سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نماز کے مسائل
حدیث نمبر: 1556
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، عن سالم، عن عبد الله بن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان "يجمع بين المغرب والعشاء إذا جد به السير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "يَجْمَعُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں جلدی چلنا ہوتا تو مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1558]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1091، 1106]، [مسلم 703]، [ترمذي 555]، [نسائي 599]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1553 سے 1556)
جمع بین الصلاة دو نمازوں کو ملا کر ایک وقت میں پڑھنے کو کہتے ہیں، اور اس کی دو صورتیں ہیں: جمع تقدیم اور جمع تاخیر، دونوں ہی جائز ہیں۔
اکثر ائمہ کے نزدیک سفر میں اور حضر میں بھی خوف اور مطر (بارش) کی وجہ سے دو نمازیں ملاکر پڑھی جا سکتی ہیں، جیسا کہ احادیثِ صحیحہ سے اور اس باب کی احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سنّت پر عمل کی توفیق بخشے۔
آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
182. باب الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِالْمُزْدَلِفَةِ:
182. مزدلفہ میں دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1557
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، اخبرني الحكم، وسلمة بن كهيل، قالا: "صلى بنا سعيد بن جبير بجمع بإقامة المغرب ثلاثا، فلما سلم، قام فصلى ركعتين العشاء"، ثم حدث، عن ابن عمر انه صنع بهم في ذلك المكان مثل ذلك، وحدث ابن عمر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع في ذلك المكان مثل ذلك.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي الْحَكَمُ، وَسَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، قَالَا: "صَلَّى بِنَا سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ بِجَمْعٍ بِإِقَامَةٍ الْمَغْرِبَ ثَلَاثًا، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ الْعِشَاءَ"، ثُمَّ حَدَّثَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ صَنَعَ بِهِمْ فِي ذَلِكَ الْمَكَانِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَحَدَّثَ ابْنُ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ فِي ذَلِكَ الْمَكَانِ مِثْلَ ذَلِكَ.
حکم اور سلمہ بن کہیل رحمہ اللہ دونوں نے کہا: سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے ہمیں مزدلفہ میں اقامت کے بعد مغرب تین رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیر کر کھڑے ہوئے، پس دو رکعت عشاء کی پڑھی، پھر حدیث بیان کی کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس جگہ اسی طرح نماز پڑھی، اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس جگہ ایسے ہی کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1559]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1092]، [مسلم 1288]، [أبوداؤد 1931]، [ترمذي 888]، [نسائي 482]، [ابن حبان 6859]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1558
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سعيد بن الربيع، قال: حدثنا شعبة، بإسناده، نحوه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، بِإِسْنَادِهِ، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1560]»
تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1556 سے 1558)
مذکورہ بالا حدیث سے مزدلفہ میں مغرب و عشاء ملا کر ایک تکبیر (اقامت) سے پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے، لیکن دوسری روایاتِ صحیحہ سے دو نمازیں ایک اذان دو ا قامت (تکبیر) سے پڑھنے کا ثبوت ہے جو راجح ہے، نیز یہ کہ دو نمازوں کے درمیان صرف تکبیر ہے، سنّت یا نفل پڑھنا ثابت نہیں۔
نیز سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مزدلفہ میں جمع بین الصلاتین کیا، اس سے استدلال بھی صحیح نہیں کیونکہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے خود اس کے برعکس مروی ہے، نیز پچھلے باب میں بھی غزوۂ تبوک وغیرہ میں جمع بین الصلاتین کا ثبوت گذر چکا ہے۔
واللہ علم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
183. باب في صَلاَةِ الرَّجُلِ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرِهِ:
183. سفر سے واپسی پر پہلے نماز پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1559
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن ابن شهاب، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك، عن ابيه عبد الله، وعمه عبيد الله ابني كعب، عن كعب بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان "لا يقدم من سفر إلا بالنهار ضحى، ثم يدخل المسجد فيصلي ركعتين، ثم يجلس للناس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ اللَّهِ، وَعَمِّهِ عُبَيْدِ اللَّهِ ابْنَيْ كَعْبٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "لَا يَقْدَمُ مِنْ سَفَرٍ إِلَّا بِالنَّهَارِ ضُحًى، ثُمَّ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَجْلِسُ لِلنَّاسِ".
