سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یعلی بن منبہ اس شخص کے بارے میں ذکر کیا جوکاٹتا ہے تو اس کا دانت ٹوٹ جاتا ہے، اس کے لیے کوئی دیت نہیں ہے، انہوں نے یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے لیے کوئی دیت نہیں۔“
عن شعبة بن الحجاج، عن قتادة، عن انس بن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم " اتي برجل قد شرب الخمر فجلده بجريدتين نحوا من اربعين"، قال: وفعله ابو بكر، فلما كان عمر، استشار الناس، فقال عبد الرحمن بن عوف: اخف الحدود ثمانون، فامر به عمر.عَنْ شُعْبَةَ بْنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَجَلَدَهُ بِجَرِيدَتَيْنِ نَحْوًا مِنْ أَرْبَعِينَ"، قَالَ: وَفَعَلَهُ أَبُو بَكْرٍ، فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ، اسْتَشَارَ النَّاسَ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: أَخَفُّ الْحُدُودِ ثَمَانُونَ، فَأَمَرَ بِهِ عُمَرُ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی لایا گیا، اس نے شراب پی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو چھڑیاں تقریباً چالیس ماریں، کہا اور یہی کیا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تو جب عمر رضی اللہ عنہ تھے تو انہوں نے لوگوں سے مشورہ کیا، عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حدود میں سب سے ہلکی حد اسّی کوڑے ہے تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم، کتاب الحدود: 11/215، رقم: 35، جامع ترمذي: 4/720 فی کتاب الحدود: 13، حد السکران، سنن ابي داؤد: 12/178، فی کتاب الحدود: 36، باب حد الخمر، سنن دارمي، کتاب الحدود: 9، باب حد الخمر: 2/97، مسند احمد (الفتح الرباني)16/118، مسند طیالسي: 1/302، سنن الکبریٰ بیهقي: 8/319، کتاب الأشربة والحد، باب عدد شارب الخمر۔»
عن شعبة، عن ابي التياح، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد، قال: اتي النبي صلى الله عليه وسلم بنشوان، فقال: " إني لم اشرب خمرا، إنما شربت زبيبا وتمرا في دباء، فنهز بالايدي، وخفق بالنعال، ونهي عن الدباء، وعن الزبيب والتمر ان يخلطا".عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَشْوَانَ، فَقَالَ: " إِنِّي لَمْ أَشْرَبْ خَمْرًا، إِنَّمَا شَرِبْتُ زَبِيبًا وَتَمْرًا فِي دُبَّاءٍ، فَنُهِزَ بِالأَيْدِي، وَخُفِقَ بِالنِّعَالِ، وَنُهِيَ عَنِ الدُّبَّاءِ، وَعَنِ الزَّبِيبِ وَالتَّمْرِ أَنْ يُخْلَطَا".
سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شرابی کو لایا گیا، اس نے کہا کہ میں نے شراب نہیں پی، میں نے تو بس کدو کے برتن میں کشمش اور کھجور پی ہے، تو اسے ہاتھوں اورجوتوں سے سرزنش کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کے برتن سے اورکشمش اورکھجور کو ملا کر (استعمال کرنے سے)منع فرما دیا۔
تخریج الحدیث: «مستدرك حاکم: 4/374، مسند أحمد: 11297، سنن الکبریٰ بیهقي: 8/317، مسند طیالسي: 1/302، معانی الآثار،طحاوي: 3/156۔ حاکم اور شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح علی شرط مسلم‘‘ قرار دیا ہے۔»
عن حماد بن سلمة، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن ابي المنذر مولى ابي ذر، عن ابي امية المخزومي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بلص اعترف اعترافا، ولم يوجد معه متاع، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما اخالك سرقت؟" قال: بلى. قال: ثم قال:" ما اخالك سرقت؟" قال: بلى. قال:" فاذهبوا به فاقطعوه، ثم جيئوا به"، فقطعوه ثم جاءوا به، فقال له:" قل: استغفر الله واتوب إليه"، قال: استغفر الله واتوب إليه. فقال:" اللهم تب عليه".عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي الْمُنْذِرِ مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ، عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الْمَخْزُومِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلِصٍّ اعْتَرَفَ اعْتِرَافًا، وَلَمْ يُوجَدْ مَعَهُ مَتَاعٌ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَخَالُكَ سَرَقْتَ؟" قَالَ: بَلَى. قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" مَا أَخَالُكَ سَرَقْتَ؟" قَالَ: بَلَى. قَالَ:" فَاذْهَبُوا بِهِ فَاقْطَعُوهُ، ثُمَّ جِيئُوا بِهِ"، فَقَطَعُوهُ ثُمَّ جَاءُوا بِهِ، فَقَالَ لَهُ:" قُلْ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ"، قَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ. فَقَالَ:" اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ".
