سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
112. باب في الْكَوْثَرِ:
112. نہر کوثر کا بیان
حدیث نمبر: 2871
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا ابو عوانة، عن عطاء بن السائب، عن محارب بن دثار، قال: حدثنا عبد الله بن عمر، قال: لما نزلت: إنا اعطيناك الكوثر سورة الكوثر آية 1، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "هو نهر في الجنة حافتاه من ذهب، يجري على الدر والياقوت، تربته اطيب من ريح المسك، وطعمه احلى من العسل، وماؤه اشد بياضا من الثلج".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، قالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ سورة الكوثر آية 1، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هُوَ نَهْرٌ فِي الْجَنَّةِ حَافَّتَاهُ مِنْ ذَهَبٍ، يَجْرِي عَلَى الدُّرِّ وَالْيَاقُوتِ، تُرْبَتُهُ أَطْيَبُ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، وَطَعْمُهُ أَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، وَمَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ الثَّلْجِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جب «﴿إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ﴾» نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جنت کی نہر ہے جس کے کنارے سونے کے بنے ہوئے ہیں، موتی اور یاقوت پر بہتی ہے، اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار، اور اس کا مزہ شہد سے زیادہ میٹھا، اور پانی برف سے زیادہ سفید (وشفاف) ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف أبو عوانة متأخر السماع من عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 2879]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3361]، [ابن ماجه 4334]، [أحمد 112/2]، [الحاكم 524/2، ويشهد له حديث أنس المتفق عليه بخاري 4964]، [مسلم 162] و [أبويعلی 2876]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2870)
نہرِ کوثر جنّت میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی جائے گی جس کا وصف مذکور بالا حدیث میں بیان کیا گیا ہے، اور حوضِ کوثر قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوگا، جو ایک بار اس کا پانی پی لے گا پیاسا نہ رہے گا، اس کا پانی نہرِ کوثر سے ہی آ رہا ہوگا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے امتیوں کو بلا بلا کر پانی پلائیں گے، کچھ لوگوں کو فرشتے وہاں سے ڈھکیلیں گے اور حوض پر نہ آنے دیں گے اور کہیں گے: آپ کو معلوم نہیں آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا بدعتیں ایجاد کر لی تھیں۔
الله تعالیٰ ہمیں سنّت کا شیدائی بنائے اور بدعت سے دور رکھے تاکہ حوضِ کوثر سے پانی پینا نصیب ہو، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف أبو عوانة متأخر السماع من عطاء
113. باب في أَشْجَارِ الْجَنَّةِ:
113. جنت کے درختوں کا بیان
حدیث نمبر: 2872
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن في الجنة شجرة يسير الراكب في ظلها مائة عام لا يقطعها، واقرءوا إن شئتم: وظل ممدود سورة الواقعة آية 30".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لَا يَقْطَعُهَا، وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: وَظِلٍّ مَمْدُودٍ سورة الواقعة آية 30".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک درخت ہے، جس کے سائے میں سوار سو برس تک چلے تب بھی اس کو طے نہ کر سکے گا، جی چاہے تو پڑھ لو: «﴿وَظِلٍّ مَمْدُودٍ﴾» (الواقعہ: 30/56) یعنی جنت میں لمبے لمبے سایے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2880]»
اس روایت کی سند حسن ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3252]، [مسلم 2826]، [أبويعلی 5853]، [ابن حبان 7411]، [الحميدي 1165، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2871)
مسلم شریف کی ایک اور روایت میں ہے: جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ تلے تیار کئے ہوئے (مضمر) تیز گھوڑے کا سوار سو سال تک چلے گا تب بھی اس کو تمام نہ کر سکے گا۔
قرآن پاک میں لمبے لمبے سایوں کا ذکر ہے، حدیث نے اس کی شرح کر دی ہے کہ کتنا لمبا سایہ ہو گا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2873
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا شعبة، عن ابي الضحاك، قال: سمعت ابا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "إن في الجنة شجرة يسير الراكب في ظلها مائة عام لا يقطعها، هي شجرة الخلد".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي الضَّحَّاكِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لَا يَقْطَعُهَا، هِيَ شَجَرَةُ الْخُلْدِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں (گھوڑا) سوار سو سال تک چلے گا پھر بھی سایہ ختم نہ ہوگا، یہ شجرۃ الخلد کا سایہ ہوگا۔ یعنی ہمیشہ قائم و دائم رہنے والا درخت۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2881]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [بخاري 3251]، [أبويعلی 1374، 2991]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مكرر سابقه
