سنن دارمي
من كتاب المناسك
حج اور عمرہ کے بیان میں
48. باب الْوُقُوفِ بِعَرَفَةَ:
وقوف عرفہ کا بیان
حدیث نمبر: 1916
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ: قَالَ جُبَيْرٌ: أَضْلَلْتُ بَعِيرًا لِي فَذَهَبْتُ أَطْلُبُهُ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "وَاقِفًا مَعَ النَّاسِ بِعَرَفَةَ"، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ إِنَّ هَذَا لَمِنْ الْحُمْسِ، فَمَا شَأْنُهُ هَهُنَا.
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا ایک اونٹ گم ہو گیا، میں اس کی تلاش میں نکلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے ساتھ عرفات میں کھڑے دیکھا، میں نے کہا: والله یہ تو قریش ہیں، پھر یہ یہاں کیوں؟
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1920]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1664]، [مسلم 1220]، [نسائي 3013]، [ابن حبان 3849]، [الحميدي 569]
وضاحت: (تشریح حدیث 1915)
حمس حماست سے مشتق ہے، قریش کے لوگوں کو حمس اس وجہ سے کہتے تھے کہ وہ اپنے دین میں حماست یعنی سختی رکھتے تھے۔
زمانۂ جاہلیت میں دوسرے لوگ وقوف کرتے تھے لیکن قریش کہتے کہ ہم اللہ کے اہل و عیال ہیں اس لئے ہم وقوف کے لئے حرم سے باہر نہیں نکلیں گے، نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریش میں سے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام صحابۂ کرام قریش کے امتیاز کے بغیر عرفات میں وقوف پذیر ہوئے، اور عرفات حرم سے باہر ہے اس لئے راوی کو حیرت ہوئی کہ ایک قریش کا فرد اور اس دن میدان عرفات میں؟ انہیں تو حدودِ حرم میں ہی ہونا چاہئے تھا۔
(راز رحمہ اللہ بتصرف)
وقوفِ عرفہ ظہر و عصر کی نماز ادا کر لینے کے بعد دعاء و اذکار، تلاوتِ قرآن پاک، کھڑے اور بیٹھے سے دعا و مناجات کو کہتے ہیں، اور شام تک اسی طرح رونا، گڑگڑانا، استغفار کرنا، یہ ہی وقوفِ حج کی روح جان اور اساس ہے، یہیں تکمیلِ اسلام کا اعلان ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشہور وداعی خطبہ دیا، اس مبارک وقت اور موقع پر جس قدر بھی دعائیں کی جائیں کم ہیں، الله تعالیٰ اپنے بندوں پر فخر کرتا ہے جو دور دراز سے آکر بکھرے بالوں، سوکھے ہونٹوں، اور ننگے سروں سے اللہ تعالیٰ کے سامنے روتے، گڑگڑاتے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کو یہ نعمتِ عظمیٰ عطا فرمائے، آمین۔
اگر عرفہ کے دن کا یہ وقوف کسی سے فوت ہو جائے تو اس کا حج نہیں ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اَلْحَجُّ عَرَفَةٌ» ”حج تو عرفے ہی کے دن کا ہے۔
“ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح