سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
زکوٰۃ کے مسائل
حدیث نمبر: 1673
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن موسى، حدثنا يحيى بن حمزة، عن سليمان بن داود الخولاني، حدثني الزهري، عن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن ابيه، عن جده، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب مع عمرو بن حزم إلى شرحبيل بن عبد كلال، والحارث بن عبد كلال، ونعيم بن عبد كلال:"إن في كل خمس اواق من الورق خمسة دراهم فما زاد، ففي كل اربعين درهما درهم، وليس فيما دون خمس اواق شيء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ الْخَوْلَانِيِّ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ مَعَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ إِلَى شُرَحْبِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، وَالْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، وَنُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ:"إِنَّ فِي كُلِّ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنْ الْوَرِقِ خَمْسَةَ دَرَاهِمَ فَمَا زَادَ، فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ شَيْءٌ".
ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے اپنے والد سے، انہوں نے ان کے دادا سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو شرحبیل بن عبدکلال، حارث بن عبدکلال، اور نعیم بن عبدکلال کے لئے لکھ کر دیا کہ چاندی کے پانچ اوقیہ میں پانچ درہم زکاة کے واجب ہیں، اس سے زیادہ چاندی ہو تو ہر چالیس درہم میں ایک درہم زکاة کے زیادہ کرنے ہوں گے اور پانچ اوقیہ سے کم میں کوئی زکاۃ نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 1675]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے، اور تخریج (1671) میں گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1670 سے 1673)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں، اسی طرح پانچ سے کم اونٹ میں بھی زکاة واجب نہیں اور نہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاة ہے، یعنی چاندی کے دو سو درہم (52.50 تولہ) سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
12. باب في تَعْجِيلِ الزَّكَاةِ:
12. وقت سے پہلے زکاۃ نکالنے کا بیان
حدیث نمبر: 1674
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن منصور، حدثنا إسماعيل بن زكريا، عن الحجاج بن دينار، عن الحكم بن عتيبة، عن حجية بن عدي، عن علي: ان العباس "سال رسول الله صلى الله عليه وسلم في تعجيل صدقته قبل ان تحل، فرخص في ذلك". قال ابو محمد: آخذ به، ولا ارى في تعجيل الزكاة باسا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ زَكَرِيَّا، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ: أَنَّ الْعَبَّاسَ "سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَعْجِيلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ، فَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: آخُذُ بِهِ، وَلَا أَرَى فِي تَعْجِيلِ الزَّكَاةِ بَأْسًا.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وقت سے پہلے (صدقہ زکاة) نکالنے کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کی اجازت دے دی۔ امام ابومحمد دارمی رحمہ اللہ نے کہا: میں اسی کا قائل ہوں اور زکاة واجب ہونے کے وقت سے پہلے زکاة نکالنے میں کوئی حرج نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1676]»
یہ حدیث مجموع طرق سے جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1624]، [ترمذي 678]، [ابن ماجه 1795]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1673)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سال گذرنے سے پہلے بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
13. باب مَا يَجِبُ في مَالٍ سِوَى الزَّكَاةِ:
13. مال میں سے زکاۃ کے علاوہ بھی کچھ دینا واجب ہے
حدیث نمبر: 1675
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن الطفيل، حدثنا شريك، عن ابي حمزة، عن عامر، عن فاطمة بنت قيس، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:"إن في اموالكم حقا سوى الزكاة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الطُّفَيْلِ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:"إِنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ حَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ".
