کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب البيوع
--. مقروض کا قرض ادا کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2909
اعراب
وعن سلمة بن الاكوع قال: كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ اتي بجنازة فقالوا: صل عليها فقال: «هل عليه دين؟» قالوا: لا فصلى عليها ثم اتي بجنازة اخرى فقال: «هل عليه دين؟» قالوا: نعم فقال: «فهل ترك شيئا؟» قالوا: ثلاثة دنانير فصلى عليها ثم اتي بالثالثة فقال: «هل عليه دين؟» قالوا: ثلاثة دنانير قال: «هل ترك شيئا؟» قالوا: لا قال: «صلوا على صاحبكم» قال ابو قتادة: صلى الله عليه وسلم عليه يا رسول الله وعلي دينه فصلى عليه. رواه البخاري وَعَن سَلمَة بن الْأَكْوَع قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أُتِيَ بِجِنَازَةٍ فَقَالُوا: صَلِّ عَلَيْهَا فَقَالَ: «هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ؟» قَالُوا: لَا فَصَلَّى عَلَيْهَا ثُمَّ أُتِيَ بِجِنَازَةٍ أُخْرَى فَقَالَ: «هَل عَلَيْهِ دين؟» قَالُوا: نعم فَقَالَ: «فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا؟» قَالُوا: ثَلَاثَةَ دَنَانِيرَ فَصَلَّى عَلَيْهَا ثمَّ أُتِي بالثالثة فَقَالَ: «هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ؟» قَالُوا: ثَلَاثَةُ دَنَانِيرَ قَالَ: «هَلْ تَرَكَ شَيْئًا؟» قَالُوا: لَا قَالَ: «صلوا على صَاحبكُم» قَالَ أَبُو قَتَادَة: صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَلَيْهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَعَلَيَّ دَيْنُهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا، صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اس کی نماز جنازہ پڑھائیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں۔ تو آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی، پھر آپ کے پاس ایک اور جنازہ لایا گیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ عرض کیا گیا: جی ہاں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا اس نے کوئی چیز ترکہ چھوڑی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: تین دینار، آپ نے اُس کی نمازِ جنازہ پڑھی، پھر تیسرا جنازہ لایا گیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ انہوں نے عرض کیا: تین دینار، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا اس نے کوئی ترکہ چھوڑا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں، فرمایا: اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھیں اور اس کا قرض میرے ذمہ رہا (میں ادا کروں گا) تب آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (2289)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. قرض واپس کرنے کا ارادہ کرنے والے کی اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے
حدیث نمبر: 2910
اعراب
وعن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من اخذ اموال الناس يريد اداءها ادى الله عنه ومن اخذ يريد إتلافها اتلفه الله عليه» . رواه البخاري وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَا أَدَّى اللَّهُ عَنْهُ وَمَنْ أَخَذَ يُرِيدُ إِتْلَافَهَا أَتْلَفَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ» . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص بطور قرض لوگوں کا مال حاصل کرتا ہے اور وہ اسے ادا کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ادا کرنے کی توفیق سے نوازتا ہے، اور جو شخص اسے تلف کرنے کے لیے حاصل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے تلف فرما دے گا۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (2387)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. قرض شہید سے بھی معاف نہیں
حدیث نمبر: 2911
اعراب
وعن ابي قتادة قال: قال رجل: يا رسول الله ارايت إن قتلت في سبيل الله صابرا محتسبا مقبلا غير مدبر يكفر الله عني خطاياي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نعم» . فلما ادبر ناداه فقال: «نعم إلا الدين كذلك قال جبريل» . رواه مسلم وَعَن أبي قَتَادَة قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا مُقبلا غير مُدبر يكفر اللَّهُ عَنِّي خَطَايَايَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ» . فَلَمَّا أَدْبَرَ نَادَاهُ فَقَالَ: «نَعَمْ إِلَّا الدَّيْنَ كَذَلِكَ قَالَ جِبْرِيلُ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے بتائیں اگر میں ثابت قدمی سے، ثواب کی امید سے اللہ کی راہ میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو جاؤں تو کیا اللہ میرے گناہ معاف فرما دے گا؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں۔ جب وہ واپس چلا گیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے آواز دی، فرمایا: ہاں، البتہ قرض معاف نہیں ہو گا، جبریل ؑ نے اسی طرح کہا ہے۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (117/ 1885)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. قرض شہید کو بھی معاف نہیں
