(حديث موقوف) حدثنا ابو المغيرة، حدثنا عبدة، عن خالد بن معدان، قال: "إن الذي يقرا القرآن له اجر، وإن الذي يستمع له اجران".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، قَالَ: "إِنَّ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ لَهُ أَجْرٌ، وَإِنَّ الَّذِي يَسْتَمِعُ لَهُ أَجْرَانِ".
خالد بن معدان نے کہا: بیشک جو قرآن پڑھتا ہے اس کے لئے ایک اجر ہے اور جو قرآن سنتا ہے اس کے لئے ڈبل اجر ہے۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 3409]» عبدۃ بنت خالد غير معروف ہیں۔ ابوالمغيرہ: عبدالقدوس بن الحجاج ہیں۔ کہیں اور یہ روایت نہیں ملی اور یہ خالد بن معدان کا قول ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جو شخص قرآن پاک کی ایک آیت غور سے سنتا ہے وہ اس کے لئے نور (روشنی) ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج. ورزين بن عبد الله بن حميد مجهول، [مكتبه الشامله نمبر: 3410]» اس روایت کی سند میں ابن جریج مدلس ہیں اور عن سے روایت کی ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 6012]، [فضائل القرآن 64]
وضاحت: (تشریح احادیث 3397 سے 3399) اگرچہ یہ روایات سند کے لحاظ سے صحیح نہیں ہیں لیکن قرآن پاک سننے والے کو بھی پڑھنے والے ہی کی طرح اجر و ثواب ملتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج. ورزين بن عبد الله بن حميد مجهول
(حديث مرفوع) اخبرنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، وهمام، قالا: حدثنا قتادة، عن زرارة بن اوفى، عن سعد بن هشام، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "الذي يقرا القرآن وهو ماهر به، فهو مع السفرة الكرام البررة، والذي يقرؤه وهو يشتد عليه، فله اجران".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، وَهَمَّامٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَهُوَ مَاهِرٌ بِهِ، فَهُوَ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَؤُهُ وَهُوَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ، فَلَهُ أَجْرَانِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا ماہر (یعنی حافظ) ہے تو وہ مکرم، نیک لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہو گا، اور جو قرآن پڑھتا ہے اور قرآن پڑھنا اس پر دشوار ہوتا ہے تو اس کے لئے ڈبل اجر ہے۔“(ایک اجر قرآن کی تلاوت کا اور ایک اجر تلاوت میں مشقت برداشت کرنے کا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3411]» اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4937]، [مسلم 798]، [أبوداؤد 1454]، [ترمذي 2904]، [ابن ماجه 3779]، [نسائي فى فضائل القرآن 70، 71، 72]
وضاحت: (تشریح حدیث 3399) اس حدیث سے حافظِ قرآن کی فضیلت معلوم ہوئی جو اللہ کے نیک و مطیع، معزز و مکرم کاتبین کے ساتھ ہوں گے، «الماهر بالقرآن» کا مطلب ہے قرآن پڑھنے میں ماہر، اس کے معانی و مفاہیم کو جاننے والا، اور ماہرِ قرآن وہی ہوگا جو اس کا زیادہ سے زیادہ ورد رکھے۔ «(جعلنا اللّٰه منهم).»
