سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نکاح کے مسائل
حدیث نمبر: 2271
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا مالك بن إسماعيل، حدثنا مندل بن علي، عن ابن جريج، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "ايما عبد تزوج بغير إذن مواليه، فهو زان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا مِنْدَلُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبة، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "أَيُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ، فَهُوَ زَانٍ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو غلام اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر نکاح کر لے وہ زنا کار ہے۔

تخریج الحدیث: «هذا اسناد فيه علتان: ضعف مندل بن علي من طريق أحمد بن محمد بن الزحاف بن أبي الزحاف عن أبيه عن جده الزحاف عن ابن جريج به. وأحمد بن محمد وجده الزحاف ما وقعت لهما على ترجمة ومحمد بن الزحاف حدث بمناكير، [مكتبه الشامله نمبر: 2280]»
یہ حدیث مندل بن علی اور ابن جریج کے عنعنہ کے سبب ضعیف ہے لیکن اس کا شاہد بسند حسن اوپر گذر چکا ہے۔ حوالہ دیکھئے: [ابن ماجه 1960]، [أبوداؤد 2079]، [مسند ابن عمر طرطوسي 93]، [البيهقي 127/7]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2270)
امام شافعی و امام احمد رحمہما اللہ کا مذہب یہی ہے کہ ایسا نکاح باطل ہوگا، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: نکاح صحیح ہوگا لیکن سید و مالک کی مرضی پر موقوف ہوگا، اجازت دے دے تو نافذ ہوگا۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: هذا اسناد فيه علتان: ضعف مندل بن علي من طريق أحمد بن محمد بن الزحاف بن أبي الزحاف عن أبيه عن جده الزحاف عن ابن جريج به. وأحمد بن محمد وجده الزحاف ما وقعت لهما على ترجمة ومحمد بن الزحاف حدث بمناكير
41. باب: «الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ» :
41. بچہ اس کا ہو گا جس کی زوجیت یا ملکیت میں عورت ہو
حدیث نمبر: 2272
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، عن ابن المسيب، عن ابي هريرة، يرفعه، قال: "الولد للفراش، وللعاهر الحجر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَرْفَعُهُ، قَالَ: "الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا، اور زنا کرنے والے کے لئے پتھر ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2281]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم فى الرضاع 1458]، [نسائي 3515]، [ابن ماجه 2005]، [الحميدي 1116]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2271)
«فراش» ایسی خاتون کو کہتے ہیں جس سے شوہر مجامعت و مباشرت کر چکا ہو خواہ وہ بیوی ہو یا لونڈی، اور یہاں فراش سے مراد اس کا مالک یا صاحب ہے۔
«العاهر» یعنی زانی اور «للحجر» یعنی پتھروقتی ہے، یعنی اس کے لئے سوائے ناکامی و نامرادی، ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔
ایک قول یہ ہے کہ زانی کے لئے سنگساری ہے یعنی اسے رجم کیا جائے گا۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2273
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا مالك، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة زوج النبي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: "الولد للفراش".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچہ (صاحب) فراش کا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو عند مالك مطولا في الأقضية، [مكتبه الشامله نمبر: 2282]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2218، 2745]، [مسلم 1457]، [نسائي 3598]، [ابن ماجه 2005]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو عند مالك مطولا في الأقضية
حدیث نمبر: 2274
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا الحكم بن نافع، حدثنا شعيب، عن الزهري، اخبرني عروة، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: كان عتبة بن ابي وقاص عهد إلى اخيه سعد بن ابي وقاص: ان يقبض إليه ابن وليدة زمعة، فقال عتبة: إنه ابني، فلما قدم النبي صلى الله عليه وسلم زمن الفتح، اخذ سعد بن ابي وقاص ابن وليدة زمعة، فإذا هو اشبه الناس بعتبة بن ابي وقاص، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "هو لك يا عبد بن زمعة من اجل انه ولد على فراش ابيه"، وقال النبي صلى الله عليه وسلم:"احتجبي منه يا سودة بنت زمعة مما راى من شبهه بعتبة بن ابي وقاص، وسودة بنت زمعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ: أَنْ يَقْبِضَ إِلَيْهِ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، فَقَالَ عُتْبَةُ: إِنَّهُ ابْنِي، فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْفَتْحِ، أَخَذَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، فَإِذَا هُوَ أَشْبَهُ النَّاسِ بِعُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِيهِ"، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"احْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ بِنْتَ زَمْعَةَ مِمَّا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَسَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ".