حدیث نمبر: 2912
اعراب
وعن عبد الله بن عمرو ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «يغفر للشهيد كل ذنب إلا الدين» . رواه مسلم وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يُغْفَرُ لِلشَّهِيدِ كل ذَنْب إِلَّا الدّين» . رَوَاهُ مُسلم
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرض کے سوا شہید کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (1886/119)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. ایک قرضدار کی نماز جنازہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار
حدیث نمبر: 2913
اعراب
وعن ابي هريرة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤتى بالرجل المتوفى عليه الدين فيسال: «هل ترك لدينه قضاء؟» فإن حدث انه ترك وفاء صلى وإلا قال للمسلمين: «صلوا على صاحبكم» . فلما فتح الله عليه الفتوح قام فقال: «انا اولى بالمؤمنين من انفسهم فمن توفي من المؤمنين فترك دينا فعلي قضاؤه ومن ترك فهو لورثته» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤْتَى بِالرَّجُلِ الْمُتَوَفَّى عَلَيْهِ الدِّينُ فَيَسْأَلُ: «هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ قَضَاءً؟» فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ وَفَاءً صَلَّى وَإِلَّا قَالَ لِلْمُسْلِمِينَ: «صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ» . فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْفُتُوحَ قَامَ فَقَالَ: «أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَمَنْ تُوفِّيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَتَرَكَ دينا فعلي قَضَاؤُهُ وَمن ترك فَهُوَ لوَرثَته»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کسی مقروض کا جنازہ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لایا جاتا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے: کیا اس نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟ اگر آپ کو بتایا جاتا کہ اس نے جو کچھ چھوڑا ہے اس سے قرض ادا ہو جائے گا تو آپ نمازِ جنازہ پڑھاتے، ورنہ (نہ پڑھاتے) مسلمانوں سے کہتے: اپنے ساتھی کی نمازِ جنازہ پڑھو۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتوحات نصیب فرمائیں تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں مومنوں کا ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق دار ہوں، جو مومن فوت ہو جائے اور وہ مقروض ہو تو اس کا قرض میرے ذمہ ہے، اور جو شخص مال چھوڑ جائے تو وہ اُس کے ورثا کے لیے ہے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (2298) و مسلم (1619/14)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. مفلس کا حکم
حدیث نمبر: 2914
اعراب
عن ابي خلدة الزرقي قال: جئنا ابا هريرة في صاحب لنا قد افلس فقال: هذا الذي قضى فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ايما رجل مات او افلس فصاحب المتاع احق بمتاعه إذا وجده بعينه» . رواه الشافعي وابن ماجه عَنْ أَبِي خَلْدَةَ الزُّرَقِيِّ قَالَ: جِئْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ فِي صَاحِبٍ لَنَا قَدْ أَفْلَسَ فَقَالَ: هَذَا الَّذِي قَضَى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا رَجُلٍ مَاتَ أَوْ أَفْلَسَ فَصَاحِبُ الْمَتَاعِ أَحَقُّ بِمَتَاعِهِ إِذَا وَجَدَهُ بِعَيْنِه» . رَوَاهُ الشَّافِعِي وَابْن مَاجَه
ابوخلدہ زرقی بیان کرتے ہیں، ہم اپنے ایک ساتھی، جو کہ مفلس ہو گیا تھا، کے بارے میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا: یہ اس طرح کا معاملہ ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فیصلہ کیا: جو شخص فوت ہو جائے یا مفلس ہو جائے تو مال کا مالک اس مال کا زیادہ حق دار ہے جبکہ وہ اس مال کو بالکل اسی حالت میں پائے۔ اسنادہ حسن، رواہ الشافعی و ابن ماجہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه الشافعي في الأم (199/3) و ابن ماجه (2360)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. قرضدار کی روح قرض کی ادائیگی تک معلق رہتی ہے
حدیث نمبر: 2915
اعراب
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه» . رواه الشافعي واحمد والترمذي وابن ماجه والدارمي وقال الترمذي: هذا حديث غريب وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: «نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ» . رَوَاهُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَالدَّارِمِيُّ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيب
