(حديث موقوف) حدثنا حدثنا الوضاح بن يحيى، حدثنا ابو بكر، عن هشام، عن الحسن، قال: "إذا اوصى الرجل إلى الرجل، فعرضت عليه الوصية، وكان غائبا فقبل، لم يكن له ان يرجع".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْوَضَّاحُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ، فَعُرِضَتْ عَلَيْهِ الْوَصِيَّةُ، وَكَانَ غَائِبًا فَقَبِلَ، لَمْ يَكُنْ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ".
حسن رحمہ اللہ نے کہا: کوئی آدمی جب کسی کے لئے وصیت کرے اور وہ موجود نہ ہو پھر وہ وصیت اس کے لئے پیش کی جائے جس کو (موصی الیہ) قبول کر لے تو وصیت کرنے والے کو رجوع کرنے کا اختیار نہ ہو گا۔
تخریج الحدیث: «الوضاح بن يحيى سيئ الحفظ ولكنه متابع عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3289]» اس اثر کی سند میں وضاح بن یحییٰ سئی الحفظ ہیں، لیکن اوپر اس معنی کے شواہد گذر چکے ہیں۔
وضاحت: (تشریح احادیث 3274 سے 3278) جس شخص کو وصیت کی جائے اس کو قبول یا رد کرنے کا اختیار ہے، لیکن جب قبول کر لے تو پھر وصیت کرنے والا رجوع نہیں کر سکتا، کیوں کہ یہ دے کر پھر لوٹانے کے زمرے میں آئے گا جس کے لئے فرمانِ نبوی ہے: «اَلْعَائِدُ فِيْ هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَعُوْدُ فِيْ قَيْئِهِ. (وقانا اللّٰه منها)» ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الوضاح بن يحيى سيئ الحفظ ولكنه متابع عليه
(حديث مقطوع) حدثنا جعفر بن عون، عن شعبة، عن ابي معشر، عن إبراهيم، قال: "إذا اوصى الرجل لإنسان، وهو غائب، وكان ميتا، وهو لا يدري، فهي راجعة".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ شعبة، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ لِإِنْسَانٍ، وَهُوَ غَائِبٌ، وَكَانَ مَيِّتًا، وَهُوَ لَا يَدْرِي، فَهِيَ رَاجِعَةٌ".
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: جب کوئی آدمی کسی انسان کے لئے وصیت کرے اور وہ موجود نہ ہو، پھر پتہ چلے کہ وہ تو مر چکا ہے، ایسی صورت میں وصیت (وصیت کرنے والے کی طرف) لوٹ جائے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3290]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابومعشر کا نام زیاد بن کلیب ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10789]، [ابن منصور 368]
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن عيسى، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا يونس، عن الحسن، قال: "إذا اوصى لعبده ثلث ماله، ربع ماله، خمس ماله، فهو من ماله دخلته عتاقة".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "إِذَا أَوْصَى لِعَبْدِهِ ثُلُثَ مَالِهِ، رُبُعَ مَالِهِ، خُمُسَ مَالِهِ، فَهُوَ مِنْ مَالِهِ دَخَلَتْهُ عَتَاقَةٌ".
حسن رحمہ اللہ نے کہا: جب آدمی اپنے غلام کے لئے اپنے مال میں سے ایک تہائی، یا چوتھائی، یا پانچویں حصے کی وصیت کرے تو وہ اس کے مال میں سے ادا کی جائے گی اور یہ وصیت اس کی آزادی میں شمار ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3291]» اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن کسی اور کتاب میں نہیں ملی، اس کے ہم معنی [ابن أبى شيبه 10918] میں دیکھئے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
(حديث مقطوع) حدثنا يعلى، عن إسماعيل، عن قيس، قال: كان يقال: "إن الرجل ليحرم بركة ماله في حياته، فإذا كان عند الموت، تزود بفجرة".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى، عَنْ إِسْمَاعِيل، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: كَانَ يُقَالُ: "إِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ بَرَكَةَ مَالِهِ فِي حَيَاتِهِ، فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْمَوْتِ، تَزَوَّدَ بِفَجْرَةٍ".
قیس (ابن ابی حازم) نے کہا: یہ کہا جاتا تھا کہ آدمی اپنی زندگی میں اپنے مال کی برکت سے محروم رہے اور جب موت کا وقت آئے تو خوب خرچ کرے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3292]» اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن کسی اور محدث نے روایت نہیں کیا۔ اس کی سند میں یعلی: ابن عبید، اور اسماعیل: ابن ابی خالد ہیں۔
وضاحت: (تشریح احادیث 3278 سے 3281) بعض نسخ میں «تزود بخوه» ہے اور بعض میں «بفجرة» ہے (یعنی «كثرة عطاءه») اور بعض میں «بعجزه» ہے، مطلب یہ کہ اپنی زندگی میں آدمی بخل سے کام لے، جب مرنے لگے تو پھر جود و کرم کے دروازے کھول دے، اس کو علمائے کرام نے ناپسند کیا ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہے۔ نیز اس اثر میں صحت و تندرستی کی حالت میں صدقہ و خیرات کی ترغیب ہے جو باعثِ رحمت و برکت اور موجبِ ثواب ہے۔ والله اعلم۔
عبداللہ نے کہا: دو چیزیں کڑوی ہیں: زندگی میں رکے رہنا اور موت کے وقت اسراف سے کام لینا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: کہا جاتا ہے زندگی میں بھی کڑوا اور موت کے وقت بھی کڑوا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3293]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 7185]
وضاحت: (تشریح حدیث 3281) «الْمُرَيَّان: مُرَّىٰ» کی تثنیہ ہے صغریٰ و کبریٰ کی طرح فعلیٰ کے وزن پر، اس سے مقصد یہ ہے کہ زندگی و تندرستی میں تو آدمی مال کو دبائے رکھے، صدقہ و خیرات سے دور بھاگے، اور جب موت نظر آنے لگے تو پھر صدقہ و خیرات میں زیادتی سے کام لے۔
(حديث مقطوع) حدثنا عبيد الله، عن إسرائيل، عن منصور، عن إبراهيم، قال: "إذا اوصى الرجل لآخر بمثل نصيب ابنه، فلا يتم له مثل نصيبه، حتى ينقص منه".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ لِآخَرَ بِمِثْلِ نَصِيبِ ابْنِهِ، فَلَا يَتِمُّ لَهُ مِثْلُ نَصِيبِهِ، حَتَّى يَنْقُصَ مِنْهُ".
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: جب کوئی آدمی کسی کے لئے وصیت کرے کہ اس کے بیٹے کے مثل اس کو حصہ دیا جائے تو اس کا حصہ پورا ہو گا ہی نہیں جب تک کہ بیٹے کے حصے میں سے کمی نہ ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3294]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10844]
وضاحت: (تشریح حدیث 3282) یعنی جب بیٹے کے مانند اس شخص کو حصہ دیا جائے گا تو یقیناً بیٹے کے حصے میں کمی آئے گی، اسی لئے لوگ اس طرح کی وصیت کو ناپسند کرتے تھے۔
(حديث مقطوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن سلمة، عن داود بن ابي هند، عن الشعبي:"في رجل كان له ثلاثة بنين، فاوصى لرجل مثل نصيب احدهم لو كانوا اربعة، قال الشعبي: يعطى الخمس".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ:"فِي رَجُلٍ كَانَ لَهُ ثَلَاثَةُ بَنِينَ، فَأَوْصَى لِرَجُلٍ مِثْلَ نَصِيبِ أَحَدِهِمْ لَوْ كَانُوا أَرْبَعَةً، قَالَ الشَّعْبِيُّ: يُعْطَى الْخُمُسَ".
