انا الاوزاعي، اخبرني محمد بن عبد الملك، ان المغيرة بن شعبة، دخل على عثمان بن عفان وهو بالباب قد حاصروه، فقال: اختر إحدى ثلاث، إما ان يحرق لك باب سوى الباب الذي هم عليه فتخرج، ثم تقعد على راحلتك فتلحق بمكة فإنهم لن يستحلوك وانت بها، وإما ان تقعد على راحلتك فتلحق بالشام فإنهم اهل الشام وفيهم معاوية، وإما ان تخرج بمن معك فإن معك عددا وقوة تقاتل، فإنك على الحق وهم على الباطل، فقال عثمان: اما قولك ان اخرج على راحلتي حتى الحق بمكة فإنهم إن يستحلوني فانا بها، وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " يلحق رجل من قريش بمكة عليه نصف عذاب العالم"، فلن اكون إياه، واما قولك: ان اقعد على راحلتي فالحق بالشام فإنهم اهل الشام وفيهم معاوية، فلن افارق دار هجرتي ومجاورة رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها، واما قولك: اخرج بمن معك فلن اكون اول من خالف رسول الله صلى الله عليه وسلم بهراقة ملء محجمة من دم بغير حق.أنا الأَوْزَاعِيُّ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَهُوَ بِالْبَابِ قَدْ حَاصَرُوهُ، فَقَالَ: اخْتَرْ إِحْدَى ثَلاثٍ، إِمَّا أَنْ يُحْرَقَ لَكَ بَابٌ سِوَى الْبَابِ الَّذِي هُمْ عَلَيْهِ فَتَخْرُجَ، ثُمَّ تَقْعُدَ عَلَى رَاحِلَتِكَ فَتَلْحَقَ بِمَكَّةَ فَإِنَّهُمْ لَنْ يَسْتَحِلُّوكَ وَأَنْتَ بِهَا، وَإِمَّا أَنْ تَقْعُدَ عَلَى رَاحِلَتِكَ فَتَلْحَقَ بِالشَّامِ فَإِنَّهُمْ أَهْلُ الشَّامِ وَفِيهِمْ مُعَاوِيَةُ، وَإِمَّا أَنْ تَخْرُجَ بِمَنْ مَعَكَ فَإِنَّ مَعَكَ عَدَدًا وَقُوَّةً تُقَاتِلُ، فَإِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ، فَقَالَ عُثْمَانُ: أَمَّا قَوْلُكَ أَنْ أَخْرُجَ عَلَى رَاحِلَتِي حَتَّى أَلْحَقَ بِمَكَّةَ فَإِنَّهُمْ إِنْ يَسْتَحِلُّونِي فَأَنَا بِهَا، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يَلْحَقُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ عَلَيْهِ نِصْفُ عَذَابِ الْعَالَمِ"، فَلَنْ أَكُونَ إِيَّاهُ، وَأَمَّا قَوْلُكَ: أَنْ أَقْعُدَ عَلَى رَاحِلَتِي فَأَلْحَقَ بِالشَّامِ فَإِنَّهُمْ أَهْلُ الشَّامِ وَفِيهِمْ مُعَاوِيَةُ، فَلَنْ أُفَارِقَ دَارَ هِجْرَتِي وَمُجَاوَرَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا، وَأَمَّا قَوْلُكَ: اخْرُجْ بِمَنْ مَعَكَ فَلَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ خَالَفَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَرَاقَةِ مِلْءِ مِحْجَمَةٍ مِنْ دَمٍ بِغَيْرِ حَقٍّ.