114. باب في الْعَجْوَةِ:
114. عجوہ کہجور کا بیان
حدیث نمبر: 2874
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا عباد هو: ابن منصور، قال: سمعت شهر بن حوشب، يقول: سمعت ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "العجوة من الجنة، وهي شفاء من السم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عَبَّادٌ هُوَ: ابْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: سَمِعْتُ شَهْرَ بْنَ حَوْشَبٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَهِيَ شِفَاءٌ مِنَ السُّمِّ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عجوہ (کھجور) جنت (کے پھلوں میں) سے ہے اور یہ زہر کا تریاق ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عباد بن منصور ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2882]»
اس روایت کی سند ضعیف لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2066]، [ابن ماجه 3455]، [نسائي فى الكبرىٰ 6720، 6721]، [أحمد 301/2، 321] و [الطيالسي 365/00، 1761]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2872 سے 2874)
صحیحین میں متفق علیہ حدیث ہے: جو شخص صبح سویرے نہار منہ سات عجوہ کھجور کھائے اس پر اس دن زہر اور جادو اثر نہ کرے گا۔
دیکھئے: [بخاري 5445] و [مسلم 2047] ۔
مستشرقین نے اس حدیث پر اعتراض کیا کہ اس کھجور میں ایسا مادہ تو ہو سکتا ہے جس پر زہر اثر نہ کرے لیکن جادو کا اس سے کیا تعلق ہے۔
اس کے جواب میں شیخ مطصفیٰ السباعی رحمہ اللہ نے «السنة و مكانتها» میں بڑی قیمتی اور دلچسپ بحث لکھی ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ جدید سائنس نے بھی اس کو تسلیم کیا کہ کھجور میں ایسا مادۂ قاتلہ موجود ہے جو زہر کا اثر ختم کردیتا ہے، جہاں تک جادو کا تعلق ہے تو آدمی کا ایمان و یقین اس پر ہوگا کہ یہ رسول الهدی طبیبِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے تھے، اور یہ الله تعالیٰ کی طرف سے الہام ہے، اس یقین و ایمان سے جو شخص بھی صبح سویرے سات کھجور (عجوہ) کھائے گا اس پر سو فیصدی زہر اور جادو کا اثر نہ ہوگا۔
سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ کا عمل اس حدیث پر بھی تھا، فجر کی نماز اور دروس سے فارغ ہو کر جب اپنے گھر تشریف لاتے تو سب سے پہلے سات کھجور کھا کر اس پر دودھ کا ناشتہ کرتے تھے۔
اور موصوف کا کہنا تھا کہ یہ فائدہ مدینہ طیبہ کی ہر قسم کی کھجور میں موجود ہے کیوں کہ بعض روایات میں مدینہ کی عام کھجور کا ذکر ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عباد بن منصور ولكن الحديث صحيح
115. باب في سُوقِ الْجَنَّةِ:
115. جنت کے بازار کا بیان
حدیث نمبر: 2875
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا حميد، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:"إن في الجنة لسوقا". قالوا: وما هي، قال: "كثبان من مسك يخرجون إليها فيجتمعون فيها، فيبعث الله عليهم ريحا فتدخلهم بيوتهم، فيقول لهم اهلوهم: لقد ازددتم بعدنا حسنا، ويقولون لاهليهم مثل ذلك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَسُوقًا". قَالُوا: وَمَا هِيَ، قَالَ: "كُثْبَانٌ مِنْ مِسْكٍ يَخْرُجُونَ إِلَيْهَا فَيَجْتَمِعُونَ فِيهَا، فَيَبْعَثُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ رِيحًا فَتُدْخِلُهُمْ بُيُوتَهُمْ، فَيَقُولُ لَهُمْ أَهْلُوهُمْ: لَقَدْ ازْدَدْتُمْ بَعْدَنَا حُسْنًا، وَيَقُولُونَ لِأَهْلِيهِمْ مِثْلَ ذَلِكَ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک جنت میں ایک بازار ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ مشک کی خوشبو والے ریت کے دو ٹیلے ہیں، لوگ وہاں جائیں گے اور اس میں جمع ہونگے، پھر اللہ تعالیٰ ان کے لئے ایک ہوا چلائے گا جو ان کے گھروں میں داخل ہوگی (جب وہ لوٹ کر آئیں گے) تو ان کی بیویاں کہیں گی: ہمارے پاس سے جانے کے بعد تمہارے حسن و جمال میں بہت اضافہ ہو گیا، اور وہ اپنی بیویوں سے کہیں گے: تم بھی ہمارے بعد ایسے ہی ہوگئیں (یعنی حسن و جمال میں مزید نکھار آ گیا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 2883]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2833]، [شرح السنة 4389]، [ابن حبان 7425]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط مسلم
حدیث نمبر: 2876
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سعيد بن عبد الجبار، عن حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحوه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ.
