(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو النعمان، حدثنا وهيب، عن داود، عن عكرمة، عن ابن عباس، انه كان "يكره إتيان الرجل امراته في دبرها، ويعيبه عيبا شديدا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ كَانَ "يَكْرَهُ إِتْيَانَ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا، وَيَعِيبُهُ عَيْبًا شَدِيدًا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما عورت کی دبر میں جماع کو بہت کریہہ کہتے اور شدید عیب سمجھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1178]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تفسير طبري393/2] و [بيهقي 199/7]۔ اس کی سند میں ابوالنعمان کا نام محمد بن الفضل اور وہیب: ابن خالد ہیں۔
(حديث مقطوع) حدثنا المعلى بن اسد، حدثنا إسماعيل ابن علية، حدثنا ابن ابي نجيح، عن عمرو بن دينار: إنكم لتاتون الفاحشة ما سبقكم بها من احد من العالمين سورة العنكبوت آية 28، قال: "ما نزا ذكر على ذكر حتى كان قوم لوط".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ: إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ سورة العنكبوت آية 28، قَالَ: "مَا نَزَا ذَكَرٌ عَلَى ذَكَرٍ حَتَّى كَانَ قَوْمُ لُوطٍ".
عمرو بن دینار سے مروی ہے، آیت: (لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا)”بیشک تم بدکاری پر اتر آئے ہو، جسے تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا ....“[عنكبوت: 28/29] ، اس کے بارے میں انہوں نے فرمایا: جو آدمی بھی کسی آدمی پر چڑھا وہ قومِ لوط میں سے ہے۔ (یعنی جو لوگ لواطت کرتے تھے ان میں ہو گیا۔)
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1179]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تفسير طبري 144/20] و [شعب الايمان 5400]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی اپنی عورت کے دبر میں جماع کرے گا الله تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1180]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 444/2]، [أبوداؤد 2162]، [ابن ماجه 1923]، [معرفة السنن 14069]، [نسائي فى الكبرى 9015]، اور اس کے لفظ ہیں جو آدمی عورت کی دبر میں جماع کرے ملعون ہے۔ نیز دیکھئے: [مسند أبى يعلی 6462]، [عبدالرزاق 20952] «وغيرهم كثيرون» ۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن يحيى، حدثنا عبد الواحد بن زياد، عن عاصم الاحول، عن عيسى بن حطان، عن مسلم بن سلام الحنفي، عن علي بن طلق، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا احدث احدكم في الصلاة، فلينصرف، وليتوضا، ثم يصلي"، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"لا تاتوا النساء في ادبارهن، فإن الله لا يستحيي من الحق"، سئل عبد الله: علي بن طلق له صحبة؟، قال: نعم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ عِيسَى بْنِ حِطَّانَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ سَلَّامٍ الْحَنَفِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ طَلْقٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَحْدَثَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ، فَلْيَنْصَرِفْ، وَلْيَتَوَضَّأْ، ثُمَّ يُصَلِّي"، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لَا تَأْتُوا النِّسَاءَ فِي أَدْبَارِهِنَّ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنْ الْحَقِّ"، سُئِلَ عَبْد اللَّهِ: عَلِيُّ بْنُ طَلْقٍ لَهُ صُحْبَةٌ؟، قَالَ: نَعَمْ.