محمد بن عبد الملک نے بیان کیا کہ بے شک مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس داخل ہوئے اور وہ دروازے کے پاس تھے، (بلوائیوں نے)ان کا محاصرہ کر رکھا تھاتو (مغیرہ رضی اللہ عنہ نے)کہا: تین چیزوں میں سے ایک چیز کا انتخاب کریں، یا تو ہم آپ رضی اللہ عنہ کے لیے اس دروازے کے علاوہ جس پر وہ (بلوائی)ہیں، ایک اور دروازہ جلا دیا جائے تو آپ نکل جانا، پھر اپنی سواری پربیٹھنا اور مکہ چلے جانا، وہ آپ کو جب کہ آپ وہاں ہوں گے ہرگز شیریں محسوس نہ کریں گے اور یا آپ اپنی سواری پر بیٹھیں اور شام چلے جائیں۔ بے شک وہ اہل شام ہیں اور ان میں معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ یا آپ جو آپ کے ساتھ ہیں، انہیں لے کر نکلیں، یقینا آپ کے ساتھ بڑی تعداد اور قوت ہوگی، آپ لڑائی کریں، آپ حق پر ہیں اور وہ باطل پر ہیں۔ اس پرعثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: رہی تیری یہ بات کہ میں اپنی سواری پرنکلوں یہاں تک کہ مکہ پہنچ جاؤں تو بے شک وہ، مجھے جب کہ میں وہاں ہوا، ہرگز شیریں نہ سمجھیں گے، بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: قریش کا ایک آدمی مکے میں الحاد کرے گا، اس پر جہان کا عذاب بہایا جائے گا، سو میں ہرگز وہی نہیں ہوں گا، رہی تیری یہ بات کہ میں اپنی سواری پر بیٹھوں اور شام چلاجاؤں، بے شک وہ اہل شام ہیں اور ان میں معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں تو میں ہرگز اپنے دارالہجرت کو اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوسں کو نہیں چھوڑوں گا اور رہی تیری یہ بات کہ میں ان کو جو میرے ساتھ ہیں، لے کر نکلوں، تو میں ہرگز وہ پہلا نہ ہوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی، ناحق خون بہانے سے شیشی بھر کر، مخالفت کرے۔
تخریج الحدیث: «مسند أحمد: 1/67، مجمع الزوائد: 270/3۔ علامہ ہیثمی اور شیخ شعیب نے اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔»
عن حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن ابي بردة بن ابي موسى، قال: مررنا بالربذة، فإذا فسطاط وخباء، فقلت: لمن هذا؟ فقيل: لمحمد بن مسلمة، فدخلت عليه، فقلت: يرحمك الله، الا تخرج إلى الناس فإنك من هذا الامر بمكان يسمع منك، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إنه ستكون فتنة وفرقة، فاضرب بسيفك عرض او عرض احد، واكسر نبلك، واقطع واترك واقعد في بيتك"، قال: فقد فعلت ما امرني، وإذا سيف معلق بعمود الفسطاط، فانزله فسله، فإذا سيف من خشب، ثم قال: قد فعلت بسيفي ما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم فهذا اعده اهيب به الناس.عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى، قَالَ: مَرَرْنَا بِالرَّبَذَةِ، فَإِذَا فُسْطَاطٌ وَخِبَاءٌ، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: لِمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، أَلا تَخْرُجُ إِلَى النَّاسِ فَإِنَّكَ مِنْ هَذَا الأَمْرِ بِمَكَانٍ يُسْمَعُ مِنْكَ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّهُ سَتَكُونُ فِتْنَةٌ وَفُرْقةٌ، فَاضْرِبْ بِسَيْفِكَ عُرْضَ أَوْ عُرْضَ أُحُدٍ، وَاكْسِرْ نَبْلَكَ، وَاقْطَعْ وَاتْرُكْ وَاقْعُدْ فِي بَيْتِكَ"، قَالَ: فَقَدْ فَعَلْتُ مَا أَمَرَنِي، وَإِذَا سَيْفٌ مُعَلَّقٌ بِعَمُودِ الْفُسْطَاطِ، فَأَنْزَلَهُ فَسَلَّهُ، فَإِذَا سَيْفٌ مِنْ خَشَبٍ، ثُمَّ قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ بِسَيْفِي مَا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَذَا أَعُدُّهُ أُهِيبُ بِهِ النَّاسَ.