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: بیشک تمہارے اموال میں زکاة کے علاوہ بھی کچھ حق ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أبي حمزة ميمون الأعور وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 1677]»
ابوحمزه میمون الاعور کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، اور ابن ماجہ نے اس کے برعکس روایت کی ہے: مال میں زکاة کے سوا کوئی حق نہیں۔ دیکھئے: [ترمذي 659]، [ابن ماجه 1789]، [دارقطني 125/2، وغيرهم اصحاب الكتب الضعيفة]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1674)
یہ حدیث بیشک ضعیف ہے لیکن عام آیات الصدقات سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ کے علاوہ بھی غربیوں کا حق ہے، جیسا کہ مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: «‏‏‏‏ ﴿وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ . لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ﴾ [المعارج: 24-25] » (ترجمہ: ان کے مالوں میں ایک مقررہ حصہ ہے، مانگنے والوں کا بھی اور سوال سے بچنے والوں کا بھی)۔
اس آیت سے مفسرین نے صدقۂ واجبہ اور نافلہ دونوں مراد لیا ہے، اور جیسا کہ آیتِ شریفہ: « ﴿وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا﴾ [المزمل: 20] » و دیگر اسی طرح کی آیات سے واضح ہوتا ہے، لہٰذا زکاة کے علاوہ بھی اپنے مال میں سے صدقہ و خیرات کرنا درست ہے، ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ کرنے پر اتنا زور دیتے کہ ہمیں لگتا ہمارے بچے ہوئے مال میں ہمارا کوئی حق ہی نہیں، «أو كما قال عليه السلام» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أبي حمزة ميمون الأعور وباقي رجاله ثقات
14. باب فِيمَنْ يَتَصَدَّقُ عَلَى غَنِيٍّ:
14. جو شخص مال دار کو زکاۃ دیدے اس کی زکاۃ کا بیان
حدیث نمبر: 1676
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا إسرائيل، حدثنا ابو الجويرية الجرمي، ان معن بن يزيد حدثه، قال: بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم انا وابي وجدي، وخطب علي فانكحني، وخاصمت إليه، وكان ابي يزيد اخرج دنانير يتصدق بها فوضعها عند رجل في المسجد، فجئت فاخذتها، فاتيته بها، فقال: والله ما إياك اردت بها، فخاصمته إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: "لك ما نويت يا يزيد، ولك يا معن ما اخذت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجُوَيْرِيَةِ الْجَرْمِيُّ، أَنَّ مَعْنَ بْنَ يَزِيدَ حَدَّثَهُ، قَالَ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَبِي وَجَدِّي، وَخَطَبَ عَلَيَّ فَأَنْكَحَنِي، وَخَاصَمْتُ إِلَيْهِ، وَكَانَ أَبِي يَزِيدُ أَخْرَجَ دَنَانِيرَ يَتَصَدَّقُ بِهَا فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَجُلٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَجِئْتُ فَأَخَذْتُهَا، فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا إِيَّاكَ أَرَدْتُ بِهَا، فَخَاصَمْتُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "لَكَ مَا نَوَيْتَ يَا يَزِيدُ، وَلَكَ يَا مَعْنُ مَا أَخَذْتَ".
سیدنا معن بن یزید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے اور میرے والد اور دادا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری منگنی بھی کرائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے میرا نکاح بھی پڑھایا تھا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوا تھا۔ وہ یہ کہ میرے والد یزید نے کچھ دینار خیرات کی نیت سے نکالے اور ان کو والد صاحب نے مسجد میں ایک شخص کے پاس رکھ دیا، میں گیا اور ان دنانیر کو اس شخص سے لے لیا، پھر جب میں انہیں لے کر والد صاحب کے پاس آیا تو انہوں نے کہا: قسم اللہ کی میرا ارادہ تجھے دینے کا نہیں تھا (بلکہ صدقہ کرنا مقصود تھا)، چنانچہ میں یہ قضیہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ دیا کہ یزید تم نے جو نیت کی اس کا ثواب تمہیں مل گیا اور معن تم نے جو لے لیا وہ اب تمہارا ہو گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1678]»
اس روایت کی سند اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1422]، [أبويعلی 1551]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1675)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر انجانے میں کوئی مالدار کو خیرات دیدے تو اس کو صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا، خواہ وہ صدقہ لینے والا بیٹا ہی کیوں نہ ہو، اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت اور ہمدردی و دلجوئی بھی ثابت ہوتی ہے، کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا کہ تمہاری نیّت کے مطابق مزید تمہیں ثواب مل گیا اور معن مال تمہارا ہو گیا، دونوں راضی ہو گئے اور کوئی جھگڑا نہ ر ہا ( «فداه أبى و أمي صلى الله عليه وسلم»)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
15. باب لِمَنْ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ:
15. صدقہ لینا کس کے لئے درست ہے اس کا بیان
حدیث نمبر: 1677
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، وابو نعيم، عن سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن ريحان بن يزيد، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تحل الصدقة لغني ولا لذي مرة سوي". قال ابو محمد: يعني: قوي.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ رَيْحَانَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: يَعْنِي: قَوِيٍّ.
