سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
زکوٰۃ کے مسائل
حدیث نمبر: 1683
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله الرقاشي، حدثنا يزيد هو ابن زريع، اخبرنا سعيد، عن قتادة، عن سالم بن ابي الجعد، عن معدان بن ابي طلحة، عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من سال الناس مسالة وهو عنها غني، كانت شينا في وجهه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ هُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ، أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ سَأَلَ النَّاسَ مَسْأَلَةً وَهُوَ عَنْهَا غَنِيٌّ، كَانَتْ شَيْنًا فِي وَجْهِهِ".
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مال داری کے باوجود کسی سے کچھ مانگے وہ اس کے چہرے پر داغ ہو گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1685]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 4589]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1681 سے 1683)
ان احادیث میں گڑگڑا کر اصرار کے ساتھ بھیک مانگنے کی ممانعت ہے اور جو ایسا کرے گا تو چاہے دینے والے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کیوں نہ ہوں اس میں برکت نہ ہوگی، دوسری حدیث میں بے ضرورت اور مال ہوتے ہوئے مانگنے والے کے لئے شدید وعید ہے۔
قرآن پاک میں ہے جو لوگ چمٹ کر نہیں مانگتے وہی لوگ صدقات کے مستحق ہیں: « ﴿تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ...﴾ [البقره: 273] » (ترجمہ: آپ ان کے چہرے دیکھ کر قیافے سے انہیں پہچان لیں گے وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے)، گویا اہلِ ایمان کی صفت یہ ہے کہ فقر و غربت کے باوجود وہ مانگنے سے بچتے ہیں اور چمٹ کر سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
18. باب في الاِسْتِعْفَافِ عَنِ الْمَسْأَلَةِ:
18. مانگنے سے بچنے کا بیان
حدیث نمبر: 1684
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن ابي سعيد الخدري، ان ناسا من الانصار سالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعطاهم، ثم سالوه فاعطاهم، حتى إذا نفد ما عنده، فقال: "ما يكون عندي من خير، فلن ادخره عنكم، ومن يستعفف، يعفه الله، ومن يستغن، يغنه الله، ومن يتصبر، يصبره الله، وما اعطي احد عطاء هو خير واوسع من الصبر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ نَاسًا مِنْ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ، حَتَّى إِذَا نَفِدَ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: "مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ، فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ، يُعِفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ، يُغْنِهِ اللَّهُ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ، يُصَبِّرْهُ اللَّهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً هُوَ خَيْرٌ وَأَوْسَعُ مِنْ الصَّبْرِ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے انہیں عطا فرما دیا، انہوں نے پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انہیں دے دیا، یہاں تک کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا ختم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جو کچھ بھی مال و دولت ہے میں اسے تم سے بچا کرنہیں رکھوں گا، مگر جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے (یعنی اس کو مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی) اور جو شخض (سوال سے) بے نیازی برتتا ہے تو الله تعالیٰ اسے بے نیاز (غنی) بنا دیتا ہے، اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر صبر کرتا ہے تو الله تعالیٰ اس کو صبر و استقلال دے دیتا ہے۔ اور کسی کو بھی ایسا عطیہ نہیں دیا گیا ہے جو صبر سے زیادہ بہتر اور بے پایاں ہو۔ (یعنی صبر قدرت کا بہت بہتر اور بے پایاں عطیہ ہے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1686]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1469]، [مسلم 1053]، [أبوداؤد 1644]، [ترمذي 2044]، [نسائي 2587]، [أبويعلی 1129]، [ابن حبان 2400]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1683)
شریعتِ اسلامیہ کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک یہ خوبی کس قدر اہم ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے، سوال کرنے (مانگنے) سے مختلف طریقوں کے ساتھ ممانعت کی ہے اور ساتھ ہی اپنے زورِ بازو سے کمانے اور رزق حاصل کرنے کی ترغیب دلائی ہے، مگر پھر بھی کتنے ہی ایسے معذورین مرد و عورت ہوتے ہیں جن کو بغیر سوال کئے چارہ نہیں، ان کے لئے فرمایا: « ﴿وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ﴾ [الضحىٰ: 10] » یعنی سوال کرنے والوں کو نہ ڈانٹو بلکہ نرمی سے ان کو جواب دے دو۔
