(حديث مرفوع) حدثنا عبيد الله بن موسى، عن اسامة بن زيد، عن عطاء، عن جابر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم رمى، ثم قعد للناس، فجاءه رجل فقال: يا رسول الله، إني حلقت قبل ان انحر؟ قال:"لا حرج". ثم جاءه آخر، فقال: يا رسول الله، طفت قبل ان ارمي”“؟ قال:"لا حرج". قال: فما سئل عن شيء إلا قال:"لا حرج". ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كل عرفة موقف، وكل مزدلفة موقف، ومنى كلها منحر، وكل فجاج مكة طريق ومنحر"..(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَى، ثُمَّ قَعَدَ لِلنَّاسِ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ؟ قَالَ:"لَا حَرَجَ". ثُمَّ جَاءَهُ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، طُفْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ”“؟ قَالَ:"لَا حَرَجَ". قَالَ: فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ إِلَّا قَالَ:"لَا حَرَجَ". ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ، وَكُلُّ مُزْدَلِفَةَ مَوْقِفٌ، وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ، وَكُلُّ فِجَاجِ مَكَّةَ طَرِيقٌ وَمَنْحَرٌ"..
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمی کرنے کے بعد لوگوں کے (سوالات کے جوابات کے) لئے تشریف فرما ہوئے تو ایک صحابی آپ کے پاس آئے اور کہا: کہ اے اللہ کے رسول! میں نے اونٹ ذبح کرنے سے پہلے بال منڈا دیئے؟ فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“، دوسرے صحابی آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے کنکری مارنے سے پہلے طواف (افاضہ) کر لیا؟ فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: جس چیز کے بارے میں بھی پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میدان عرفات کل کا کل (پورا کا پورا) موقف ہے، پورا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے، اور منیٰ پورا قربان گاہ ہے، اور مکہ کی سب راہیں راستہ اور قربانی کرنے کی جگہ ہیں۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 1916) ذوالحجہ کی دس تاریخ کو حجاج کرام کو چار کام کرنے ہوتے ہیں (1) رمی، (2) قربانی، (3) حلق یا تقصیر، (4) طواف الزیارة۔ ان میں سے رمی کا افضل وقت طلوعِ آفتاب سے زوال تک ہے، اور غروبِ آفتاب تک جائز ہے، رات میں بھی رمی کی جا سکتی ہے، اس کے علاوہ: قربانی، حلق اور طواف کا کوئی وقت متعین نہیں، جیسی سہولت ہو کیا جا سکتا ہے۔ افضل مذکورہ بالا تر تیب ہے لیکن اگر تقدیم وتأخیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر تقدیم وتأخیر کے سوال کا جواب تھا: (افعل لا حرج)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پورا میدانِ عرفات وقوف کرنے کی جگہ، پورا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ، اور پورا منیٰ قربانی کرنے کی جگہ ہے، لہٰذا مذکورہ مقامات پر کہیں بھی (عرفات میں) وقوف، مزدلفہ میں وقوف اور منیٰ میں کہیں بھی قربانی کی جا سکتی ہے۔ اور حج کی قربانی مکہ میں کسی بھی جگہ کی جا سکتی ہے، جیسا کہ حدیث کے آخری جملہ میں صراحت ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1921]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1721-1722]، [مسلم 1280]، [أبوداؤد 1937]، [ابن ماجه 3048]، [ابن حبان 3849]، [موارد الظمآن 1012]، [أبويعلی 2471]