الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نماز کے مسائل
حدیث نمبر: 1316
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا سفيان بن عيينة، وسليمان بن كثير، عن الزهري، عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إذا حضر العشاء واقيمت الصلاة، فابدءوا بالعشاء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا حَضَرَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ، فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شام کا کھانا سامنے ہو اور اقامت کہی جائے تو پہلے کھانا کھا لو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1318]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 671]، [مسلم 557]، [أبويعلی 2796]، [ابن حبان 2066، وغيرهما]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1314 سے 1316)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ نماز کے وقت اگر کھانا تیار ہو اور بھوک لگی ہو تو پہلے کھانے سے فارغ ہو جائیں تاکہ نماز پورے سکون و اطمینان سے ادا کی جائے اور دل و دماغ کھانے میں نہ لگار ہے۔
یہ اسلام کی رحمت و برکت ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
59. باب كَيْفَ يُمْشَى إِلَى الصَّلاَةِ:
59. نماز کے لئے جاتے ہوئے کس طرح چلنا چاہئے
حدیث نمبر: 1317
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "إذا اتيتم الصلاة، فلا تاتوها تسعون، واتوها تمشون وعليكم السكينة، فما ادركتم فصلوا وما فاتكم، فاتموا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا أَتَيْتُمْ الصَّلَاةَ، فَلَا تَأْتُوهَا تَسْعَوْنَ، وَأْتُوهَا تَمْشُونَ وَعَلَيْكُمْ السَّكِينَةُ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَكُمْ، فَأَتِمُّوا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز کے لئے آؤ تو دوڑتے ہوئے مت آؤ اور (اپنی معمول رفتار سے) چلتے ہوئے آؤ، اور تمہارے اوپر اطمینان و سکون ہو، پھر نماز کا جو حصہ امام کے ساتھ پا لو اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے بعد میں پورا کر لو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1319]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 908]، [مسلم 604] و [أصحاب السنن أبويعلی 6997]، [ابن حبان 2145]، [الحميدي 965]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1318
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا شيبان، عن يحيى بن ابي كثير، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا اتيتم الصلاة فعليكم بالسكينة، فما ادركتم، فصلوا، وما سبقتم، فاتموا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَتَيْتُمْ الصَّلَاةَ فَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ، فَصَلُّوا، وَمَا سُبِقْتُمْ، فَأَتِمُّوا".
سیدنا ابوقتاده رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز کے لئے آؤ تو آرام و سکون سے آؤ، پھر جو (نماز کا حصہ) ملے اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے بعد میں پورا کر لو۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1320]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 603]، [ابن حبان 1755، 2222]، [الحميدي 431]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1316 سے 1318)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نماز کے لئے سکون اور اطمینان سے آنا چاہئے۔
نماز ختم ہو جانے کا ڈر ہو تب بھی دوڑنا ممنوع ہے۔
پھر امام کے ساتھ جتنی نماز ملے وہ پڑھ لیں اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد باقی نماز پوری کرلیں، اور ایسی صورت میں امام کے ساتھ والی رکعتیں پہلی ہوں گی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
60. باب فَضْلِ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ:
60. مساجد کی طرف (دور سے) جانے کی فضیلت
حدیث نمبر: 1319
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا التيمي، عن ابي عثمان، عن ابي بن كعب، قال: كان رجل بالمدينة لا اعلم بالمدينة ممن يصلي إلى القبلة ابعد منزلا من المسجد منه، وكان يصلي الصلوات مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقيل له: لو ابتعت حمارا تركبه في الرمضاء والظلماء؟ قال: والله ما يسرني ان منزلي بلزق المسجد، فاخبر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك فساله عن ذلك، فقال: يا رسول الله، كيما يكتب اثري وخطاي، ورجوعي إلى اهلي، وإقبالي وإدباري، او كما قال. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "انطاك الله ذلك كله، واعطاك ما احتسبت اجمع"او كما قال.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ بِالْمَدِينَةِ لَا أَعْلَمُ بِالْمَدِينَةِ مِمَّنْ يُصَلِّي إِلَى الْقِبْلَةِ أَبْعَدَ مَنْزِلًا مِنْ الْمَسْجِدِ مِنْهُ، وَكَانَ يُصَلَّي الصَّلَوَاتِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: لَوْ ابْتَعْتَ حِمَارًا تَرْكَبُهُ فِي الرَّمْضَاءِ وَالظَّلْمَاءِ؟ قَالَ: وَاللَّهِ مَا يَسُرُّنِي أَنَّ مَنْزِلِي بِلِزْقِ الْمَسْجِدِ، فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْمَا يُكْتَبَ أَثَرِي وَخُطَايَ، وَرُجُوعِي إِلَى أَهْلِي، وَإِقْبَالِي وَإِدْبَارِي، أَوْ كَمَا قَالَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنْطَاكَ اللَّهُ ذَلِكَ كُلَّهُ، وَأَعْطَاكَ مَا احْتَسَبْتَ أَجْمَعَ"أَوْ كَمَا قَالَ.
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے علم میں مدینے کے لوگوں میں نمازیوں میں سے کسی کا مکان مسجد (نبوی) سے اتنا دور نہ تھا جتنا ایک شخص کا تھا، (اس کے باوجود) وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام نمازوں میں حاضر ہوتا تھا (یعنی جماعت سے کوئی نماز ناغہ نہ ہوتی تھی) اس سے کہا گیا: اگر تم گدھا خرید لو اور گرمی و اندھیرے میں اس پر سوار ہو کر آیا کرو تو مناسب ہے، اس نے جواب دیا: الله کی قسم مجھے یہ بالکل پسند نہیں کہ میرا گھر مسجد (نبوی) سے لگا ہوا ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول (میں نے ایسا اس لئے کہا) تاکہ میرے نامۂ اعمال میں میرے نقش قدم اور اہل و عیال کی طرف واپسی اور میرا آنا جانا سب لکھا جائے (اور مجھے اس کا ثواب ملے)، یا اس جیسے الفاظ کہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہاری نیت کے مطابق تمہیں یہ سب کچھ عنایت فرما دیا۔ (یا اس جیسا جملہ کہا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1321]»
اس حدیث کی سند میں تیمی کا نام سلیمان اور أبوعثمان: عبدالرحمٰن ہیں اور سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 662]، [أبوداؤد 554]، [ابن ماجه 783]، [ابن حبان 2040]، [الحميدي 380]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1318)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دور دراز مقام سے نماز کے لئے مسجد میں جانے کی بڑی فضیلت ہے، ہر ہر قدم پر نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور اگر خلوصِ وللّٰہیت ہو تو آنا جانا سب بھی نیکیوں میں شمار ہوتا ہے، یہاں اس صحابی کی فضیلت بھی معلوم ہوئی جو صرف حصولِ اجر کی خاطر مسجد سے دور رہے اور نہ سواری خریدی نہ مسجد کے قریب منتقل ہوئے۔
«رضي اللّٰهُ عنهم و أرضاهم» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
61. باب في صَلاَةِ الرَّجُلِ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ:
61. صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز کا حکم و بیان
حدیث نمبر: 1320
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا ابو زبيد هو عبثر بن القاسم، عن حصين، عن هلال بن يساف، قال: اخذ بيدي زياد بن ابي الجعد، فاقامني على شيخ من بني اسد يقال له: وابصة بن معبد، فقال: حدثني هذا والرجل يسمع انه راى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد صلى خلفه رجل، ولم يتصل بالصفوف، "فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يعيد الصلاة". قال ابو محمد: كان احمد بن حنبل يثبت حديث عمرو بن مرة، وانا اذهب إلى حديث يزيد بن زياد بن ابي الجعد.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو زُبَيْدٍ هُوَ عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، قَالَ: أَخَذَ بِيَدِي زِيَادُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ، فَأَقَامَنِي عَلَى شَيْخٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ يُقَالُ لَهُ: وَابِصَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي هَذَا وَالرَّجُلُ يَسْمَعُ أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَلَّى خَلْفَهُ رَجُلٌ، وَلَمْ يَتَّصِلْ بِالصُّفُوفِ، "فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ الصَّلَاةَ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: كَانَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ يُثْبِتُ حَدِيثَ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، وَأَنَا أَذْهَبُ إِلَى حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ.
