سنن دارمي
من كتاب الوصايا
وصیت کے مسائل
22. باب إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَهُوَ غَائِبٌ:
کوئی آدمی ایسے شخص کے لئے وصیت کرے جو غائب ہو
حدیث نمبر: 3278
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْوَضَّاحُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ، فَعُرِضَتْ عَلَيْهِ الْوَصِيَّةُ، وَكَانَ غَائِبًا فَقَبِلَ، لَمْ يَكُنْ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ".
حسن رحمہ اللہ نے کہا: کوئی آدمی جب کسی کے لئے وصیت کرے اور وہ موجود نہ ہو پھر وہ وصیت اس کے لئے پیش کی جائے جس کو (موصی الیہ) قبول کر لے تو وصیت کرنے والے کو رجوع کرنے کا اختیار نہ ہو گا۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «الوضاح بن يحيى سيئ الحفظ ولكنه متابع عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3289]»
اس اثر کی سند میں وضاح بن یحییٰ سئی الحفظ ہیں، لیکن اوپر اس معنی کے شواہد گذر چکے ہیں۔
وضاحت: (تشریح احادیث 3274 سے 3278)
جس شخص کو وصیت کی جائے اس کو قبول یا رد کرنے کا اختیار ہے، لیکن جب قبول کر لے تو پھر وصیت کرنے والا رجوع نہیں کر سکتا، کیوں کہ یہ دے کر پھر لوٹانے کے زمرے میں آئے گا جس کے لئے فرمانِ نبوی ہے: «اَلْعَائِدُ فِيْ هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَعُوْدُ فِيْ قَيْئِهِ. (وقانا اللّٰه منها)» ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الوضاح بن يحيى سيئ الحفظ ولكنه متابع عليه