سیدنا علی بن مطلق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کا نماز میں وضو ٹوٹ جائے تو وہ نماز توڑ دے، وضو کرے پھر نماز پڑھے۔“ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں کی دبر میں جماع نہ کرو، اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا ہے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: علی بن طلق صحابی تھے؟ فرمایا: ہاں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1181]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح ابن حبان 2237، 4199]، [موارد الظمآن 203]، [مصنف ابن أبى شيبه 251/4]، [بيهقي 198/7] و [السنن الكبریٰ 9023، 9024]
ابوالحباب سعید بن یسار نے کہا: میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا: اگر میں لونڈیوں سے تحمیض کروں تو آپ کی کیا رائے ہے؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ تحمیض کیا ہے؟ میں نے کہا: دبر، تو انہوں نے فرمایا: کیا مسلمانوں میں سے کوئی ایسا (گندا کام) کر سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عبد الله بن صالح كاتب الليث سيئ الحفظ جدا، [مكتبه الشامله نمبر: 1182]» اس روایت کی سند عبدالله بن صالح كاتب اللیث کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [شرح معاني الآثار 41/1]، [السنن الكبرىٰ للنسائي 8979] و [ابن كثير 389/1]، لیکن معنی صحیح ہے، کوئی مسلمان ایسا گھناؤنا کام کرے تصور نہیں کیا جاسکتا، یہ بہت بڑا گناہ ہے، سلف صالحین سے اس پر شدید انکار ثابت ہے، بلکہ جمہور علماء نے ایسا کرنے والے کو کافر گردانا ہے، جیسا کہ (1171) میں گذر چکا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عبد الله بن صالح كاتب الليث سيئ الحفظ جدا
ہرمی بن عبداللہ نے کہا: بنی واقف کی ایک مجلس میں ہم عورتوں کا، اور جو ان سے استمتاع کیا جاتا ہے اس کا تذکرہ کر رہے تھے، تو سیدنا خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، فرماتے تھے: ”لوگو! اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا ہے۔ تم عورتوں کی دبر میں جماع نہ کیا کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1183]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 4198، 4199]، [موارد الظمآن 1299] و [السنن الكبرىٰ للنسائي 8982]
(حديث مرفوع) اخبرنا المعلى بن اسد، حدثنا عبد الواحد، حدثنا خصيف، عن مجاهد، قال:"كانوا يجتنبون النساء في المحيض، وياتونهن في ادبارهن، فسالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فانزل الله تعالى: "ويسالونك عن المحيض قل هو اذى فاعتزلوا النساء في المحيض ولا تقربوهن حتى يطهرن فإذا تطهرن فاتوهن من حيث امركم الله سورة البقرة آية 222، في الفرج ولا تعدوه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا خُصَيْفٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ:"كَانُوا يَجْتَنِبُونَ النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ، وَيَأْتُونَهُنَّ فِي أَدْبَارِهِنَّ، فَسَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: "وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ سورة البقرة آية 222، فِي الْفَرْجِ وَلَا تَعْدُوهُ".
مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا: لوگ حیض کی حالت میں عورتوں سے پرہیز کرتے تھے، لیکن ان کے دبر میں آتے تھے (یعنی جماع کرتے)، اس بارے میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو الله تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: ”لوگ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے، سو حالت حیض میں عورتوں سے دور رہو، اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے۔“[بقره: 222/2] فرمایا: «﴿مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ﴾» کا مطلب ہے فرج استعمال کرو اور اس سے تجاوز نہ کرو۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1184]» تخريج خصيف بن عبدالرحمٰن کی وجہ سے اس روایت کی سند حسن کے درجے میں ہے۔ دیکھئے: [تفسير طبري 381/2]
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن يزيد، حدثنا يونس بن بكير، حدثني ابن إسحاق، حدثني ابان بن صالح، عن طاوس، وسعيد، ومجاهد، وعطاء، انهم كانوا "ينكرون إتيان النساء في ادبارهن، ويقولون: هو الكفر".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ طَاوُسٍ، وَسَعِيدٍ، وَمُجَاهِدٍ، وَعَطَاءٍ، أَنَّهُمْ كَانُوا "يُنْكِرُونَ إِتْيَانَ النِّسَاءِ فِي أَدْبَارِهِنَّ، وَيَقُولُونَ: هُوَ الْكُفْرُ".
طاؤس، سعید، مجاہد، عطاء رحمہم اللہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ عورتوں کے سرین (پاخانہ کی جگہ) جماع کرنے کا شدت سے انکار کرتے تھے، اور فرماتے تھے کہ یہ کفر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1185]» یہ اسناد صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 74/1]، [الدر المنثور 262/1]
وضاحت: (تشریح احادیث 1171 سے 1180) اور یہی جمہور علماء کا مسلک ہے، اس فعلِ قبیح کی کسی نے اجازت نہیں دی کیونکہ شریعتِ اسلامیہ کے نصوصِ صریحہ میں اس کی سخت ممانعت ہے، لہٰذا سرین میں جماع کرنا حرام ہے جو کفر تک لے جاتے ہیں۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا شريك، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن حذيفة رضي الله عنه، قال: "لامراته خللي شعرك بالماء قبل ان تخلله نار قليلة البقيا عليه".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "لِامْرَأَتِهِ خَلِّلِي شَعْرَكِ بِالْمَاءِ قَبْلَ أَنْ تَخَلَّلَهُ نَارٌ قَلِيلَةُ الْبُقْيَا عَلَيْهِ".
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے کہا: بالوں میں پانی کا خلال کرو، اس سے پہلے کہ اس میں آگ داخل ہو۔ «(البقيا والبقايا من الابقاء عليه)»
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع إبراهيم لم يدرك حذيفة، [مكتبه الشامله نمبر: 1187]» اس حدیث کی سند میں انقطاع ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 74/1] و [تهذيب الآثار مسند على 434]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع إبراهيم لم يدرك حذيفة