(حديث مقطوع) حدثنا مروان بن محمد، حدثنا سعيد هو ابن عبد العزيز، عن إسماعيل بن عبيد الله، عن وهب الذماري، قال: "من آتاه الله القرآن، فقام به آناء الليل، وآناء النهار، وعمل بما فيه، ومات على الطاعة، بعثه الله يوم القيامة مع السفرة والاحكام. قال سعيد: السفرة: الملائكة، والاحكام: الانبياء، قال: ومن كان حريصا وهو يتفلت منه، وهو لا يدعه، اوتي اجره مرتين، ومن كان عليه حريصا وهو يتفلت منه ومات على الطاعة، فهو من اشرافهم، وفضلوا على الناس، كما فضلت النسور على سائر الطير، وكما فضلت مرجة خضراء على ما حولها من البقاع، فإذا كان يوم القيامة، قيل: اين الذين كانوا يتلون كتابي لم يلههم اتباع الانعام؟ فيعطى الخلد والنعيم، فإن كان ابواه ماتا على الطاعة، جعل على رءوسهما تاج الملك، فيقولان: ربنا ما بلغت هذا اعمالنا؟ فيقولان: بلى، إن ابنكما كان يتلو كتابي".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ وَهْبٍ الذِّمَارِيِّ، قَالَ: "مَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ، فَقَامَ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ، وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ، وَمَاتَ عَلَى الطَّاعَةِ، بَعَثَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ السَّفَرَةِ وَالْأَحْكَامِ. قَالَ سَعِيدٌ: السَّفَرَةُ: الْمَلَائِكَةُ، وَالْأَحْكَامُ: الْأَنْبِيَاءُ، قَالَ: وَمَنْ كَانَ حَرِيصًا وَهُوَ يَتَفَلَّتُ مِنْهُ، وَهُوَ لَا يَدَعُهُ، أُوتِيَ أَجْرَهُ مَرَّتَيْنِ، وَمَنْ كَانَ عَلَيْهِ حَرِيصًا وَهُوَ يَتَفَلَّتُ مِنْهُ وَمَاتَ عَلَى الطَّاعَةِ، فَهُوَ مِنْ أَشْرَافِهِمْ، وَفُضِّلُوا عَلَى النَّاسِ، كَمَا فُضِّلَتْ النُّسُورُ عَلَى سَائِرِ الطَّيْرِ، وَكَمَا فُضِّلَتْ مَرْجَةٌ خَضْرَاءُ عَلَى مَا حَوْلَهَا مِنْ الْبِقَاعِ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، قِيلَ: أَيْنَ الَّذِينَ كَانُوا يَتْلُونَ كِتَابِي لَمْ يُلْهِهِمْ اتِّبَاعُ الْأَنْعَامِ؟ فَيُعْطَى الْخُلْدَ وَالنَّعِيمَ، فَإِنْ كَانَ أَبَوَاهُ مَاتَا عَلَى الطَّاعَةِ، جُعِلَ عَلَى رُءُوسِهِمَا تَاجُ الْمُلْكِ، فَيَقُولَانِ: رَبَّنَا مَا بَلَغَتْ هَذَا أَعْمَالُنَا؟ فَيَقُولان: بَلَى، إِنَّ ابْنَكُمَا كَانَ يَتْلُو كِتَابِي".
وہب الذماری نے کہا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی نعمت عطاء فرمائی اور وہ اس کو صبح و شام پڑھے، اور جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کرے، اطاعت و فرماں برداری پر ہی اسے موت آئے، ایسے شخص کو الله تعالیٰ قیامت کے دن «سفره» اور «احكام» کے ساتھ اٹھائے گا۔ سعید بن عبدالعزیز نے کہا: «سفره» سے مراد: فرشتے، اور «احكام» سے مراد انبیاء ہیں، وہب نے کہا: اور جو کوئی قرآن پاک یاد کرنے پر حریص رہا لیکن وہ اسے بھول جاتا ہے اور وہ اسے چھوڑتا بھی نہیں (یعنی پڑھتا رہتا ہے) اس کو دہرا اجر ملے گا، اور جو قرآن یاد کرنے کا حریص ہو اور اسے بھول جاتا ہو لیکن وہ اطاعت و فرماں برداری کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو تو ایسے لوگ باعزت لوگ ہیں اور ان کی فضیلت و بزرگی لوگوں پر ایسی ہے جیسے تمام پرندوں پر نسور (گدھ) بھاری ہے، یا جیسے ہری بھری چراگاہ کی فضیلت اس کے اردگرد کی (بنجر) زمین پر ہے، پھر جب قیامت کا دن ہو گا تو کہا جائے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جو