ہلال بن یساف نے کہا: زیاد بن ابی الجعد نے میرا ہاتھ پکڑا اور بنو اسد کے ایک شیخ کے پاس مجھے کھڑا کر دیا جن کو وابصۃ بن معبد کہا جاتا تھا، پھر کہا کہ انہوں نے مجھ سے حدیث بیان کی اور وہ شخ (وابصہ) سن رہے تھے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جس نے (تنہا) آپ کے پیچھے نماز پڑھی اور صف میں نہیں ملا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز لوٹانے کا حکم دیا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: سند کے اعتبار سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ عمرو بن مرة کی حدیث کو زیادہ صحیح کہتے تھے اور میرے نزدیک یزید بن زیاد بن ابی الجعد کی حدیث زیادہ صحیح ہے (مفہوم دونوں حدیث کا ایک ہے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1322]»
اس حدیث کی سند جید اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 230]، [أبويعلی 1588]، [ابن حبان 2198] و [حديث عمرو بن مرة: ابن حبان 2199]، [موارد الظمآن 403، 404]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد والحديث صحيح
حدیث نمبر: 1321
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مسدد، حدثنا عبد الله بن داود، حدثنا يزيد بن زياد، عن عبيد بن ابي الجعد، عن زياد بن ابي الجعد، عن وابصة بن معبد، ان رجلا صلى خلف الصفوف وحده، "فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان يعيد". قال ابو محمد: اقول بهذا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ، أَنَّ رَجُلًا صَلَّى خَلْفَ الصُّفُوفِ وَحْدَهُ، "فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: أَقُولُ بِهَذَا.
وابصۃ بن معبد سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے صفوں کے پیچھے اکیلے نماز پڑھی تو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس (نماز) کو لوٹائے (یعنی دوبارہ پڑھے)، امام ابومحمد رحمہ اللہ نے کہا: میں یہی کہتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1323]»
تخریج اس روایت کی تخریج گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [ابن حبان 2201]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
حدیث نمبر: 1322
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس بن مالك، ان جدته مليكة دعت رسول الله صلى الله عليه وسلم لطعام صنعته، فاكل، ثم قال: "قوموا فلاصلي بكم"، قال انس: فقمت إلى حصير لنا قد اسود من طول ما لبس، فنضحته بماء، فقام عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وصففت انا واليتيم وراءه، والعجوز وراءنا، فصلى لنا ركعتين، ثم انصرف.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ، فَأَكَلَ، ثُمَّ قَالَ: "قُومُوا فَلِأُصَلِّيَ بِكُمْ"، قَالَ أَنَسٌ: فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا قَدْ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ، فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ، فَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفَفْتُ أَنَا وَالْيَتِيمُ وَرَاءَهُ، وَالْعَجُوزُ وَرَاءَنَا، فَصَلَّى لَنَا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ ان کی نانی ملیکہ نے کھانا بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا تناول فرمایا پھر فرمایا: آؤ تمہیں نماز پڑھا دوں، سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اپنا ایک بوریا اٹھایا جو کثرث استعمال سے کالا ہو گیا تھا، میں نے اس پر پانی چھڑکا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لئے) اس بوریے پر کھڑے ہوئے، میں اور ایک یتیم لڑکے (ضمیر ة) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنائی اور نانی ماں ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی، پھر واپس ہو گئے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1324]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 380]، [مسلم 658]، [أبوداؤد 608]، [ترمذي 234]، [نسائي 800]، [أبويعلی 4206]، [ابن حبان 2205]، [الحميدي 1228]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1319 سے 1322)
اوپر کی دو حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی اور اس کو نماز لوٹانی ہوگی، اور تیسری حدیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کی نانی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اکیلے نماز پڑھی گویا کہ کوئی حرج نہیں، ان احادیث کے پیشِ نظر بعض ائمۂ کرام نے کہا کہ اکیلے نماز پڑھنا درست نہیں اور نماز لوٹانی ہوگی، بعض ائمہ نے کہا کہ صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا مکروہ ہے لیکن نماز ہو جائے گی۔
