سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نماز کے مسائل
28. باب في الصَّلاَةِ الْوُسْطَى:
28. صلاۃ الوسطیٰ کون سی نماز ہے؟
حدیث نمبر: 1266
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا هشام بن حسان، عن محمد، عن عبيدة، عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الخندق: "ملا الله قبورهم وبيوتهم نارا كما حبسونا عن صلاة الوسطى حتى غابت الشمس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبأَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ: "مَلَأَ اللَّهُ قُبُورَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ نَارًا كَمَا حَبَسُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى حَتَّى غَابَتْ الشَّمْسُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے دن فرمایا: الله تعالیٰ ان مشرکین کی قبریں اور ان کے گھر آگ سے بھر دے اس لئے کہ انہوں نے ہمیں «صلاة الوسطيٰ» (درمیان والی نماز) سے روکے رکھا، حتی کہ سورج غروب ہو گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1268]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2931]، [مسلم 627، و أصحاب السنن] و [مسند الموصلي 385]، [ابن حبان 1745]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1265)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عصر کی نماز ہی صلاة الوسطیٰ ہے، نیز یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نمازِ عصر قضا ہوجانے کا اتنا زیادہ غم تھا کہ مشرکین کے حق میں بددعا کر دی، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک دشمنوں کے ساتھ بھی محبت و رحم دلی کا ہوتا تھا۔
صلاة الوسطیٰ کے معنی فضیلت والی نماز کے ہیں، اور اس سے مراد عصر کی نماز ہے، یہی صحیح قول ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
29. باب في تَارِكِ الصَّلاَةِ:
29. تارک صلاۃ کا بیان
حدیث نمبر: 1267
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، حدثنا ابو الزبير، انه سمع جابرا يقول: او قال جابر: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ليس بين العبد وبين الشرك وبين الكفر إلا ترك الصلاة". قال لي ابو محمد: العبد إذا تركها من غير عذر وعلة، ولا بد من ان يقال: به كفر ولم يصف بالكفر.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا يَقُولُ: أَوْ قَالَ جَابِرٌ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ إِلَّا تَرْكُ الصَّلَاةِ". قَالَ لِي أَبُو مُحَمَّد: الْعَبْدُ إِذَا تَرَكَهَا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ وَعِلَّةٍ، وَلَا بُدَّ مِنْ أَنْ يُقَالَ: بِهِ كُفْرٌ وَلَمْ يَصِفْ بِالْكُفْرِ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندے اور شرک یا کفر کے بیچ میں نہیں ہے کچھ سوائے نماز چھوڑنے کے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: جو کوئی بلا عذر و علت نماز ترک کر دے اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ اس کے ساتھ کفر ہے اور یہ نہیں کہا جائے کہ وہ کافر ہو گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1269]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 82]، [أبوداؤد 4678]، [ترمذي 2620]، [نسائي 465]، [أبويعلی 1783]، [ابن حبان 1453]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1266)
یعنی مومن و کافر میں فرق کرنے والی چیز نماز ہے، اور نماز چھوڑ دی تو یہ فرق مٹ جاتا ہے اور ایمان والے یا کافر کے درمیان کوئی فرق نہیں رہ جاتا ہے۔
ایک صحیح حدیث میں ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر عمداً نماز چھوڑ دے وہ کافر ہے۔
الله تعالیٰ سب مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی توفیق بخشے۔
آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
30. باب في تَحْوِيلِ الْقِبْلَةِ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ إِلَى الْكَعْبَةِ:
30. بیت المقدس سے کعبہ کی طرف تحویل قبلہ کا بیان
حدیث نمبر: 1268
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا سليمان بن بلال، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: بينما الناس في صلاة الفجر في قباء إذ جاءهم رجل، فقال:"إن رسول الله صلى الله عليه وسلم انزل عليه القرآن، وامر ان يستقبل الكعبة، فاستقبلوها، وكان وجه الناس إلى الشام، فاستداروا، فوجهوا إلى الكعبة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: بَيْنَمَا النَّاسُ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فِي قُبَاءٍ إِذْ جَاءَهُمْ رَجُلٌ، فَقَالَ:"إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ، وَأُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ، فَاسْتَقْبِلُوهَا، وَكَانَ وَجُهُ النَّاسِ إِلَى الشَّامِ، فَاسْتَدَارُوا، فَوَجَّهُوا إِلَى الْكَعْبَةِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگ قبا میں نماز فجر ادا کر رہے تھے کہ ایک صحابی ان کے پاس آئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ وہ کعبہ کی طرف منہ کر لیں، لہٰذا وہ لوگ بھی کعبہ کی طرف پھر گئے، اور ان لوگوں کا رخ شام کی طرف تھا، پس وہ گھوم گئے اور کعبہ کی طرف انہوں نے منہ کر لئے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1270]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 403]، [مسلم 526]، [ابن حبان 1715]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1267)
«أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ» سے مراد آیت تحويل القبلہ « ﴿فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ » ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1269
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: قيل:"يا رسول الله، ارايت الذين ماتوا وهم يصلون إلى بيت المقدس؟ فانزل الله تعالى: وما كان الله ليضيع إيمانكم سورة البقرة آية 143".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قِيلَ:"يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ الَّذِينَ مَاتُوا وَهُمْ يُصَلُّونَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ سورة البقرة آية 143".
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول آپ کی ان لوگوں کے بارے میں کیا رائے ہے جو بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہوئے فوت ہو گئے؟ سو الله تعالیٰ نے یہ آیت شریفہ نازل فرمائی: الله تعالیٰ تمہارے ایمان ضائع نہ کرے گا۔ [بقرة: 143/2]

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف رواية سماك عن عكرمة مضطربة، [مكتبه الشامله نمبر: 1271]»
اس روایت کی سند میں ضعف ہے، لیکن دوسری سند سے یہ صحیح حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 40]، [مسلم 525]، [ابن حبان 1717]، [الموارد 1718]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1268)
اس آیت « ﴿وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ﴾ » میں «إِيمَانَكُمْ» سے مراد «صَلَاتَكُمْ» ہے، یعنی تمہاری نمازیں ضائع نہ ہوں گی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف رواية سماك عن عكرمة مضطربة
31. باب في افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ:
31. نماز شروع کرنے کی کیفیت کا بیان
حدیث نمبر: 1270
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، عن سعيد بن ابي عروبة، حدثنا بديل العقيلي، عن ابي الجوزاء، عن عائشة، قالت:"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفتتح الصلاة بالتكبير، ويفتتح القراءة ب الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2، ويختمها بالتسليم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ الْعُقَيْلِيُّ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ، وَيَفْتَتِحُ الْقِرَاءَةَ ب الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2، وَيَخْتِمُهَا بِالتَّسْلِيمِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تکبیر سے شروع کرتے تھے، اور قرأت «‏‏‏‏الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» ‏‏‏‏ سے شروع کرتے تھے، اور نماز کا اختام تسلیم سے کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جعفر بن عون متأخر السماع من ابن أبي عروبة. وبديل هو: ابن ميسرة غير أن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1272]»
اس حدیث کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے یہ حدیث صحیح ہے، جس کے اطراف متفرق طور پر صحاح ستہ میں موجود ہیں۔ دیکھئے: [بخاري 743]، [مسلم 399]، [أبوداؤد 783]، [ابن ماجه 812]، [أبويعلی 2881]، [ابن حبان 1798]، [الحميدي 1233]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1269)
یعنی نماز کی ابتداء تکبیرِ تحریمہ سے اور قرأت الحمد للہ سے شروع کرتے تھے، اور اختتام کے وقت السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے تھے، ایک اور حدیث میں ہے: نماز کی کنجی وضوء ہے، تحریم اس کی تکبیر، و تحلیل تسلیم ہے، یعنی اللہ اکبر کہنے کے بعد عام كلام حرام ہو جاتا ہے اور سلام پھیرنے کے بعد حلال ہوتا ہے۔
«يفتتح القرأة بالحمد للّٰه رب العالمين» سے «بسم اللّٰه الرحمٰن الرحيم» جہرانہ پڑھنا ثابت ہوا، تفصیل حدیث نمبر 1274 کے ضمن میں آرہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف جعفر بن عون متأخر السماع من ابن أبي عروبة. وبديل هو: ابن ميسرة غير أن الحديث متفق عليه
32. باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ:
32. نماز شروع کرتے وقت رفع الیدین کا بیان
حدیث نمبر: 1271
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد الحنفي، حدثنا ابن ابي ذئب، عن محمد بن عمرو بن عطاء، عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "لم يكن يقوم إلى الصلاة إلا رفع يديه مدا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "لَمْ يَكُنْ يَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ إِلَّا رَفَعَ يَدَيْهِ مَدًّا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو رفع یدین کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1273]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 753]، [ترمذي 240]، [نسائي 882]۔ رفع الیدین کہاں کہاں کرنی چاہیے اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
33. باب مَا يُقَالُ بَعْدَ افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ:
33. نماز شروع کرنے کے بعد کیا پڑھنا چاہیئے؟
حدیث نمبر: 1272