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ غنی (مالدار) کے لئے صدقہ لینا حلال ہے اور نہ طاقت ور مضبوط آدمی کے واسطے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: «سوي» کے معنی قوی کے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح ريحان بن يزيد قال أبو حاتم في ((الجرح والتعديل)) 517/ 3 ((شيخ مجهول))، [مكتبه الشامله نمبر: 1679]»
اس روایت کی سند اور یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1634]، [ترمذي 652]، [الطيالسي 842]، [أحمد 192/2]، [الحاكم 407/1]، [أبويعلی 3290]، [ابن حبان 3290]، [موارد الظمآن 806، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1676)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ غنی اپنے مال میں سے کھائے اور ہٹا کٹا محنت مزدوری کر کے کھائے اور دستِ سوال دراز نہ کرے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح ريحان بن يزيد قال أبو حاتم في ((الجرح والتعديل)) 517/ 3 ((شيخ مجهول))
حدیث نمبر: 1678
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا شريك، عن حكيم بن جبير، عن محمد بن عبد الرحمن بن يزيد، عن ابيه، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من سال عن ظهر غنى، جاء يوم القيامة وفي وجهه خموش او كدوح او خدوش". قيل: يا رسول الله، وما الغنى؟ قال:"خمسون درهما او قيمتها من الذهب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ سَأَلَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَفِي وَجْهِهِ خُمُوشٌ أَوْ كُدُوحٌ أَوْ خُدُوشٌ". قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْغِنَى؟ قَالَ:"خَمْسُونَ دِرْهَمًا أَوْ قِيمَتُهَا مِنْ الذَّهَبِ".
سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو غنی ہوتے ہوئے مانگے وہ قیامت کے دن چہرے پر زخموں کے نشان لئے ہوئے آئے گا، عرض کیا گیا: مالداری کی حد کیا ہے؟ فرمایا: پچاس درہم یا اسی کے مساوی سونا۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1680]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1626]، [ترمذي 650]، [نسائي 2591]، [ابن ماجه 1840]، [أبويعلی 5217، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1677)
یعنی جس کے پاس 50 درہم یا اتنی ہی قیمت کا سونا ہو تو وہ غنی ہے اور اس کو مانگنا جائز نہیں۔
خموش، خدوش، کدوح سب کے معنی تقریباً ایک ہیں، بعض لوگوں نے کہا خموش: کھال چھلنا ناخون سے، خدوش: کھال چھلنا لکڑی سے، اور کدوح: کھال چھلنا دانتوں سے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حدیث نمبر: 1679
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، ومحمد بن يوسف، عن سفيان، عن حكيم بن جبير، عن محمد بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بنحوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ.
