سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکوں کے اختناث سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2165]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6525]، [مسلم 2023]، [أبوداؤد 3720]، [ترمذي 1890]، [ابن حبان 5317]، [الحميدي 996]
وضاحت: (تشریح احادیث 2153 سے 2156) بخاری شریف میں ہے کہ معمر یا کسی اور نے کہا: اختناث: مشک سے منہ لگا کر پانی پینے کو کہتے ہیں۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مشک سے منہ لگا کر پانی پینا درست نہیں خواہ حکمت کچھ بھی ہو، ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے مشک سے منہ لگا کر پانی پیا تو سانپ کا بچہ پیٹ میں چلا گیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشک سے منہ لگا کر پانی پینے سے سختی سے منع کر دیا، نیز یہ کہ اس طرح پانی پینے سے پھندا یا گٹا لگ جانے کا بھی اندیشہ ہے، اسی لئے پانی پینے کے آداب میں سے یہ ہے کہ آدمی بیٹھ کر پیالے یا گلاس سے تین بار سانس لے کر پانی پئے۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا عزرة بن ثابت، عن ثمامة، قال: كان انس يتنفس في الإناء مرتين او ثلاثا، وزعم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان "يتنفس في الإناء مرتين او ثلاثا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ ثُمَامَةَ، قَالَ: كَانَ أَنَسٌ يَتَنَفَّسُ فِي الْإِنَاءِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، وَزَعَمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "يَتَنَفَّسُ فِي الْإِنَاءِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا".
ثمامہ بن عبداللہ سے مروی ہے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ دو یا تین سانس میں پانی پیتے تھے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی کے برتن پر دو یا تین بار سانس لیتے تھے۔ (یعنی دو یا تین سانس میں پانی پیتے تھے۔)
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2166]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5631]، [مسلم 2028]، [أبوداؤد 31]، [ترمذي 15]، [نسائي 24]، [ابن ماجه 310]، [ابن حبان 5329]
وضاحت: (تشریح حدیث 2156) طبرانی کی روایت میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی کا پیالہ آتا تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسم اللہ کہہ کر پینا شروع فرماتے، درمیان میں تین سانس لیتے، آخر میں الحمد للہ کہتے۔ (فتح الباری)۔
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق بن عيسى، عن مالك، عن ايوب بن حبيب الزهري، عن ابي المثنى، قال: كنت عند مروان فجاء ابو سعيد فقال: قال رجل: يا رسول الله، إني لا اروى من نفس واحد؟ قال: "فابن الإناء عن فيك، ثم تنفس". قال: إني ارى القذاة؟ قال:"اهرقه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ حَبِيبٍ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُثَنَّى، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ مَرْوَانَ فَجَاءَ أَبُو سَعِيدٍ فَقَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَا أَرْوَى مِنْ نَفَسٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ: "فَأَبِنْ الْإِنَاءَ عَنْ فِيكَ، ثُمَّ تَنَفَّسْ". قَالَ: إِنِّي أَرَى الْقَذَاةَ؟ قَالَ:"أَهْرِقْهُ".
ابوالمثنی نے کہا: میں مروان کے پاس تھا کہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور بیان کیا کہ ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں ایک سانس میں سیر نہیں ہوتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب پھر پیالے کو اپنے منہ سے ہٹاؤ اور پھر سانس لے لو“، عرض کیا: میں اس میں کوڑا دیکھوں تو؟ فرمایا: ”اسے بہا دو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2167]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1887]، [ابن حبان 5327]، [الموارد 1367]، [أحمد 57/3]، [بغوي فى شرح السنة 3036]
وضاحت: (تشریح حدیث 2157) ظاہراً اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک سانس میں پانی پی سکتے ہیں، نیز یہ کہ سانس لیتے وقت برتن منہ سے دور رکھنا چاہیے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، عن يحيى، عن عبد الله بن ابي قتادة، قال: حدثني ابي، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: "إذا بال احدكم، فلا يمس ذكره بيمينه، ولا يستنجي بيمينه، ولا يتنفس في الإناء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِذَا بَالَ أَحَدُكُمْ، فَلَا يَمَسَّ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ، وَلَا يَسْتَنْجِي بِيَمِينِهِ، وَلَا يَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاءِ".
سیدنا ابوقتاده رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب تم میں کوئی شخص پیشاب کرے تو داہنے ہاتھ سے عضو مخصوص کو نہ پکڑے، اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے، اور نہ برتن میں سانس لے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2168]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 153، 154]، [مسلم 267]، [أبوداؤد 31]، [ترمذي 15]، [نسائي 24]، [ابن ماجه 310]، [ابن حبان 1434]، [الحميدي 432، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2158) اس حدیث سے تین باتیں معلوم ہوئیں: نہ داہنے ہاتھ سے شرمگاہ کو چھونا جائز ہے، اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنا درست ہے، اور نہ ہی برتن میں سانس لینا صحیح ہے۔ یہ سارے امور آدابِ طہارت کے خلاف ہیں۔ داہنا ہاتھ اچھی چیزوں اور کھانے پینے کے استعمال کے لئے ہے اور طہارت کے لئے بایاں ہاتھ ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری صحابی کے پاس ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور باغ کی نہر جاری تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہارے پاس مشک میں رات کا پانی ہو تو لاؤ ورنہ ہم نہر سے منہ لگا کر پانی پی لیں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2169]» اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5613، 5621]، [أبويعلی 2097]، [ابن حبان 5314، 5389]
وضاحت: (تشریح حدیث 2159) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نہر یا حوض میں منہ لگا کر پانی پینا درست ہے۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ اس انصاری صحابی کے پاس مشک میں پانی موجود تھا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا پانی پیا کیونکہ وہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ اس حدیث میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ساتھیوں کی عیادت کے لئے جانا، تواضع اور حسنِ اخلاق کا بہترین نمونہ ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے اور چلتے ہوئے کھانا بھی کھا لیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2171]» اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 5243]، [موارد الظمآن 1369]، [ابن ابي شيبه 4167]
اس سند سے بھی مثل سابق سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2172]» ترجمہ و تخریج اوپر مذکور ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2160 سے 2163) ان احادیث سے یہ مسائل معلوم ہوئے: کھڑے ہو کر پانی پینا، چلتے ہوئے کھانا کھانا اور مشک سے منہ لگا کر پانی پینا جائز ہے۔ مشک سے منہ لگا کر پانی پینے کی ممانعت پچھلے صفحات میں گذر چکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے جواز تو نکلتا ہے لیکن قول فعل پر مقدم ہوتا ہے اس لئے مشک سے منہ لگا کر پانی پینا درست نہیں، کھڑے ہو کر پانی پینا یا چلتے ہوئے کھانا کھانا بھی آدابِ طعام میں سے نہیں ہے، بیٹھ کر ہی کھانا پینا کھانے اور پینے کے آداب میں سے ہے، جیسا کہ آگے حدیث آ رہی ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا همام، حدثنا قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم "نهى عن الشرب قائما". قال: وسالته عن الاكل، فقال:"ذاك اخبث".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "نَهَى عَنْ الشُّرْبِ قَائِمًا". قَالَ: وَسَأَلْتُهُ عَنْ الْأَكْلِ، فَقَالَ:"ذَاكَ أَخْبَثُ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع فرمایا، راوی نے کہا: میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اور کھڑے ہو کر کھانا کھانا؟ فرمایا: یہ تو اور بھی برا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2173]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2024]، [ترمذي 3424]، [أبويعلی 2867]