(حديث مرفوع) حدثنا يعلى، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا جاء خادم احدكم بالطعام، فليجلسه، فإن ابى، فليناوله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا جَاءَ خَادِمُ أَحَدِكُمْ بِالطَّعَامِ، فَلْيُجْلِسْهُ، فَإِنْ أَبَى، فَلْيُنَاوِلْهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا خادم کھانا لے کر آئے تو اس کو بھی (اپنے ساتھ کھانے کے لئے) بٹھائے، اگر وہ انکار کرے تو اس کو بھی اس کھانے میں سے کچھ دے دے۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2109) لفظ خادم میں غلام، نوکر چاکر، شاگرد سب داخل ہیں۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے: اگر اپنے ساتھ کھانے کو نہ بٹھا سکو تو ایک دو نوالے ضرور کھلا دو کیونکہ اسی نے کھانا تیار کرنے کی مشقت و گرمی کی تکلیف اٹھائی ہے، جیسا کہ دوسری روایت اس سے آگے آ رہی ہے۔ حدیث میں غلام و نوکروں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم ہے۔ اسلام میں انسان ہونے کے ناطے سب برابر ہیں، نہ کوئی مالک ہے نہ مملوک، حقیقی مالک و آقا تو سب کا صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے، دنیاوی آقا و مالک تو سب مجازی ہیں، آج ہیں کل نہیں۔ (راز رحمہ اللہ)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2117]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2557]، [مسلم 1663]، [ترمذي 1853]، [أبويعلی 6320]، [الحميدي 1101]