اس دوسری سند سے بھی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1681]»
اس کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [المعرفة و التاريخ للفسوي 98/3]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1678)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ غنی اور طاقت ور آدمی کے لئے مانگنا جائز نہیں، اور دوسری حدیث کے مطابق غنی وہ ہے جس کے پاس پچاس درہم ہو، بعض علماء نے کہا: جس کے پاس صبح شام ایک دن کے کھانے کی استطاعت ہو، بعض علماء نے کہا کہ جو صاحبِ نصاب ہو وہ غنی ہے، بہرحال مانگنا بری چیز ہے اس سے بچنا چاہیے۔
محنت اور ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی کمائی نہیں ہے، اور پیسے ہونے کے باوجود جو شخص اپنے لئے دستِ سوال دراز کرے وہ قیامت کے دن چھلے ہوئے زخمی چہرے کے ساتھ اٹھایا جائے گا، ایک حدیث ہے کہ اس کے چہرے پر گوشت ہی نہ ہوگا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
16. باب الصَّدَقَةِ لاَ تَحِلُّ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلاَ لأَهْلِ بَيْتِهِ:
16. صدقہ لینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کے لئے جائز نہیں
حدیث نمبر: 1680
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، اخبرني محمد بن زياد، قال: سمعت ابا هريرة قال: اخذ الحسن تمرة من تمر الصدقة، فجعلها في فيه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"كخ كخ القها، اما شعرت انا لا ناكل الصدقة؟".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: أَخَذَ الْحَسَنُ تَمْرَةً مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَةِ، فَجَعَلَهَا فِي فِيهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"كِخْ كِخْ أَلْقِهَا، أَمَا شَعَرْتَ أَنَّا لَا نَأْكُلُ الصَّدَقَةَ؟".
سیدنا ابوہريرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے زکاة کی کھجور میں سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھی چھی، نکالو اسے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگ صدقہ نہیں کھاتے؟

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1682]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1491]، [مسلم 1069]، [ابن حبان 3294]، [شرح معاني الآثار 9/2]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1681
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الاسود بن عامر، حدثنا زهير، عن عبد الله بن عيسى، عن عيسى، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن ابي ليلى، قال: كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم وعنده الحسن بن علي، فاخذ تمرة من تمر الصدقة فانتزعها منه، وقال:"اما علمت انه لا تحل لنا الصدقة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ عِيسَى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، فَأَخَذَ تَمْرَةً مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَةِ فَانْتَزَعَهَا مِنْهُ، وَقَالَ:"أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ".
سیدنا ابولیلیٰ بلال انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا اور سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، انہوں نے صدقہ کی کھجور میں سے ایک کھجور اٹھا لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کو چھین لیا اور فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں ہے؟

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1683]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 248/4]، [ابن ابي شيبه 215/3]، [شرح معاني الآثار 10/2]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1679 سے 1681)
ان دونوں حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کے لئے جائز نہیں، اور اہلِ بیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات اور آل اولاد سب شامل ہیں، بعض علماء نے کہا کہ صرف فرض زکاة حرام ہے جیسا کہ امام جعفر صادق سے مروی ہے: زکاة و صدقات کو میل کچیل گردانا گیا ہے لہٰذا آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے بچنا لازمی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
17. باب التَّشْدِيدِ عَلَى مَنْ سَأَلَ وَهُوَ غَنِيٌّ:
17. جو شخص غنی ہو کر مانگے اس کے لئے سخت وعید کا بیان
حدیث نمبر: 1682
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن منصور، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن وهب بن منبه، عن اخيه، عن معاوية، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تلحفوا بي في المسالة فوالله لا يسالني احد شيئا فاعطيه وانا كاره، فيبارك له فيه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تُلْحِفُوا بِي فِي الْمَسْأَلَةِ فَوَاللَّهِ لَا يَسْأَلُنِي أَحَدٌ شَيْئًا فَأُعْطِيَهُ وَأَنَا كَارِهٌ، فَيُبَارَكَ لَهُ فِيهِ".
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے چمٹ کر نہ مانگو، قسم اللہ کی جو کوئی مجھ سے مانگے اور میں ناپسند کرنے کے باوجود اسے دیدوں، ممکن نہیں کہ اس میں اس کے لئے برکت ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1684]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1038]، [نسائي 2592]، [ابن حبان 3389]، [مسند الحميدي 615]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.