ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! اپنے آپ کو چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بچانا، الله تعالیٰ کا ان کے بارے میں مطالبہ ہوگا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2768]» اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 5568]، [موارد الظمآن 2497]، [الزهد للامام أحمد، ص: 14]
وضاحت: (تشریح حدیث 2760) اس حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ پوری امّت کے لئے تعلیم ہے کہ صغیرہ کبیرہ ہر قسم کے گناہوں سے انسان کو بچنا چاہیے۔ قیامت کے دن انسان جب اپنے نامۂ اعمال میں ہر چھوٹی بڑی، اچھائی برائی کا اندراج دیکھے گا تو پکار اٹھے گا: « ﴿مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا﴾[الكهف: 49] »”ہائے یہ کیسا نوشتہ (کتاب) ہے جس نے کوئی چھوٹی بڑی چیز چھوڑی ہی نہیں ہے بلکہ اس کو ریکارڈ کر لیا ہے، اور وہ اپنا کیا ہوا موجود پائیں گے، اور آپ کا رب کسی پر ظلم و ستم نہ کرے گا۔ “
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سارے آدمی گنہگار ہیں اور گنہگاروں میں اچھے و بہتر وہ ہیں جو توبہ کر لیتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2769]» اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2499]، [ابن ماجه 4251]، [أبويعلی 2922]، [عبد بن حميد 1197]، [ابن أبى شيبه 16063]
وضاحت: (تشریح حدیث 2761) اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان سے خطا و گناہ ہو سکتا ہے۔ اگر کسی سے گناہ سرزد ہو جائے تو اسے فوراً توبہ کرنی چاہیے، کیوں کہ اللہ کے پسندیدہ بندے وہ ہیں جن سے اگر خطا سرزد ہو بھی جائے تو وہ فوراً توبہ کر لیتے ہیں، اور جو توبہ کر لے سچے دل سے اللہ تعالیٰ اسے اس طرح معاف فرما دیتا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ الله تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿وَتُوبُوا إِلَى اللّٰهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾[النور: 31] »”اے مومنو!تم سب الله تعالیٰ سے توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ “ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! اللہ سے توبہ کرو، میں خود دن میں 70 بار 100 بار اللہ سے توبہ و استغفار کرتا ہوں۔ “ دیکھئے: حدیث نمبر (2758)۔ موت کے وقت کی توبہ قبول نہیں ہوتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”ان کی توبہ قبول نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو وہ (اس وقت) کہیں: میں نے توبہ کر لی۔ “[النساء: 18] ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندے کی توبہ اس وقت تک مقبول ہے جب تک کہ موت کے وقت اس کی سانس نہ اکھڑنے لگے، او كما قال علیہ السلام۔ اس لئے ہر وقت توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو: کہیں دستِ ندامت اٹھتے اٹھتے . . . . . درِ توبہ مقفل ہو نہ جائے گناہوں کی ہوائے تندہی میں . . . . . چراغِ زیست آخر بجھ نہ جائے
(حديث مرفوع) اخبرنا النضر بن شميل، حدثنا حماد بن سلمة، عن سماك بن حرب، عن النعمان هو: ابن بشير انه سمعه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "سافر رجل في ارض تنوفة فقال: تحت شجرة ومعه راحلته، وعليها زاده وطعامه، فاستيقظ وقد ذهبت راحلته، فعلا شرفا، فلم ير شيئا، ثم علا شرفا، فلم ير شيئا، ثم علا شرفا فلم ير شيئا، قال: فالتفت فإذا هو بها تجر خطامها، فما هو باشد فرحا بها من الله بتوبة عبده إذا تاب إليه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ النُّعْمَانِ هُوَ: ابْنُ بَشِيرٍ أَنَّهُ سَمِعَهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "سَافَرَ رَجُلٌ فِي أَرْضٍ تَنُوفَةٍ فَقَالَ: تَحْتَ شَجَرَةٍ وَمَعَهُ رَاحِلَتُهُ، وعَلَيْهَا زَادُهُ وَطَعَامُهُ، فَاسْتَيْقَظَ وَقَدْ ذَهَبَتْ رَاحِلَتُهُ، فَعَلَا شَرَفًا، فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، ثُمَّ عَلَا شَرَفًا، فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، ثُمَّ عَلَا شَرَفًا فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، قَالَ: فَالْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ بِهَا تَجُرُّ خِطَامَهَا، فَمَا هُوَ بِأَشَدَّ فَرَحًا بِهَا مِنَ اللَّهِ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ إِذَا تَابَ إِلَيْهِ".