میری کتاب کی تلاوت کیا کرتے تھے اور چوپائے چرانے (یعنی دنیا کی مصروفیات) نے انہیں غافل نہ کیا، ایسے شخص کو جنت اور اس میں ہمیشگی عطا کی جائے گی، اگر ایسے شخص کے والدین بھی اطاعت و فرماں برداری پر جاں بحق ہوئے تو ان کے سروں پر تاج الملک پہنایا جائے گا، وہ دونوں کہیں گے: اے ہمارے پروردگار ہمارے اعمال تو اتنے اچھے نہ تھے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ہاں یہ اس لئے ہے کہ تمہارا بیٹا میری کتاب کی تلاوت کرتا تھا۔
تخریج الحدیث: «وهب الدارمي ترجمة ابن أبي حاتم وما رأيت فيه جرحا ولا تعديلا فهو على شرط ابن حبان، [مكتبه الشامله نمبر: 3412]» وہب الذماری کو ابن ابی حاتم نے ذکر کیا ہے، لیکن جرح و تعدیل نہیں کی، باقی رواۃ ثقہ ہیں، کسی اور کتاب میں یہ روایت نہیں ملی۔ وہب الذماری کا یہ قول ہے: حافظ قرآن کے والدین کو تاج الکرام عطا کیا جائے گا، وہ کہیں گے کہ رب العالمین! ہمارے اعمال تو ایسے نہ تھے پھر یہ تاج ہمیں کیوں پہنایا گیا؟ جواب ملے گا کہ: یہ تمہارے بچے کے قرآن پڑھنے کی وجہ سے ہے۔ اس کا شاہد صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے، اس لئے یہ آ خری جملہ صحیح ہے۔ مزید تفصیل کے لئے آگے دیکھئے: حدیث نمبر (3423)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: وهب الدارمي ترجمة ابن أبي حاتم وما رأيت فيه جرحا ولا تعديلا فهو على شرط ابن حبان
(حديث مرفوع) اخبرنا قبيصة، اخبرنا سفيان، عن عبد الملك بن عمير، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "في فاتحة الكتاب، شفاء من كل داء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فِي فَاتِحَةِ الْكِتَابِ، شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ".
عبدالملک بن عمیر نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورہ فاتحہ میں ہر بیماری سے شفاء ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح غير أنه مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 3413]» اس اثر کی سند صحیح لیکن حدیث مرسل ہے۔ دیکھئے: [شعب الإيمان 2370]، [الدر المنثور 5/1]، [الأسرار المرفوعة 313] و [كشف الخفاء 1816]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح غير أنه مرسل
(حديث مرفوع) حدثنا بشر بن عمر الزهراني، حدثنا شعبة، عن خبيب بن عبد الرحمن، عن حفص بن عاصم، عن ابي سعيد بن المعلى الانصاري، قال:"مر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: "الم يقل الله عز وجل: يايها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم واعلموا ان الله يحول بين المرء وقلبه وانه إليه تحشرون سورة الانفال آية 24، قال: الا اعلمك اعظم سورة في القرآن قبل ان اخرج من المسجد؟، فلما اراد ان يخرج، قال: الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2 وهي السبع المثاني، والقرآن العظيم الذي اوتيتم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّهْرَانِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ:"مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "أَلَمْ يَقُلْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ سورة الأنفال آية 24، قَالَ: أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنْ الْمَسْجِدِ؟، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي، وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُمْ".
