(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن الصلت، عن منصور بن ابي الاسود، عن سليمان، عن إبراهيم، عن عبد الرحمن بن يزيد، قال: قال عبد الله وصلى مع عثمان بمنى اربع ركعات:"لقد صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذا المكان ركعتين ركعتين، ومع ابي بكر ركعتين ركعتين، ومع عمر ركعتين ركعتين، ثم تفرقت بكم الطرق، فليت حظي من اربع ركعات ركعتان متقبلتان".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَصَلَّى مَعَ عُثْمَانَ بِمِنًى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ:"لَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَكَانِ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ عُمَرَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ تَفَرَّقَتْ بِكُمْ الطُّرُقُ، فَلَيْتَ حَظِّي مِنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ رَكْعَتَانِ مُتَقَبَّلَتَانِ".
عبدالرحمٰن بن یزید نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ منیٰ میں چار رکعت پڑھ چکے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس جگہ دو دو رکعتیں پڑھیں، اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو دو رکعتیں پڑھیں، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو دو رکعتیں پڑھیں، پھر تمہارے راستے جدا جدا ہو گئے، کاش چار رکعت کے بجائے میری دو رکعت ہی قبول کر لی جاتیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1916]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1082]، [مسلم: 695]، [أبوداؤد 1965]، [ترمذي 882]، [نسائي 1444]، [أبويعلی 5194]
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، عن الاوزاعي، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "صلى بمنى ركعتين، وابا بكر ركعتين، وعمر ركعتين، وعثمان ركعتين صدرا من إمارته، ثم اتمها بعد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "صَلَّى بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ، وَأَبَا بَكْرٍ رَكْعَتَيْنِ، وَعُمَرَ رَكْعَتَيْنِ، وَعُثْمَانَ رَكْعَتَيْنِ صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ، ثُمَّ أَتَمَّهَا بَعْدُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی دو رکعت اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی دو رکعت، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور خلافت کے شروع میں دو ہی رکعت پڑھیں پھر بعد میں چار رکعت پڑھیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1917]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1082]، [مسلم 694، 1284]، [ابن حبان 2758]
وضاحت: (تشریح احادیث 1911 سے 1913) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی حالت میں تھے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے منیٰ و عرفات و مزدلفہ میں ظہر، عصر اور عشاء کی نمازیں قصر پڑھیں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی شروع میں دو ہی رکعت پڑھا کرتے تھے، آخر میں چار رکعت پڑھیں، ان کا کہنا تھا کہ دور دور سے آنے والے لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ یہ نمازیں دو رکعت ہی فرض ہیں اس لئے پوری چار رکعت ادا کیں، یہ امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا اجتہاد تھا جو سنّتِ نبوی کے مقابلے اور موجودگی میں قابلِ قبول نہیں، اسی لئے سیدنا ابن عمر و سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم نے اس پر برہمی کا اظہار کیا، لیکن امیر کی اطاعت میں ان کے ساتھ پوری اقتداء و اتباع کی اور جماعت سے الگ نہ ہوئے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ سے (عرفات کے لئے) روانہ ہوئے تو ہم میں سے کچھ لوگ تکبیر کہہ رہے تھے اور کچھ لوگ تلبیہ پکار رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1918]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1284]، [أبوداؤد 1816]، [أحمد 3/2، 22]، [نسائي 3003]، [ابن خزيمه 2805]
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا مالك، حدثني محمد بن ابي بكر الثقفي، قال: سالت انس بن مالك ونحن غاديان من منى إلى عرفات عن التلبية: كيف كنتم تصنعون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال:"كان يلبي الملبي فلا ينكر عليه، ويكبر المكبر فلا ينكر عليه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ وَنَحْنُ غَادِيَانِ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَاتٍ عَنْ التَّلْبِيَةِ: كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:"كَانَ يُلَبِّي الْمُلَبِّي فَلَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ، وَيُكَبِّرُ الْمُكَبِّرُ فَلَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ".
