اس سند سے بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایسے ہی مروی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2878 سے 2880) گرمی اور سردی کی شدت کا سبب جو حدیثِ صحیح میں اوپر مذکور ہے، یہ اسبابِ باطنیہ میں سے ہے جس کی خبر ہمیں انہوں نے دی جو اپنی طرف سے کچھ نہ کہتے تھے اور جن کی کوئی بات غلط یا نا قابلِ یقین نہیں تھی «(عليه الصلاة والسلام)» اس لئے اس کو تسلیم کرنا تمام مسلمانوں کے لئے واجب و ضروری ہے، اور اس میں غور و خوض، کرید سے گریز کرنا بھی واجب ہے، مؤمن کی صفت ہے کہ آمنّا و صدقنا کہے، اور جو لوگ امورِ باطنیہ و غیبیہ کو اپنی محدود عقل سے ناپتے ہیں ان کو سوائے خسران اور خرابی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، لہٰذا عالمِ برزخ، عالمِ آخرت، عالمِ دوزخ و عالم جنّت اس سب کے لئے جو کوائف جن جن لفظوں میں قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں ان کو ان کے ظاہری معنی تک تسلیم کر کے آگے زبان بند رکھنا اہلِ ایمان کی شان ہے، یہی لوگ «راسخين فى العلم» اور عند اللہ سمجھ دار ہیں۔ «جعلنا اللّٰه وإياكم منهم»، آمین۔ (راز رحمہ اللہ)۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عاصم بن بهدلة. والحديث مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2888]» تخریج اوپر مذکور ہے لیکن اس کی سند حسن ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عاصم بن بهدلة. والحديث مكرر سابقه