حدثنا الحسين بن احمد بن بسطام الزعفراني البصري ، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم صاحب الهروي، حدثنا ابي ، عن ابي كعب صاحب الحرير، عن سعيد الجريري ، عن ابي السليل ضريب بن نقير ، عن ابي هريرة ، قال:" لما بعث النبي صلى الله عليه وسلم العلاء الحضرمي إلى البحرين تبعته، فرايت منه ثلاث خصال لا ادري ايتهن اعجب، انتهينا إلى شاطئ البحر، فقال: سموا الله، واقتحموا، فسمينا، واقتحمنا، فعبرنا، فما بل الماء إلا اسافل خفاف إبلنا، فلما قفلنا، صرنا معه بفلاة من الارض، وليس معنا ماء، فشكونا إليه، فقال فصلى: صلوا ركعتين، ثم دعا الله، فإذا سحابة مثل الترس، ثم ارخت عزاليها، فشربنا، واسقينا، ومات، فدفناه في الرمل، فلما سرنا غير بعيد قلنا: يجيء السبع فياكله، فرجعنا، فلم نره"، لم يروه عن ابي كعب عبد ربه بن عبيد، صاحب الحرير البصري، إلا إبراهيم صاحب الهروي، ولم يروه عن الجريري، إلا ابو كعبحَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بِسْطَامٍ الزَّعْفَرَانِيُّ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ صَاحِبُ الْهَرَوِيِّ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ أَبِي كَعْبٍ صَاحِبِ الْحَرِيرِ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي السَّلِيلِ ضُرَيْبِ بْنِ نُقَيْرٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ:" لَمَّا بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَلاءَ الْحَضْرَمِيَّ إِلَى الْبَحْرَيْنِ تَبِعْتُهُ، فَرَأَيْتُ مِنْهُ ثَلاثَ خِصَالٍ لا أَدْرِي أَيَّتَهُنَّ أَعْجَبُ، انْتَهَيْنَا إِلَى شَاطِئِ الْبَحْرِ، فَقَالَ: سَمُّوا اللَّهَ، وَاقْتَحِمُوا، فَسَمَّيْنَا، وِاقْتَحَمْنَا، فَعَبَرْنَا، فَمَا بَلَّ الْمَاءُ إِلا أَسَافِلَ خُفَافِ إِبِلِنَا، فَلَمَّا قَفَلْنَا، صِرْنَا مَعَهُ بِفَلاةٍ مِنَ الأَرْضِ، وَلَيْسَ مَعَنَا مَاءٌ، فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ، فَقَالَ فَصَلَّى: صَلُّوا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ دَعَا اللَّهَ، فَإِذَا سَحَابَةٌ مثل التُّرْسِ، ثُمَّ أَرْخَتْ عَزَالِيَهَا، فَشَرِبْنَا، وَأَسْقَيْنَا، وَمَاتَ، فَدَفَنَّاهُ فِي الرَّمَلِ، فَلَمَّا سِرْنَا غَيْرَ بَعِيدٍ قُلْنَا: يَجِيءُ السَّبْعُ فَيَأْكُلُهُ، فَرَجَعْنَا، فَلَمْ نَرَهُ"، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ أَبِي كَعْبٍ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ عُبَيْدٍ، صَاحِبِ الْحَرِيرِ الْبَصْرِيِّ، إِلا إِبْرَاهِيمُ صَاحِبُ الْهَرَوِيُّ، وَلَمْ يَرْوِهِ عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، إِلا أَبُو كَعْبٍ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علاء حضرمی رضی اللہ عنہ کو بحرین کی طرف بھیجا تو میں بھی ان کے پیچھے چلا گیا، میں نے ان میں تین خصلتیں دیکھیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ ان میں سے کون سی خصلت مجھے پیاری ہے۔ ہم سمندر کے کنارے پہنچے تو انہوں نے کہا کہ بسم اللہ پڑھ کر گھس جاؤ۔ ہم بسم اللہ پڑھ کے گھسے تو سمندر پار کر لیا۔ ہمارے اونٹوں کے نچلے موزے ہی پانی سے گیلے ہوئے، جب ہم لوٹے تو ہم ایک خشک زمین میں ان کی طرف ہوئے۔ وہاں پانی نہیں تھا۔ تو ہم نے ان کی طرف یہ شکایت کی تو وہ نماز پڑھنے لگے، پھر سب نے دو رکعتیں پڑھیں اور دعا کی تو اچانک ایک بدلی ڈھال جیسی نمودار ہوئی، پھر اس نے اپنے پہلو ڈال دیے تو ہم نے اس سے پانی پیا اور اونٹوں کو پلایا۔ پھر جب وہ فوت ہوئے تو ہم نے انہیں ریت میں دفن کر دیا۔ جب ہم وہاں سے چلنے لگے تو ہم نے کہا ان کو کہیں کوئی درندہ نہ کھا جائے، جب ہم وہاں واپس آئے تو انہیں وہاں نہ پایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 167، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3495، والطبراني فى «الصغير» برقم: 400 قال الهيثمي: فيه إبراهيم بن معمر الهروي والد إسماعيل ولم أعرفه وبقية رجاله ثقات، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (9 / 376)»
سیدنا ابی عزیز بن عمیر رضی اللہ عنہ (جو سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے بھتیجے ہیں) کہتے ہیں: میں بدر کے دن جنگی قیدیوں میں سے تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جنگی قیدیوں سے اچھے سلوک کی تلقین کی، اور میں انصار کی ایک جماعت میں تھا تو جب وہ ان کو صبح کا یا شام کا کھانا پیش کرتے تو خود کھجوریں کھا لیتے اور مجھے روٹی کھلاتے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے متعلق اچھے سلوک کا حکم دیا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، أخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 977، والطبراني فى «الصغير» برقم: 409 قال الهيثمي: إسناده حسن، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (6 / 86)»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو آدمی جہنم میں اکٹھے نہیں جائیں گے، ان میں سے ایک دوسرے کو ضرر پہنچانے والا ہو، ایک وہ مسلمان جس نے کسی کافر کو قتل کیا ہو، پھر مسلمان ثابت قدم رہا ہو، اور اللہ کے قریب بھی دو چیزیں کسی مومن کے پیٹ میں جمع نہیں ہو سکتیں، ایک اللہ کے راستے کا غبار اور ایک جہنم کی بھاپ، اور کسی مومن کے دل میں ایمان اور حسد بھی اکٹھا نہیں ہو