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی اونٹنی لے کر بیابان جنگل کی طرف سفر پر نکلا، ایک درخت کے سایہ تلے وہ قیلولہ کر رہا تھا، اس کی سواری بھی اس کے ساتھ تھی جس پر اس کا زادِ راہ اور کھانا لدا ہوا تھا۔ جب بیدار ہوا تو دیکھا اس کی سواری اونٹنی تو جا چکی ہے۔ وہ ایک ٹیلے پر چڑھا کچھ نہ دکھائی دیا، دوسرے ٹیلے پر چڑھا وہاں سے بھی کچھ دکھائی نہ دیا (یعنی اونٹنی و غیره)، تیسرے ٹیلے پر چڑھا وہاں سے بھی کچھ دکھائی نہ دیا۔ ایک طرف متوجہ ہوا تو اونٹنی نظر آ گئی۔ اس وقت وہ اتنا خوش نہ ہوا ہوگا جتنا الله تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے خوش ہوتا ہے جب وہ توبہ کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2770]» اس حدیث کی سند جید ہے اور اصل اس کی صحیحین میں موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6308]، [مسلم 2745]، [أحمد 273/4]، [أبويعلی 5100، 6600]، [ابن حبان 618، 821، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2762) اس حدیث میں بھی توبہ کی ترغیب ہے، اور توبہ الله تعالیٰ کو محبوب ہے۔ مثال سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا کہ ایک آدمی بیابان جنگل میں ہو، کھانے پینے کی کوئی چیز اس کے پاس نہیں، سواری سب کچھ لے کر غائب ہوگئی، اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کیا، ناکام اور مایوس ہو کر بیٹھ گیا اور موت کا یقین ہوگیا، ایسے میں اچانک اپنا اونٹ اسے نظر آ جائے تو وہ کتنا خوش ہوگا، اس کا اندازہ کرنا آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ بندے سے توبہ کے وقت اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن سفيان، عن ابيه، عن ابي يعلى، عن الربيع بن خثيم، عن عبد الله، قال: خط لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم خطا مربعا، ثم خط وسطه خطا، ثم خط حوله خطوطا، وخط خطا خارجا من الخط، فقال: "هذا الإنسان للخط الاوسط وهذا الاجل محيط به، وهذه الاعراض للخطوط فإذا اخطاه واحد نهشه الآخر، وهذا الامل للخط الخارج".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي يَعْلَى، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا مُرَبَّعًا، ثُمَّ خَطَّ وَسَطَهُ خَطًّا، ثُمَّ خَطَّ حَوْلَهُ خُطُوطًا، وَخَطَّ خَطًّا خَارِجًا مِنَ الْخَطِّ، فَقَالَ: "هَذَا الْإِنْسَانُ لِلْخَطِّ الْأَوْسَطِ وَهَذَا الْأَجَلُ مُحِيطٌ بِهِ، وَهَذِهِ الْأَعْرَاضُ لِلْخُطُوطِ فَإِذَا أَخْطَأَهُ وَاحِدٌ نَهَشَهُ الْآخَرُ، وَهَذَا الْأَمَلُ لِلْخَطِّ الْخَارِجِ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع (چوکور نقشہ) بنایا اور اس کے بیچ میں ایک خط کھینچا اور اس کے ارد گرد خطوط بنائے اور ایک خط کھینچا جو مربع سے باہر نکلا ہوا تھا، فرمایا: ”یہ بیچ کا خط انسان ہے“ اور جو خطوط مربع کی شکل میں تھے، کہا: ”یہ اجل (موت) ہے“ اور جو چھوٹے چھوٹے خطوط تھے، فرمایا: ”یہ حوادث ہیں (انسان کو پیش آنے والی بیماریاں اور آفتیں ہیں) اگر ایک حادثہ اس سے خطا کر جاتا ہے تو دوسرا آ دبوچتا ہے آدمی مر جا تا ہے، اور باہر نکلا ہوا خط امید اور آرزو ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو يعلى هو: المنذر بن يعلى، [مكتبه الشامله نمبر: 2771]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6417]، [ترمذي 2454]، [ابن ماجه 4231]، [أبويعلی 5243]، [أحمد 385/1]