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا زوجہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: عتبہ بن ابی وقاص نے (مرتے وقت) اپنے بھائی سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اور وہ اس کو اپنی تحویل میں لے لے، چنانچہ جب فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے زمعہ کی لونڈی کے اس لڑکے کو لے لیا جو اور لوگوں میں عتبہ بن ابی وقاص ہی سے زیادہ مشابہ تھا، جب یہ قضیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ دیا: یہ بچہ، اے عبد بن زمعہ تمہارے لئے ہے، اس لئے کہ اس کی ولادت اپنے باپ کے فراش پر ہوئی ہے۔ (کیونکہ اس وقت بچے کی ماں عبد بن زمعہ کی ملکیت میں تھیں)، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی ام المومنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اے سودہ! اس لڑکے سے پردہ کرنا، یہ اس مشابہت کی وجہ سے فرمایا جو اس لڑکے کو عتبہ بن ابی وقاص سے تھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مطول سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2283]»
اس روایت کی سند صحیح اور پچھلی مختصر حدیث کی تفصیلی روایت ہے، تخریج وہی ہے جو پیچھے گذری۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2272 سے 2274)
قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ بچہ اسی سے منسوب ہوگا جس کے گھر پیدا ہوا، اس لئے قاعدے کے لحاظ سے وہ ام المومنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کا بھائی ہوا اور اس سے پردہ نہیں، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح مشابہت و مماثلت کی وجہ سے فرمایا کہ یہ تمہارے حقیقی بھائی کی طرح نہیں ہے اور عتبہ ہی کا لڑکا تمہارے لئے اجنبی ہے، نامحرم ہے، اس سے تم کو پردہ کرنا ہے۔
اس طویل حدیث سے جو صحیحین میں اور زیادہ تفصیل سے موجود ہے معلوم ہوا کہ زنا سے پیدا شده بچہ اسی کا مانا جائے گا، عورت جس کے عقد یا ملکیت میں ہو، چاہے زانی کتنا ہی دعویٰ کرے لیکن بچہ صاحبِ فراش کا ہوگا۔
اسی کی طرف منسوب اور اس کا وارث مانا جائے گا، اور اولاد کے سے احکام اس کے لئے جاری ہونگے، چاہے بچے کے اندر زانی کی مشابہت بھی پائی جائے، اور اگر صاحبِ فراش یعنی شوہر یا مالک اسے اپنا بچہ ماننے سے انکار کر دے تو بچہ ماں کے ساتھ ملحق کر دیا جائے اور ماں کی طرف ہی منسوب ہوگا، زانی کے ساتھ نہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مطول سابقه
42. باب مَنْ جَحَدَ وَلَدَهُ وَهُوَ يَعْرِفُهُ:
42. اس کا بیان کہ کوئی شخص جان بوجھ کر اپنے بیٹے کا انکار کرے
حدیث نمبر: 2275
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني يزيد بن عبد الله، عن عبد الله بن يونس، عن سعيد بن ابي سعيد، عن ابي هريرة، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول حين انزلت آية الملاعنة: "ايما امراة ادخلت على قوم نسبا ليس منهم، فليست من الله في شيء، ولن يدخلها الله جنته، وايما رجل جحد ولده وهو ينظر إليه، احتجب الله منه وفضحه على رءوس الاولين والآخرين". قال عبد الله: قال محمد بن كعب القرظي، وسعيد يحدثه به، بهذا: وقد بلغني هذا الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول حِينَ أُنْزِلَتْ آيَةُ الْمُلَاعَنَةِ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَدْخَلَتْ عَلَى قَوْمٍ نَسَبًا لَيْسَ مِنْهُمْ، فَلَيْسَتْ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ، وَلَنْ يُدْخِلْهَا اللَّهُ جَنَّتَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ جَحَدَ وَلَدَهُ وَهُوَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، احْتَجَبَ اللَّهُ مِنْهُ وَفَضَحَهُ عَلَى رُءُوسِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ". قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيّ، وَسَعِيدٌ يُحَدِّثَهْ بِهِ، بِهَذَا: وَقَدْ بَلَغَنِي هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناجب لعان کی آیت نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: جس عورت نے کسی قوم میں ایسا نسب داخل کیا جو ان میں سے نہیں ہے (یعنی عورت نے زنا کر کے بچہ جنا اور اس کو اپنے خاوند کی طرف نسبت کی کہ وہ اس کی اولاد ہے) وہ عورت اللہ کے نزدیک کچھ نہیں اور اللہ تعالیٰ ہر گز اس عورت کو جنت میں داخل نہ کرے گا، اور جو کوئی مرد جانتے ہوئے اپنی اولاد کا انکار کرے (یعنی دیدہ و دانستہ اپنی اولاد کو حرام کا بچہ کہے) اس کو (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب نہ ہو گا، اور اللہ تعالیٰ اس کو اگلے پچھلے تمام لوگوں کے رو برو ذلیل و رسوا کرے گا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: محمد بن کعب قرظی نے بیان کیا اور سعید نے اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث پہنچی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2284]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2263]، [نسائي 3841]، [ابن حبان 4108]، [موارد الظمآن 1335]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2274)