سکتا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1891، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4606، 4665، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7762، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3111، 3112، 3113، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4301، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2311، 1633، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2495، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2774، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18602، 18579، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7690، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1122، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1911، 5878، أخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 410، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6505»
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ان کی نگرانی کر رہے تھے جب یہ آیت نازل ہوئی: «﴿يٰاَيُّهَا الرُّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِكَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾»”اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا وہ آگے پہنچاؤ، اگر ایسا نہ کرو گے تو تم اس کا پیغام نہ پہنچاؤ گے، اور اللہ تمہیں لوگوں سے بچائے گا۔“(المائدہ: 67) اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہرہ داری ترک کر دی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، أخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 3510، والطبراني فى «الصغير» برقم: 418، فأما حديث عائشة بنت أبى بكر الصديق أخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 3046، قال الشيخ الألباني: حسن، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17803، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3240، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 768»
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی سریہ بھیجتے تو یوں کہتے: ”اللہ کے نام کے ساتھ جنگ کرو، اور اللہ کی راہ میں جنگ کرو، جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اس کے ساتھ جنگ کرو۔ خیانت نہ کرو، دھوکہ نہ دو، مثلہ نہ کرو، کسی بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 514، والبزار فى «مسنده» برقم: 3122، وأما حديث أنس بن مالك أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4192، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2614، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4058، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17402»
سیدنا عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ بیعت رضوان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! میں نے کہا: آپ نے کیا پہنا ہوا تھا؟ وہ کہنے لگے: روئی کی قمیص تھی اور بھرا ہوا کوٹ تھا اور ایک چادر اور تلوار تھی۔ اور میں نے نعمان بن مقرن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر کھڑا دیکھا۔ درخت کی ٹہنیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے اونچی جارہی تھیں اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، أخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 13578، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3790، والطبراني فى «الصغير» برقم: 535 قال الهيثمي: فيه إسماعيل بن يحيى بن عبد الله التيمي وهو ضعيف، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (6 / 146)»
حدثنا علي بن صقر السكري البغدادي ، حدثنا عفان بن مسلم ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت البناني ، قال: ذكر انس بن مالك رضي الله عنه سبعين رجلا من الانصار كان إذا جنهم الليل آووا إلى معلم بالمدينة، فيبيتون يدرسون القرآن، فإذا اصبحوا فمن كان عنده قوة اصاب من الحطب، واستعذب من الماء، ومن كان عنده سعة اصابوا الشاة، فاصلحوا، فكانت تصبح معلقة بحجر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، فلما اصيب خبيب بعثهم رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فكان فيهم خالي حرام بن ملحان، فاتوا على حي من بني سليم، فقال حرام لاميرهم: الا اخبر هؤلاء انا لسنا إياهم نريد فيخلوا وجوهنا؟، قالوا: نعم، فاتاهم؟، فقال لهم ذلك، فاستقبله رجل منهم برمح، فانفذه به، فلما وجد حرام مس الرمح مسح في جوفه، قال: فزت ورب الكعبة، فانطووا عليهم، فما بقي منهم مخبر، فما رايت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وجد على سرية وجده عليهم، قال انس: فلقد رايت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كلما صلى الغداة رفع يديه يدعو عليهم، فلما كان بعد ذلك اتى ابو طلحة يقول: هل لك في قاتل حرام؟، فقال: ما باله؟ فعل الله به وفعل قال ابو طلحة: لا تفعل، فقد اسلم"، لم يروه عن سليمان، إلا عفانحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَقْرٍ السُّكَّرِيُّ الْبَغْدَادِيُّ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، قَالَ: ذَكَرَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَبْعِينَ رَجُلا مِنَ الأَنْصَارِ كَانَ إِذَا جَنَّهُمُ اللَّيْلُ آوَوْا إِلَى مَعْلَمٍ بِالْمَدِينَةِ، فَيَبِيتُونَ يَدْرِسُونَ الْقُرْآنَ، فَإِذَا أَصْبَحُوا فَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ قُوَّةٌ أَصَابَ مِنَ الْحَطَبِ، وَاسْتَعْذَبَ مِنَ الْمَاءِ، وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ سَعَةٌ أَصَابُوا الشَّاةَ، فَأَصْلَحُوا، فَكَانَتْ تُصْبِحُ مُعَلَّقَةً بِحِجْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُصِيبَ خُبَيْبٌ بَعَثَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ فِيهِمْ خَالِي حَرَامُ بْنُ مِلْحَانَ، فَأَتَوْا عَلَى حَيٍّ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، فَقَالَ حَرَامٌ لأَمِيرِهِمْ: أَلا أُخْبِرُ هَؤُلاءِ أَنَّا لَسْنَا إِيَّاهُمْ نُرِيدُ فَيُخَلُّوا وُجُوهَنَا؟، قَالُوا: نَعَمْ، فَأَتَاهُمْ؟، فَقَالَ لَهُمْ ذَلِكَ، فَاسْتَقْبَلَهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ بِرُمْحٍ، فَأَنْفَذَهُ بِهِ، فَلَمَّا وَجَدَ حَرَامٌ مَسَّ الرُّمْحِ مَسَحَ فِي جَوْفِهِ، قَالَ: فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، فَانْطَوَوْا عَلَيْهِمْ، فَمَا بَقِيَ مِنْهُمْ مُخْبِرٌ، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ عَلَى سَرِيَّةٍ وَجْدَهُ عَلَيْهِمْ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا صَلَّى الْغَدَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ يَدْعُو عَلَيْهِمْ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَى أَبُو طَلْحَةَ يَقُولُ: هَلْ لَكَ فِي قَاتَلِ حَرَامٍ؟، فَقَالَ: مَا بَالُهُ؟ فَعَلَ اللَّهُ بِهِ وَفَعَلَ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: لا تَفْعَلْ، فَقَدْ أَسْلَمَ"، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ سُلَيْمَانَ، إِلا عَفَّانُ
سیدنا ثابت بنانی کہتے ہیں: سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے انصار کے ستر آدمیوں کا ذکر کیا کہ جب انہیں رات آجاتی تو وہ مدینے میں ایک نشان کے پاس جمع ہو جاتے۔ وہاں رات گزارتے اور قرآن پڑھتے، جب صبح ہوتی تو جسے طاقت ہوتی تو وہ کچھ ایندھن لے لیتا اور ٹھنڈا پانی پی لیتا، اور جس کے پاس گنجائش ہوتی تو وہ بکری لے کر اس کی اصلاح کرتا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے سے لٹکا دی جاتی۔ جب خبیب کو مصیبت آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھیجا تھا۔ جن میں میرے ماموں حرام بن ملحان بھی تھے۔ تو وہ بنو سلیم کے قبیلے کے پاس آئے، حرام نے اپنے امیر سے کہا: کیا میں انہیں بتا نہ دوں کہ ہم وہ نہیں ہیں تو وہ ہمارے چہرے کھول دیں۔ انہوں نے کہا: ہاں کہہ دو۔ تو وہ ان کے پاس آیا اور کہا، مگر ایک آدمی نیزہ لے کر اس کے سامنے آگیا اور اسے اس میں گھونپ دیا۔ جب حرام نے نیزے کی ضرب پیٹ میں محسوس کی تو کہا: کعبے کے رب کی قسم! میں کامیاب ہو گیا۔ تو انہوں نے ان سب کو ختم کر دیا، یہاں تک کہ ان میں سے کوئی خبر دینے والا بھی نہ بچا۔ تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سریہ (لڑائی، جنگ) پر اتنا غمگین دیکھا جتنا اور کبھی نہیں دیکھا تھا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب بھی صبح کی نماز پڑھتے تو ہاتھ اٹھا کر ان کے لیے بدعا کرتے، اس کے بعد سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تجھے حرام کے قاتل میں دلچسپی ہے، انہوں نے کہا: اس کی کیا بات ہے؟ اللہ اس کے ساتھ ایسے اور ایسے کرے، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسے نہ کہو، وہ مسلمان ہو گیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1300، 4094، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 677، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1078، 1072، 1071، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 668، 668، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1445، 1444، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3182، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14167، والطبراني فى «الكبير» برقم: 3606، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3793، والطبراني فى «الصغير» برقم: 536، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 7054»
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ خیبر پر حملہ کیا جب کہ وہ غافل تھے، تو وہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے اور ان کا لشکر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اکبر! خیبر تباہ ہوگیا، ہم جب کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو جنہیں ڈرایا گیا ہے ان کی صبح بری ہو جاتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن حديث صحيح، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 3820، والطبراني فى «الصغير» برقم: 538، قال الهيثمي: فيه عبد الله بن محمد بن المغيرة وهو ضعيف مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:، وله شواهد من حديث أنس بن مالك فأما حديث أنس بن مالك أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 947، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1365، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1550»