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا عبد العزيز بن عبد الله بن ابي سلمة، عن عمه الماجشون، عن الاعرج، عن عبيد الله بن ابي رافع، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة، كبر ثم قال: "وجهت وجهي للذي فطر السموات والارض حنيفا، وما انا من المشركين، إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين، لا شريك له، وبذلك امرت وانا اول المسلمين. اللهم انت الملك لا إله إلا انت، انت ربي وانا عبدك، ظلمت نفسي واعترفت بذنبي، فاغفر لي ذنوبي جميعا، لا يغفر الذنوب إلا انت، واهدني لاحسن الاخلاق لا يهدي لاحسنها إلا انت، واصرف عني سيئها لا يصرف سيئها إلا انت. لبيك وسعديك والخير كله في يديك، والشر ليس إليك، انا بك وإليك، تباركت وتعاليت، استغفرك واتوب إليك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَمِّهْ الْمَاجِشُونَ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، كَبَّرَ ثُمَّ قَالَ: "وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا، وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا، لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ. لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ، أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ".
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو تکبیر کہتے اور پھر یہ دعا پڑھتے: «إنِّيْ وَجَّهْتُ ...... وَأَتُوْبُ إِلَيْكَ» یعنی میں نے یکسو ہو کر اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے زمین و آسمان بنایا، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں، میری نماز و عبادت، میرا مرنا و جینا صرف اللہ ہی کے لئے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے، جس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب مسلمانوں میں سے پہلا ہوں، یا الله تو ہی معبود ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو ہی میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، اپنے گناہ کا اعتراف کیا، پس تو میرے تمام گناہ بخش دے، تیرے سوا گناہوں کو کوئی نہیں بخشتا، اور مجھے اچھے اخلاق و عادات کی ہدایت دے کیونکہ تو ہی اچھے کاموں کی ہدایت دیتا ہے، اور مجھ سے بری عادتیں دور کر دے کیونکہ تیرے سوا کوئی بری عادتیں دور نہیں کر سکتا ہے، میں تیری خدمت میں حاضر ہوں، تیرا ہی فرمانبردار ہوں، ساری خوبی تیرے ہاتھوں میں ہے، اور شر و برائی تیری طرف نہیں کی جا سکتی ہے، میں تجھ سے ہوں (یعنی تیری مخلوق ہوں) اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے (یا تجھ سے میری التجا ہے)، تو بڑی برکت والا اور بلند ذات والا ہے، میں تجھ سے مغفرت مانگتا ہوں اور تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1274]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 771]، [أبوداؤد 751]، [ترمذي 266]، [نسائي 896]، [ابن ماجه 864]، [أبويعلی 285]، [ابن حبان 1771 وغيرهم]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1273
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا زكريا بن عدي، حدثنا جعفر بن سليمان، عن علي بن علي، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام من الليل فكبر، قال: "سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك، وتعالى جدك، ولا إله غيرك. اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم: من همزه ونفثه ونفخه"ثم يستفتح صلاته. قال جعفر: وفسره مطر: همزه: الموتة، ونفثه: الشعر، ونفخه: الكبر.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ فَكَبَّرَ، قَالَ: "سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ. أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ: مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْثِهِ وَنَفْخِهِ"ثُمَّ يَسْتَفْتِحُ صَلَاتَهُ. قَالَ جَعْفَرٌ: وَفَسَّرَهُ مَطَرٌ: هَمْزُهُ: الْمُوتَةُ، وَنَفْثُهُ: الشِّعْرُ، وَنَفْخُهُ: الْكِبْرُ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں قیام کرتے تو تکبیر کے بعد «سُبْحَانَكَ اَللّٰھُمَّ ........... نفثه ونفخه» پڑھتے، اے اللہ! تو پاک ہے، ہر قسم کی تعریف تیرے لئے ہے، تیرا نام بابرکت ہے اور تیری شان بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں اللہ سمیع علیم کے ساتھ شیطان رجیم سے پناہ مانگتا ہوں، اس کے وساوس، تکبر اور سحر سے، پھر نماز شروع کرتے تھے۔ راوی حدیث جعفر نے کہا: مطر نے «همزه» کی تفسیر جنون اور «نفثه» کی (جادو کے) بال اور «نفخه» کی تکبر سے کی ہے۔ یعنی اے اللہ! میں شیطان راندۂ درگاہ سے اور اس کے مسلط کئے ہوئے جنون، جادو اور تکبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1275]»
اس حدیث کی سند بمجموع طرق جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 766]، [ترمذي 242]، [مسند أبى يعلی 1108]، [دارقطني 298/1]، [بيهقي 53/2]، [مصنف ابن أبى شيبه 232/1]، مذکورہ بالا سند میں علی بن علی الرفاعی متکلم فیہ ہیں۔ نیز اس کا شاہد دیکھئے: [مسلم 399/52]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1270 سے 1273)
نماز کے افتتاح کے وقت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی دعائیں منقول ہیں۔
«إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِي» اور «سُبْحَانَكَ اَللّٰهُمَّ» امام دارمی رحمہ اللہ نے نقل کی ہیں یہ صحیح ہیں۔
صحیحین میں «اللهم باعد بيني و بين خطاياي..... الخ» بھی مروی ہے جو اس روایت سے زیادہ صحیح ہے، اس کا ذکر آگے (1278) پر آرہا ہے۔
کسی ایک دعا کا التزام کرنے کے بجائے تنوع کے ساتھ کبھی یہ اور کبھی دوسری دعائے استفتاح پڑھی جائیں تو بہت اچھا ہے تاکہ ہر سنّت پر عمل ہو جائے۔
اور ان دعاؤں کے معانی و مفاہیم کو بھی ذہن میں رکھا جائے تو بہتر ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
34. باب كَرَاهِيَةِ الْجَهْرِ بِـ {بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ}:
34. نماز میں جہراً بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہنے پر کراہت کا بیان
حدیث نمبر: 1274
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، حدثنا قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم، وابا بكر، وعمر، وعثمان كانوا "يفتتحون القراءة ب الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2". قال ابو محمد: بهذا نقول، ولا ارى الجهر ب بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَانُوا "يَفْتَتِحُونَ الْقِرَاءَةَ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: بِهَذَا نَقُولُ، وَلَا أَرَى الْجَهْرَ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر و عثمان رضی اللہ عنہم سب ہی نماز میں قرأت «الحمد لله رب العالمين» سے شروع کرتے تھے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یہی ہم کہتے ہیں اور میں «بسم الله الرحمٰن الرحيم» جہراً کہنا درست نہیں سمجھتا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1276]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 743]، [مسلم 399]، [مسند أبى يعلی 2881]، و [ابن حبان 1798]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1273)
جب «الحمد للّٰه رب العالمين» سے سب قرأت شروع کرتے تو بسم اللہ يقیناً سرّاً کہتے ہوں گے، لہٰذا صحیح یہ ہے کہ بسم اللہ سرّاً پڑھی جائے اور قرأت «الحمد للّٰه رب العالمين» سے ہی شروع کی جائے، اور اگر کبھی کبھار جہراً بھی بسم اللہ کہی جائے تو کوئی حرج نہیں، بعض صحابہ سے ایسا کرنا بھی ثابت ہے۔
بعض لوگ نماز میں سورۂ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ جہراً پڑھنا لازمی قرار دیتے ہیں جو صحیح نہیں ہے، مذکورہ بالا حدیث ان کے قول کے سراسر خلاف ہے۔
والله اعلم

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
35. باب قَبْضِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ في الصَّلاَةِ:
35. نماز میں داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کے پکڑنے کا بیان
حدیث نمبر: 1275
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا زهير، عن ابي إسحاق، عن عبد الجبار بن وائل، عن ابيه، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم "يضع يده اليمنى على اليسرى قريبا من الرسغ".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى قَرِيبًا مِنْ الرُّسْغِ".
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھتے تھے گٹے پر ( «رُسغ» پہنچے اور کلائی کے جوڑ کو کہتے ہیں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1277]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [نسائي 888]، نیز اسی طرح یہ روایت [مسلم 401] اور [ابن ماجه 801] میں بھی موجود ہے۔ نیز دیکھئے: [ابن حبان 1805]، [موارد الظمآن 447]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1274)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قیام کی حالت میں اسی طرح دایاں ہاتھ کو بایاں پر رکھنا چاہئے، نسائی کی روایت میں قبض کا لفظ ہے یعنی دایاں ہاتھ سے بایاں ہاتھ کو پکڑتے تھے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.