(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني هشام، عن عروة، عن ابي هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "خير الصدقة ما تصدق به عن ظهر غنى، وليبدا احدكم بمن يعول".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي هِشَامٌ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا تُصُدِّقَ بِهِ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَلْيَبْدَأْ أَحَدُكُمْ بِمَنْ يَعُولُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے ہیں: ”بہترین صدقہ (خیرات) وہ ہے جس کے دینے کے بعد بھی آدمی مالدار ہے، پھر تم میں سے کوئی صدقہ پہلے انہیں دے جو اس کے زیر پرورش ہیں۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 1688) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی صدقہ کرے لیکن اس وقت صدقہ کرنا مستحب ہے جبکہ اہل و عیال اور خود اس کے لئے کچھ مال بچا بھی رہے جس سے وہ تجارت کرے، اپنے اہل و عیال کے حقوق بھی ادا کرے، ایسا شریعت میں نہیں ہے کہ سب کچھ صدقہ و خیرات میں دیدے اور خود کنگال ہو کر بیٹھ جائے، اور صدقہ و احسان پہلے اپنوں پر کرے، انہیں پہلے نوازے پھر دوسروں کے ساتھ احسان و سلوک کرے، «وَأَبْدَأَ بِمَنْ تَعُولُ» کی مزید وضاحت اگلے باب میں آرہی ہے۔ اسی طرح اپنا کل مال يا اثاثہ صدقہ کرنے کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1691]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1426]، [ابن حبان 3363]، [شرح السنة للبغوي 1674]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح