سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ جس کی بہتری چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ دیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2748]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2647]، [طبراني 392/11، 10786]، [شرح السنة 132]۔ یہی حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 71]، [مسلم 98/1037]
وضاحت: (تشریح حدیث 2740) دین کی سمجھ دیتا ہے، یعنی الله تعالیٰ اس کو علمِ دین عطا فرماتا ہے اور بصیرتِ کامل، فہمِ راشد، ذہنِ ثاقب اور حافظہ قوی دیتا ہے، اور علومِ دینیہ و احکامِ شرعیہ سے اس کا سینہ نورانی ہو جاتا ہے۔ حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: فقیہ تو وہ ہے جو دنیا سے زاہد ہو، آخرت کی طرف راغب ہو، اور عبادت پر مداوم ہو۔ محدثین سے منقول ہے کہ فقہ الرجل سے مراد اس کی بصیرت ہے۔ «(ملخص من وحيدي)» ۔
(حديث مرفوع) اخبرنا المكي بن إبراهيم، حدثنا عبد الله هو: ابن سعيد , انه سمع اباه يحدث , عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الصحة والفراغ نعمتان من نعم الله، مغبون فيهما كثير من الناس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ هُوَ: ابْنُ سَعِيدٍ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ يُحَدِّثُ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ الصِّحَّةَ وَالْفَرَاغَ نِعْمَتَانِ مِنْ نِعَمِ اللَّهِ، مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صحت و فراغت الله کی نعمتوں میں سے دو ایسی نعمتیں ہیں جن کی اکثر لوگ قدر نہیں کرتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2749]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6412]، [ابن ماجه 4170]، [أحمد 285/1]، [طبراني 392/10، 10787]
وضاحت: (تشریح حدیث 2741) تندرستی اور فراغت حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتیں ہیں، اور ان کو غنیمت سمجھتے ہوئے ان کا صحیح استعمال کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ بیماری آ گھیرے یا مصروفیت بڑھ جائے اور پھر انسان اللہ کی یاد سے غافل ہو کر ادائے واجبات میں کوتاہی برتے۔ حدیث میں ہے: «اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ» اور ان میں سے بتایا گیا کہ «صِحَّتَكَ قَبْلَ مَرَضِكَ وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغُلِكَ» یعنی انسانی تندرستی کو بیماری سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے غنیمت جانے اور عمل کر لے، تاکہ پچھتانا نہ پڑے۔ غالب نے کہا: تنگدستی گرچہ ہو غالب . . . تندرستی ہزار نعمت ہے اور علامہ حالی نے کہا: فراغت سے دنیا میں دم بھر نہ بیٹھو اگر چاہتے ہو فراغت زیادہ فرشتوں سے بڑھ کر ہے انسان بننا مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ایسے لوگوں کی بات سننے کے لئے کان لگائے جو اسے (سننے کو) پسند نہیں کرتے تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2750]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7042]، [أبوداؤد 5024]، [ترمذي 1751]، [أبويعلی 2577]، [ابن حبان 5685]، [مسند الحميدي 541]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نظر کے پیچھے نظر نہ ڈالو (یعنی پہلی بار ناگہاں بنا قصد کے کسی اجنبی عورت پر نظر پڑ جائے تو دوبارہ اس کی طرف نہ دیکھو) کیونکہ پہلی نظر تو معاف ہے، لیکن دوسری تمہارے اوپر گناہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2751]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2149]، [ترمذي 2777]، [أحمد 3/5]، [الحاكم 123/3]، [ابن حبان 5570]، [الترغيب 35/3]
وضاحت: (تشریح احادیث 2742 سے 2744) پہلی حدیث میں اپنے کانوں کو ایسی بات سننے سے بچانے کا حکم ہے جس کا بات کرنے والے سننا پسند نہ کرتے ہوں، اور جو شخص ایسا کرے اس کے لئے سخت وعید ہے کہ سیسہ اس کے کانوں میں پگھلا کر ڈالا جائے گا۔ دوسری حدیث نظر سے متعلق ہے، اور مومن مرد و عورت کو حکم ہے کہ نگاہیں نیچی رکھیں، اور کسی اجنبی کو شہوت و بری نظر سے نہ دیکھیں، اور اگر کسی مرد کی نظر بغیر قصد کے کسی اجنبی عورت پر پڑ جائے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں، لیکن دوبارہ اس کی طرف نہ دیکھے بلکہ نظر پھیر لے، اور اگر قصداً دیکھے گا تو گنہگار ہوگا، اور یہ قصور و گناہ بلا توبہ کے معاف نہ ہوگا۔ (والله اعلم)۔
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن يعلى بن عطاء، قال: سمعت عبد الله بن سفيان، عن ابيه، قال: قلت: يا رسول الله اخبرني بعمل في الإسلام لا اسال عنه احدا. قال: "اتق الله، ثم استقم". قال: قلت: ثم اي شيء؟. قال: فاشار إلى لسانه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ فِي الْإِسْلَامِ لَا أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا. قَالَ: "اتَّقِ اللَّهَ، ثُمَّ اسْتَقِمْ". قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ شَيْءٍ؟. قَالَ: فَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ.
