَهُ فَقَالَ بِعْنِيهِ فَقَالَ بَلْ نَهَبُهُ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَإِنَّهُ لِأَهْلِ بَيْتٍ مَا لَهُمْ مَعِيشَةٌ غَيْرُهُ قَالَ أَمَا إِذْ ذَكَرْتَ هَذَا مِنْ أَمْرِهِ فَإِنَّهُ شَكَا كَثْرَةَ الْعَمَلِ وَقِلَّةَ العلفِ فَأحْسنُوا إِلَيْهِ قَالَ ثمَّ سرنا فنزلنا مَنْزِلًا فَنَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَتْ شَجَرَةٌ تَشُقُّ الْأَرْضَ حَتَّى غَشِيَتْهُ ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَى مَكَانِهَا فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذُكِرَتْ لَهُ فَقَالَ هِيَ شجرةٌ استأذَنَتْ ربّها عز وَجل أَنْ تُسَلِّمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنَ لَهَا قَالَ ثُمَّ سِرْنَا فَمَرَرْنَا بِمَاءٍ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ بِابْنٍ لَهَا بِهِ جِنَّةٌ فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بمنخره فَقَالَ اخْرُج إِنِّي مُحَمَّد رَسُول الله قَالَ ثمَّ سرنا فَلَمَّا رَجعْنَا من سفرنا مَرَرْنَا بِذَلِكَ الْمَاءِ فَسَأَلَهَا عَنِ الصَّبِيِّ فَقَالَتْ وَالَّذِي بَعثك بِالْحَقِّ مَا رأَينا مِنْهُ رَيباً بعْدك. رَوَاهُ فِي شرح السّنة
یعلی بن مرہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین معجزات دیکھے، ہم سفر کر رہے تھے کہ ہم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے اس پر پانی لایا جاتا تھا، جب اس اونٹ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو وہ بلبلا اٹھا اور اپنی گردن (زمین پر) رکھ دی، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں ٹھہر گئے اور فرمایا: ”اس اونٹ کا مالک کہاں ہے؟“ وہ آپ کی خدمت میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے مجھے فروخت کر دو۔ “ اس نے عرض کیا، نہیں، ہم اللہ کے رسول! آپ کو ویسے ہی ہبہ کر دیتے ہیں، لیکن عرض یہ ہے کہ یہ جس گھرانے کا ہے ان کی معیشت کا انحصار صرف اسی پر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سن لے جب تو نے اس کی یہ صورت بیان کی تو اس نے کثرت عمل اور قلت خوراک کی شکایت کی تھی تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ “ پھر ہم نے سفر شروع کیا حتیٰ کہ ہم نے ایک جگہ قیام کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو گئے، ایک درخت زمین پھاڑتا ہوا آیا حتیٰ کہ اس نے آپ کو ڈھانپ لیا، اور پھر واپس اپنی جگہ پر چلا گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ درخت ہے جس نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرے لہذا اسے اجازت دی گئی۔ “ راوی بیان کرتے ہیں: پھر ہم نے سفر شروع کیا تو ہم پانی کے قریب سے گزرے وہاں ایک عورت اپنے مجنون بیٹے کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس کی ناک سے پکڑ کر فرمایا: ”نکل جا، کیونکہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا رسول ہوں۔ “ پھر ہم نے سفر شروع کر دیا، جب ہم واپس آئے اور اسی پانی کے مقام سے گزرے تو آپ نے اس عورت سے اس بچے کے متعلق دریافت فرمایا تو اس نے عرض کیا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس کی طرف سے کوئی ناگوار چیز نہیں دیکھی۔ اسنادہ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (13/ 295. 296 ح 3718) [و أحمد (4/ 173 ح 17708) ٭ فيه عبد الله بن حفص: مجھول و عطاء بن السائب: اختلط، رواه عنه معمر وله شواھد ضعيفة عند الحاکم (617/2. 618) و أحمد (4/ 170) وغيرهما.»