ابوبردہ بن ابی موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ ہم ”ربذہ“ سے گزرے تو اچانک ایک ڈیرہ اور خیمہ تھا، ہم نے کہا کہ یہ کس کا ہے؟کہا گیا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کا ہے۔میں ان کے پاس داخل ہوا اور کہا: اللہ آپ پر رحم کرے۔ آپ لوگوں کی طرف کیوں نہیں نکلتے، یقینا آپ اس معاملے میں ایسے مرتبے پر ہیں کہ آپ کی بات سنی جائے گی، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک بات یہ ہے کہ عن قریب فتنہ اور افتراق ہوگا تو تم اپنی تلوار کو احد کی چوڑائی پرمارنا اور اپنے تیر کوتوڑ دینا اور اپنی تانت کو کاٹ دینا اور اپنے گھر میں بیٹھ جانا۔ کہا کہ میں نے وہی کیا جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا اور اچانک ایک تلوار خیمے کے ستون سے بندھی تھی،انہوں نے اسے سونت لیا اور ناگہاں ایک تلوار لکڑی کی تھی، پھر کہا: میں نے یقینا اپنی تلوار کے ساتھ وہی کیا جس کا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اور اسے میں نے تیار کیا ہے، اس کے ساتھ لوگوں کو ڈراتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «مسند أحمد: 1/67، سنن ابن ماجة: 3962۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
انا مبارك بن فضالة، عن الحسن، عن النعمان بن بشير، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن بين يدي الساعة فتن كانها قطع الليل المظلم، يصبح الرجل فيها مؤمنا ويمسي كافرا، ويمسي مؤمنا ويصبح كافرا، يبيع خلاقهم فيها بعرض من الدنيا يسيرا، او بعرض الدنيا".أنا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنٌ كَأَنَّهَا قِطَعُ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ خَلاقَهُمْ فِيهَا بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا يَسِيرًا، أَوْ بِعَرَضِ الدُّنْيَا".
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک قیامت سے پہلے ایسے فتنے ہوں گے،گویا وہ اندھیری رات کے ٹکڑے ہوں، آدمی ان میں صبح مومن ہوگا اور شام کافر اور شام کومومن ہوگا تو صبح کافر، لوگ اپنا حصہ (دین)دنیا کے معمولی سامان کے بدلے بیچ دیں گے یا (فرمایا)دنیا کے سامان کے بدلے۔
قال الحسن: فقد والله الذي لا إله إلا هو، رايناهم صورا ولا عقول، واجساما ولا احلام، فراش نار، وذبان طمع، يغدون بدرهمين، ويروحون بدرهمين، يبيع احدهم دينه بثمن عنز.قَالَ الْحَسَنُ: فَقَدْ وَاللَّهِ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ، رَأَيْنَاهُمْ صُوَرًا وَلا عُقُولَ، وَأَجْسَامًا وَلا أَحْلامَ، فِرَاشَ نَارٍ، وَذِبَّانَ طَمَعٍ، يَغْدُونَ بِدِرْهَمَيْنِ، وَيَرُوحُونَ بِدِرْهَمَيْنِ، يَبِيعُ أَحَدُهُمْ دِينَهُ بِثَمَنِ عَنْز.