(راز)
اس حدیث سے صبر کی اور قناعت پسندی کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے اور یہ کہ «اَلْجَزَاءُ مِنْ جِنْسِ الْعَمَلِ» ہے، اگر انسان بچنا چاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو مستغنیٰ کر دیتا ہے اور ہوس تو کبھی ختم نہیں ہوتی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
19. باب النَّهْيِ عَنْ رَدِّ الْهَدِيَّةِ:
19. ہدیہ (تحفہ) کو رد کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1685
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، قال: حدثني الليث، حدثني يونس، عن ابن شهاب، عن سالم، انه قال: قال عبد الله: سمعت عمر بن الخطاب، يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطيني العطاء فاقول: اعطه من هو افقر إليه مني. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"خذ، وما آتاك الله من هذا المال وانت غير مسرف ولا سائل، فخذه، وما لا، فلا تتبعه نفسك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَأَقُولُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"خُذْ، وَمَا آتَاكَ اللَّهُ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُسْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ، فَخُذْهُ، وَمَا لَا، فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو سنا، وہ کہتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مال دیتے تھے، میں عرض کرتا: جو مجھ سے زیادہ اس کا محتاج ہو اسے دے دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: بنا حرص و ہوس اور سوال کے اس مال سے اللہ تعالیٰ تمہیں جو کچھ نصیب فرمائے اسے لے لو اور جو نہ ملے اس کے پیچھے اپنا دل نہ لگاؤ۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1687]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1473]، [مسلم 1045]، [نسائي 2607]، [أبويعلی 167]، [ابن حبان 4305]، [مسند الحميدي 21]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 1686
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، عن شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري، حدثني السائب بن يزيد، ان حويطب بن عبد العزى اخبره، ان عبد الله بن السعدي اخبره، عن عمر، بنحوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّ حُوَيْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزَّى أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ السَّعْدِيِّ أَخْبَرَهُ، عَنْ عُمَرَ، بِنَحْوِهِ.
اس دوسری سند سے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ایسا ہی مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1688]»
تخریج اوپرگذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [بخاري 7163]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1687
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا الليث، عن بكير، عن بسر بن سعيد، عن ابن السعدي، قال: استعملني عمر، فذكر نحوا منه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ السَّعْدِيِّ، قَالَ: اسْتَعْمَلَنِي عُمَرُ، فَذَكَرَ نَحْوًا مِنْهُ.
اس سند سے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مثل سابق مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1689]»
اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [مسلم 1045 باب: إباحة الأخذ لمن أُعْطِي من غير مسألة ولا إشراف]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1684 سے 1687)
ان روایات سے ثابت ہوا کہ بنا مانگے اور بنا طمع کے اگر بیت المال سے انسان کو کچھ عطیہ مال و دولت مل جائے تو اسے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور لینے کے بعد اختیار ہے کہ آدمی اپنے مال میں ملا لے یا صدقہ کر دے، نسائی کی روایت میں «فتموله أو تصدق به» کا اضافہ بھی ہے، یعنی اپنا مال بنالو یا صدقہ کر دو۔
واللہ علم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
20. باب النَّهْيِ عَنِ الْمَسْأَلَةِ:
20. مانگنے، سوال کرنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 1688
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن الاوزاعي، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، وعروة بن الزبير، ان حكيم بن حزام قال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم فاعطاني، ثم سالته فاعطاني، ثم سالته فاعطاني، ثم سالته، فقال:"يا حكيم، إن هذا المال خضر حلو، فمن اخذه بسخاوة نفس، بورك له فيه، ومن اخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه، وكان كالذي ياكل ولا يشبع".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ:"يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ، بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ".
