سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ٹیک (یا تکیہ) لگا کر نہیں کھاتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2115]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5398]، [أبوداؤد 3769]، [ترمذي 1830]، [ابن ماجه 3362]، [أبويعلی 884]، [ابن حبان 5240]، [الحميدي 915]، [ترمذي فى الشمائل 124، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح احادیث 2106 سے 2108) یعنی میرے کھانا کھانے کی کیفیت یہ ہے کہ میں ٹیک لگا کر یا تکیہ لگا کر کھانا نہیں کھاتا۔ تکیہ یا ٹیک لگا کر کھانا تکبر و غرور کی نشانی ہے اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کھانے سے پرہیز کیا، بعض علماء نے کہا کہ یہ اہلِ عجم کی نشانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو زانو یعنی اکڑوں بیٹھ کر کھانا کھاتے یا ایک پیر بچھا کر اور ایک پیر کھڑا کر کے کھاتے تھے جو عاجزی اور انکساری کی علامت ہے، آلتی پالتی مار کر چار زانوں بیٹھ کر کھانا علماء نے دنیا داروں کی علامت قرار دیا ہے جس سے بسیار خوری کی عادت پڑ جاتی ہے اور آدمی خوب کھاتا ہے جس سے پیٹ نکل آتا ہے، مذکورہ بالا حدیث میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ انسان اس طرح پھیل کر نہ بیٹھے کہ زیادہ کھایا جائے۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا نعيم بن حماد، عن عبد العزيز بن محمد، عن سهيل، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اتي بالباكورة باول الثمرة، قال: "اللهم بارك لنا في مدينتنا، وفي ثمرتنا، وفي مدنا، وفي صاعنا بركة مع بركة"، ثم يعطيه اصغر من يحضره من الولدان.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِالْبَاكُورَةِ بِأَوَّلِ الثَّمَرَةِ، قَالَ: "اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَفِي ثَمَرَتِنَا، وَفِي مُدِّنَا، وَفِي صَاعِنَا بَرَكَةً مَعَ بَرَكَةٍ"، ثُمَّ يُعْطِيهِ أَصْغَرَ مَنْ يَحْضُرُهُ مِنْ الْوِلْدَانِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (فصل کا) پہلا میوه یا پھل لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے: «اللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا ........... بَرَكَةٍ» یعنی ”اے اللہ ہمارے شہر میں برکت دے، ہمارے پھلوں میں اور ہمارے مد اور صاع میں برکتوں پر برکتیں عطا کر۔“ پھر اس وقت جو بچے موجود ہوتے ان میں سب سے چھوٹے کو وہ پھل یا میوہ عنایت فرما دیتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2116]» اس روایت کی سند حسن لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1373]، [ابن ماجه 3329]، [ابن حبان 3747]
وضاحت: (تشریح حدیث 2108) مد اور صاع وزن ماپنے کے پیمانے ہیں، اس حدیث سے فصل کے پہلے پھل یا میوہ جات کے آنے پر مذکورہ بالا دعا کرنا ثابت ہوا، نیز یہ کہ پہلے پھل کو بچوں میں بانٹنا بھی مسنون ہے، پہلی تنخواه، پہلا فائدہ بھی اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
33. باب في إِكْرَامِ الْخَادِمِ عِنْدَ الطَّعَامِ:
33. کھانے کے وقت نوکر کی عزت کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2110
اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا جاء خادم احدكم بالطعام، فليجلسه، فإن ابى، فليناوله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا جَاءَ خَادِمُ أَحَدِكُمْ بِالطَّعَامِ، فَلْيُجْلِسْهُ، فَإِنْ أَبَى، فَلْيُنَاوِلْهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا خادم کھانا لے کر آئے تو اس کو بھی (اپنے ساتھ کھانے کے لئے) بٹھائے، اگر وہ انکار کرے تو اس کو بھی اس کھانے میں سے کچھ دے دے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2117]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2557]، [مسلم 1663]، [ترمذي 1853]، [أبويعلی 6320]، [الحميدي 1101]