وضاحت: (تشریح حدیث 2763) ان خطوط اور مربع کا نقشہ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے بنا کر پیش کیا ہے، جو اس طرح ہے: موت حادثات امید امیدیں موت حادثات یعنی اس چوکھٹے مربع کے اندر والی لکیر انسان ہے، جس کو چاروں طرف سے مشکلات نے گھیر رکھا ہے، اور گھیرنے والی لکیر اس کی موت ہے، اور باہر نکلنے والی اس کی آرزو ہے، جو موت آنے پر دھری رہ جاتی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو يعلى هو: المنذر بن يعلى
کعب بن مالک نے اپنے والد (سیدنا مالک انصاری رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا: انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ بھی اتنا فساد برپا نہ کریں (خرابی نہ کریں) جتنا مال اور جاہ کی حرص آدمی کے دین کو خراب کرتی ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2772]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2376]، [ابن حبان 3228]، [موارد الظمآن 2472، وله شاهد عند الطبراني 96/19، 189] و [شعب الايمان للبيهقي 10265، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2764) یعنی مال اور عزت و مرتبہ کی حرص آدمی اور اس کے دین کے لئے بھوکے بھیڑیوں سے زیادہ خطرناک اور دین کو تباہ و برباد کر دینے والی ہیں، اس لئے مال اور جاہ کی حرص و طمع سے بچنا چاہیے۔
سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ نے فرمایا ہے: میں انسان کے حسنِ ظن کے قریب ہوں، پس وہ میرے ساتھ جیسا چاہے گمان رکھے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2773]» مذکورہ بالا حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 633]، [موارد الظمآن 717]
وضاحت: (تشریح حدیث 2765) یعنی الله تعالیٰ کی صفات عفو و رحمت پر انسان ایمان و یقین رکھے، اور اس کو اللہ کے جبار و قہار ہونے کا بھی خیال ہو تو الله تعالیٰ اس کے ساتھ عفو و کرم، رحمت و شفقت کا معاملہ کرے گا۔ ارشادِ ربانی ہے: « ﴿نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ o وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ﴾[الحجر: 49-50] » نیز: « ﴿إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ﴾[الانعام: 165] » اور « ﴿إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ o إِنَّهُ هُوَ يُبْدِئُ وَيُعِيدُ o وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ﴾[البروج: 12-14] » ان تمام آیات میں الله تعالیٰ کی دونوں قسم کی صفات ہیں، اور مومن بندہ خوف و رجاء دونوں کو ملحوظ رکھتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا الحكم بن نافع، عن شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني سعيد بن المسيب، وابو سلمة بن عبد الرحمن، ان ابا هريرة، قال: قام النبي صلى الله عليه وسلم حين انزل الله تعالى وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214، فقال: "يا معشر قريش، اشتروا انفسكم من الله، لا اغني عنكم من الله شيئا، يا بني عبد مناف، لا اغني عنكم من الله شيئا. يا عباس بن عبد المطلب، لا اغني عنك من الله شيئا، يا صفية عمة رسول الله لا اغني عنك من الله شيئا، يا فاطمة بنت محمد، سليني ما شئت، لا اغني عنك من الله شيئا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، فَقَالَ: "يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا. يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَلِّبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، سَلِينِي مَا شِئْتِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب الله تعالیٰ نے یہ آیت: «﴿وَأَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ﴾»(شعراء: 214/26)، اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرایئے نازل فرمائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قریش کے لوگو! تم اپنی جان کو الله تعالیٰ سے (اعمالِ صالحہ کے بدلے) مول لے لو (بچالو)، میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آنے کا (یعنی اللہ کی مرضی کے خلاف میں کچھ نہیں کر سکوں گا)۔ اے عبدمناف کے بیٹو! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آنے کا۔ اے عباس (آپ کے چچا) عبدالمطلب کے بیٹے! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آنے کا۔ اے صفیہ (آپ کی پھوپھی) عبدالمطلب کی بیٹی! میں اللہ کے سامنے آپ کے کچھ کام نہیں آنے کا۔ اے فاطمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی! تو چاہے تو میری بیٹی میرا مال مانگ لے، میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2774]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2753]، [مسلم 355/204]، [ترمذي 3185]، [نسائي 3664]، [ابن حبان 646]
وضاحت: (تشریح حدیث 2766) آیتِ شریفہ کے عین مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنے خاص کنبہ و قبیلہ کے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا، پھر اپنے باپ دادا کے خاص افراد چچا و پھوپھی کو، پھر خاص الخاص اپنی بیٹی کو اس حقیقت سے آگاہ کیا، دنیا میں تو میں تمہاری مانگ پوری کر سکتا ہوں لیکن آخرت میں تمہارے بھی کسی کام نہ آسکوں گا، اور وہاں تو سب کا عمل اور الله کا رحم ہی کام آئے گا: « ﴿وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا﴾[النساء: 124] »”جو ایمان والا ہو، مرد یا عورت، اور وہ نیک اعمال کرے تو یقیناً ایسے ہی لوگ جنت میں جائیں گے، اور کھجور کے شگاف کے برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا۔ “
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا الحسن بن الربيع، حدثنا ابو الاحوص، عن الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "قاربوا وسددوا، واعلموا ان احدا منكم لن ينجيه عمله". قالوا: يا رسول الله، ولا انت. قال:"ولا انا إلا ان يتغمدني الله برحمة منه وفضل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَارِبُوا وَسَدِّدُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ لَنْ يُنْجِيَهُ عَمَلُهُ". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَا أَنْتَ. قَالَ:"وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللَّهُ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب رہو اللہ کے اور میانہ روی اختیار کرو (یعنی جو نیک کام کرو ٹھیک سے کرو، کمی یا زیادتی نہ کرو) اور یہ یاد رکھو کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے ہرگز جنت میں نہ جا سکے گا۔“ عرض کیا: یا رسول الله! آپ بھی نہیں؟ فرمایا: ”میں بھی نہیں سوائے اس کے کہ الله تعالیٰ اپنی رحمت و فضل کے سائے میں مجھے ڈھانپ لے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2775]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6467]، [مسلم 2817]، [أبويعلی 1775]، [ابن حبان 350]
وضاحت: (تشریح حدیث 2767) اس حدیث میں تمام امور میں میانہ روی کی تعلیم، اور افراط وتفریط، غلو اور تقصیر سے بچنے کا اور اعمالِ صالحہ کے ذریعہ استقامت و صلاح اختیار کرنے کا حکم ہے، نیز یہ کہ آدمی صرف اپنے عمل پر تکیہ و بھروسہ کر کے غرور و گھمنڈ اور ضلالت میں نہ پڑ جائے بلکہ جان لے کہ اللہ کی رحمت اگر شاملِ حال نہ رہے تو وہ جنت میں بھی داخل نہ ہو سکے گا، کیونکہ عملِ صالح منجملہ اسباب دخول جنت ایک سبب ہے اور اصلی سبب رحمت اور عنایتِ الٰہی ہے، نیز اس حدیث سے معتزلہ کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ اعمالِ صالحہ کرنے والے کو