اس سند سے بھی مذکور بالا حدیث کی طرح روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2884]»
تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2874 سے 2876)
مسلم شریف میں ہے: ہر جمعہ کے دن بہشتی (جنتی) لوگ جمع ہوا کریں گے، پھر شمالی ہوا چلے گی اور وہاں کا گرد و غبار (جو مشک اور زعفران ہے) ان کے چہروں اور کپڑوں پر پڑے گا تو ان کا حسن و جمال دوبالا ہو جائے گا ... إلخ۔
اس سے معلوم ہوا کہ جنت میں بازار بھی ہوگا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
116. باب: «حُفَّتِ الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ» :
116. جنت تکالیف کے ساتھ گھیر دی گئی ہے
حدیث نمبر: 2877
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "حفت الجنة بالمكاره، وحفت النار بالشهوات".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "حُفَّتْ الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ، وَحُفَّتْ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت ایسی چیزوں سے گھیر دی گئی ہے جو نفس کو ناگوار ہیں، اور جہنم گھیر دی گئی نفسانی خواہشات سے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2885]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2822]، [ترمذي 2559]، [أبويعلی 3275]، [ابن حبان 716]، [أبونعيم فى صفة الجنة 42]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2876)
«مكاره» سے مراد وہ امور ہیں جن کے بجا لانے پر یا ترک کر دینے کا مسلمان کو حکم دیا گیا ہے، اور وہ امور نفسِ انسانی پر سخت ناگوار اور مشکل ہوتے ہیں، جیسے عبادت ریاضت، عبادات پر مواظبت، ان کی مشقتوں پر صبر، غصہ روکنا، عفو و حلم، صدقہ و جہاد، یہ سارے امور بجا لانا نفس پر شاق ہوتا ہے، اور جنّت انہیں امور کو بجا لانے سے ملتی ہے، اور شہوات سے مراد وہ امور ہیں جن سے شریعت میں منع کیا گیا، اور نفسِ انسانی اس میں لذت محسوس کرے اور اس کی خواہش کرے، جیسے شراب خوری، زنا، اجنبی عورت کو گھورنا، غیبت، جھوٹ، کھیل کود جو نماز سے غافل کر دیں، اور دیگر لہو و لعب، گانے، میوزک وغیرہ، یہ سب مستلذات و شہوات میں سے ہیں اور نفس ان کی طرف بری طرح مائل ہوتا ہے، ان امور کے ارتکاب سے جہنم ملتی ہے، یعنی عباداتِ شاقہ کے بجا لانے سے جنّت اور شہواتِ نفسانیہ سے جہنم کا آدمی مستحق ہو جاتا ہے۔
«واللّٰه أعلم و علمه أتم.»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
117. باب في دُخُولِ الْفُقَرَاءِ الْجَنَّةَ قَبْلَ الأَغْنِيَاءِ:
117. جنت میں فقراء کے اغنیاء سے پہلے داخل ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 2878
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن صالح، قال: حدثني معاوية: ان عبد الرحمن بن جبير حدثه، عن ابيه جبير بن نفير، عن عبد الله بن عمرو، قال: بينا انا قاعد في المسجد وحلقة من فقراء المهاجرين قعود إذ دخل النبي صلى الله عليه وسلم فقعد إليهم، فقمت إليهم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لهم: "ليبشر فقراء المهاجرين بما يسر وجوههم، فإنهم يدخلون الجنة قبل الاغنياء باربعين عاما". قال: فلقد رايت الوانهم اسفرت، قال عبد الله بن عمرو: حتى تمنيت ان اكون معهم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ: أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: بَيْنَا أَنَا قَاعِدٌ فِي الْمَسْجِدِ وَحَلْقَةٌ مِنْ فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ قُعُودٌ إِذْ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَعَدَ إِلَيْهِمْ، فَقُمْتُ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ: "لِيُبْشِرْ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ بِمَا يَسُرُّ وُجُوهَهُمْ، فَإِنَّهُمْ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْأَغْنِيَاءِ بِأَرْبَعِينَ عَامًا". قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَلْوَانَهُمْ أَسْفَرَتْ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ.