وضاحت: (تشریح حدیث 2109) لفظ خادم میں غلام، نوکر چاکر، شاگرد سب داخل ہیں۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے: اگر اپنے ساتھ کھانے کو نہ بٹھا سکو تو ایک دو نوالے ضرور کھلا دو کیونکہ اسی نے کھانا تیار کرنے کی مشقت و گرمی کی تکلیف اٹھائی ہے، جیسا کہ دوسری روایت اس سے آگے آ رہی ہے۔ حدیث میں غلام و نوکروں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم ہے۔ اسلام میں انسان ہونے کے ناطے سب برابر ہیں، نہ کوئی مالک ہے نہ مملوک، حقیقی مالک و آقا تو سب کا صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے، دنیاوی آقا و مالک تو سب مجازی ہیں، آج ہیں کل نہیں۔ (راز رحمہ اللہ)۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، عن محمد بن زياد، قال: سمعت ابا هريرة يحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "إذا اتى احدكم خادمه بطعام، فليجلسه معه، او ليناوله لقمة او لقمتين، او اكلة او اكلتين، فإنه ولي حره ودخانه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا أَتَى أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامٍ، فَلْيُجْلِسْهُ مَعَهُ، أَوْ لَيُنَاوِلْهُ لُقْمَةً أَوْ لُقْمَتَيْنِ، أَوْ أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَيْنِ، فَإِنَّهُ وَلِيَ حَرَّهُ وَدُخَانَهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا خادم کھانا لے کر آئے تو اسے اپنے ساتھ بٹھانا چاہیے اور ایک یا دو لقمے اسے کھلا دینے چاہئیں، کیونکہ اسی نے گرمی و دھواں برداشت کیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2118]» اس حدیث کی تخریج و تشریح اوپر گذر چکی ہے۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز (حلوہ وغیرہ) اور شہد پسند فرمایا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2119]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4912، 5431]، [مسلم 1474]، [أبوداؤد 3715]، [ترمذي 1831]، [ابن ماجه 3323]، [أبويعلی 4741]
وضاحت: (تشریح احادیث 2110 سے 2112) رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھا اور شہد یقیناً پسند تھا جس طرح دستانے کا گوشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرماتے تھے، اور جب مل جاتا تو تناول فرماتے نہ ملتا تو کسی پر بوجھ نہ ڈالتے تھے، کبھی کوئی چیز طلب بھی کی تو حصولِ برکت اور فائدہ پہنچانے کے لئے طلب کی۔ اب کچھ لوگ حلوہ میٹھائی وغیرہ کھانا تو پسند کرتے اور دیگر سنّتوں کو پاؤں تلے روندتے ہیں، معلوم ہونا چاہیے کہ صرف حلوہ میٹھائی کھانا ہی سنّت نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ کو اپنانا بھی ضروری ہے۔
35. باب الأَكْلِ وَالشُّرْبِ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ:
35. بنا وضو کھانے اور پینے کا بیان
حدیث نمبر: 2113
اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن سعيد بن ابي الحويرث، عن ابن عباس، قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم من البراز فقدم إليه طعام، فقيل له: الا توضا؟ قال: فقال: "اصلي فاتوضا؟". قال ابو محمد: إنما هو سعيد بن الحويرث.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحُوَيْرِثِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْبِرَازِ فَقُدِّمَ إِلَيْهِ طَعَامٌ، فَقِيلَ لَهُ: أَلَا تَوَضَّأُ؟ قَالَ: فَقَالَ: "أُصَلِّي فَأَتَوَضَّأُ؟". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: إِنَّمَا هُوَ سَعِيدُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا، اور عرض کیا گیا: آپ وضونہیں کریں گے؟ راوی نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں نماز پڑھوں گا جو وضو کروں؟“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: سند میں مذکور راوی سعید بن الحويرث ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2120]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 374]، [ابن حبان 5208]، [الحميدي 484]