اس حدیث سے معلوم ہوا: عورت کا زنا کے بچے کو اپنے خاوند کے نسب میں ملانا بہت بڑا جرم اور گناہ ہے، اس کی سزا یہ ہے کہ وہ عورت چاہے مسلمہ ہی کیوں نہ ہو جنّت میں ہرگز داخل نہ ہو سکے گی، اسی طرح اگر مرد جان بوجھ کر اپنی اولاد سے انکار کرے گا اس کے لئے بھی بڑی وعید ہے، نہ اسے اللہ کا دیدار نصیب ہوگا اور اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے اسے ذلیل و رسوا کرے گا۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زنا کا بچہ شوہر کی ہی طرف منسوب ہوگا۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
43. باب الرَّجُلِ يَتَزَوَّجُ امْرَأَةَ أَبِيهِ:
43. جو آدمی اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کر لے اس کا بیان
حدیث نمبر: 2276
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن جعفر الرقي، حدثنا عبيد الله بن عمرو، عن زيد، عن عدي بن ثابت، عن يزيد بن البراء، عن ابيه، قال: لقيت عمي ومعه راية، فقلت: اين تريد؟ قال: "بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى رجل نكح امراة ابيه، فامرني ان اضرب عنقه وآخذ ماله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْبَرَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَقِيتُ عَمِّي وَمَعَهُ رَايَةٌ، فَقُلْتُ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ: "بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةَ أَبِيهِ، فَأَمَرَنِي أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَهُ وَآخُذَ مَالَهُ".
یزید بن براء نے روایت کیا اپنے والد سے، انہوں نے کہا: میں نے اپنے چچا سے ملاقات کی جن کے ساتھ جھنڈی تھی، میں نے عرض کیا: آپ کہاں جاتے ہیں؟ فرمایا: مجھے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس کا سر قلم کر دوں اور اس کا مال چھین لوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن وهو على شرط مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 2285]»
اس روایت کی سند حسن علی شرط مسلم ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4457]، [ترمذي 1362]، [نسائي 3332]، [أبويعلی 1666]، [ابن حبان 4112]، [موارد الظمآن 1516]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2275)
ایسا آدمی جو سوتیلی ماں سے شادی کرے بہت بڑا مجرم ہے، اس کی سزا یہ ہے کہ اس کا سارا مال و دولت ضبط کر لی جائے اور اس کا سر قلم کر دیا جائے تاکہ آئندہ کسی کو اس فعلِ قبیح کی جرأت نہ ہو، اور حقیقی ماں سے شادی کرنا اور بھی زیادہ گھناؤنا فعل اور بھیانک حرکت ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن وهو على شرط مسلم
44. باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ}:
44. فرمانِ باری تعالی: «لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ» کا بیان
حدیث نمبر: 2277
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثني معلى بن اسد، قال: حدثنا وهيب، عن داود بن ابي هند، عن محمد بن ابي موسى، عن رجل من الانصار يسمى: زيادا، قال: قلت لابي بن كعب: ارايت لو ان ازواج النبي صلى الله عليه وسلم متن، كان يحل له ان يتزوج؟ قال:"نعم، إنما احل الله له ضربا من النساء، ووصف له صفة"، فقال:"لا يحل لك النساء من بعد، من بعد هذه الصفة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنِي مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ يُسَمَّى: زِيَادًا، قَالَ: قُلْتُ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتْنَ، كَانَ يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ؟ قَالَ:"نَعَمْ، إِنَّمَا أَحَلَّ اللَّهُ لَهُ ضَرْبًا مِنَ النِّسَاءِ، وَوَصَفَ لَهُ صِفَةً"، فَقَالَ:"لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ، مِنْ بَعْدِ هَذِهِ الصِّفَةِ".