حسن نے کہا کہ یقینا اللہ کی قسم کہ جس کے سوا کوئی معبود و برحق نہیں، ہم نے ان کو دیکھا، شکلیں ہیں، عقلیں نہیں ہیں،جسم ہیں، فہم و شعور نہیں ہے۔ آگ کے پتنگے ہیں، طمع و لالچ کی مکھیاں ہیں، صبح نکلتے ہیں دو درہموں کے ساتھ اور لوٹتے ہیں دو درہموں کے ساتھ، ان میں سے کوئی ایک بکری کی قیمت کے بدلے اپنا دین بیچ ڈالتا ہے۔
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 18404۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح لغیرہ‘‘ کہا ہے۔»
انا افلح بن سعيد، سمعت عبد الله بن رافع مولى ام سلمة يذكر، ان ام سلمة، قالت: انها سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم على المنبر، وهو يقول:" ايها الناس"، قالت وهي تمتشط، فقالت للتي تمشطها: ويحك لفي راسي، قالت: إنما يدعو الناس، قالت: او لسنا من الناس؟ فلفت راسها، فقامت وراء حجرتها، فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ايها الناس، إني بينما انا على الحوض إذ مر بكم زمرا، فتذهب بكم الطرق، فناديتكم الا هلموا إلى الطريق، فناداني مناد من ورائي: إنهم بدلوا بعدك، فقلت: الا سحقا، الا سحقا".أنا أَفْلَحُ بْنُ سَعِيدٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ يَذْكُرُ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَهُوَ يَقُولُ:" أَيُّهَا النَّاسُ"، قَالَتْ وَهِيَ تَمْتَشِطُ، فَقَالَتْ لِلَّتِي تُمَشِّطُهَا: وَيْحَكِ لُفِّي رَأْسِي، قَالَتْ: إِنَّمَا يَدْعُو النَّاسَ، قَالَتْ: أَوَ لَسْنَا مِنَ النَّاسِ؟ فَلَفَّتْ رَأْسَهَا، فَقَامَتْ وَرَاءَ حُجْرَتِهَا، فسَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي بَيْنَمَا أَنَا عَلَى الْحَوْضِ إِذْ مُرَّ بِكُمْ زُمَرًا، فَتَذْهَبُ بِكُمُ الطُّرُقُ، فَنَادَيْتُكُمْ أَلا هَلُمُّوا إِلَى الطَّرِيقِ، فَنَادَانِي مُنَادٍ مِنْ وَرَائِي: إِنَّهُمْ بَدَّلُوا بَعْدَكَ، فَقُلْتُ: أَلا سُحْقًا، أَلا سُحْقًا".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بے شک ایک روز انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برسر منبر فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! کہا کہ اور وہ کنگھی کروا رہی تھیں تو اس عورت سے جو ان کی کنگھی کر رہی تھیں، کہا تجھ، پر افسوس، میرا سر چھوڑ دے، وہ بولی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم محض لوگوں کو بلا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ کیا ہم لوگوں میں سے نہیں ہیں، سو انہوں نے اپنا سر لپیٹا اور اپنے حجرے کے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: اے لوگو! بے شک میں اس دوران کے حوض پر ہوں گا، جب تمہیں کئی گروہوں کی صورت گزارا جائے گا، تو تمہیں اور راستوں پر لے جایا جائے گا، میں تمہیں آواز دوں گا، سنو! اس راستے کی طرف آؤ، تو ایک منادی میرے پیچھے سے آواز دے گا، بے شک انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد (دین)بدل دیا تھا، میں کہوں گا: خبردار! دوری ہے۔ دوری ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2295، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11396، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27189، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 32318، 38334، والطبراني فى «الكبير» برقم: 661، 662، 996، 997، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 8714 صحیح مسلم، الفضائل: 29۔ 15/56۔»
اخبرنا اسامة بن زيد، اخبرني محمد، ذهب إلى ابيه وهو بالعقيق في ارض له معتزل، فقال: يا ابتاه، لم يبق من اصحاب بدر غيرك، ولا من اهل الشورى غيرك، فلو انك ابتغيت بنفسك ونصبتها للناس، ما اختلف عليك اثنان، فقال: لهذا جئت، اي بني، افعمدت حتى إذا لم يبق من احكي إلا مثل طمى الدابة، ثم اخرج، فاضرب امة محمد صلى الله عليه وسلم بعضها ببعض، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن خير الرزق ما يكفي، وخير الذكر الخفي".أَخْبَرَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدٌ، ذَهَبَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ بِالْعَقِيقِ فِي أَرْضٍ لَهُ مُعْتَزِلٍ، فَقَالَ: يَا أَبَتَاهُ، لَمْ يَبْقَ مِنْ أَصْحَابِ بَدْرٍ غَيْرُكَ، وَلا مِنْ أَهْلِ الشُّورَى غَيْرُكَ، فَلَوْ أَنَّكَ ابْتَغَيْتَ بِنَفْسِكَ وَنَصَبْتَهَا لِلنَّاسِ، مَا اخْتَلَفَ عَلَيْكَ اثْنَانِ، فَقَالَ: لِهَذَا جِئْتَ، أَيْ بُنَيَّ، أَفَعَمِدْتَ حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ مَنْ أَحَكِي إِلا مِثْلَ طَمَى الدَّابَّةِ، ثُمَّ أَخْرُجُ، فَأَضْرِبُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعضَهَا بِبَعْضٍ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ خَيْرَ الرِّزْقِ مَا يَكْفِي، وَخَيْرَ الذِّكْرِ الْخَفِيُّ".
