سیدنا جابر بن سمرة رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بھی درمیانی اور خطبہ بھی در میانہ (متوسط) تھا (یعنی نہ لمبا اور نہ بہت مختصر)۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1598]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مسلم 866]، [ترمذي 507]، [نسائي 1581]، [ابن حبان 2802]، [معرفة السنن و الآثار 6805]
وضاحت: (تشریح احادیث 1594 سے 1596) ان احادیث سے ثابت ہوا کہ جمعہ کا خطبہ زیادہ لمبا نہ ہونا چاہیے، نیز «وَ إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا» میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خطیب ایسا اسلوب اور بیان اختیار کرے جو مؤثر ہو اور معلومات سے پُر، عبرت و موعظت سے بھر پور ہو، اور یہ ہی خطیب کی سمجھداری ہے کہ اختصار کے باوجود خطبہ فائدہ مند ہو اور نماز اطمینان و سکون کے ساتھ، تعدیلِ ارکان کی رعایت کے ساتھ نسبتاً لمبی ہو۔ رٹے رٹائے عربی میں خطبے پڑھنا جن کو سامعین سمجھ نہ سکیں خطبے کی روح کے منافی ہیں۔ (واللہ اعلم)۔
(حديث مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم"كان يخطب خطبتين وهو قائم، وكان يفصل بينهما بجلوس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَخْطُبُ خُطْبَتَيْنِ وَهُوَ قَائِمٌ، وَكَانَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا بِجُلُوسٍ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر دو خطبے دیتے تھے اور دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1599]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 920، 928]، [مسلم 861]، [ابوداؤد 1092]، [ترمذي 506]، [نسائي 1415]، [ابن ماجه 1103]، [أحمد 98/2]، [ابن حبان 2802]
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دو خطبے پڑھا کرتے تھے اور ان کے بیچ میں بیٹھتے تھے اور خطبے کے دوران قرآن پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1600]» اس روایت کی سند قوی اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 862]، [أبوداؤد 1094]، [نسائي 1419]، [ابن ماجه 1106]، [أبويعلی 2621، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح احادیث 1596 سے 1598) ان احادیث سے کھڑے ہو کر خطبہ دینا ثابت ہوا، اور یہ ایک امر مسلم ہے جیسا کہ ”وترکوک قائما“ سے ثابت ہوتا ہے۔ نیز اس حدیث سے خطبہ کے اجزاء معلوم ہوئے کہ خطبہ قرآن و حدیث اور عام نصیحت پر مشتمل ہونا چاہیے، حمد و ثنا اور درود و دعا بھی خطبے کے اجزاءِ ضروریہ میں سے ہیں جو دیگر احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا ابو زبيد، حدثنا حصين قال: راى عمارة بن رويبة بشر بن مروان على المنبر رافعا يديه، فقال:"قبح الله هاتين اليدين، لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، وما يشير إلا بإصبعه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو زُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ قَالَ: رَأَى عُمَارَةُ بْنُ رُوَيْبَةَ بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ رَافِعًا يَدَيْهِ، فَقَالَ:"قَبَّحَ اللَّهُ هَاتَيْنِ الْيَدَيْنِ، لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَمَا يُشِيرُ إِلَّا بِإِصْبُعِهِ".
حصین (بن عبدالرحمٰن) نے کہا: عمارہ بن رویبہ نے مروان کے بیٹے بشر کو منبر پر ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو کہا: برا کرے اللہ تعالیٰ ان دونوں ہاتھوں کو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا ہے، اور آپ صرف اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے تھے (بعض نسخ میں ایک انگلی سے اشارہ کرنے کا ذکر ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1601]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 874]، [أبوداؤد 1104]، [ترمذي 515]، [ابن حبان 882]
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن حصين بن عبد الرحمن، عن عمارة بن رويبة، قال: راى بشر بن مروان رافعا يديه يدعو على المنبر يوم الجمعة، قال: فسبه، وقال:"لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر وما يقول باصبعه إلا هكذا، واشار بالسبابة عند الخاصرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ رُوَيْبَةَ، قَالَ: رَأَى بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ رَافِعًا يَدَيْهِ يَدْعُو عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، قَالَ: فَسَبَّهُ، وَقَالَ:"لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَمَا يَقُولُ بِأُصْبُعِهِ إِلَّا هَكَذَا، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ عِنْدَ الْخَاصِرَةِ".