وضاحت: (تشریح حدیث 2112) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مجھے نماز تھوڑے ہی پڑھنی ہے جو اس کے لئے وضوء کروں، لہٰذا معلوم ہوا کہ بلا وضو کھانا پینا درست ہے، ہاں منہ ہاتھ دھو لینے میں کوئی حرج نہیں بلکہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا سنّت ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، عن الحكم، قال: سمعت إبراهيم يحدث، عن الاسود، عن عائشة، قالت:"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اجنب فاراد ان ياكل او ينام، توضا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ يُحَدِّثُ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَجْنَبَ فَأَرَادَ أَنْ يَأْكُلَ أَوْ يَنَامَ، تَوَضَّأَ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنابت کی حالت میں ہوتے اور کھانے یا سونے کا ارادہ کرتے تو وضو فرما لیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2123]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 286]، [مسلم 305]، [أبوداؤد 224]، [نسائي 255]، [ابن ماجه 591]، [أبويعلی 4522]، [ابن حبان 1217]
وضاحت: (تشریح احادیث 2113 سے 2115) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالتِ جنابت میں غسل کرنے سے پہلے سونا جائز و درست ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طرح ثابت ہے، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کر لیتے تب آرام فرماتے اور کبھی صرف وضو پر اکتفا کرتے اور سو جاتے تھے۔ مسلم شریف میں متعدد روایاتِ قولیہ میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ حالتِ جنابت میں کوئی سو سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں سو سکتا ہے جبکہ اعضاء کو دھو لے اور وضو کرلے۔ “ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: ان تمام احادیث کا ماحصل یہ ہے کہ جنبی کا کھانا، پینا، سونا درست ہے، اس پر سب کا اجماع ہے۔ ان حدیثوں کی رو سے مستحب یہ ہے کہ کھانا، پینا یا دوبارہ جماع کرنا چاہے تو وضو کر لے اور شرمگاہ کو دھو لے۔ اگر ایسا نہ کیا تو مکروہ ہے، اور بعض کے نزدیک وضو کرنا واجب ہے۔ ان احادیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ جنابت کا غسل فی الفور واجب نہیں بلکہ جب نماز کے لئے اٹھے اس وقت واجب ہے۔ (انتہیٰ باختصار ... وحیدی)۔
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے خلیل (جگری دوست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مجھے وصیت کی، فرمایا: ”جب تم سالن پکاؤ تو شوربہ زیادہ کر دو پھر اپنے پڑوسیوں کو اس میں سے کچھ دے دو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2124]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2625]، [ابن حبان 513، 514]، [مواردالظمآن 2043]، [الحميدي 139]
وضاحت: (تشریح حدیث 2115) ہماری شریعت نے پڑوسی کے حقوق پر بڑا زور دیا ہے۔ ایک حدیث ہے: جبریل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کی برابر وصیت کرتے رہے، اتنا کہ مجھے لگا کہ وہ وراثت کا بھی پڑوسی کو حصہ دار بنا دیں گے۔ مذکورہ بالا حدیث بھی پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کی آئینہ دار ہے کہ اگر کچھ اور نہ ہو سکے تو پانی ہی سالن میں زیادہ کر دیا جائے اور اپنے غریب پڑوسیوں کو اپنے کھانے میں شریک کر لیا جائے۔ لیکن افسوس آج کل ایک عمارت، ایک دور پر رہنے والے پڑوسی ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں۔ اچھا پڑوسی بڑی نعمت ہے اسی لئے عربی میں کہا جاتا ہے «الجار قبل الدار» گھر خریدنے سے پہلے پڑوسی کو دیکھو۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کھانا رکھ دیا جائے تو اپنے جوتے اتار دو کیونکہ یہ تمہارے قدموں کے لئے زیادہ راحت پہنچانے کا سامان ہے۔“
تخریج الحدیث: «في هذا الإسناد علتان موسى بن محمد منكر الحديث ومحمد بن إبراهيم لم يسمع أبا هريرة، [مكتبه الشامله نمبر: 2125]» یہ حدیث کئی علل و اسباب کی وجہ سے ضعیف ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [طبراني فى الأوسط 3226]، [الحاكم 119/4]، [أبويعلی 4188]، [بزار فى كشف الاستار 2867] و [مجمع البحرين 4037]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في هذا الإسناد علتان موسى بن محمد منكر الحديث ومحمد بن إبراهيم لم يسمع أبا هريرة