محمد بن ابی عبد الرحمن بن لبیبہ نے بیان کیا کہ بے شک عمر بن سعد اپنے باپ (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ)کے پاس گیا، جو عقیق میں اپنی علیحدہ زمین پر موجود تھے اور کہا: اے ابا جان! اصحاب بدر اور اہل شوریٰ میں سے آپ رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی باقی نہ رہا۔ اگر بے شک آپ رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو اٹھائیں اور لوگوں کے لیے خود کو کھڑا کریں، تو دو آدمی بھی آپ پر اختلاف نہیں کریں گے، انہوں نے فرمایا کہ اے میرے بیٹے! میں اس کا جواب دوں گا، میں بیٹھا رہا، یہاں تک کہ جب میری زندگی چوپائے کے تیزی سے گزرنے جتنی رہ گئی ہے، پھر میں نکلوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بعض کو بعض سے لڑا دوں۔ بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا ہے: یقینا بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کر جائے اور سب سے بہتر ذکر، مخفی ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 809، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1495، 1496، 1579، 1580، 1645، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 731، وعبد بن حميد فى "المنتخب من مسنده"، 137، وأورده ابن حجر فى "المطالب العالية"، 3282، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 30279، 35518 صحیح مسلم، الزھد: 18/100، رقم: 11، صحیح ابن حبان: 2/125 (الموارد)577، مسند أحمد (الفتح الرباني): 19/125، المقاصد الحسنة، سخاوي: 206۔»
انا انا شعبة، قال: سمعت قتادة يحدث، عن ابي نضرة، عن قيس بن عباد، قال: قلنا لعمار: ارايت قتالكم، اراي رايتموه، فإن الراي يخطئ ويصيب، او عهد عهده إليكم رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: " ما عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يعهده إلى الناس كافة".أنا أنا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: قُلْنَا لِعَمَّارٍ: أَرَأَيْتَ قِتَالَكُمْ، أَرَأْيٌ رَأَيْتُمُوهُ، فَإِنَّ الرَّأْيَ يُخْطِئُ وَيُصِيبُ، أَوْ عَهْدٌ عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: " مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً".