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا، میں نے پھر مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا، میں نے پھر مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی عطا فرمایا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حکیم! یہ مال بڑا سرسبز و شیریں ہے، لیکن جو شخص اس کو اپنے دل کو سخی رکھ کر لے گا تو اس کے مال میں برکت ہو گی، اور جو لالچ کے ساتھ اس مال کو لے گا تو اس کی دولت میں کچھ بھی برکت نہ ہو گی، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کھائے لیکن اس کا پیٹ نہ بھرے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1690]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ [بخاري 1472]، [مسلم 1035]، [نسائي 2600]، [ابن حبان 3220]، [الحميدي 563]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1687)
اس حدیث میں حکیمِ انسانیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قناعت پسند اور حریص کی مثال بیان فرمائی کہ جو بھی کوئی دنیاوی دولت کے سلسلہ میں قناعت سے کام لے گا اور حرص اور لالچ کی بیماری سے بچے گا اس کے لئے برکتوں کے دروازے کھلیں گے اور تھوڑا مال بھی اس کے لئے کافی ہو سکے گا، اس کی زندگی بڑے ہی سکون اور اطمینان کی زندگی ہوگی۔
اور جو شخص حرص کی بیماری اور لالچ کے بخار میں مبتلا ہوگا اس کا پیٹ بھر ہی نہیں سکتا ہے خواہ اس کو ساری دنیا کی دولت حاصل ہو جائے وہ پھر بھی اسی چکر میں رہے گا کہ کسی نہ کسی طرح سے اور زیادہ مال حاصل کیا جائے، ایسے طماع لوگ نہ اللہ کے نام پر خرچ کرنا جانتے ہیں نہ مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
(راز رحمۃ اللہ علیہ)۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت کے بعد سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کبھی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کیا حالانکہ لمبی عمر پائی اور 64ھ میں 120 سال کی عمر میں انتقال ہوا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو ہمیشہ دل سے لگائے رکھا، یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کہنا پڑا: لوگو! گواہ رہنا میں حکیم بن حزام کو مال دیتا ہوں وہ لینے سے انکار کر دیتے ہیں۔
رضی اللہ عنہم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
21. باب مَتَى يُسْتَحَبُّ لِلرَّجُلِ الصَّدَقَةُ:
21. آدمی کے لئے صدقہ کرنا کب مستحب ہے
حدیث نمبر: 1689
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني هشام، عن عروة، عن ابي هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "خير الصدقة ما تصدق به عن ظهر غنى، وليبدا احدكم بمن يعول".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي هِشَامٌ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا تُصُدِّقَ بِهِ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَلْيَبْدَأْ أَحَدُكُمْ بِمَنْ يَعُولُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے ہیں: بہترین صدقہ (خیرات) وہ ہے جس کے دینے کے بعد بھی آدمی مالدار ہے، پھر تم میں سے کوئی صدقہ پہلے انہیں دے جو اس کے زیر پرورش ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1691]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1426]، [ابن حبان 3363]، [شرح السنة للبغوي 1674]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1688)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی صدقہ کرے لیکن اس وقت صدقہ کرنا مستحب ہے جبکہ اہل و عیال اور خود اس کے لئے کچھ مال بچا بھی رہے جس سے وہ تجارت کرے، اپنے اہل و عیال کے حقوق بھی ادا کرے، ایسا شریعت میں نہیں ہے کہ سب کچھ صدقہ و خیرات میں دیدے اور خود کنگال ہو کر بیٹھ جائے، اور صدقہ و احسان پہلے اپنوں پر کرے، انہیں پہلے نوازے پھر دوسروں کے ساتھ احسان و سلوک کرے، «وَأَبْدَأَ بِمَنْ تَعُولُ» کی مزید وضاحت اگلے باب میں آرہی ہے۔
اسی طرح اپنا کل مال يا اثاثہ صدقہ کرنے کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
22. باب في فَضْلِ الْيَدِ الْعُلْيَا:
22. اوپر والے ہاتھ کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 1690
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "اليد العليا خير من اليد السفلى، قال: واليد العليا يد المعطي، واليد السفلى يد السائل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَى، قَالَ: وَالْيَدُ الْعُلْيَا يَدُ الْمُعْطِي، وَالْيَدُ السُّفْلَى يَدُ السَّائِلِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اوپر والا ہاتھ دینے والے کا ہاتھ ہے اور نیچے والے ہاتھ سے مراد مانگنے والے کا ہاتھ ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1692]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1429]، [مسلم 1033]، [أبوداؤد 1648]، [نسائي 2532]، [أبويعلی 5730]، [ابن حبان 3361]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1691
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا عمرو بن عثمان، قال: سمعت موسى بن طلحة يذكر، عن حكيم بن حزام، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "خير الصدقة عن ظهر غنى، واليد العليا خير من اليد السفلى، وابدا بمن تعول".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ يَذْكُرُ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "خَيْرُ الصَّدَقَةِ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ".