سیدنا ابو امیہ مخزومی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور کو لایا گیا، جس نے اعتراف (جرم)کر لیا اور اس کے ساتھ کوئی سامان نہ پایا گیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”میرا نہیں خیال کہ تو نے چوری کی ہو۔“ اس نے کہا: کیوں نہیں۔ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”میرا نہیں خیال کہ تو نے چوری کی ہو۔“ اس نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو، پھر اسے لے کر آؤ۔“ سو انہوں نے اس کا ہاتھ کاٹا،پھر اسے لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہہ میں اللہ سے بخشش مانگتا ہوں اوراس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ اس نے کہا کہ میں اللہ سے بخشش مانگتا ہوں اوراس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما لے۔“
تخریج الحدیث: «سنن نسائي، کتاب قطع السارق: 4877، سنن ابي داؤد: 4380، سنن ابن ماجة، کتاب الحدود: 2597، مسند أحمد: (الفتح الرباني): 16/113، التلخیص الحبیر: 4/66، سنن دارمي، کتاب الحدود: 6، باب المعترف بالسرقة: 2/95، سنن الکبریٰ بیهقي: 8/276۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔»
عبد اللہ بن محریز نے کہا کہ میں نے فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے چور کے ہاتھ کے اس کی گردن میں لٹکانے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ سنت ہے۔ یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چور کا ہاتھ کاٹا اوراس کا ہاتھ اس کی گردن میں لٹکا دیا۔
تخریج الحدیث: «جامع ترمذي، کتاب الحدود، باب تعلیق ید السارق: 5/7، سنن ابي داؤد، کتاب الحدود: 21، باب تعلیق ید السارق فی عنقه: 12/89، مسند احمد (الفتح الرباني): 16/114، سنن دارقطني: 3/208، سنن الکبریٰ بیهقي: 8/275۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔»
نا هشام بن سعد، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، قال: قيل: يا رسول الله، كيف ترى في حريسة الجبل؟ قال:" فيها غرامة مثلها، وجلدات نكال، وليس في شيء من الماشية قطع إلا ما اواه المراح، فبلغ ثمن المجن، ففيه القطع، وليس في شيء من الثمر إلا فيما اواه الجرين فما اخذ من الجرين فبلغ ثمن المجن ففيه القطع".نا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي حَرِيسَةِ الْجَبَلِ؟ قَالَ:" فِيهَا غَرَامَةٌ مِثلُهَا، وَجَلَدَاتُ نَكَالٍ، وَلَيْسَ فِي شَيْءٍ مِنَ الْمَاشِيَةِ قَطْعٌ إِلا مَا أَوَاهُ الْمُرَاحُ، فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ، فَفِيهِ الْقَطْعُ، وَلَيْسَ فِي شَيْءٍ مِنَ الثَّمَرِ إِلا فِيمَا أَوَاهُ الْجَرِينُ فَمَا أُخِذَ مِنَ الْجَرِينِ فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَفِيهِ الْقَطْعُ".
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ کہا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میدان کے بکریوں کے باڑے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا رائے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں ان کی مثل چٹی (تاوان)ہے اور سزا کے کوڑے ہیں اور جانوروں میں سے کسی چیز میں ہاتھ نہیں کٹتا سوائے اس کے جسے باڑہ جگہ دے اور وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے تو اس میں ہاتھ کٹتا ہے اور پھلوں میں سے کسی چیز میں (ہاتھ کٹنا)نہیں مگر اس میں جسے کھلیان (پھلوں کو اکٹھا کرنے کی جگہ)جگہ دے، جس نے کھلیان سے لیا اور وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ گیا تو اس میں ہاتھ کٹنا ہے۔
تخریج الحدیث: «مسند احمد (الفتح الرباني)15/156، 16/111، مستدرك حاکم 4/381،سنن الکبریٰ بیهقي: 8/278، سنن نسائي: 4959۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاکا ڈالنے والے، چھینا جھپٹی کرنے والے اور خیانت کرنے والے سے ہاتھ کٹنا ہٹا دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «جامع ترمذي: الحدود: 18، باب ما جاء فی الخاء المختلس والمنتخب: 5/8، سنن ابي داؤد، الحدود: 4381، 4382، مسند أحمد (الفتح الرباني)16/112، سنن دارمي: 2/96، سنن دارقطني: 3/187، صحیح ابن حبان (الموارد)361، سنن الکبریٰ بیهقي: 8/279، تاریخ بغداد: 1/256، 11/153، التلخیص الحبیر: 4/65، نصب الرایة، زیلعي: 3/368۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
عن عن يونس، عن الزهري، اخبرني عروة، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته: " ان رجلا مولدا اطلس من اهل مكة كان لزم ابا بكر في خلافته فلطف به، حتى بعث ابو بكر مصدقا من الانصار، فبعثه معه واوصى به، فلبث قريبا من شهرين، ثم جاء يوضع بعيره قد قطع المصدق يده، فلما رآه ابو بكر فاضت عيناه، وقال: ويلك ما لك؟ فقال: يا ابا بكر، وجدني فريضة فقطع فيها يدي، قال ابو بكر: قاتل الله هذا الذي قطع يدك في فريضة جنبها، والله إني لاراه كون اكثر من ثلاثين فريضة، والذي نفسي بيده، إن كنت صادقا لاقيدنك منه، قالت عائشة: فلبث عند ابي بكر بمنزلته التي كان بها قبل ان تقطع يده فيقوم فيصلي من الليل فيتعار ابو بكر عن فراشه، فإذا سمع قراءته فاضت عيناه، وقال: قطع الله الذي قطع هذا، قال: فبينما نحن كذلك، طرق حلي اسماء بنت عميس فسرق منها، فلما صلى ابو بكر الصبح قام في الناس، فقال: إن الحي قد طرقوا الليلة فسرقوا فانفضوا لاتباع متاعهم، قالت: فاستاذن علينا ذلك لاقطع، فاذن له ابو بكر وانا جالسة في الحجاب، فقال: يا ابا بكر، سرقتم الليل؟ قال ابو بكر: نعم، فرفع يده الصحيحة ويده الجذماء، فقال: اللهم عثر على سارق ابي بكر، فقالت: فوالله ما ارتفع النهار حتى اخذت السرقة من بيته، فاتي به ابو بكر، فقال: ويحك، والله ما انت بالله بعالم اذهبوا فاقطعوا ارجله".عَنْ عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ: " أَنَّ رَجُلا مُوَلَّدًا أَطْلَسَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ كَانَ لَزِمَ أَبَا بَكْرٍ فِي خِلافَتِهِ فَلَطَفَ بِهِ، حَتَّى بَعَثَ أَبُو بَكْرٍ مُصَدِّقًا مِنَ الأَنْصَارِ، فَبَعَثَهُ مَعَهُ وَأَوْصَى بِهِ، فَلَبِثَ قَرِيبًا مِنْ شَهْرَيْنِ، ثُمَّ جَاءَ يُوضَعُ بَعِيرُهُ قَدْ قَطَعَ الْمُصَدِّقُ يَدَهُ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ فَاضَتْ عَيْنَاهُ، وَقَالَ: وَيْلَكَ مَا لَكَ؟ فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، وَجَدَنِي فَرِيضَةً فَقَطَعَ فِيهَا يَدِي، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَاتَلَ اللَّهُ هَذَا الَّذِي قَطَعَ يَدَكَ فِي فَرِيضَةِ جَنْبِهَا، وَاللَّهِ إِنِّي لأَرَاهُ كَوَّنَ أَكْثَرَ مِنْ ثَلاثِينَ فَرِيضَةً، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنْ كُنْتَ صَادِقًا لأَقِيدَنَّكَ مِنْهُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَبِثَ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ بِمَنْزِلَتِهِ الَّتِي كَانَ بِهَا قَبْلَ أَنْ تُقْطَعَ يَدُهُ فَيَقُومُ فَيُصلِّي مِنَ اللَّيْلِ فَيَتَعَارُّ أَبُو بَكْرٍ عَنْ فِرَاشِهِ، فَإِذَا سَمِعَ قِرَاءَتَهُ فَاضَتْ عَيْنَاهُ، وَقَالَ: قَطَعَ اللَّهُ الَّذِي قَطَعَ هَذَا، قَالَ: فَبَيْنَمَا نَحْنُ كَذَلِكَ، طَرَقَ حُلِيُّ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ فَسُرِقَ مِنْهَا، فَلَمَّا صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الصُّبْحَ قَامَ فِي النَّاسِ، فَقَالَ: إِنَّ الْحَيَّ قَدْ طَرَقُوا اللَّيْلَةَ فَسَرَقُوا فَانْفَضُّوا لاتِّبَاعِ مَتَاعِهِمْ، قَالَتْ: فَاسْتَأْذَنَ عَلَيْنَا ذَلِكَ لأَقْطَعَ، فَأَذِنَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا جَالِسَةٌ فِي الْحِجَابِ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، سُرِقْتُمُ اللَّيْلَ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: نَعَمْ، فَرَفَعَ يَدَهُ الصَّحِيحَةَ وَيَدَهُ الْجَذْمَاءَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ عُثِرَ عَلَى سَارِقِ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ: فَوَاللَّهِ مَا ارْتَفَعَ النَّهَارُ حَتَّى أُخِذَتِ السَّرِقَةُ مِنْ بَيْتِهِ، فَأُتِيَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: وَيْحَكَ، وَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِاللَّهِ بِعَالِمٍ اذْهَبُوا فَاقْطَعُوا أَرْجُلَهُ".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بے شک کداء (نامی جگہ)کا ایک آدمی جس پر اہل مکہ کی طرف سے چوری کی تہمت تھی، وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے دور خلافت میں آگیا، انہوں نے اس کے ساتھ شفقت کی، یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انصار میں سے ایک زکوٰۃ وصول کرنے والا بھیجا تو اس کو بھی اس کے ساتھ روانہ کر دیا اور اسے دو مہینوں کے قریب اس پر مہربان بنائے رکھا، پھر وہ آیا تو اس کا اونٹ بٹھایا جا رہا تھا۔ زکوۃ وصول کرنے والا اس کا ہاتھ کاٹ چکا تھا۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے)کہا کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھا تو ان کی آنکھیں بہہ پڑیں اور فرمایا: تجھ پر افسوس، تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا: اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! اس نے مجھے فریضے (زکوٰۃ)کے پہلو میں پایا تو اس میں میرا ہاتھ کاٹ دیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اسے مارے جس نے تیرا ہاتھ اس فریضے میں کاٹا جسے اس نے پہلو میں رکھا، اللہ کی قسم! بے شک میں اسے دیکھتا ہوں وہ تیس سے زیادہ فرائض میں خیانت کرتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تو یقینا سچا ہے تو میں لازماً تجھے اس سے بدلہ لے کر دوں گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اسی گھر میں تھی جہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھرمیں اس کا ہاتھ کاٹے جانے سے پہلے تھی، وہ (چور)کھڑا ہوتا اور رات کو قیام کرتا، ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے بستر پر بے قرار پہلو بدلتے اور جب اس کی قرأت سنتے تو ان کی آنکھیں بہہ پڑتیں اورکہتے: اللہ اس کاہاتھ کاٹے، جس نے اس کاہاتھ کاٹا ہے، اسی دوران ہم تھے کہ رات کے وقت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا(ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی)آئیں، ان کے گھر چوری ہو گئی تھی، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صبح کی نماز پڑھائی تو لوگوں میں کھڑے ہو گئے اور فرمایا: بے شک قبیلے والے رات کو آئے ہیں، ان کی چوری ہو گئی ہے۔ سو تم ان کا سامان تلاش کرنے نکل جاؤ۔ کہتی ہیں کہ اس دست بریدہ نے ہم پر اجازت طلب کی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے اجازت دے دی اورمیں پس پردہ بیٹھی ہوئی تھی، اس نے کہا: اے ابوبکر! کیا رات کو نگرانی کرنے والا کوئی نہیں؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں، تو اس نے اپنا صحیح ہاتھ اور کٹا ہوا ہاتھ اٹھایا اور کہا: اے اللہ! ابوبکر رضی اللہ عنہ کے چور کو شرم ناک کر دے، کہتی ہیں کہ اللہ کی قسم! دن ابھی چڑھا نہ تھا کہ چوری اسی کے گھر سے پکڑ لی گئی، اسے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا تو انہوں نے کہا: تجھ پر افسوس! اللہ کی قسم! تو اللہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، اسے لے جاؤ اور اس کا پاؤں کاٹ دو۔
تخریج الحدیث: «موطا: 4/159 مختصراً فی کتاب الجامع فی القطع: 30، سنن دارقطني: 3/184، شرح مشکل الآثار: 1824۔»
حدثنا جدي، نا حبان، انا عبد الله عن يونس، عن ابن شهاب، قال: [ص:90] قالت عمرة بنت عبد الرحمن، عن عائشة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: ((تقطع يد السارق في ربع دينار))حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حِبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: [ص:90] قَالَتْ عَمْرَةُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: ((تُقْطَعُ يَدُ السَّارِقِ فِي رُبُعِ دِينَارٍ))
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چور کا ہاتھ کاٹا جائے، دینار کے ایک چوتھائی حصے میں۔
تخریج الحدیث: «صحیح بخاري، کتاب الحدود: 13، باب قول اللّٰه تعالیٰ: ﴿وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَهُمَا﴾ (المائدة: 38)، وفی کم یقطع: 12/83، 84، صحیح مسلم، الحدود، رقم: 1، 2، 3، 4۔ 11/181،182، 183، سنن ابي داؤد، الحدود: 11، باب ما یقطع فیه السارق: 12/50،51، سنن ابن ماجة: 2586، سنن دارقطني: الحدود: 4، باب ما یقطع فیه الیه: 2/94،مسند طیالسي: 1/301، سنن دارقطني: 3/189، 190، سنن الکبریٰ بیهقي: 8/354، 356، التلخیص الحبیر: 4/64، معجم صغیر طبراني: 1/10، 160۔»