سیدنا ابوسعید بن المعلی الانصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گزرے (وفي البخاری: میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، میں نے کوئی جواب نہ دیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا الله تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: «﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ . . . . . .﴾»[انفال: 24/8]”اے مومنو! جب اللہ اور رسول تم کو بلائیں تو ہاں میں جواب دو“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد سے نکلنے سے پہلے میں تم کو قرآن کی عظیم ترین سورۃ بتاؤں گا“، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکلنے کا ارادہ کیا تو فرمایا: ”وہ عظیم ترین سورۃ الحمد للہ رب العالمین (یعنی سورہ فاتحہ ہے) جو سبع مثانی ہے اور قرآن عظیم ہے جو تمہیں عطا کیا گیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 3414]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [البخاري 4474]، [أبوداؤد 1458]، [نسائي 912]، [ابن ماجه 3785]، [أبويعلی 6837]، [ابن حبان 777]، [مشكل الآثار للطحاوي 77/2، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح احادیث 3400 سے 3403) «سبع المثاني» وہ سات آیات جو نماز میں بھی بار بار پڑھی جاتی ہیں، اس کے بغیر کوئی رکعت صحیح نہیں ہوتی، اور اس کو نماز میں امام، مقتدی، منفرد سب کو پڑھنا واجب ہے، یہ قرآنِ عظیم ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا نعيم بن حماد، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "ما انزلت في التوراة ولا في الإنجيل والزبور والقرآن مثلها يعني: ام القرآن وإنها لسبع من المثاني، والقرآن العظيم الذي اعطيت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَا أُنْزِلَتْ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ وَالزَّبُورِ وَالْقُرْآنِ مِثْلُهَا يَعْنِي: أُمَّ الْقُرْآنِ وَإِنَّهَا لَسَبْعٌ مِنْ الْمَثَانِي، وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُعْطِيتُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”توراۃ، زبور، انجیل اور قرآن تک میں اس کے مثل سورت نازل نہیں ہوئی، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اُم القرآن تھی) جو سبع المثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کی گئی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3416]» نعیم بن حماد کی وجہ سے اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2878]، [سخاوي فى جمال القراء 115/1]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الحمد لله اُم القرآن، اُم الکتاب اور سبع المثانی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3417]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1457]، [ترمذي 3124]، [مسند أحمد 448/2]۔ نیز اس کا شاہد بخاری میں بھی ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4703، 4704] و [شرح السنة للبغوي 1187] و [مشكل الآثار 78/2، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح احادیث 3403 سے 3406) قرآن پاک اور احادیثِ رسول میں سورۃ الفاتحہ کے متعدد نام مذکور ہیں، جن میں سے چار نام اوپر ذکر کئے گئے، الفاتحہ یا فاتحۃ الكتاب اس لئے کہا جاتا ہے کیوں کہ مصحف کی کتابت میں سب سے پہلے یہ ہی سورت لکھی جاتی ہے، نماز میں بھی سب سے پہلے دعا استفتاح کے بعد اس کی قرأت ہوتی ہے، اُم الکتاب یا اُم القرآن یا اساس قرآن بھی اس کو کہا جاتا ہے کیوں کہ قرآن پاک کی تعلیمات کا یہ لب لباب ہے، اس کا نام الشفاء بھی ہے جیسا کہ اس باب کی پہلی حدیث میں ہے، الرقیہ بھی اس سورہ کا نام ہے کیوں کہ صحابہ کرام اس کو پڑھ کر مریض و بیمار پر دم کرتے تھے، الوافیۃ اور الکافیۃ بھی اس کو کہتے ہیں، اس سورۂ شریفہ کے بہت سارے فضائل ہیں۔ اس کے لئے دیکھئے: «تفسير ابن كثير و تفسير القرطبي.»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جس گھر میں سورۃ البقرہ پڑھی جائے اس سے شیطان ہوا خارج کرتے ہوئے بھاگ جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فطر متأخر السماع من أبي إسحاق السبيعي، [مكتبه الشامله نمبر: 3418]» یہ اثر موقوف ہے اور سند ضعیف ہے، لیکن صحیح سند سے بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [طبراني فى الكبير 138/9، 8643]، [الأوسط 2269]، [الصغير 53/1]، [البيهقي فى شعب الإيمان 2379]، [الحاكم 2063] و [ابن الضريس 175]۔ مزید دیکھئے: [الحاكم 258/2، 3060، وقال: صحيح الاسناد دو لم يخرجاه و وافقه الذهبي]
وضاحت: (تشریح حدیث 3406) یعنی شیطان ڈر کر بھاگتا ہے اور ہوا نکل جاتی ہے، انسان بھی ڈر جائے تو پیشاب یا پائخانہ خطا ہو جاتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فطر متأخر السماع من أبي إسحاق السبيعي