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مومن کی روح اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے حتی کہ وہ (قرض) اس کی طرف سے ادا کر دیا جائے۔ اسنادہ حسن، رواہ الشافعی و احمد و الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه الشافعي في الأم (279/1، 212/3) و أحمد (440/2 ح 9677، 476/2 ح 10159) والترمذي (1078. 1079) و ابن ماجه (2413) والدارمي (262/2 ح 2594)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. قرضدار کو جنت میں داخل ہونے سے روک دیا جائے گا
حدیث نمبر: 2916
اعراب
وعن البراء بن عازب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صاحب الدين ماسور بدينه يشكو إلى ربه الوحدة يوم القيامة» . رواه في شرح السنة وَعَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَاحِبُ الدَّيْنِ مَأْسُورٌ بِدَيْنِهِ يَشْكُو إِلَى رَبِّهِ الْوَحْدَةَ يَوْمَ الْقِيَامَة» . رَوَاهُ فِي شرح السّنة
براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مقروض شخص اپنے قرض کی وجہ سے محبوس ہے، وہ روزِ قیامت اپنے رب سے تنہائی کی شکایت کرے گا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (203/8 ح 2148)
٭ مبارک بن فضالة مدلس و عنعن و له شاھد عند أبي داود (3341) و سنده ضعيف.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قرض کا قصہ
حدیث نمبر: 2917
اعراب
وروي ان معاذا كان يدان فاتى غرماؤه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فباع النبي صلى الله عليه وسلم ماله كله في دينه حتى قام معاذ بغير شيء. مرسل هذا لفظ المصابيح. ولم اجده في الاصول إلا في المنتقى وَرُوِيَ أَنَّ مُعَاذًا كَانَ يَدَّانُ فَأَتَى غُرَمَاؤُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَاعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَالَهُ كُلَّهُ فِي دَيْنِهِ حَتَّى قَامَ مُعَاذٌ بِغَيْرِ شَيْءٍ. مُرْسَلٌ هَذَا لَفْظُ الْمَصَابِيحِ. وَلَمْ أَجِدْهُ فِي الْأُصُول إِلَّا فِي الْمُنْتَقى
مروی ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ قرض لیا کرتے تھے، ان کے قرض خواہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے (اور قرض کا مطالبہ کیا) تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے قرض کی ادائیگی میں ان کا سارا مال فروخت کر دیا حتی کہ معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی چیز باقی نہ رہی۔ روایت مرسل ہے۔ یہ الفاظ مصابیح کے ہیں۔ میں نے مثقیٰ کے سوا اسے اصول کی کتابوں میں نہیں پایا۔ ضعیف۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«ضعيف، انظر الحديث الآتي، ذکره في مصابيح السنة (345/2 ح 2145) و منتقي الأخبار (365/2ح 2996)»

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
--. قرض ادا کرنے کے لیے سارا مال بھی بیچا جا سکتا ہے
حدیث نمبر: 2918
اعراب
وعن عبد الرحمن بن كعب بن مالك قال: كان معاذ بن جبل شابا سخيا وكان لا يمسك شيئا فلم يزل يدان حتى اغرق ماله كله في الدين فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فكلمه ليكلم غرماءه فلو تركوا لاحد لتركوا لمعاذ لاجل رسول الله صلى الله عليه وسلم فباع رسول الله صلى الله عليه وسلم ماله حتى قام معاذ بغير شيء. رواه سعيد في سننه مرسلا وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ شَابًّا سَخِيًّا وَكَانَ لَا يُمْسِكُ شَيْئًا فَلَمْ يَزَلْ يُدَانُ حَتَّى أَغَرَقَ مَالَهُ كُلَّهُ فِي الدَّيْنِ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ لِيُكَلِّمَ غُرَمَاءَهُ فَلَوْ تَرَكُوا لِأَحَدٍ لَتَرَكُوا لِمُعَاذٍ لِأَجْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَاعَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم مَالَهُ حَتَّى قَامَ مُعَاذٌ بِغَيْرِ شَيْءٍ. رَوَاهُ سعيد فِي سنَنه مُرْسلا
عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک بیان کرتے ہیں، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بڑے صابر اور سخی انسان تھے، وہ کوئی چیز پاس نہیں رکھتے تھے اور ہمیشہ مقروض رہتے تھے حتی کہ ان کا سارا مال قرض کی ادائیگی میں جاتا رہا، وہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کیا کہ آپ اس کے قرض خواہوں سے سفارش کریں، اگر وہ (قرض خواہ) کسی کو چھوڑتے تو وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خاطر معاذ کو چھوڑتے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان (قرض خواہوں) کی خاطر معاذ رضی اللہ عنہ کا سارا مال بیچ دیا، حتی کہ معاذ کے پاس کوئی چیز نہ بچی۔ سنن سعید بن منصور، یہ روایت مرسل ہے۔ اسنادہ ضعیف۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، ذکره في منتقي الأخبار (2996)
٭ السند مرسل و رواه الحاکم (58/2 ح 2348، 273/3 ح 5192) من حديث الزھري عن عبد الرحمٰن بن کعب عن أبيه و صححه علي شرط الشيخين ووافقه الذهبي، قلت: فيه الزھري مدلس و عنعن و الصواب فيه أنه مرسل.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

Previous    12    13    14    15    16    17    18    19    20    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.