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن چڑھے دن میں سفر سے واپس ہوتے، پھر مسجد میں جاتے، دو رکعت نماز پڑھتے، اور پھر لوگوں سے بات چیت کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1561]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3088]، [مسلم 716]، [أبوداؤد 2773]، [نسائي 730]، [ابن حبان 3370]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1558)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے۔
کچھ علماء نے حج اور جہاد کے ساتھ اس کو خاص کیا ہے لیکن یہ حدیث عام ہے، اس لئے اس سنّت پر عمل کرنا لازمی ہے جو کہ عصرِ حاضر میں مہجور ہو چکی ہے۔
راقم نے سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کو ہمیشہ اس پر عمل کرتے دیکھا، جب بھی سفر سے واپس آتے پہلے مسجد میں آ کر یہ دوگانہ پڑھتے پھر گھر تشریف لے جاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی سنّتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی توفیق بخشے، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
184. باب في صَلاَةِ الْخَوْفِ:
184. صلاۃ الخوف کا بیان
حدیث نمبر: 1560
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، عن شعيب، عن الزهري، اخبرني سالم بن عبد الله: ان عبد الله بن عمر، قال:"غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة قبل نجد، فوازينا العدو وصاففناهم، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي لنا، فقام طائفة منا معه، واقبل طائفة على العدو، فركع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمن معه ركعة، وسجد سجدتين ثم انصرفوا، فكانوا مكان الطائفة التي لم تصل، وجاءت الطائفة التي لم تصل فركع بهم النبي صلى الله عليه وسلم ركعة وسجد سجدتين، ثم سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام كل رجل من المسلمين فركع لنفسه ركعة وسجد سجدتين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ:"غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةً قِبَلَ نَجْدٍ، فَوَازَيْنَا الْعَدُوَّ وَصَافَفْنَاهُمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي لَنَا، فَقَامَ طَائِفَةٌ مِنَّا مَعَهُ، وَأَقْبَلَ طَائِفَةٌ عَلَى الْعَدُوِّ، فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْ مَعَهُ رَكْعَةً، وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفُوا، فَكَانُوا مَكَانَ الطَّائِفَةِ الَّتِي لَمْ تُصَلِّ، وَجَاءَتْ الطَّائِفَةُ الَّتِي لَمْ تُصَلِّ فَرَكَعَ بِهِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً وسَجَدَ َسَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَرَكَعَ لِنَفْسِهِ رَكْعَةً وسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی جانب غزوہ (ذات الرقاع) میں شریک تھا، پس دشمن سے مقابلے کے وقت ہم نے صفیں باندھیں اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (خوف کی) نماز پڑھائی، چنانچہ ہم میں سے ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئی اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں کھڑا رہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اقتداء میں نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ایک رکوع کیا اور دو سجدے کئے، پھر یہ لوگ لوٹ کر اس جماعت کی جگہ آ گئے جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی تھی، اب یہ جماعت آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا اور اس گروہ میں سے ہر شخص کھڑا ہوا اور اس نے اکیلے اکیلے ایک رکوع اور دو سجدے ادا کئے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1562]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 942، 4133]، [مسلم 839]، [أبوداؤد 1243]، [ترمذي 564]، [نسائي 1537]، [ابن حبان 2879]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1561
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن يحيى بن سعيد الانصاري، عن القاسم بن محمد، عن صالح بن خوات، عن سهل بن ابي حثمة، في صلاة الخوف، قال: "يصلي الإمام بطائفة، وطائفة مواجهة العدو، فيصلي بالذين معه ركعة، ويذهب هؤلاء إلى مصاف اصحابهم، ويجيء اولئك فيصلي بهم ركعة، ويقضون ركعة لانفسهم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، فِي صَلَاةِ الْخَوْفِ، قَالَ: "يُصَلِّي الْإِمَامُ بِطَائِفَةٍ، وَطَائِفَةٌ مُوَاجِهَةُ الْعَدُوِّ، فَيُصَلِّي بِالَّذِينَ مَعَهُ رَكْعَةً، وَيَذْهَبُ هَؤُلَاءِ إِلَى مَصَافِّ أَصْحَابِهِمْ، وَيَجِيءُ أُولَئِكَ فَيُصَلِّي بِهِمْ رَكْعَةً، وَيَقْضُونَ رَكْعَةً لِأَنْفُسِهِمْ".