انصار کے ایک شخص نے جن کا نام زیاد تھا کہا: میں نے سیدنا ابی کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کا کیا خیال ہے اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویاں وفات پا جائیں تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے شادی کرنا جائز ہو گا؟ انہوں نے کہا: ہاں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں «﴿لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ ......﴾» [احزاب: 52/33] عورتوں کی صنف کو جائز کیا ہے اور اس کا وصف بیان کیا ہے، اور اس کا بیان کیا کہ آپ کے لئے بعد میں اور عورتیں حلال نہیں ہیں یعنی اس صفت کے بعد۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وأخرجه عبد الله بن أحمد في زوائده، [مكتبه الشامله نمبر: 2286]»
اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور عبداللہ بن أحمد نے [زوائد المسند 132/5] میں اس اثر کو ذکر کیا ہے۔ نیز امام بخاری نے بھی [التاريخ الكبير 236/3، 359] میں اس کو ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [تعجيل المنفعة، ص: 141، 380]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وأخرجه عبد الله بن أحمد في زوائده
حدیث نمبر: 2278
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا المعلى، حدثنا وهيب، عن ابن جريج، عن عطاء، عن عبيد بن عمير، عن عائشة، قالت: "ما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى احل الله له ان يتزوج من النساء ما شاء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْمُعَلَّى، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "مَا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَحَلَّ اللَّهُ لَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ مِنَ النِّسَاءِ مَا شَاءَ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: الله تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے یہ بات حلال کر دی تھی کہ آپ جس عورت سے چاہیں نکاح کر لیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2287]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [نسائي 3207، كتاب النكاح، باب ما افترض الله على رسوله.......]، [ابن حبان 6366]، [موارد الظمآن 2126]، [الحميدي 237]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2276 سے 2278)
پہلے الله تعالیٰ نے قرآن پاک میں حکم نازل فرمایا کہ اب تم کو زیادہ عورتیں کرنا درست نہیں: « ﴿لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ .....﴾ [الأحزاب: 52] » نہ ان عورتوں کے بدلے اور عورتیں آپ کے لئے حلال ہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یہ حکم منسوخ ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دی گئی کہ جتنی عورتیں چاہیں نکاح میں لائیں۔
(وحیدی)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
45. باب في الأَمَةِ يُجْعَلُ عِتْقُهَا صَدَاقَهَا:
45. اس کا بیان کہ لونڈی کی آزادی اس کا مہر ہو سکتا ہے
حدیث نمبر: 2279
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا حماد بن زيد، عن شعيب بن الحبحاب، عن انس:"ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتق صفية وجعل عتقها صداقها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ، عَنْ أَنَسٍ:"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْتَقَ صَفِيَّةَ وَجَعَلَ عِتْقَهَا صَدَاقَهَا".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور ان کی آزادی ہی کو مہر قرار دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2288]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2228]، [مسلم 1365]، [أبوداؤد 2054]، [ترمذي 1115]، [نسائي 3342]، [ابن ماجه 1957]، [أبويعلی 3050]، [ابن حبان 4061]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2280
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن انس:"ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتق صفية وتزوجها وجعل عتقها صداقها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ:"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْتَقَ صَفِيَّةَ وَتَزَوَّجَهَا وَجَعَلَ عِتْقَهَا صَدَاقَهَا".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو پہلے آزاد کیا پھر ان سے نکاح کیا اور ان کی آزادی کو ہی ان کا مہر قرار دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2289]»
اس روایت کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2278 سے 2280)
اُم المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا خیبر میں یہودیوں کے سردار حی بن اخطب کی بیٹی تھیں، جب خیبر فتح ہوا تو قیدیوں میں یہ بھی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی سیدنا دحیہ الکلبی رضی اللہ عنہ سے کہا: جاؤ تم کوئی لونڈی اپنے لئے پسند کر لو، وہ گئے اور سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو پسند کر لیا۔
ایک اور صحابی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ یہودیوں کے سردار کی بیٹی حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے شرافت و نجابت والی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے لئے مناسب ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا دحیہ الکلبی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے کہا: تم دوسری لونڈی پسند کرو، اور پھر واپسی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے نکاح کر لیا۔
سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے راستے میں دلہن بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مكرر سابقه

Previous    4    5    6    7    8    9    10    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.