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے: کوئی آدمی جس کے تین بیٹے ہوں اور وہ کسی آدمی کے لئے ان میں سے کسی ایک کے حصے کے برابر کی وصیت کرے جیسے اس کے چار بیٹے ہوں، شعبی رحمہ اللہ نے کہا: اس کو پانچواں حصہ دیا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 3295]» اس اثر کی سند شعبی رحمہ اللہ تک صحیح ہے، لیکن کہیں اور یہ روایت نہیں مل سکی۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الشعبي
(حديث مقطوع) حدثنا محمد بن عيسى، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا داود بن ابي هند، قال:"سالنا عامرا عن رجل ترك ابنين، واوصى بمثل نصيب احدهم لو كانوا ثلاثة، قال: اوصى بالربع".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، قَالَ:"سَأَلْنَا عَامِرًا عَنْ رَجُلٍ تَرَكَ ابْنَيْنِ، وَأَوْصَى بِمِثْلِ نَصِيبِ أَحَدِهِمْ لَوْ كَانُوا ثَلَاثَةً، قَالَ: أَوْصَى بِالرُّبُعِ".
داؤد بن ابی ہند نے کہا: ہم نے عامر (شعبی رحمہ اللہ) سے پوچھا: ایک آدمی نے دو بیٹے چھوڑے اور وصیت کی کہ ان میں سے کسی ایک کے نصیب کے برابر فلاں کو حصہ دیا جائے جب کہ وہ تین ہوں؟ شعبی رحمہ اللہ نے کہا: میں اس کو چوتھائی حصہ دینے کی وصیت کرتا ہوں۔ بعض نسخ میں ہے «أوصي بالربع» اور بعض میں «افتي بالربع» ہے، یعنی انہوں نے ربع کا فتویٰ دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3296]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10838]، [ابن منصور 349]
وضاحت: (تشریح احادیث 3283 سے 3285) یعنی تین بھائیوں کے حصہ میں جتنا مال آئے اس میں سے چوتھا حصہ اس کو دیا جائے۔ (والله اعلم)
(حديث مقطوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا ابو عوانة، عن مغيرة، عن إبراهيم، قال:"في رجل اوصى بمثل نصيب بعض الورثة، قال: لا يجوز، وإن كان اقل من الثلث"، قال ابو محمد: هو حسن.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ:"فِي رَجُلٍ أَوْصَى بِمِثْلِ نَصِيبِ بَعْضِ الْوَرَثَةِ، قَالَ: لَا يَجُوزُ، وَإِنْ كَانَ أَقَلَّ مِنْ الثُّلُثِ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد: هُوَ حَسَنٌ.
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: کوئی آدمی (کسی کے لئے) اپنے کسی وارث کے حصے کے برابر کی وصیت کرے تو، انہوں نے کہا: ایسی (مبہم) وصیت چاہے ایک تہائی سے کم ہی کیوں نہ ہو، جائز نہیں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یہ قول اچھا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3297]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10844]، [ابن منصور 348]
(حديث مقطوع) حدثنا قبيصة، انبانا سفيان، عن ابن ابي السفر، عن الشعبي:"في رجل اوصى في غلة عبده بدرهم، وغلته ستة، قال: له سدسه".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، أنبأنا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ:"فِي رَجُلٍ أَوْصَى فِي غَلَّةِ عَبْدِهِ بِدِرْهَمٍ، وَغَلَّتُهُ سِتَّةٌ، قَالَ: لَهُ سُدُسُهُ".
شعبی رحمہ اللہ نے کہا: کوئی آدمی اپنے غلام کی اجرت (یا مزدوری) میں ایک درہم کی وصیت کرے اور اس کی اجرت چھ (درہم) ہو تو اس کو چھٹا حصہ دیا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 3298]» اس اثر کی سند شعبی رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ کہیں اور یہ روایت نہیں ملی۔ قبیصہ: ابن عقبہ ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الشعبي