قیس بن عباد نے بیان کیا کہ ہم نے عمار رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کا اپنی لڑائی کے بارے میں کیا خیال ہے، کیا یہ ایک رائے ہے جو آپ نے قائم کی ہے، بے شک رائے غلط بھی ہو سکتی ہے اور درست بھی یا کوئی عہد ہے جو عہد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا ہو؟ تو انہوں نے فرمایا: ایسی کسی چیز کا عہد ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا، جو باقی تمام لوگوں سے نہ کیا ہو۔
انا انا معمر، عن علي بن زيد بن جدعان، عن الحسن، عن قيس بن عباد، قال: كنا مع علي رضي الله عنه، فكان إذا شهد مشهدا، او اشرف على اكمة، او هبط واديا، قال: صدق الله ورسوله، فقلت لرجل من بني يشكر: انطلق بنا إلى امير المؤمنين حتى نساله عن قوله: صدق الله ورسوله، فانطلقنا إليه، فقلنا: يا امير المؤمنين، رايناك إذا شهدت مشهدا او اشرفت على اكمة، قلت: صدق الله ورسوله، فهل عهد إليك رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا في ذلك؟ فاعرض عنا، والححنا عليه، فقال:" والله ما عهد إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا شيئا عهده إلى الناس، ولكن الناس وثبوا على عثمان فقتلوه، وكان غيري فيه اسوا حالا واسوا فعلا مني، ثم رايت اني احقهم بها فوثبت عليها، فالله اعلم اخطانا او اصبنا".أنا أنا مَعْمَرٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَكَانَ إِذَا شَهِدَ مَشْهَدًا، أَوْ أَشْرَفَ عَلَى أَكَمَةٍ، أَوْ هَبَطَ وَادِيًا، قَالَ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَقُلْتُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي يَشْكُرَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ حَتَّى نَسْأَلَهُ عَنْ قَوْلِهِ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَانْطَلَقْنَا إِلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، رَأَيْنَاكَ إِذَا شَهِدْتَ مَشْهَدًا أَوْ أَشْرَفْتَ عَلَى أَكَمَةٍ، قُلْتَ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَهَلْ عَهِدَ إِلَيْكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فِي ذَلِكَ؟ فَأَعْرَضَ عنَّا، وَأَلحَحْنَا عَلَيْهِ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ مَا عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلا شَيْئًا عَهِدَهُ إِلَى النَّاسِ، وَلَكِنَّ النَّاسَ وَثَبُوا عَلَى عُثْمَانَ فَقَتَلُوهُ، وَكَانَ غَيْرِي فِيهِ أَسْوَأُ حَالا وَأَسْوَأُ فِعْلا مِنِّي، ثُمَّ رَأَيْتُ أَنِّي أَحَقُّهُمْ بِهَا فَوَثَبْتُ عَلَيْهَا، فَاللَّهُ أَعْلَمُ أَخْطَأْنَا أَوْ أَصَبْنَا".
قیس بن عباد نے کہا کہ ہم علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، وہ جب بھی کسی اجتماع گاہ میں حاضر ہوتے، یا کسی ٹیلے پر چڑھتے، یا کسی وادی میں اترتے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتے۔ میں نے بنو یشکر کے ایک آدمی سے کہا کہ ہمارے ساتھ امیر المؤمنین کی طرف چل۔ یہاں تک کہ ہم ان سے ان کے قول، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ کہا کہ متعلق سوال کریں، سو ہم ان کی طرف چلے اور کہا: اے امیر المؤمنین! ہم نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ جب بھی کسی اجتماع گاہ میں حاضر ہوتے ہیں یا کسی ٹیلے پر چڑھتے ہیں تو کہتے ہیں: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا، کیا اس بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا عہد لیا ہے؟ تو انہوں نے اعراض کر لیا اور ہم نے ان پر اصرار کیا تو فرمایا: اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کسی چیز کا عہد نہیں لیا، سوائے اس چیز کے جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے عہد لیا، لیکن لوگ عثمان رضی اللہ عنہ پر کود پڑے اور انہیں شہید کر دیا اور میرے علاوہ اس (خلافت)کے بارے، میری نسبت زیادہ ابتر حالت اور برے کام والا تھا، میں نے سمجھا کہ بے شک میں ہی ان کی نسبت اس کا زیادہ حق دار ہوں، پس میں اس پر براجمان ہوگیا، اللہ زیادہ جانتا ہے کہ ہم نے خطا کھائی یا درستی کو پہنچے۔
تخریج الحدیث: «مسند أحمد: 1207۔ شیخ شعیب نے اسے ’’علی بن جدعان‘‘ راوی کی وجہ سے ضعیف کہا ہے۔»
نا مسعر، عن الحجاج مولى ثعلبة، عن قطبة بن مالك، قال: قال المغيرة بن شعبة: من علي بن ابي طالب؟ فقال له زيد بن ارقم: اما إنك قد علمت:" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينهى عن شتم الهلكى"، فلم تسب عليا وقد مات.نا مِسْعَرٌ، عَنِ الْحَجَّاجِ مَوْلَى ثَعْلَبَةَ، عَنْ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ: مَنْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ؟ فَقَالَ لَهُ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ: أَمَا إِنَّكَ قَدْ عَلِمْتَ:" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَى عَنْ شَتْمِ الْهَلْكَى"، فَلِمَ تَسُبُّ عَلِيًّا وَقَدْ مَاتَ.