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے کہا: میں مسجد (نبوی) میں بیٹھا تھا اور مہاجرین میں سے غریب لوگ حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے پاس بیٹھ گئے، میں بھی ان کے پاس پہنچ گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: فقراء مہاجرین کو ایسی بشارت دی جائے جس سے (وہ) ان کے چہرے خوش ہو جائیں، غریب مہاجرین مالداروں سے چالیس برس پہلے جنت میں جائیں گے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے دیکھا ان کے چہرے چمکنے لگے تھے یہاں تک کہ میں تمنا و آرزو کرنے لگا کہ میں بھی ان میں سے ہو جاؤں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح. ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه عبد الله بن وهب، [مكتبه الشامله نمبر: 2886]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2979]، [ابن حبان 677، 678]، [أبونعيم فى الحلية 137/5]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2877)
اس حدیث سے غرباء، فقراء اور مساکین کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ وہ اغنیاء سے پہلے جنت میں جائیں گے، کیونکہ ان کے پاس مال و دولت بھی نہیں تھی جس کا حساب کتاب دینا پڑے، اسی لئے قرآن پاک میں آیا ہے: تمہارے مال اور اولا تمہارے لئے فتنہ ہیں۔
لیکن جو شخص مال دار ہونے کے ساتھ اپنے مال کو صحیح مصرف میں خرچ کرے، اسراف و تبذیر سے بچے، اور اللہ کے راستے میں خرچ کرے، زکاة و صدقات ادا کرے، اس کا مقام و فضل بھی اپنی جگہ بہت بڑا ہے، غنی شاکر کی فقیر صابر پر فضیلت ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح. ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه عبد الله بن وهب
118. باب في نَفَسِ جَهَنَّمَ:
118. جہنم کے سانس لینے کا بیان
حدیث نمبر: 2879
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني ابو سلمة، عن ابي هريرة: انه سمعه يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "اشتكت النار إلى ربها، فقالت: يا رب اكل بعضي بعضا، فاذن الله لها بنفسين: نفس في الشتاء، ونفس في الصيف، فهو اشد ما تجدون من الحر، واشد ما تجدون من الزمهرير".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا، فَقَالَتْ: يَا رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأَذِنَ اللَّهُ لَهَا بِنَفَسَيْنِ: نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ، وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَهُوَ أَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم نے اپنے رب کے حضور میں شکایت کی اور کہا: اے میرے رب! میرے ہی بعض نے بعض کو کھا لیا ہے، سو الله تبارک وتعالیٰ نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی ہے، ایک سانس سردی (کے موسم) میں، اور ایک گرمی میں، پس تم انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جو پاتے ہو وہ اسی زمہریر کی وجہ سے ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2887]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3260]، [مسلم 617]، [أبويعلی 5871]، [ابن حبان 7466]، [الحميدي 972]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2880
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا حجاج، حدثنا حماد بن سلمة، عن عاصم بن بهدلة، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایسے ہی مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عاصم بن بهدلة. والحديث مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2888]»
تخریج اوپر مذکور ہے لیکن اس کی سند حسن ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2878 سے 2880)
گرمی اور سردی کی شدت کا سبب جو حدیثِ صحیح میں اوپر مذکور ہے، یہ اسبابِ باطنیہ میں سے ہے جس کی خبر ہمیں انہوں نے دی جو اپنی طرف سے کچھ نہ کہتے تھے اور جن کی کوئی بات غلط یا نا قابلِ یقین نہیں تھی «(عليه الصلاة والسلام)» اس لئے اس کو تسلیم کرنا تمام مسلمانوں کے لئے واجب و ضروری ہے، اور اس میں غور و خوض، کرید سے گریز کرنا بھی واجب ہے، مؤمن کی صفت ہے کہ آمنّا و صدقنا کہے، اور جو لوگ امورِ باطنیہ و غیبیہ کو اپنی محدود عقل سے ناپتے ہیں ان کو سوائے خسران اور خرابی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، لہٰذا عالمِ برزخ، عالمِ آخرت، عالمِ دوزخ و عالم جنّت اس سب کے لئے جو کوائف جن جن لفظوں میں قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں ان کو ان کے ظاہری معنی تک تسلیم کر کے آگے زبان بند رکھنا اہلِ ایمان کی شان ہے، یہی لوگ «راسخين فى العلم» اور عند اللہ سمجھ دار ہیں۔
«جعلنا اللّٰه وإياكم منهم»، آمین۔
(راز رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عاصم بن بهدلة. والحديث مكرر سابقه

Previous    10    11    12    13    14    15    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.