محمد بن ابی بکر الثقفی نے کہا کہ منیٰ سے عرفات جاتے ہوئے میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے تلبیہ کے بارے میں پوچھا کہ آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کہتے تھے؟ فرمایا: تلبیہ کہنے والا تلبیہ پکارتا تو اس پر کوئی اعتراض نہ کیا جاتا اور تکبیر کہنے والا تکبیر کہتا تو اس سے منع نہ کیا جاتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1919]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 970]، [مسلم 1285]، [الموطأ: كتاب الحج 43]، [ابن حبان 3447]
وضاحت: (تشریح احادیث 1913 سے 1915) عرفہ کے دن نو تاریخ کی صبح سے تمام ائمہ کے نزدیک تکبیراتِ عیدین شروع ہو جاتی ہیں اور احرام باندھنے کے بعد حج کا تلبیہ بھی شروع ہو جاتا ہے، اس لئے صحابہ کرام «اللّٰه أكبر، اللّٰه أكبر، لا إله إلا اللّٰه واللّٰه أكبر ...... الخ» بھی کہتے اور «لبيك اللّٰهم لبيك ...... الخ» بھی کہتے تھے، اور دونوں ذکر مشروع ہیں اس لئے کوئی کسی پر اعتراض نہ کرتا تھا، لہٰذا دونوں کلمات کہنا جائز ہوا۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا ایک اونٹ گم ہو گیا، میں اس کی تلاش میں نکلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے ساتھ عرفات میں کھڑے دیکھا، میں نے کہا: والله یہ تو قریش ہیں، پھر یہ یہاں کیوں؟
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1920]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1664]، [مسلم 1220]، [نسائي 3013]، [ابن حبان 3849]، [الحميدي 569]
وضاحت: (تشریح حدیث 1915) حمس حماست سے مشتق ہے، قریش کے لوگوں کو حمس اس وجہ سے کہتے تھے کہ وہ اپنے دین میں حماست یعنی سختی رکھتے تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں دوسرے لوگ وقوف کرتے تھے لیکن قریش کہتے کہ ہم اللہ کے اہل و عیال ہیں اس لئے ہم وقوف کے لئے حرم سے باہر نہیں نکلیں گے، نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریش میں سے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام صحابۂ کرام قریش کے امتیاز کے بغیر عرفات میں وقوف پذیر ہوئے، اور عرفات حرم سے باہر ہے اس لئے راوی کو حیرت ہوئی کہ ایک قریش کا فرد اور اس دن میدان عرفات میں؟ انہیں تو حدودِ حرم میں ہی ہونا چاہئے تھا۔ (راز رحمہ اللہ بتصرف) وقوفِ عرفہ ظہر و عصر کی نماز ادا کر لینے کے بعد دعاء و اذکار، تلاوتِ قرآن پاک، کھڑے اور بیٹھے سے دعا و مناجات کو کہتے ہیں، اور شام تک اسی طرح رونا، گڑگڑانا، استغفار کرنا، یہ ہی وقوفِ حج کی روح جان اور اساس ہے، یہیں تکمیلِ اسلام کا اعلان ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشہور وداعی خطبہ دیا، اس مبارک وقت اور موقع پر جس قدر بھی دعائیں کی جائیں کم ہیں، الله تعالیٰ اپنے بندوں پر فخر کرتا ہے جو دور دراز سے آکر بکھرے بالوں، سوکھے ہونٹوں، اور ننگے سروں سے اللہ تعالیٰ کے سامنے روتے، گڑگڑاتے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کو یہ نعمتِ عظمیٰ عطا فرمائے، آمین۔ اگر عرفہ کے دن کا یہ وقوف کسی سے فوت ہو جائے تو اس کا حج نہیں ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اَلْحَجُّ عَرَفَةٌ»”حج تو عرفے ہی کے دن کا ہے۔ “ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبيد الله بن موسى، عن اسامة بن زيد، عن عطاء، عن جابر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم رمى، ثم قعد للناس، فجاءه رجل فقال: يا رسول الله، إني حلقت قبل ان انحر؟ قال:"لا حرج". ثم جاءه آخر، فقال: يا رسول الله، طفت قبل ان ارمي”“؟ قال:"لا حرج". قال: فما سئل عن شيء إلا قال:"لا حرج". ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كل عرفة موقف، وكل مزدلفة موقف، ومنى كلها منحر، وكل فجاج مكة طريق ومنحر"..(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَى، ثُمَّ قَعَدَ لِلنَّاسِ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ؟ قَالَ:"لَا حَرَجَ". ثُمَّ جَاءَهُ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، طُفْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ”“؟ قَالَ:"لَا حَرَجَ". قَالَ: فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ إِلَّا قَالَ:"لَا حَرَجَ". ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ، وَكُلُّ مُزْدَلِفَةَ مَوْقِفٌ، وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ، وَكُلُّ فِجَاجِ مَكَّةَ طَرِيقٌ وَمَنْحَرٌ"..