سیدنا سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتایئے کہ میں کسی اور سے اس کے بارے میں نہ پوچھوں۔ فرمایا: ”اللہ سے ڈرو اور استقامت اختیار کرو۔“ میں نے کہا: پھر اس کے بعد کون سی چیز ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا (یعنی اس کو قابو میں رکھو اور اس کی حفاظت کرو)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2752]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ ديكهئے: [مسلم 38]، [ترمذي 2410]، [ابن ماجه 3972]، [ابن حبان 5698]، [الموارد 2543]
سیدنا سفیان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے ایسی بات بتلایئے جس کو میں مضبوطی سے تھامے رہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو اللہ میرا رب ہے، پھر اسی پر جمے رہو“، پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو زیادہ ڈر میرے اوپر کس چیز کا ہے؟ سیدنا سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک کو پکڑا اور فرمایا: ”اس کا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف إبراهيم بن إسماعيل بن مجمع ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2753]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف إبراهيم بن إسماعيل بن مجمع ولكن الحديث صحيح
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ (یعنی مسلمانوں میں کون سب سے بہتر ہے؟) فرمایا: ”جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2754]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن بہت سے طریق سے مروی ہے اس لئے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2503]، [مسند الشهاب 334]، [الزهد لابن المبارك 385]، [شرح السنة 4129]، [طبراني فى الأوسط 1954]، [الترغيب 536/3، وغيرهم]۔ نیز دیکھئے: حديث رقم (2751)
وضاحت: (تشریح احادیث 2744 سے 2747) ان تمام احادیث سے زبان کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت ہے کہ زبان کے سبب انسان جنت کا مستحق ہوتا ہے اور زبان کی وجہ سے جہنم رسید ہوتا ہے، اس لئے زبان سے اچھی بات نکلنی چاہے، ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص الله تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔ جھوٹ، غیبت، چغلی، بری بات، گالی گلوج، فحش و گندے گانے اور گفتگو سے اپنی زبان کی حفاظت کرنی لازمی ہے۔ مزید فصیل آگے آ رہی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو خاموش رہا نجات پا گیا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2755]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن اس کے بہت سے شواہد ہیں اور معنی فی الحقیقہ صحیح ہے۔ خاموشی میں نجات ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2503]، [أحمد 159/2، 177]، [مسند الشهاب للقضاعي 334]، [الزهد لابن المبارك 385]، [شرح السنة 4129، وغيرهم]
(حديث مرفوع) اخبرنا نعيم بن حماد، عن عبد العزيز بن محمد، عن العلاء، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قيل له: ما الغيبة؟. قال:"ذكرك اخاك بما يكره". قيل: وإن كان في اخي ما اقول؟. قال: "فإن كان فيه، فقد اغتبته، وإن لم يكن فيه، فقد بهته".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قِيلَ لَهُ: مَا الْغِيبَةُ؟. قَالَ:"ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ". قِيلَ: وَإِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ؟. قَالَ: "فَإِنْ كَانَ فِيهِ، فَقَدْ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ، فَقَدْ بَهَتَّهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ غیبت کیا ہے؟ فرمایا: ”غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرو جو اسے ناگوار ہو۔“ عرض کیا گیا: اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس میں جو تم کہہ رہے ہو وہ عیب موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی، اور اگر اس میں وہ عیب موجود نہیں تو تم نے اس کو بہتان لگایا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2756]» اس روایت کی سند حسن ہے اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2589]، [أبوداؤد 4874]، [ترمذي 1934]، [أبويعلی 6493]، [ابن حبان 5758]، [الموارد 1820]