سہل بن ابی حثمہ نے صلاة الخوف کے بارے میں کہا کہ امام ایک جماعت کے ساتھ نماز پڑھے اور ایک جماعت دشمن کے مقابلے میں ڈٹی رہے، پس امام اپنے ساتھ شریک جماعت کو ایک رکعت نماز پڑھائے، پھر یہ جماعت اس گروہ کی جگہ چلی جائے جو دشمن کے مقابلے میں ہے، اور وہ آ کر امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے، پھر ہر جماعت ایک ایک رکعت خود سے اپنے آپ پوری کر لے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1563]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4131]، [مسلم 841]، [ترمذي 567]، [نسائي 1536]، [ابن حبان 2885]۔ اس سند میں پہلے راوی یحییٰ بن سعید (ابن فروخ القطان) ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1562
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن شعبة، عن عبد الرحمن بن القاسم بن محمد، عن ابيه، عن صالح بن خوات، عن سهل بن ابي حثمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ بْنُ مُحَمَّدُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
دوسری سند سے بھی سہل بن ابی حثمہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل بیان کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1564]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4129]، [مسلم 841]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1559 سے 1562)
صلاة الخوف یا ڈر کے وقت کی نماز جب دشمن سامنے ہو اور ہمہ وقت حملے کا خطرہ ہو۔
احادیثِ شریفہ میں اس کی کئی صورتیں مذکور ہیں، مذکورہ بالا طریقۂ نماز اس وقت کے لئے ہے جب دشمن قبلہ کی جہت میں نہ ہو، دشمن کے قبلہ کی جہت میں ہونے کی صورت میں جو نماز پڑھی جائے گی اس میں تمام نمازی ایک ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھیں گے اور سجدے میں صرف اگلی صفوف امام کے ساتھ سجدہ کریں گی۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: بخاری و مسلم، نیل الأوطار و سبل السلام باب صلاة الخوف في کتاب الصلاة۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حالتِ جنگ اور انتہائی خوف کے عالم میں بھی نماز معاف نہیں بلکہ نماز کو اس کے وقت میں پڑھنا چاہیے، نیز یہ کہ نماز میں آنا جانا، صف سے نکلنا، یہ سب داخلِ نماز اور مصلحتِ نماز میں سے ہے اس لئے کثرتِ حرکت سے نماز باطل نہیں ہو گی، اور یہ کہنا کہ صلاةِ خوف صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھی اب جائز نہیں، صحیح نہیں ہے، بلکہ اس کا حکم قیامت تک کے لئے ہے۔
عصرِ حاضر میں دو بدو جنگ بھی نہیں ہوتی بآسانی اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
185. باب الْحَبْسِ عَنِ الصَّلاَةِ:
185. نماز سے روک دیا جائے تو کیا کریں؟
حدیث نمبر: 1563
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، عن ابن ابي ذئب، عن المقبري، عن عبد الرحمن بن ابي سعيد الخدري، عن ابيه، قال: حبسنا يوم الخندق حتى ذهب هوي من الليل حتى كفينا، وذلك قول الله تعالى: وكفى الله المؤمنين القتال وكان الله قويا عزيزا سورة الاحزاب آية 25، "فدعا النبي صلى الله عليه وسلم بلالا فامره، فاقام فصلى الظهر، فاحسن كما كان يصليها في وقتها، ثم امره فاقام العصر فصلاها، ثم امره فاقام المغرب فصلاها، ثم امره فاقام العشاء فصلاها، وذلك قبل ان ينزل: فإن خفتم فرجالا او ركبانا سورة البقرة آية 239".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: حُبِسْنَا يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ هَوِيٌّ مِنْ اللَّيْلِ حَتَّى كُفِينَا، وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا سورة الأحزاب آية 25، "فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَالًا فَأَمَرَهُ، فَأَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ، فَأَحْسَنَ كَمَا كَانَ يُصَلِّيهَا فِي وَقْتِهَا، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعَصْرَ فَصَلَّاهَا، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ فَصَلَّاهَا، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعِشَاءَ فَصَلَّاهَا، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ: فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالا أَوْ رُكْبَانًا سورة البقرة آية 239".