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمی کرنے کے بعد لوگوں کے (سوالات کے جوابات کے) لئے تشریف فرما ہوئے تو ایک صحابی آپ کے پاس آئے اور کہا: کہ اے اللہ کے رسول! میں نے اونٹ ذبح کرنے سے پہلے بال منڈا دیئے؟ فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“، دوسرے صحابی آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے کنکری مارنے سے پہلے طواف (افاضہ) کر لیا؟ فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: جس چیز کے بارے میں بھی پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میدان عرفات کل کا کل (پورا کا پورا) موقف ہے، پورا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے، اور منیٰ پورا قربان گاہ ہے، اور مکہ کی سب راہیں راستہ اور قربانی کرنے کی جگہ ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1921]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1721-1722]، [مسلم 1280]، [أبوداؤد 1937]، [ابن ماجه 3048]، [ابن حبان 3849]، [موارد الظمآن 1012]، [أبويعلی 2471]
وضاحت: (تشریح حدیث 1916) ذوالحجہ کی دس تاریخ کو حجاج کرام کو چار کام کرنے ہوتے ہیں (1) رمی، (2) قربانی، (3) حلق یا تقصیر، (4) طواف الزیارة۔ ان میں سے رمی کا افضل وقت طلوعِ آفتاب سے زوال تک ہے، اور غروبِ آفتاب تک جائز ہے، رات میں بھی رمی کی جا سکتی ہے، اس کے علاوہ: قربانی، حلق اور طواف کا کوئی وقت متعین نہیں، جیسی سہولت ہو کیا جا سکتا ہے۔ افضل مذکورہ بالا تر تیب ہے لیکن اگر تقدیم وتأخیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر تقدیم وتأخیر کے سوال کا جواب تھا: (افعل لا حرج)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پورا میدانِ عرفات وقوف کرنے کی جگہ، پورا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ، اور پورا منیٰ قربانی کرنے کی جگہ ہے، لہٰذا مذکورہ مقامات پر کہیں بھی (عرفات میں) وقوف، مزدلفہ میں وقوف اور منیٰ میں کہیں بھی قربانی کی جا سکتی ہے۔ اور حج کی قربانی مکہ میں کسی بھی جگہ کی جا سکتی ہے، جیسا کہ حدیث کے آخری جملہ میں صراحت ہے۔
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار تھے، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے مزدلفہ کے لئے روانہ ہوئے: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر تھوڑا تیز چلتے اور جب خالی جگہ پا لیتے تو اور زیادہ تیز چلتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1922]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1666]، [مسلم 1286/283]، [أبوداؤد 1923]، [نسائي 3023]، [ابن ماجه 3017، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 1917) اس سے معلوم ہوا کہ مزدلفہ روانگی کے وقت تیز چلنا چاہئے لیکن پیدل چلنے والوں کی رعایت کے ساتھ، کیونکہ جب راستہ خالی ملتا تب ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی کو تیز چلاتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا زهير، عن إبراهيم بن عقبة، قال: اخبرني كريب انه: سال اسامة بن زيد، قال: اخبرني عشية ردفت النبي صلى الله عليه وسلم: كيف فعلتم او صنعتم؟ قال:"جئنا الشعب الذي ينيخ الناس فيه للمعرس، فاناخ رسول الله صلى الله عليه وسلم ناقته، ثم بال وما قال: اهراق الماء، ثم دعا بالوضوء فتوضا وضوءا ليس بالسابغ جدا، ثم قلت: يا رسول الله، الصلاة؟ قال: الصلاة امامك. قال: فركب حتى قدمنا المزدلفة، فاقام المغرب، ثم اناخ والناس في منازلهم، فلم يحلوا حتى اقام العشاء الآخرة، فصلى، ثم حل الناس". قال: قلت: اخبرني كيف فعلتم حين اصبحتم؟. قال: ردفه الفضل بن عباس، فانطلقت انا في سباق قريش على رجلي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ أَنَّهُ: سَأَلَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، قَالَ: أَخْبِرْنِي عَشِيَّةَ رَدِفْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ فَعَلْتُمْ أَوْ صَنَعْتُمْ؟ قَالَ:"جِئْنَا الشِّعْبَ الَّذِي يُنِيخُ النَّاسُ فِيهِ لِلْمُعَرَّسِ، فَأَنَاخَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَتَهُ، ثُمَّ بَالَ وَمَا قَالَ: أَهْرَاقَ الْمَاءَ، ثُمَّ دَعَا بِالْوَضُوءِ فَتَوَضَّأَ وُضُوءًا لَيْسَ بِالسَّابِغِ جِدًّا، ثُمَّ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الصَّلَاةَ؟ قَالَ: الصَّلَاةُ أَمَامَكَ. قَالَ: فَرَكِبَ حَتَّى قَدِمْنَا الْمُزْدَلِفَةَ، فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَنَاخَ وَالنَّاسُ فِي مَنَازِلِهِمْ، فَلَمْ يَحِلُّوا حَتَّى أَقَامَ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، فَصَلَّى، ثُمَّ حَلَّ النَّاسُ". قَالَ: قُلْتُ: أَخْبِرْنِي كَيْفَ فَعَلْتُمْ حِينَ أَصْبَحْتُمْ؟. قَالَ: رَدِفَهُ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا فِي سُبَّاقِ قُرَيْشٍ عَلَى رِجْلَيَّ.
کریب نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ جس شام کو تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار تھے تم نے کیا کیا؟ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم رات گزارنے کے لئے اس وادی میں پہنچے جہاں لوگ اپنے اونٹ بٹھاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا، پھر پیشاب کی حاجت رفع کی اور پانی ڈالنے کا حکم نہیں دیا، پھر وضو کا پانی منگایا اور ہلکا سا وضو کیا، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! نماز کا وقت ہو گیا؟ فرمایا: ”نماز تمہارے آگے ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے یہاں تک کہ ہم مزدلفہ پہنچ گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی اور لوگ پڑاؤ ڈال چکے تھے اور کجاوے نہ کھول پائے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز اقامت کے ساتھ پڑھی، پھر لوگوں نے اپنے کجاوے کھولے۔ کریب نے کہا: یہ بتایئے پھر صبح آپ لوگوں نے کیا کیا؟ کہا: وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما تھے اور میں قریش کے ساتھ پیدل چلنے والوں میں سے تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1923]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 139]، [مسلم 1280]، [أبوداؤد 1925]، [نسائي 3024]، [أبويعلی 6722]، [ابن حبان 1594]