قطبہ بن مالک نے کہا کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: علی بن ابی طالب کون ہیں؟ تو زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: سنیں! یقینا آپ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت شدگان کو برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے تو آپ علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کیوں کہہ رہے ہیں، حالاں کہ وہ فوت ہوچکے ہیں۔
تخریج الحدیث: «مسند أحمد: 19288، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 7/236، مجمع الزوائد، ہیثمی: 8/76۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
انبا عمر بن ابي حسين، عن ابن ابي مليكة، انه سمع ابن عباس، يقول: وضع عمر بن الخطاب على سريره، فتكنفه الناس يدعون ويصلون قبل ان يرفع وانا فيهم، فلم يرعني إلا رجل قد اخذ بمنكبي من ورائي، فالتفت، فإذا هو علي بن ابي طالب، فترحم على عمر، وقال: ما خلفت احدا احب إلي ان القى الله بمثل عمله منك، وايم الله، إن كنت لاظن ليجعلك الله مع صاحبيك، وذاك اني كنت اكثر ان اسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ذهبت انا وابو بكر وعمر، ودخلت انا وابو بكر وعمر، وخرجت انا وابو بكر وعمر"، فإن كنت لاظن ليجعلك الله معهما".أَنْبَأَ عُمَرُ بْنُ أَبِي حُسَيْنٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: وُضِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَى سَرِيرِهِ، فَتَكَنَّفَهُ النَّاسُ يَدْعُونَ وَيُصَلُّونَ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلا رَجُلٌ قَدْ أَخَذَ بِمَنْكِبَيْ مِنْ وَرَائِي، فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَتَرَحَّمَ عَلَى عُمَرَ، وَقَالَ: مَا خَلَّفْتُ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ مِنْكَ، وَايْمُ اللَّهِ، إِنْ كُنْتُ لأَظُنُّ لَيَجْعَلُكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ، وَذَاكَ أَنِّي كُنْتُ أُكْثِرُ أَنْ أَسْمَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " ذَهَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ"، فَإِنْ كُنْتُ لأَظُنُّ لَيَجْعَلُكَ اللَّهُ مَعَهُمَا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو تدفین سے قبل ان کی چارپائی پر رکھا گیا تو لوگوں نے اسے گھیرلیا اور دعائیں کرنے لگے، میں بھی ان کے ساتھ تھا: مجھے صرف ایک آدمی نے گھبراہٹ میں ڈالا، جس نے پیچھے سے میرے کندھے کو پکڑ رکھا تھا، میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے رحمت کی دعا کی اور فرمایا:آپ نے اپنے پیچھے ایسا کوئی نہیں چھوڑا جو مجھے آپ سے زیادہ پسند ہو کہ میں اس کے عمل کی مثل عمل کے ساتھ اللہ سے ملوں۔ا للہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ اللہ آپ رضی اللہ عنہ کو آپ کے دونوں ساتھیوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ)کے ساتھ کر دے گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں بارہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میں گیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ گئے، میں داخل ہوا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے، میں نکلا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نکلے۔ سو میرا یقین ہے کہ اللہ آپ کو ضرور ان دونوں کے ساتھ کر دے گا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: 98، مستدرك حاکم: 3/68۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»