جنّت میں لے جانا اللہ پر واجب ہے «معاذ اللّٰه وتعالىٰ من ذٰلك علوا كبيرا» علامہ وحیدالزماں [شرح مسلم 3774] میں لکھتے ہیں: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ الله جل شانہ پر کسی بندے کا کوئی زورنہیں، نہ اس کے حکم کے سامنے کسی کو چوں چرا کی مجال ہے، خواہ نبی ہو یا ولی، فرشتہ یا کوئی اور، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بندہ کو اپنے اعمال کا غرہ نہ ہونا چاہیے، جب پیغمبروں کو خصوصاً ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جو سید الاوّلین والآخرین ہیں ان کو اپنے اعمال پر کچھ بھروسہ نہ تھا، اور صرف اللہ کے فضل و رحمت پر تکیہ تھا، تو اور کسی غوث یا قطب یا ولی یا درویش کی کیا حقیقت ہے جو اپنے اعمال کی وجہ سے اپنے تئیں جنت کا مستحق خیال کرے، یا کسی اور کو جنت میں لے جا سکے، بقول شخصے: پیر خود درِ مانده تابہ . . . . . شفاعتِ مرید چہ رسد
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن منصور، عن سالم بن ابي الجعد، عن ابيه، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما منكم من احد إلا ومعه قرينه من الجن، وقرينه من الملائكة". قالوا: وإياك؟. قال:"نعم وإياي، ولكن الله اعانني عليه فاسلم". قال ابو محمد: من الناس من يقول: اسلم: استسلم. يقول: ذل.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَمَعَهُ قَرِينُهُ مِنَ الْجِنِّ، وَقَرِينُهُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ". قَالُوا: وَإِيَّاكَ؟. قَالَ:"نَعَمْ وَإِيَّايَ، وَلَكِنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمَ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ: أَسْلَمَ: اسْتَسْلَمَ. يَقُولُ: ذَلَّ.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی نہیں مگر اس کے ساتھ ایک شیطان (جن) اس کا ساتھی نزدیک رہنے والا اور ایک ساتھی فرشتوں میں سے مقرر کر دیا گیا ہے۔“ صحابہ نے عرض کیا: کیا آپ کے ساتھ بھی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی ہے؟ فرمایا: ”ہاں میرے ساتھ بھی شیطان ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے میری اس پر مدد کی ہے اور وہ میرا مطیع ہو گیا ہے یا میں اس سے محفوظ ہو گیا ہوں۔“ امام محمد دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اسلم کہا ہے یعنی وہ تابع فرمان ہو گیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2776]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2814]، [أبويعلی 5143]، [ابن حبان 6417]، [دلائل النبوه 127]
وضاحت: (تشریح حدیث 2768) اور بعض علماء نے «أُسْلَمَ» کہا ہے، یعنی میں اس کی کارستانی سے محفوظ ہوں، اب وہ مجھے نیک بات کے سوا کسی بری بات کا حکم نہیں کرتا ہے۔ پیغمبرِ اسلام نے بتا دیا کہ ہر انسان کے ساتھ شیطان اور فرشتہ ساتھ لگا ہوا ہے۔ شیطان برے کام پر ابھارتا ہے اور فرشتہ اچھے کام کی طرف بلاتا ہے۔ اب یہ انسان کے اختیار میں ہے کہ کس کا حکم مانتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، عن موسى بن انس، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "لو تعلمون ما اعلم، لضحكتم قليلا، ولبكيتم كثيرا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ، لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہیں وہ معلوم ہو جائے جو مجھے معلوم ہے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2777]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4621]، [مسلم 2359]، [ابن ماجه 4191]، [أبويعلی 3105]، [ابن حبان 5792]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه