(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن سمي، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "السفر قطعة من العذاب يمنع احدكم نومه وطعامه وشرابه، فإذا قضى احدكم نهمته من وجهه فليعجل الرجعة إلى اهله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنْ الْعَذَابِ يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ نَوْمَهُ وَطَعَامَهُ وَشَرَابَهُ، فَإِذَا قَضَى أَحَدُكُمْ نَهْمَتَهُ مِنْ وَجْهِهِ فَلْيُعَجِّلْ الرَّجْعَةَ إِلَى أَهْلِهِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، آدمی کو سونے کھانے اور پینے سے روک دیتا ہے، اس لئے جب کوئی اپنی ضرورت پوری کر چکے تو اپنے گھر کی طرف واپس ہونے میں جلدی کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في الاستئذان، [مكتبه الشامله نمبر: 2712]» اس روایت کی سند قوی ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1804]، [مسلم 1927]، [الموطأ فى كتاب الاستيذان 39، باب ما يؤمر به من العمل فى السفر]، [ابن حبان 2708]
وضاحت: (تشریح حدیث 2704) کام پورا کرنے کے بعد جلدی گھر لوٹنے کا حکم اس وقت دیا گیا جب سفر میں بے حد تکالیف اور خطرات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اور واقعی سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہوا کرتا ہے، گرچہ آج کل سفر میں بہت آسانیاں ہو گئیں ہیں لیکن پھر بھی فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر برحق ہے۔ ریل، موٹر، ہوائی جہاز جس میں بھی سفر ہو بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بہت سے ناموافق حالات سامنے آتے ہیں جن میں کھانے پینے اور سونے کا ہوش نہیں رہتا اور بے ساختہ منہ سے نکل پڑتا ہے: سفر بالواقع عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔ بہرحال حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی کو کام ختم کر کے جلد از جلد اپنے گھر لوٹ آنا چاہیے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے [فتح الباري 622/3] میں کہا کہ اس سے بلاضرورت اہل و عیال سے دور رہنے کی کراہت معلوم ہوئی اور ثابت ہوا کہ اہل و عیال کی طرف جلدی واپس ہونا مستحب ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب آدمی کے غائب رہنے کی وجہ سے بال بچوں کے ضیاع کا اندیشہ ہو، اور آدمی کے اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہنے میں بڑی مصلحت اور حکمت ہے ..... إلخ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في الاستئذان
(حديث مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا سعيد بن ابي كعب: ابو الحسن العبدي، قال: حدثني موسى بن ميسرة العبدي، عن انس بن مالك، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له: يا نبي الله إني اريد السفر. فقال له:"متى؟". قال: غدا إن شاء الله. قال: فاتاه، فاخذ بيده، فقال له: "في حفظ الله، وفي كنفه، زودك الله التقوى، وغفر لك ذنبك، ووجهك للخير اينما توخيت او اينما توجهت". شك سعيد في إحدى الكلمتين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي كَعْبٍ: أَبُو الْحَسَنِ الْعَبْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ مَيْسَرَةَ الْعَبْدِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ السَّفَرَ. فَقَالَ لَهُ:"مَتَى؟". قَالَ: غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ. قَالَ: فَأَتَاهُ، فَأَخَذَ بِيَدِهِ، فَقَالَ لَهُ: "فِي حِفْظِ اللَّهِ، وَفِي كَنَفِهِ، زَوَّدَكَ اللَّهُ التَّقْوَى، وَغَفَرَ لَكَ ذَنْبَكَ، وَوَجَّهَكَ لِلْخَيْرِ أَيْنَمَا تَوَخَّيْتَ أَوْ أَيْنَمَا تَوَجَّهْتَ". شَكَّ سَعِيدٌ فِي إِحْدَى الْكَلِمَتَيْنِ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں سفر کا ارادہ رکھتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کب؟“ عرض کیا: اللہ نے چاہا تو کل۔ راوی نے کہا: (دوسرے دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، ان کا ہاتھ پکڑا اور دعا دی: ”تم الله کی حفظ و امان میں رہو، الله تعالیٰ تمہیں تقویٰ کا زادِ راہ عطا فرمائے، تمہارے گناہ کو معاف کرے اور تم جہاں کہیں بھی رہو بھلائی کی طرف تمہیں پھیر دے۔“ سعید بن ابی کعب نے شک کیا کہ «اينما توخيت» کہا یا «اينما توجهت» کہا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2713]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3444]، [ابن سني فى عمل اليوم و الليلة 503]، [الحاكم 97/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 2705) کسی کو رخصت کرتے ہوئے یہ دعا دینا مستحب ہے، دیگر احادیث میں یہ دعا بھی مذکور ہے: «أَسْتَوْدِعُ اللّٰهَ دِيْنَكَ وَأَمَانَتَكَ وَخَوَاتِيْمَ أَعْمَالِكَ.»”میں تیرے دین، تیری امانت، اور تیرے اعمال کے خاتموں کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ “[أحمد 7/2]، [ترمذي 3443] ۔ یا یہ کہے: «فِيْ حِفْظِ اللّٰهِ وَفِيْ كَنَفِهِ زَوَّدََكَ اللّٰهُ التَّقْوَىٰ، وَغَفَرَ لَكَ ذَنْبَكَ وَ وَجَّهَكَ لِلْخَيْرِ أَيْنَمَا تَوَجَّهْتَ» ۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا عاصم هو الاحول، قال: وثبتني شعبة، عن عبد الله بن سرجس، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا سافر , قال: "اللهم إني اعوذ بك من وعثاء السفر، وكآبة المنقلب، والحور بعد الكور، ودعوة المظلوم، وسوء المنظر في الاهل والمال".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ هُوَ الْأَحْوَلُ، قَالَ: وَثَبَّتَنِي شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَافَرَ , قَالَ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ، وَكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ، وَالْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْرِ، وَدَعْوَةِ الْمَظْلُومِ، وَسُوءِ الْمَنْظَرِ فِي الْأَهْلِ وَالْمَالِ".
عبداللہ بن سرجس نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر کرتے وقت یہ دعا کرتے تھے: ” «اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ ...... الخ» اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں سفر کی تکلیف سے، اور لوٹنے کی رنج سے، ترقی کے بعد تنزلی سے، مظلوم کی بدعا سے، اور گھر والوں یا مال میں برا حال دیکھنے سے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2714]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 427/1343]، [ترمذي 3439]، [نسائي 5513]، [ابن ماجه 3888]، [أحمد 82/5]، [ابن السني 492، وغيرهم]
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا حماد بن سلمة، عن ابي الزبير، عن علي بن عبد الله البارقي، عن عبد الله بن عمر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا سافر فركب راحلته، كبر ثلاثا ويقول:"سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين {13} وإنا إلى ربنا لمنقلبون {14} سورة الزخرف آية 13-14. اللهم إني اسالك في سفري هذا البر والتقوى، ومن العمل ما ترضى. اللهم هون علينا السفر، واطو لنا بعد الارض، اللهم انت الصاحب في السفر، والخليفة في الاهل، اللهم اصحبنا في سفرنا، واخلفنا في اهلنا بخير".