نیز اس حدیث سے دن میں بھی نفلی نماز جماعت سے ادا کرنے کا ثبوت ملا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ سلوک کہ ایک بڑھیا دعوت دے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا تردد دعوت قبول کر لیتے ہیں، پھر برکت یا تعلیم کے لئے انہیں نماز پڑھاتے ہیں، «صلى اللّٰه على نبي الرحمة والإنسانية و على آله و صحبه و سلم تسليما كثيرا» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
62. باب قَدْرِ الْقِرَاءَةِ في الظُّهْرِ:
62. ظہر کی نماز میں قراءت کی مقدار کا بیان
حدیث نمبر: 1323
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حماد، حدثنا ابو عوانة، عن منصور بن زاذان، عن الوليد: ابي بشر، عن ابي الصديق الناجي، عن ابي سعيد، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان "يقوم في الركعتين الاوليين من الظهر قدر ثلاثين آية، وفي الاخريين على قدر النصف من ذلك، وفي العصر على قدر الاخريين من الظهر، وفي الاخريين على قدر النصف من ذلك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ الْوَلِيدِ: أَبِي بِشْرٍ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "يَقُومُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنْ الظُّهْرِ قَدْرَ ثَلَاثِينَ آيَةً، وَفِي الْأُخْرَيَيْنِ عَلَى قَدْرِ النِّصْفِ مِنْ ذَلِكَ، وَفِي الْعَصْرِ عَلَى قَدْرِ الْأُخْرَيَيْنِ مِنْ الظُّهْرِ، وَفِي الْأُخْرَيَيْنِ عَلَى قَدْرِ النِّصْفِ مِنْ ذَلِكَ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں تیس آیات کے برابر قیام فرماتے اور آخری دو رکعتوں میں اس سے آدھا قیام ہوتا، اور عصر کی (پہلی دو رکعت میں) ظہر کی آخری رکعات کے برابر اور عصر کی آخری دو رکعتوں میں اس کے نصف قیام کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1325]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے شواہد کتبِ حدیث میں موجود ہیں۔ دیکھئے: [بخاري 759]، [مسلم 452]، [أبوداؤد 795]، [ابن حبان 1825، 1828]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1324
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، حدثنا هشيم، عن منصور، عن الوليد ابي بشر، عن ابي الصديق، عن ابي سعيد بنحوه، وزاد: قدر قراءة الم تنزيل السجدة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ الْوَلِيدِ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ بِنَحْوِهِ، وَزَادَ: قَدْرَ قِرَاءَةِ الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةِ.
اس طریق سے بھی سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ایسا ہی مروی ہے اور اس میں یہ تحدید ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورة السجدة کے بعد قراءت کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1326]»
اس روایت کی تخریج مذکورہ بالا مراجع میں ملاحظہ فرمایئے۔ نیز دیکھئے: [ابن حبان 1827] و [موارد الظمآن 465]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1325
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا حماد بن سلمة، عن سماك بن حرب، عن جابر بن سمرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان "يقرا في الظهر والعصر بالسماء والطارق، والسماء ذات البروج".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ، وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ".
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی نماز میں «والسماء والطارق» اور «والسماء ذات البروج» کی قرأت فرماتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1327]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 796]، [ترمذي 307]، [نسائي 982]، [ابن حبان 1827]، [موارد الظمآن 465]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1322 سے 1325)
ان روایات سے ثابت ہوا کہ ظہر کی پہلی دو رکعت میں لمبی قرأت کے ساتھ لمبا قیام کرنا چاہے، اس کی مقدار 30 آیت یا سورہ الم السجدة کے مساوی ہو، اور کبھی کبھی چھوٹی سورتیں بھی پڑھنا جائز ہے جیسا کہ اس آخری روایت سے واضح ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن

Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    15    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.