وضاحت: (تشریح احادیث 2747 سے 2749) غیبت کرنا حرام ہے، حکمِ الٰہی ہے: « ﴿وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ .....﴾[الحجرات: 12] »(ترجمہ)”اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟“ معلوم ہوا کہ غیبت کرنا مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ «والعياذ باللّٰه» ۔ غیبت اور تہمت و بہتان دونوں ہی بڑے گناہوں میں سے ہیں اس لئے ان سے بچنا چاہیے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن محمد، حدثنا جرير، عن إدريس الاودي، عن ابي إسحاق، عن ابي الاحوص: ان عبد الله يرفع الحديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إن شر الروايا روايا الكذب، ولا يصلح من الكذب جد ولا هزل. ولا يعد الرجل ابنه ثم لا ينجز له: إن الصدق يهدي إلى البر، وإن البر يهدي إلى الجنة، وإن الكذب يهدي إلى الفجور، وإن الفجور يهدي إلى النار، وإنه يقال للصادق: صدق وبر، ويقال للكاذب: كذب وفجر. وإن الرجل ليصدق حتى يكتب عند الله صديقا، ويكذب حتى يكتب عند الله كذابا". وإنه قال:"لنا هل انبئكم ما العضه؟ وإن العضه: هي النميمة التي تفسد بين الناس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ إِدْرِيسَ الْأَوْدِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ يَرْفَعُ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ شَرَّ الرَّوَايَا رَوَايَا الْكَذِبِ، وَلَا يَصْلُحُ مِنْ الْكَذِبِ جِدٌّ وَلَا هَزْلٌ. وَلَا يَعِدُ الرَّجُلُ ابْنَهُ ثُمَّ لَا يُنْجِزُ لَهُ: إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَإِنَّهُ يُقَالُ لِلصَّادِقِ: صَدَقَ وَبَرَّ، وَيُقَالُ لِلْكَاذِبِ: كَذَبَ وَفَجَرَ. وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا، وَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا". وَإِنَّهُ قَالَ:"لَنَا هَلْ أُنَبِّئُكُمْ مَا الْعَضْهُ؟ وَإِنَّ الْعَضْهَ: هِيَ النَّمِيمَةُ الَّتِي تُفْسِدُ بَيْنَ النَّاسِ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً بیان کیا کہ برے نقل کرنے والے وہ ہیں جو جھوٹ نقل کرتے ہیں، اور جھوٹ سنجیدگی یا مذاق کسی حال میں جائز نہیں، اور آدمی اپنے بیٹے سے جھوٹا وعدہ نہ کرے جو پورا نہ کر پائے، سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کو لے جاتی ہے، اور جھوٹ برائی کی راہ دکھاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے، اور سچے آدمی کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے سچائی اختیار کی اور نیکی کی راہ اپنائی، اور جھوٹے شخص کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا اور فجور کیا (یعنی جھوٹ اور فسق و فجور کی راہ اپنائی)، اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک (صادق) سچ لکھ لیا جاتا ہے، اور جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جھوٹا (کذاب) لکھ لیا جاتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے فرمایا:”سنو! کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ عضہ (بہتان قبیح) کیا ہے؟ وہ چغلی ہے جو لوگوں کے درمیان فساد برپا کردیتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وجرير هو: ابن عبد الحميد وإدريس هو ابن يزيد الأودي، [مكتبه الشامله نمبر: 2757]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2606]، [أحمد 437/1، وغيرهما]۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: بخاری و مسلم کے جو نسخے متداول ہیں ان میں یہ حدیث «ان الصدق يهدي...... حتي يكتب عند الله كذابا» پائی جاتی ہے، لیکن ابومسعود دمشقی نے شر الروایا کا پہلا جملہ بھی روایت کیا ہے جس کو امام دارمی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2749) سچائی اور سچی بات انسان کو اچھا نیک اور صادق و امین بنا کر جنت میں لے جاتی ہے، اور جھوٹ انسان کو ذلیل و رسوا کراتی اور جھوٹا کہلواتی ہے اور پھر جہنم کی طرف لے جاتی ہے، اسی طرح چغلی اور چغل خوری فساد برپا کرتی ہے اور دلوں میں کدورت و عداوت ڈال دیتی ہے، اور یہ دونوں باتیں جھوٹ اور چغلی بڑے گناہ میں سے ہیں، ان سے بچنا بے حد ضروری ہے ورنہ جہنم کی وعید ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وجرير هو: ابن عبد الحميد وإدريس هو ابن يزيد الأودي