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَارِقِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَافَرَ فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ، كَبَّرَ ثَلَاثًا وَيَقُولُ:"سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ {13} وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ {14} سورة الزخرف آية 13-14. اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِي سَفَرِي هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنْ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى. اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا السَّفَرَ، وَاطْوِ لَنَا بُعْدَ الْأَرْضِ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، اللَّهُمَّ اصْحَبْنَا فِي سَفَرِنَا، وَاخْلُفْنَا فِي أَهْلِنَا بِخَيْرٍ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر نکلتے اور سواری پر بیٹھ جاتے تو تین بار اللہ اکبر کہتے پھر یہ دعا کرتے تھے: ” «سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا ........ إلى آخره» پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے اس سواری کو مسخر کر دیا ہے حالانکہ ہم اس کو قابو میں لانے والے نہ تھے اور ہم اپنے رب کی ہی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ! ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کا سوال کرتے ہیں اور اس عمل کا سوال کرتے ہیں جس کو تو پسند کرے، اے اللہ! ہمارا سفر آسان فرما دے اور زمین کی دوری ہمارے لئے لپیٹ دے۔ اے اللہ! سفر میں تو ہی (ہمارا) ساتھی ہے اور گھر والوں میں (ہمارا) نائب ہے۔ اے اللہ! ہمارے سفر میں ہمارے ساتھ رہ اور ہماری غیر موجودگی میں ہمارے اہل کے ساتھ بھی رہ۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2715]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1342]، [أبوداؤد 2599]، [ترمذي 3447]، [ابن حبان 2695]
وضاحت: (تشریح احادیث 2706 سے 2708) ہر حال میں ہماری اور اہل و عیال کی حفاظت فرما اور اپنے حفظ و امان میں رکھ۔ سفر کرتے وقت یہ دعا پڑھنا مستحب ہے۔ بعض روایات کے الفاظ کچھ مختلف ہیں، اور دیگر ادعیہ صحیحہ بھی منقول ہیں جنہیں پڑھنا باعثِ خیر و برکت ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ انہوں نے کہا: ہم جب اونچائی پر چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور جب نیچے اترتے تو سبحان اللہ کہتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو زبيد هو: عبثر بن القاسم، [مكتبه الشامله نمبر: 2716]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2993، 2994]، [ابن خزيمه 2562] و [أحمد بسند ضعيف 333/3]۔ اور ابوزبید کا نام عبثر بن القاسم ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2708) کسی بھی صحابی کا یہ کہنا کہ ہم ایسا کرتے تھے مرفوع کا درجہ رکھتا ہے، لہٰذا چڑھائی چڑھتے ہوئے اللہ اکبر کہنا اور اترتے ہوئے سبحان الله کہنا ثابت ہوا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو زبيد هو: عبثر بن القاسم
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے ان مسافروں کے ساتھ نہیں رہتے جن کے ساتھ کتا ہو یا گھنٹی ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2718]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2114]، [أبوداؤد 2555]، [أبويعلی 6519]، [ابن حبان 4704]
وضاحت: (تشریح احادیث 2709 سے 2711) اس حدیث میں بھی فرشتوں کے قریب نہ ہونے سے مراد رحمت کے فرشتے ہیں جو گانے، باجے، گھنٹی اور لہو و لعب کی دیگر چیزوں سے دور رہتے ہیں۔ پیچھے گذر چکا ہے کہ جس گھر میں کتا یا تصویر ہو اس میں بھی رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي المهلب، عن عمران بن حصين: ان النبي صلى الله عليه وسلم كان في سفر، فسمع لعنة، فقال:"ما هذا؟". قالوا: فلانة لعنت راحلتها. فقال: "ضعوا عنها فإنها ملعونة". قال: فوضعوا عنها. قال عمران: كاني انظر إليها ناقة ورقاء.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي سَفَرٍ، فَسَمِعَ لَعْنَةً، فَقَالَ:"مَا هَذَا؟". قَالُوا: فُلَانَةُ لَعَنَتْ رَاحِلَتَهَا. فَقَالَ: "ضَعُوا عَنْهَا فَإِنَّهَا مَلْعُونَةٌ". قَالَ: فَوَضَعُوا عَنْهَا. قَالَ عِمْرَانُ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهَا نَاقَةً وَرْقَاءَ.
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے کہ کسی کو لعنت کرتے سنا تو فرمایا: ”یہ کیا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا کہ فلاں عورت ہے اس نے اپنی سواری پر لعنت کی ہے۔ فرمایا: ”اس سے سامان اتار لو کیوں کہ اس پر لعنت کی گئی ہے۔“ پس لوگوں نے اس سے سامان اُتار لیا ہے۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: گویا کہ میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ وہ خاکستری رنگ کی اونٹنی تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأيوب هو: ابن كيسان وأبو قلابة هو: عبد الله بن زيد وأبو المهلب هم: عمرو بن معاوية، [مكتبه الشامله نمبر: 2719]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2595]، [أبوداؤد 2561]، [ابن حبان 5740]، [ابن أبى شيبه 5983]، [طبراني 189/18، 450، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2711) مسلم شریف کی روایت میں ہے «خُذُوْا مَا عَلَيْهَا» یعنی اس پر جو کچھ ہے سب اُتار لو۔ چنانچہ سوار اور سامان سب کچھ اس سے اُتار لیا گیا۔ یہ اس عورت کے لئے تنبیہ اور ڈانٹ تھی کہ جب تم نے اس سواری پر لعنت کی تو اس پر سوار ہونا ضروری نہیں۔ لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ اونٹ، گھوڑا، گدھا اور کسی بھی سواری پر لعنت نہیں کرنی چاہیے، اور لعنت کا مطلب ہے الله تعالیٰ کی پھٹکار اور اس کی رحمت سے دوری، اور جو الله کی رحمت سے دور ہو اس میں کوئی خیر نہیں۔ نیز مؤمن کی صفت یہ ہے کہ «لَا يَكُوْن لَعَانًا» وہ لعنت نہیں کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأيوب هو: ابن كيسان وأبو قلابة هو: عبد الله بن زيد وأبو المهلب هم: عمرو بن معاوية
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى، حدثنا الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تسافر المراة سفرا ثلاثة ايام فصاعدا إلا ومعها ابوها، او اخوها، او زوجها، او ذو محرم منهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ سَفَرًا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَصَاعِدًا إِلَّا وَمَعَهَا أَبُوهَا، أَوْ أَخُوهَا، أَوْ زَوْجُهَا، أَوْ ذُو مَحْرَمٍ مِنْهُمَا".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت تین دن یا تین دن سے زیادہ کا سفر بغیر اپنے باپ، بھائی، شوہر اور ذورحم کے نہ کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2720]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1197]، [مسلم 1340]، [أبويعلي 1161]، [ابن حبان 1617]، [الحميدي 767]
وضاحت: (تشریح حدیث 2712) عورت کا بنا محرم کے مطلق سفر کرنا منع ہے، حتیٰ کہ یہ سفرِ حج ہی کیوں نہ ہو۔ ایک، دو یا تین دن کے سفر کا ذکر سائل کے سوال کے مطابق ہے، اور یہ شرط نہیں کہ اس سے کم مسافت میں عورت سفر کر سکتی ہے، بلکہ مطلق سفر کرنا ہی بنا محرم کے ناجائز ہے، اور محرم کا مطلب یہ ہے کہ اس کا حقیقی بھائی یا باپ وغیرہ جس سے نکاح جائز نہ ہو، یا پھر شوہر ساتھ میں ہو۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ جان لیں تنہائی میں جو خرابی ہے تو کوئی سوار رات میں اکیلے کبھی سفر نہ کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2721]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2998]، [ترمذي 1673]، [ابن ماجه 3768]، [ابن حبان 2704]، [موارد الظمآن 1970]، [الحميدي 676]
وضاحت: (تشریح حدیث 2713) اکثر علماء نے اکیلے سفر کرنے کو مکروہ خیال کیا ہے، کیونکہ حدیث میں ہے اکیلا مسافر شیطان ہے، اور دو مسافر بھی شیطان ہیں، اور تین جماعت ہیں۔ بعض علماء نے کہا کہ اگر راہ میں کوئی ڈر نہ ہو تو اکیلے سفر کرنے میں کوئی قباحت نہیں، اور ممانعت کی احادیث اسی پر محمول ہیں جب راہ پرخطر ہو، (وحیدی)۔ آج کل بس، ٹرین، ہوائی جہاز کے سفر بھی اگر بصورت جماعت ہی کئے جائیں تو اس کے بہت سے فوائد ہیں جو تنہائی کی حالت میں نہیں ہیں، سفر میں اکیلے ہونا فی الواقع بے حد تکلیف کا موجب ہے۔ (راز رحمہ اللہ)۔