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہترین صدقہ وہ ہے جو مالداری رہتے ہوئے کیا جائے، اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اور تم صدقہ پہلے اس کو دو جس کی تم پرورش کر رہے ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1693]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1426]، [مسلم 1034]، [نسائي 2542، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1689 سے 1691)
«أَبْدَأَ بِمَنْ تَعُولُ» (اس سے ابتداء کرو جس کی تم پرورش کرتے ہو) اس کی تفسیر نسائی شریف کی روایت میں ہے: جیسے تمہاری ماں، تمہارے والد، تمہاری بہن، پھر ان سے ادنیٰ لوگ، یعنی حسنِ سلوک کرتے ہوئے مذکورہ اشخاص پر انسان پہلے احسان کرے، ان کے اوپر خرچ کرے، پھر استطاعت ہو تو دوسرے لوگوں پر صدقہ و خیرات کرے، واضح رہے کہ ماں باپ کو زکاة دینا صحیح نہیں بلکہ اصل مال سے ان پر خرچ کرے۔
واللہ اعلم
مولانا داؤد راز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہر مسلمان مرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ صاحبِ دولت بن کر اور دولت میں سے اللہ کا حق زکاة ادا کر کے ایسے رہنے کی کوشش کرے کہ اس کا ہاتھ ہمیشہ اوپر کا ہاتھ (دینے والا) رہے اور تازیست نیچے والا نہ بنے، یعنی دینے والا بن کرر ہے نہ کہ لینے والا، اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا نہ بنے۔
اس حدیث میں اس کی بھی ترغیب ہے کہ احتیاج کے باوجود بھی لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا چاہیے بلکہ صبر و استقلال سے کام لے کر اپنے توکل علی اللہ اور خودداری کو قائم رکھتے ہوئے اپنے قوتِ بازو کی محنت پر گزارہ کرنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
23. باب أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ:
23. سب سے بہتر صدقہ کون سا ہے؟
حدیث نمبر: 1692
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، قال: سليمان اخبرني، قال: سمعت ابا وائل يحدث، عن عمرو بن الحارث، عن زينب امراة عبد الله، انها قالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:"يا معشر النساء، تصدقن ولو من حليكن". وكان عبد الله خفيف ذات اليد، فجئت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم اساله، فوافقت زينب، امراة من الانصار، تسال عما اسال عنه، فقلت لبلال: سل لي رسول الله صلى الله عليه وسلم اين اضع صدقتي؟: على عبد الله، او في قرابتي؟ فسال النبي صلى الله عليه وسلم فقال: اي الزيانب؟ فقال: امراة عبد الله، فقال: "لها اجران، اجر القرابة، واجر الصدقة"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سُلَيْمَانُ أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:"يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ". وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ خَفِيفَ ذَاتِ الْيَدِ، فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ، فَوَافَقَتْ زَيْنَبَ، امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، تَسْأَلُ عَمَّا أَسْأَلُ عَنْهُ، فَقُلْتُ لِبِلَالٍ: سَلْ لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ أَضَعُ صَدَقَتِي؟: عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، أَوْ فِي قَرَابَتِي؟ فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَيُّ الزَّيَانِبِ؟ فَقَالَ: امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: "لَهَا أَجْرَانِ، أَجْرُ الْقَرَابَةِ، وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ"..
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کرو چاہے اپنے زیور ہی سے دو۔ اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ ہلکے ہاتھ کے (یعنی غریب) تھے، لہٰذا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسئلہ دریافت کرنے حاضر ہوئی تو مجھے ایک انصاری عورت زینب بھی ملی جو وہی پوچھنا چاہتی تھی جو مجھے پوچھنا تھا، چنانچہ میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرو کہ ہم اپنا صدقہ کس کو دیں، (اپنے شوہر) عبدالله کو یا اپنے رشتے داروں کو؟ سیدنا بلال نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون سی زینب ہیں؟ عرض کیا: عبدالله بن مسعود کی بیوی، فرمایا: (عبداللہ کو دینے میں) ان کے لئے ڈبل (دوگنا) ثواب ہے، قرابت داری کا بھی اور صدقہ کا بھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1694]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1427، 1466]، [مسلم 1034]، [ترمذي 635]، [ابن ماجه 1834]، [أبويعلی 6585]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.