حصین بن عبدالرحمٰن نے کہا: عمارہ بن رویبہ نے بشر بن مروان کو جمعہ کے دن منبر پر دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو انہیں برا بھلا کہا اور فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا اور آپ (اس طرح نہ کرتے تھے بلکہ) صرف انگلی سے اشارہ کرتے تھے، اور انہوں نے شہادت کی انگلی سے پہلو کے پاس سے اشارہ کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1602]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث بھی مثلِ سابق صحیح ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1598 سے 1600) ان دونوں حدیثوں سے خطبے کے دوران ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے یا گفتگو کے دوران ویسے ہی ہاتھ اٹھانے کی ممانعت ثابت ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف بارش کی دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے تھے یا پھر انگلی سے اشارہ کرتے تھے، علامہ وحیدالزماں رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں کہا: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطبہ میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا بدعت ہے اور روا نہیں ہے، اور مالک اور اصحابِ شافعیہ کا اور دیگر فقہاء کا یہ ہی مذہب ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن كثير، عن سليمان بن كثير، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن جابر بن عبد الله، قال:"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوم إلى جذع قبل ان يجعل المنبر، فلما جعل المنبر، حن ذلك الجذع حتى سمعنا حنينه، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده عليه، فسكن".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ إِلَى جِذْعٍ قَبْلَ أَنْ يُجْعَلَ الْمِنْبَرُ، فَلَمَّا جُعِلَ الْمِنْبَرُ، حَنَّ ذَلِكَ الْجِذْعُ حَتَّى سَمِعْنَا حَنِينَهُ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَيْهِ، فَسَكَنَ".
سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر بنائے جانے سے پہلے کھجور کے ایک تنے کے پاس کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ پھر جب منبر بنا دیا گیا (اور آپ اس کی طرف جانے لگے) تو وہ تنا باریک آواز سے رو پڑا یہاں تک کہ ہم نے اس کی آواز سنی، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو اس کی آواز تھم گئی۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1603]» یہ حدیث صحیح ہے، اور اس کی اصل [بخاري شريف 918] میں موجود ہے۔ نیز حدیث رقم (33، 34) میں اس کی تفصیل گذر چکی ہے۔ مزید حوالے آگے آ رہے ہیں۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1600) اگلی روایت اور ابن ماجہ میں ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ کرتے تو وہ تنا قیامت تک روتا رہتا، یہ الله تعالیٰ کی کرشمہ سازی ہے کہ جمادات و اشجار اور حیوانات میں سے جسے چاہے قوتِ گویائی عطا فرما دے، اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کی شہادت اور معجزهٔ ربانی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں لکڑی کا تنا اس جدائی پر رو پڑا۔ «فداه أبى و أمي عليه افضل الصلاة والتسليم» ۔
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن عمار بن ابي عمار، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يخطب إلى جذع قبل ان يتخذ المنبر، فلما اتخذ المنبر، تحول إليه، حن الجذع فاحتضنه فسكن، وقال:"لو لم احتضنه، لحن إلى يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْطُبُ إِلَى جِذْعٍ قَبْلَ أَنْ يَتَّخِذَ الْمِنْبَرَ، فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ، تَحَوَّلَ إِلَيْهِ، حَنَّ الْجِذْعُ فَاحْتَضَنَهُ فَسَكَنَ، وَقَالَ:"لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْهُ، لَحَنَّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر بنائے جانے سے قبل کھجور کے تنے سے لگ کر خطبہ دیا کرتے تھے، جب منبر بن گیا اور آپ اس کی طرف جانے لگے تو وہ تنا رونے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سینے سے لگایا تو وہ خاموش ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اسے گود میں نہ لیتا (یعنی سینے سے نہ لگاتا) تو قیامت تک روتا رہتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1604]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث رقم (39) پر اس کی تفصیل گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [ابن ماجه 1415]
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج، حدثنا حماد، عن ثابت، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1605]» اس روایت کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا المسعودي، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، قال: لما كثر الناس بالمدينة، جعل الرجل يجيء والقوم يجيئون فلا يكادون ان يسمعون كلام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يرجعوا من عنده، فقال له الناس: يا رسول الله، إن الناس قد كثروا، وإن الجائي يجيء فلا يكاد يسمع كلامك. قال:"فما شئتم"، فارسل إلى غلام لامراة من الانصار، نجار، وإلى طرفاء الغابة، فجعلوا له مرقاتين او ثلاثة، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم "يجلس عليه ويخطب عليه، فلما فعلوا ذلك حنت الخشبة التي كان يقوم عندها، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم إليها فوضع يده عليها، فسكنت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: لَمَّا كَثُرَ النَّاسُ بِالْمَدِينَةِ، جَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ وَالْقَوْمُ يَجِيئُونَ فَلَا يَكَادُونَ أَنْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَرْجِعُوا مِنْ عِنْدِهِ، فَقَالَ لَهُ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ النَّاسَ قَدْ كَثُرُوا، وَإِنَّ الْجَائِيَ يَجِيءُ فَلَا يَكَادُ يَسْمَعُ كَلَامَكَ. قَالَ:"فَمَا شِئْتُمْ"، فَأَرْسِلْ إِلَى غُلَامٍ لِامْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، نَجَّارٍ، وَإِلَى طَرْفَاءِ الْغَابَةِ، فَجَعَلُوا لَهُ مِرْقَاتَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يَجْلِسُ عَلَيْهِ وَيَخْطُبُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا فَعَلُوا ذَلِكَ حَنَّتِ الْخَشَبَةُ الَّتِي كَانَ يَقُومُ عِنْدَهَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهَا فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا، فَسَكَنَتْ".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: جب مدینہ میں لوگوں کی کثرت ہوئی تو لوگ آتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سن نہیں پاتے اور ایسے ہی واپس ہو جاتے، چنانچہ صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ: اے اللہ کے نبی! لوگ بڑھ گئے ہیں، آنے والا آتا ہے اور آپ کا کلام سن نہیں پاتا، فرمایا: پھر تم جو چاہو، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری عورت کے لڑکے کو جو نجار (بڑھئی) تھا بلایا اور جنگل کے جھاؤ سے منبر بنانے کو کہا، چنانچہ اس نے دو یا تین سیڑھی بنائیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھے اور خطبہ دینے لگے، جب انہوں نے ایسا کیا تو وہ لکڑی جس کے پاس کھڑے ہو کر آپ خطبہ دیتے تھے باریک آواز سے رونے لگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور اپنا دست مبارک اس پر رکھا تو وہ چپ ہو گئی۔
تخریج الحدیث: «الإسناد ضعيف والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1606]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث کی اصل موجود ہے جو بخاری شریف و دیگر کتبِ حدیث میں مختلف مقامات پر موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 377، 448، 917]، [مسلم 544]، [ابن ماجه 1416]، نیز دیکھئے حدیث رقم (41)
وضاحت: (تشریح احادیث 1601 سے 1604) ان احادیثِ مبارکہ سے متعدد مسائل معلوم ہوئے، اوّل یہ کہ منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا ثابت ہوا، منبر لکڑی کا اور تین سیڑھی والا ہو، جگہ تنگ ہو تو ایک طرف رکھ دیا جائے تاکہ صف بندی میں خلل نہ پڑے، علامہ وحیدی نے ابن ماجہ کی شرح میں (1415) لکھا ہے: اس حدیث میں ایک مشہور معجزہ مذکور ہے، یعنی تنے لکڑی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق میں رونا ...... اس کے بعد لکھا ہے: ایک لکڑی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس درجہ محبت، افسوں ہے ان لوگوں پر جو لکڑی سے بھی بدتر ہیں، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کو چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں، علماء نے کہا ہے کہ لکڑی جب تک ہری رہتی ہے اس میں جان رہتی ہے اور وہ تسبیح کرتی ہے، احتمال ہے کہ یہ لکڑی (یا تنا) ہرا ہو، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ مردے کو زندہ کرنے اور اس کو قوتِ گویائی عطا کرنے پر بھی قادر ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الإسناد ضعيف والحديث متفق عليه
ضحاک بن قیس نے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن سورہ جمعہ کے بعد کون سی سورہ پڑھتے تھے؟ جواب دیا کہ: «هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ» پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1607]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 878]، [أبوداؤد 1123]، [نسائي 1422]، [ابن ماجه 1119]