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: خندق کے دن ہم کو (نماز سے) روک دیا گیا یہاں تک کہ رات کا ایک حصہ گزر گیا، پھر لڑائی رک گئی، جیسا کہ الله تعالیٰ نے فرمایا: «وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا» [احزاب 25/33] چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں اقامت (تکبیر) کا حکم دیا اور بہت اچھے طریقے سے ظہر کی نماز پڑھی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے وقت میں پڑھتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے اقامت کے لئے کہا اور عصر پڑھی، پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب پڑھی، پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی، اور یہ اس وقت کی بات ہے جب تک صلاة الخوف کی آیت «فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا ...» [بقرة: 239/2] کا نزول نہیں ہوا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1565]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 179]، [نسائي 662]، [أبويعلی 1296]، [ابن حبان 2890]، [الموارد 285]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1562)
اس حدیث میں چار نمازیں ایک ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے اور صحیحین میں صرف عصر اور مغرب کا ذکر ہے، بہر حال یہ صلاة الخوف کی مشروعیت سے پہلے کا حکم ہے جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
186. باب الصَّلاَةِ عِنْدَ الْكُسُوفِ:
186. سورج گرہن کے وقت کی نماز کا بیان
حدیث نمبر: 1564
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى، حدثنا إسماعيل، عن قيس، عن ابي مسعود، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:"إن الشمس والقمر ليسا ينكسفان لموت احد من الناس، ولكنهما آيتان من آيات الله، فإذا رايتموهما، فقوموا، فصلوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيْسَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنْ النَّاسِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا، فَقُومُوا، فَصَلُّوا".
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک سورج اور چاند کو کسی کی موت کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا ہے، یہ تو الله کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، لہٰذا جب تم ایسا دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1566]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1041]، [مسلم 911]، [نسائي 1461]، [ابن ماجه 1261]، [الحميدي 460]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1563)
دورِ جاہلیت میں لوگ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ گرہن سے زمین پر موت یا نقصان کا حادثہ ہوتا ہے، اتفاق ایسا ہوا کہ ربیع الاوّل یا ماہِ رمضان 10ھ میں سورج گرہن ہوا اور اسی دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند ابراہیم کا انتقال ہوا تو لوگوں نے کہا کہ یہ گرہن ابراہیم کی موت کی وجہ سے ہے۔
رسولِ ہدیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور اس عقیدے کی بیخ کنی فرما دی کہ ستاروں کا کچھ اثر انسانی زندگی پر نہیں ہے۔
آج بھی کوئی مسلمان ایسا عقیدہ رکھے تو وہ سراسر اسلامی عقیدے کے خلاف ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1565
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا علي بن عبد الله المديني، ومسدد قالا: حدثنا يحيى بن سعيد القطان، عن سفيان بن سعيد، حدثني حبيب بن ابي ثابت، عن طاوس، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم "صلى في كسوف ثمان ركعات في اربع سجدات".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَدِينِيُّ، وَمُسَدَّدٌ قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "صَلَّى فِي كُسُوفٍ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاة الكسوف میں آٹھ رکوع اور چار سجدے کئے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 1567]»
اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، لیکن صحیح سند سے بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [مسلم 908]، [أبوداؤد 1183]، [ترمذي 560]، [نسائي 1467]، [أحمد 225/1]، [الدارقطني 94/2]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه

Previous    31    32    33    34    35    36    37    38    39    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.